حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ

حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ





 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ


"جو کوئی جنگ لڑے اسے چاہئے کہ عاصم بن ثابت کی طرح جنگ لڑے" (فرمان نبی ﷺ)





سید المرسلین حضرت محمد ﷺ سے مقابلہ کرنے کے لئے قریش سب کے سب احد کی طرف نکلے مقابلہ آرائی کے لئے لشکر میں سردار بھی موجود تھے اور غلام بھی۔



  غزوہ بدر میں بری طرح شکست کھا نے کے بعد ان کے سینے بری طرح مسلمانوں کے خلاف بغض و کینہ سے اٹے ہوئے تھے۔اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے ان کا خون جوش مار رہا تھا -



انہوں نے اپنے ساتھ قریش کی عورتیں بھی ساتھ لے لیں تاکہ وہ مردوں کو جنگ کے لئے ابھاریں اور جوانوں کے دلوں میں غیرت کے دیپ جلائیں اور انہیں پل بھر کے لئے بھی مصحمل نہ ہونے دیں،ان عورتوں میں ابو سفیان کی بیوی ہند بھی شامل تھیں اور طلحہ کی بیوی سلافہ بنت سعد اپنے تینوں بیٹوں کے ہمراہ لشکر میں شامل ہوئیں اور ان کے علاوہ بھی بہت سی عورتیں شامل لشکر تھیں جب جنگ احد میں دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا تو ہند بنت عتبہ اور دیگر چند عورتیں اٹھیں اور صفوں کے پیچھے جا کھڑی ہوئیں۔ان کے ہاتھوں میں ڈھولکیاں تھیں انہوں نے ڈھولک کی تھاپ پر یہ گانا شروع کر دیا


 ان     تقلبو      نعانق    ونفرش     النمارق      اوتدبروا      نفارق     فراق غير      وامق



اگر تم آگے بڑھو گے تو ہم گلے ملیں گے۔۔اور تمہارے لئے تکیے بھی لگائیں گی۔۔اگر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے تو ہم تمہیں دھتکار دیں گے



جذبات سے لبریز ترانہ شہشواروں کے سینے قبائلی غیرت کی آگ بھڑکاتا۔۔اور ان کے شوہروں کے سینے میں جادو کا اثر کرتا۔پھر جنگ سرد پڑ گئی ۔مسلمانوں پر قریش کو غلبہ حاصل ہو گیا۔ تو عورتیں فتح کے نشے میں سرشار میدان کار زار میں رقص کناں ہوئیں اور شہداء کی لاشوں کامثلہ کرنے لگیں انہوں نے جوش انتقام لاشون کے پیٹ چاک کر دیئے ،آنکھیں نکال دیں،کان اور ناک کاٹ ڈالئے  ان میں سے ایک عورت کا غصہ اس سے بھی ٹھنڈا نہ ہوا تو اس نے میدان بدر میں قتل ہو جانے والے اپنے باپ ،بھائی اور چچا کا انتقام لینے کے خیال سے لاشوں کے ، کان  ، ناک کاٹ کر دھاگے میں پروئے ۔ایک کو ہار کے طور پر گلے میں ڈالا اور دوسرے کو پازیب بنایا


لیکن سلافتہ بنت سعد کی اپنی قریشی سہیلیوں سے الگ تھلگ شان ہی نرالی تھی۔ وہ بڑی بے چینی کے ساتھ اپنے خاوند اور تین بیٹوں کا شدت سے انتظار کر رہی تھی کہ اگر وہ نظر آ جائیں تو میں بھی فتح و کامیابی کی خوشی میں دوسری عورتوں کے ساتھ شریک ہو سکوں۔ 



اس کا دیر تک انتظار کرنا رائیگاں گیا تو وہ معرکہ آرائی کے میدان میں لاشوں کے چہروں کو ٹٹولتی ہوئی دور چلی گئی۔ اچانک وہ کیا دیکھتی ہے کہ اس کا خاوند خون میں لت پت موت خے منہ میں جا چکا ہے تو وہ غضب ناک شیرنی کی طرح بپھر گئی اور انتہائی پھرتی کے ساتھ اپنے بیٹوں مسافع، کلاب اور جلاس کو میدان کے کونے کونے میں تلاش کرنے لگی۔



تھوڑی دیر بعد انہیں دیکھا کہ ان کی لاشیں احد کی چٹانوں پر بکھری پڑی ہیں۔ مسافع اور کلاب تو موت خے گھاٹ اتر چکے تھے اور تیسرا بیٹا جلاس آخری سانس لے رہا تھا۔



سلافہ غم واندوہ میں مبتلا اپنے بیٹے کے پاس بیٹھ گئی ۔ اس کا سر اپنی گود میں لے لیا، چہرے اور پیشانی سے خون صاف کرنا شروع کیا ۔ اس ہولناک منظر کو دیکھ کر اس کی آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو گئے، آہ و بکا کے عالم میں اپنے بیٹے سے پوچھا : میرے لخت جگر ! تجھے کس نے یہ گہرے زخم لگائے، اس نے جواب دینا چاہا لیکن اکھڑا ہوا سانس جواب دینے میں رکاوٹ بن گیا۔



اس نے بار بار پوچھا کہ تجھے کس نے کچوکے لگائے؟ اس نے بڑی مشکل سے اکھڑتے ہوئے سانس کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے میرے باپ اور بھائیوں کو عاصم بن ثابت نے مارا۔



یہ سن کر سلافہ بنت سعد دیوانہ وار دھاڑیں مار کر رونے لگی اور لات و عزی کی قسم کھا کر کہنے لگی، میری آتش غضب اس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہو گئی جب تک قریش عاصم بن ثابت سے بدلہ نہیں لیں گے اور شراب نوشی کے لئے اس کے سر کی کھوپڑی مجھے نہیں دیں گے


پھر اس نے یہ اعلان کر دیا کہ جو اسے زندہ پکڑ کر لے یا اس کا سر لے آئے تو میں اسے منہ مانگی دولت دوں گی۔ اس کا اعلان قریش میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ ہر نوجوان کے دل میں یہ تمنا انگڑیاں لینے لگی کہ کاش یہ انعام میرے حصے میں آئے اور میں عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو تہہ تیغ کرنے کا اعزاز حاصل کر سکوں ۔



غزوہ احد کے بعد مسلمان مدینہ کی طرف لوٹے اور معرکہ آرائی کے متعلق آپس میں باتیں کرنے لگے۔ شہداء کے لئے رحمت کی دعا اور غازیوں کی ہمت جرآت کا تذکرہ بہت ادب و احترام کرنے لگے۔ دوران گفتگو حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کے کارنامے کا تذکرہ کرتے ہوئے بڑے تعجب کا اظہار کیا کہ عاصم رضی اللہ عنہ نے ایک ہی گھر کے چار افراد کو موت گھاٹ اتار دیا۔



حاضرین میں سے ایک نے کہا:


بھلا اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ 


آپ کو یاد نہیں غزوہ بدر سے پہلے جب رسول اللہ ﷺ نے ہم سے سوال کیا تھا کہ کیسے لڑو گے؟ 


تو عاصم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ، کمان اپنے ہاتھ میں پکڑی اور کہا: جب دشمن سو ہاتھ کے فاصلے پر ہو گا تو لڑائی تیر اندازی سے ہو گی۔


جب دشمن اور زیادہ قریب آ جائے گا تو لڑائی نیزے کے ساتھ ہو گی، یہاں تک کہ نیزے ٹوٹ جائیں گے اور جب نیزے ٹوٹ جائیں تو پھر لڑائی تلوار سے دست بدست ہو گی۔


یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :


واقعی جنگ اسی طرح لڑنی چاہئے۔


جو دشمن سے جنگ کرنا چاہتا ہے، اس کے ضروری ہے کہ عاصم بن ثابت کی طرح کی طرح جنگ لڑے

غزوہ احد کو ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایک خاص مشن پر روانہ کیا اور ان کا امیر حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔


یہ منتخب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم ﷺ کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے مشن پر روانہ ہو گئے ۔


مکہ مکرمہ سے ابھی تھوڑے  ہی فاصلے پر تھے کہ قبیلہ ہذیل کی ایک جماعت کو ان کے بارے میں علم ہو گیا تو وہ سرپٹ ان کی طرف دوڑے اور انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے تلواریں نکال لیں اور مقابلے کے لئے تیار یو گئے۔


یہ منظر دیکھ کر بنو ہذیل کہنے لگے: 


آج تم ہمارا مقابلہ نہیںکر سکتے، بخدا! ہم تمھیں کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتے، اگر تم ہتھیار ڈال دو تو ہم اللہ تعالی کو گواہ بنا کر تم سے عہد کرتے ہیں کہ تمھیں کجھ نہیں کہا جائے گا۔


یہ تجویز سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے۔ گویا کہ وہ مشورہ کر رہے ہوں کہ اب کیا کریں حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا:


میں تو مشرکوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا ۔ پھر انہیں سلافہ ب ت سعد کی نذر یاد آئی۔ اپنی تلوار سو نتی اور یہ دعا کی :


الہی! میں تیرے دین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتا ہوں' از راہ کرم میرے گوشت اور ہڈیوں کی حفاظت فرما' اور میرے جسم کا گوشت اور ہڈیاں دشمنان خدا کے ہاتھ نہ لگیں۔ پھر بنو ہذیل پر حملہ کر دیا



ان کے دو ساتھی بھی حملہ آور ہوئے، وہ بے جگری سے لڑے، یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے قتل ہو کر گر گئے ، باقی تین ساتھیوں نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔تھوڑی دیر بعد انہوں نے بد عہدی کی-

 


پہلے پہل تو قبیلہ ہذیل کو یہ پتہ ہی نہ چلا تھا کہ قتل ہونے والوں میں عاصم بن ثابت بھی ہے ۔ جب انہیں پتہ چلا تو بہت خوش ہوئے ، خاطر خواہ انعام ملنے کی وجہ سے -



کیونکہ سلافہ بنت سعد نے یہ نذر مان رکھی تھی کہ اگر وہ حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سر کی کھوپڑی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وہ اس میں شراب نوشی کرے گی۔اور ساتھ ہی اس نے یہ اعلان بھی کیا ہوا تھا کہ جو اسے زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے وہ اسے منہ مانگی رقم دے گی۔



حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند گھنٹے بعد ان کی لاش کا علم ہوا- بنو ہذیل مکہ کے قریب مقیم تھے۔



زعمائے قریش ان کے پاس ایک قاصد بھیجا اور ان سے حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سر کا مطالبہ کیا ، تاکہ سلافہ بنت سعد کا غصہ ٹھنڈا کر سکیں اور وہ اپنےبیٹوں کے قاتل کے سر کی کھوپڑی شراب میں پی کر اپنے غم کو ہلکا کر سکے۔



قریش نے اپنے قاصد کو وافر مقدار میں مال بھی دیا تھا تاکہ وہ بنو ہذیل کو قیمتی تحائف اور نقد مال دے کر حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کا سر لینے میں کامیاب ہو سکے ۔



بنو ہذیل حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کا سر کاٹنے کے لئے ان کے جسد اطہر کے قریب ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے سر اور جسم کو بہت سی شہد کی مکھیوں اور بھڑوں نے گھیرے لے رکھا ہے ۔



جونہی وہ ان کے جسم کے قریب ہوئے مکھیوں بھڑوں نے ان کی آنکھوں،  چہرے اور جسم کے ہر حصے پر زہریلے ڈنگ مارے اور انہیں دور بھگا دیا ۔



یکے بعد دیگرے کوسش کرنے کے بعد جب وہ مایوس ہو گئے اور جسم تک پہنچنے کی صورت نظر نہ آئی تو ایک دوسرے سے کہنے لگے۔

چھوڑو رات آنے دو۔ جب اندھیرا چھا جائے گا تو بھڑیں جسم سے الگ ہو جائیں گی ،تو پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔یہ تجویز سن کر سبھی تھوڑی دور بیٹھ کر رات کا انتظار کرنے لگے



ابھی دن ختم نہیں ہوا تھا اور رات شروع ہوئی تھی کہ گھنے سیاہ بادل آسمان پر نمودار ہوئے بادل کڑکا اور فضا میں لرزہ طاری ہو گیا۔ ایسی موسلادھار بارش ہوئی کہ عمر رسیدہ لوگوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی زندگی میں اس جیسی بارش کبھی نہیں دیکھی تھی۔



جلد ہی راستے اور گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں' نشیبی علاقے پانی سے بھر گئے ۔ سیلاب کی مانند چاروں پانی ہی پانی دکھائی دینے لگا۔


 جب صبح ہوئی تو بنو ہذیل حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی لاش ہر جگہ تلاش کرنے لگے لیکن کہیں سراغ نہ ملا۔


سیلاب اسے بہا کر کسی نامعلوم جگہ پر لے گیا۔



دراصل اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی دعا قبول کر لی اور ان کے جسم اطہر کی حفاظت کی۔


اور ان کے باعزت سر کو اس ذلت آمیز سلوک سے بچا لیا کہ اس کی کھوپڑی میں شراب پی جائے۔


اللہ تعالی نے مشرکوں کو مومنوں پر غالب نہ ہونے دیا۔


حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:


1۔ الاصابہ (مترجم)   :  4340

2۔ الاستجاب   :  132/3


3۔ اسد الغابة    :  2664


4۔ الطبقات الکبرى

90/3/79'55'43'41/2


5۔ حلیة الاولیاء  :  110/1


6۔ صفة الصفوة   :  فہرست دیکھے


7۔ تاریخ الطبری  :  جلد 10 کی فہرست دیکھے


8۔ البدایة والنھایة: 3/62-69


9۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط : 72'36


10۔ السیرةالنبویةلابن حشام : فہرست دیکھے


11۔ المعبر فی التاریخ : 118


12۔ دیوان حسان بن ثابت 


13۔ حیات صحابہ  : جلد چہارم کی فہرست دیکھے 



🌴بارک اللہ فیکم🌴



============>ختم شدہ


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ---- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments