یہ روایت مختلف پیرایوں میں بیان کی گئی ہے تعجب یہ ہے کہ اس روایت سے جس قدر عام مسلمانوں کو شغف ہے اس سے زیادہ عیسائیوں کو ہے ، سرولیم میور، ڈر پیر، مرگولوس، وغیرہ سب اس واقعہ کو عیسائیت کی عظیم خیال کرتے ہیں اور اس بات کے مدعی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب کے حقائق واسرار اسی راہب سے سیکھے اور جو نکتے اس نے بتا دیے تھے انہی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عقائد اسلام کی بنیاد رکھی ، اسلام کے تمام عمدہ اصول انہی نکتوں کے شروح اور حواشی ہیں ۔
عیسائی مصنفین اگر اس روایت کو صحیح مانتے ہیں تو اس طرح ماننا چاہیے جس طرح روایت میں مذکور ہے، اس میں بحیرا کی تعلیم کا کہیں ذکر نہیں، قیاس میں بھی نہیں آسکتا کہ دس بارہ برس کے بچے کو مذہب کے تمام دقائق سکھا دیئے جائیں اور اگر کوئی خرق عادت تھا تو بحیرا کے تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت نا قابل اعتبار ہے۔ اس روایت کے جس قدر طریق ہیں، سب مرسل ہیں، یعنی راوی اول واقعہ کے وقت خود موجود نہ تھا اور اس راوی کا نام نہیں بیان کرتا جو شر یک واقعہ تھا۔
اس روایت کا سب سے زیادہ مستند طریقہ یہ ہے جو ترمذی میں مذکور ہے، اس کے متعلق تین باتیں قابل لحاظ ہیں:
① ترمذی نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ حسن اور غریب ہے اور ہم اس حدیث کو اس طریقہ کے سوا کسی اور طریقہ سے نہیں جانتے۔“ حسن کا مرتبہ صحیح حدیث سے کم ہوتا ہے اور جب غریب ہو تو اس کا رتبہ اس سے بھی گھٹ جاتا ہے۔
② اس حدیث کا ایک راوی عبد الرحمان بن غزوان ہے، اس کو بہت سے لوگوں نے اگرچہ ثقہ بھی کہا ہے۔ لیکن اکثر اہل فن نے اس کی نسبت بے اعتباری ظاہر کی ہے، علامہ ذہبی، میزان الاعتدال (ج ۲ ص ۱١٣) میں لکھتے ہیں کہ عبدالرحمن منکر حدیثیں بیان کرتا ہے، جن میں سب سے بڑھ کر منکر وہ روایت ہے جس میں بحیرا کا واقعہ مذکور ہے۔
③ حاکم نے مستدرک میں اس روایت کی نسبت لکھا ہے کہ یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق ہے۔ علامہ ذہبی نے "تلخیص المستدرک" میں حاکم کا یہ قول نقل کر کے لکھا ہے کہ ”میں اس حدیث کے بعض واقعات کو موضوع ، جھوٹا اور بنایا ہوا خیال کرتا ہوں ۔‘
④ اس روایت میں مذکور ہے کہ حضرت بلال اور ابو بکر بھی اس سفر میں شریک تھے ، حالانکہ اس وقت بلال کا وجود بھی نہ تھا اور حضرت ابو بکر بچے تھے۔
⑤ اس حدیث کے اخیر راوی ابو موسی اشعری ہیں، وہ شریک واقع نہ تھے اور اوپر کے راوی کا نام نہیں بتاتے ،ترمذی کے علاوہ طبقات ابن سعد میں جو سلسلہ سند مذکور ہے، وہ مرسل یا معضل ہے یعنی جو روایت مرسل ہے اس میں راوی جو ظاہر ہے کہ شریک واقع نہیں ہے ، کسی صحابی کا نام نہیں لیتا ہے اور جو روایت معضل ہے اس میں راوی اپنے اوپر کے دو راوی جو تابعی اور صحابی ہیں دونوں کا نام نہیں لیتا ہے۔
⑥ حافظ ابن حجر روات پرستی کی بنا پر اس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں لیکن چونکہ حضرت ابوبکر اور بلال کی شرکت بداہتا غلط ہے۔ اس لئے مجبورا اقرار کرتے ہیں کہ اس قدر حصہ غلطی سے روایت میں شامل ہو گیا ہے لیکن حافظ ابن حجر کا یہ ادعا بھی صحیح نہیں کہ اس روایت کے تمام روات قابل سند ہیں ، عبدالرحمان بن غزوان کی نسبت خود انہی حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب (ج۲ ص:٤٢٨) میں لکھا ہے کہ ”وہ خطا کرتا تھا، اس کی طرف سے اس وجہ سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے ممالیک کی روایت نقل کی ہے۔“ ممالیک کی ایک روایت ہے جس کو محدثین جھوٹ اور موضوع خیال کرتے ہیں ۔
🔴حرب فجار کی شرکت🔴
عرب میں اسلام کے آغاز تک لڑائیوں کا جو متواتر سلسلہ چلا آتا ہے، ان میں یہ جنگ سب سے زیادہ مشہور اور خطرناک ہے۔
یہ لڑائی قریش اور قیس قبیلہ میں ہوئی تھی ۔ قریش کے تمام خاندانوں نے اس معرکہ میں اپنی اپنی الگ فوجیں قائم کی تھیں، آل ہاشم کے علم بردار زبیر بن عبد المطلب تھے اور اسی صف میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے، بڑے زور کا معرکہ ہوا، اور قیس، پر قریش غالب آئے اور بالآخر صلح پر خاتمہ ہوگیا، اس لڑائی میں قریش کا رئیس اور سپہ سالار اعظم حرب بن امیہ تھا، جو ابوسفیان کا باپ اور امیر معاویہ کا دادا تھا۔
چونکہ قریش اس جنگ میں بر سر حق تھے اور خاندان کے ننگ و نام کا معاملہ تھا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی ، لیکن جیسا کہ ابن ہشام نے لکھا ہے آپ نے کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، امام سہیلی نے صاف تصریح کی ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جنگ نہیں کی ، ان کے الفاظ یہ ہیں:
"وانما لم يقاتل رسول الله مع اعمامه في الفجار وقد كان بلغ سن القتال لانها كانت حرب فجار وكانوا ايضا كلهم كفارا ولم يأذن الله تعالى لمؤمن ان يقاتل الا لتكون كلمة الله هي العليا"_
اور آپ نے اس لڑائی میں جنگ نہیں کی ، حالانکہ آپ لڑائی کی عمر کو پہنچ چکے تھے ، اس کی وجہ یی تھی کہ یہ لڑائی ایام الحرام میں پیش آئی تھی نیز یہ بھی کہ فریقین کافر تھے اور مسلمانوں کو لڑائی کا عمحکم صرف اس لئے خدانے دیا ہے کہ خدا کا بول بالا ہو۔“
اس لڑائی کو فجار اس لئے کہتے ہیں کہ ایام الحرام میں یعنی ان مہینوں میں پیش کی تھی جن میں لڑنا نا جائز تھا۔
🔴حلف الفضول🔴
لڑائیوں کے متواتر سلسلہ نے سینکڑوں گھرانے برباد کر دیے تھے اور قتل اور سفا کی موروثی اخلاق بن گئے تھے۔ یہ دیکھ کر بعض طبیعتوں میں اصلاح کی تحریک پیدا ہوئی ، جنگ فجار سے لوگ واپس پھرے تو زبیر بن عبد المطلب نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور خاندان کے سرکردہ تھے یہ تجویز پیش کی چنانچہ خاندان ہاشم، زہرہ اور تیم عبد الله بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور معاہدہ ہوا کہ ہم میں سے ہر مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں نہ رہنے پائے گا۔
انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاہدہ میں شریک تھے اور عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ معاہدہ کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیے جاتے تو میں نہ بدلتا اور آج بھی ایسے معاہدہ کے لئے کوئی جائے تو میں حاضر ہوں“۔
اس معاہدہ کو حلف الفضول اس لئے کہتے ہیں کہ اول اول اس معاہدہ کا خیال جن لوگوں کو آیا، ان کے نام میں لفظ " فضيلت‘‘ کا مادہ داخل تھا۔ یعنی
فضیل بن حرث
فضیل بن وداعه
اور مفضل، یہ لوگ جرہم اور قطورا کے قبیلہ کے تھے۔ اگرچہ یہ معاہدہ بے کار گیا اور کسی کو یاد بھی نہ رہا، چنانچہ قریش نے نئے سرے سے بنیاد ڈالی، تاہم بانی اول کو نیک نیتی کا شکر ملا کہ ان کے نام کی یادگار اب تک باقی ہے۔
0 Comments