عمیر بن وھب رضی اللہ عنہ

      

                             ✨سیر الصحابہ✨

 


                         بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم




               *صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*


               🔴عمیر بن وھب ( رضی اللہ عنہ)🔴


*عمیر بن وھب ( رضی اللہ عنہ) مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔* 


*"ارشاد فاروق اعظم ( رضی اللہ عنہ) "*

    





عمیر بن وھب خود تو میدان بدر سے جان بچا کر واپس لوٹ آئے، لیکن ان کے بیٹے کو مسلمانوں نے گرفتار کر لیا۔


عمیر کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ مسلمان اس کے نوجوان بیٹے کو باپ کے جرم کی پاداش میں سخت ترین سزا دیں گے؟ کیونکہ اس کا باپ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو دردناک تکالیف پہنچاتا رہا ہے۔


ایک دن صبح کے وقت عمیر مسجد حرام میں طواف اور بتان حرم سے برکت حاصل کر نے کے لئے آیا وہاں کیا دیکھتا ہے کہ صفوان بن امیہ حطیم  ایک جانب بیٹھا ہوا ہے اس کے پاس آکر کہنے لگا آقائے قریش صبح بخیر!


صفوان نے بھی جواباً کہا:



عمیر صبح بخیر ! آئیں بیٹھ کر کچھ باتیں کریں۔آپس میں باتیں کرنے سے وقت خوب گزرے گا۔


عمیر صفوان بن امیہ کے بالکل سامنے بیٹھ گیا دونوں آپس میں معرکہ بدر اور اس میں ہونے والے عظیم نقصانات یاد کرنے لگے اور ان قیدیوں کے نام شمار کرنے لگے جنہیں مجاہدین اسلام نے گرفتار کر لیا تھا اور وہ سرداران قریش کو یاد کر کے آنسو بہانے لگے جن کی گردنیں مسلمانوں کی تلوار نے اڑادی تھیں اور قلیب کنویں میں ان کی لاشوں کو پھینک دیا تھا۔


صفوان بن امیہ نے ایک لمبی سانس لی اور کہا:


بخدا ! اب ان کے بعد زندہ رہنے میں کوئ مزا نہیں۔



عمیر نے کہا:


بخدا ! آپ نے بالکل سچ کہا ۔ پھر تھوڑی دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا اب کعبہ کی قسم ! اگر میں مقروض اور عیالدار نہ ہو تا تو محمد ﷺ کو ابھی جاکر قتل کر دیتا۔ پھر آہستہ سے کہنے لگا:


میرا بیٹا چونکہ ان کے قبضے میں ہے اس لئے میرا وہاں جانا چنداں شبہات پیدا نہیں کریگا کیونکہ قیدیوں کے ورثاء کی مدینہ منورہ میں آمدو رفت کا سلسلہ جاری ہے۔



صفوان بن امیہ نے عمیر بن وھب کی اس بات کو غنیمت سمجھا اور سوچا کہ یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ اس کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو کر کہنے لگا۔


عمیر آپ اس بات کی پرواہ نہ کرو، تیرا جتنا بھی قرض ہے میں خود ادا کروں گا۔



میں تیرے اہل و عیال کی ذمہ داری بھی قبول کرتا ہوں۔ میرے پاس اتنا وافر مال ہے جس سے ان کی زندگی خوشگوار گزرے گی۔ یہ پیش کش سن کر عمیر بولے:


اس بات کو صیغہ راز میں رکھیں اور کسی کو نہ بتائیں۔


صفوان نے کہا: تم بھی یہ بات کسی کو نہ بتانا۔


عمیر بن وھب جب مسجد حرام سے اٹھا تو اس وقت حضرت محمد ﷺ کے خلاف غیظ و غضب کی آگ اس کے سینے میں شعلہ فگن تھی۔



اپنے اس ارادے کی تکمیل کے لئے اس نے تیاری شروع کر دی۔ اس سفر میں اسے قطعاً اس بات کا اندیشہ نہ تھا کہ کوئ اس پر شک و شبہ کرے گا کیونکہ اسیران قریش کے ورثاء فدیہ دینے کی غرض سے مدینہ منورہ جا رہے تھے۔



عمیربن وھب نے گھر آکر بیوی کوحکم دیا کہ میری تلوار تیز کرو اور اسے زہر کی پان دو۔ پھر اپنی سواری طلب کی تو اسے تیار کرکے ان کے سامنے لایا گیا۔


 یہ سوار ہو کراپنے مشن کی تکمیل کے لئے غیظ و غضب کا طوفان اپنے سینے میں چھپائے ہوئے مدینہ کی طرف چل پڑے۔


عمیر بن وھب نے مدینہ منورہ پہنچ کر رسول اکرم ﷺ کی تلاش شروع کردی




مسجد نبوی کے قریب اپنی سواری سے اترا اور مسجد کی طرف چل دیا۔


حضرت بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) چند صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم) کے ساتھ مسجدکے دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے آپس میں جنگ بدر میں قتل ہو نے والے اور گرفتار ہونے والے قریشیوں کے متعلق گفتگو فرمارہے تھے اور وہ اس منظر کو بھی یاد کر رہے تھے کہ جو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مہاجرین و انصار نے میدان بدر میں جوانمردی کے جوہر دکھائے اور اللہ تعالی نے ان کی مدد فرما کر انہیں عزت بخشی اور ان کے دشمن کو تباہ و برباد اور ذلیل و رسوا کیا۔



حضرت عمر ( رضی اللہ عنہ) نے عمیر بن وھب کو دیکھا کہ وہ اپنی سواری سے اترکر گلے میں تلوار لٹکائے مسجد کی طرف چلا آرہاہے۔ یہ گھبرا کر اٹھے اور فرمایا:


ارے یہ کمینہ دشمن خدا ! عمیر بن وھب ہے۔ اللہ کی قسم ! یہ کسی برے ارادے سے آیا ہے۔ اسی نے مکہ میں مشرکین کو ہمارے خلاف بھڑکایا تھا۔ بدر سے پہلے یہ ہمارے خلاف جاسوسی کرتا رہا ہے۔


پھر اپنے ساتھیوں سے فرمایا:


فوراً اٹھو اور رسول اللہﷺ کے اردگرد گھیرا بناؤ اور ہوشیار رہو کہ کہیں یہ مکار دھوکہ نہ دے جائے ۔ یہ کہہ کہ حضرت عمر ( رضی اللہ عنہ) فوراً نبیﷺ  کے پاس پہنچے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ یہ دشمن خدا عمیر بن وھب گلے میں تلوار لٹکائے آپ کی طرف آرہا ہے۔ میرے خیال میں اس کا ارادہ اچھا نہیں یہ کسی شرارت کی غرض سے آیا ہے۔


نبی ﷺ نے فرمایا: اسے میرے پاس لے آؤ۔ فاروق اعظم ( رضی اللہ عنہ) نے بڑی چابکدستی سے تلوار کا پٹہ اس کی گردن میں ڈال کر فوراً اسے قابو کر لیا اور رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔



نبی اکرم ﷺ نے جب اسے اس حالت میں دیکھا تو حضرت عمر ( رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، توانہوں نے چھوڑ دیا۔


پھر آپ نے فرمایا:


عمر ( رضی اللہ عنہ) ! ذرا پیچھے ہٹ جاؤ۔ وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹ گئے۔


پھر عمیر بن وھب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:


عمیر ! قریب آجاؤ۔ وہ قریب ہوگیا اور عرض کی صبح بخیر ۔


یہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا سلام تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمیر اللہ تعالی نے ہمیں تم سے بہتر سلام کا طریقہ بتا کر ہمیں عزت بخشی ہے ہم السلام علیکم کہتے ہیں اور یہ اہل جنت کاسلام ہے۔


عمیر نے کہا:


آپ کا سلام ہمارے سلام سے کوئ زیادہ مختلف تو نہیں، لیکن آپ اپنے مشن میں نئے ہیں۔


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عمیر کیسے آئے ہو؟


عرض کی:


میں اپنا قیدی چھڑا نے آیاہوں ،جو آپ کے قبضے میں ہے براہ مہربانی اسے چھوڑ کر مجھ پر احسان فرمائیں۔


آپ نے دریافت فرمایا:


تیری گردن میں یہ تلوار کیوں لٹک رہی ہے؟


اس نے عرض کی:


اللہ تعالی نے اس تلوار کا منہ ناکارہ کر دیا ہے۔ کیا آپ نے بدر کے دن ہمارے پاس کچھ رہنے بھی دیا ہے۔


آپ نے ارشاد فرمایا:


عمیر سچ بولو۔ کیسے آئے ہو؟


اس نے عرض کی:


میں تو اسی غرض سے آیا ہوں جو میں پہلے آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں


آپ نے فرمایا :

تم اور صفوان بن امیہ حطیم کے پاس بیٹھے کنوئیں میں پھینکی گئ لاشوں کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔


پھر تم نے یہ کہا:


کہ اگر میں مقروض اور عیالدار نہ ہوتا تو یقیناً محمد ﷺ کو قتل کرنے کی مہم کے لئے نکل پڑتا۔


پھر صفوان بن امیہ نے تیرے تمام قرضے اور اہل و عیال کی کفالت کی اس شرط پر ذمہ داری قبول کی کہ تو مجھے قتل کردے، لیکن اللہ تعالی تیرے اور اس گھناؤنے منصوبے کے درمیان حائل ہو گیا۔


عمیر یہ سن کر ششدررہ گیا پھر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد پکار اٹھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں (ﷺ)


یا رسول اللہﷺ  جب آپ ہمیں آسمانی خبریں بتلایا کرتے تھے تو ہم انہیں تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ آپ پر کوئ وحی وغیرہ نازل نہیں ہوتی، لیکن صفوان بن امیہ اور میرے درمیان ہونے والی گفتگو کا تو ہمارے علاوہ کسی کو علم نہ تھا۔


اللہ کی قسم ! اب مجھے یہ یقین حاصل ہو گیا ہے کہ یہ خبر اللہ تعالی نے آپ کو دی ہے۔


اللہ تعالی کا میں شکر گزار ہوں کہ وہ مجھے آپ کے پاس لے آیا تاکہ مجھے اسلام کی ہدایت نصیب ہو۔


پھر اس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُْ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔


نبی ﷺ نے اپنے صحابہ ( رضی اللہ عنھم ) سے ارشاد فرمایا : اپنے بھائ کو دین سمجھاؤ ،قرآن مجید کی تعلیم دو اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔


تمام صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم ) حضرت عمیر بن وھب ( رضی اللہ عنہ) کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے، یہاں تک کہ حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) فرمانے لگے کہ جب یہ رسول اللہ ﷺ پر حملہ کی نیت سے آرہا تھا تو مجھے بہت برا دکھائ دیتا تھا، لیکن آج اسلام قبول کر نے کے بعد یہ مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پیارا لگتا ہے۔


حضرت عمیر بن وھب ( رضی اللہ عنہ) تو اسلامی تعلیمات سے مستفیض ہو رہے تھے اور اپنے دل کو نور ایمان سے منور کر رہے تھے اور اپنی زندگی کے ان خوشگوار ایام میں مکہ اور اہلیان مکہ کو بھول چکے تھے۔


ادھر صفوان بن امیہ بڑی بے چینی سے منتظر تھا اور وہ پر امید تھا کہ کوئ خوش کن خبر ملے گی۔ جب بھی وہ کسی مجلس کے پاس سے گزرتا تو بر ملا کہتا قریشیو ! خوش ہو جاؤ! تمہیں عنقریب ایک ایسی خبر ملنے والی ہے جو واقعہ بدر کی سنگینیوں کو بھلا دے گی۔ پھر صفوان بن امیہ کے لئے انتظار کی گھڑیاں طویل تر ہوتی چلی گئیں۔ اس کے دل میں آہستہ آہستہ بے چینی سرایت کرنے لگی۔ وہ اس قدر اضطراب و قلق میں مبتلا ہوکرپہلو بدلنے لگا جیسے کہ انگاروں پر لیٹا ہوا ہو۔ وہ مدینہ منورہ سے آنے والے ہر مسافر سے پوچھتا کہ عمیر کہاں ہے، لیکن کوئ شخص بھی اسے تسلی بخش جواب نہ دیتا، لیکن ایک مسافر نے اسے یہ بات بتا دی کہ حضرت عمیر ( رضی اللہ عنہ) تو مسلمان ہو گئے۔ یہ خبر اس پر بجلی بن کر گری، کیونکہ اسے پختہ یقین تھا کہ عمیر ( رضی اللہ عنہ) مسلمان نہیں ہو سکتا، خواہ ساری دنیا مسلمان ہو جائے۔


حضرت عمیربن وھب ( رضی اللہ عنہ) مدینہ منورہ میں بڑی محنت سے دینی تعلیم حاصل کرتے رہے اور قرآن مجید کا کچھ حصہ بھی زبانی یاد کرلیا۔


انہوں نے ایک دن نبی ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! میں نےاپنی زندگی کے قیمتی ایام اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے صرف کر دئیے ، جو بھی اسلام قبول کرتا تو میں اسے طرح طرح کی تکالیف پہنچاتا۔


اب میری دلی تمنا ہے کہ آپ مجھے مکہ معظمہ جانے کی اجازت عنایت فرمائیں تاکہ میں قریش کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دوں۔ اگر وہ میری بات تسلیم کر لیں تو بہتر، ورنہ میں انہیں اسی طرح دردناک اذیت دوں گا جس طرح کہ آپ کے صحابہ ( رضی اللہ عنھم) کو اذیت دیا کرتا تھا۔


رسول اللہ ﷺ نے اجازت دے دی۔


آپ اپنے دل میں بڑے ارمان لے کر مکہ معظمہ پہنچے اور سیدھے صفوان بن امیہ کے گھر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:


اے صفوان ! تم ایک دانشمند سردار ہو، بھلا یہ تو بتاؤ کہ جن پتھر کے بتوں کی تم پوجا کرتے ہو اور ان کے نام پر قربانی دیتے ہو، کیا تمہاری عقل تسلیم کرتی ہے کہ یہ تمہیں کوئ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟


سن لو ! میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئ عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد ﷺ  اللہ تعالی کے رسول ہیں۔


حضرت عمیر بن وھب ( رضی اللہ عنہ) بڑی جانفشانی سے اہل مکہ کو دین کی دعوت دینے کے لئے دن رات مصروف ہوگئے۔ بہت سے لوگوں نے ان سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔


اللہ سبحانہ وتعالی حضرت عمیر بن وھب ( رضی اللہ عنہ) کو اجر جزیل عطا فرمائے اور ان کی مرقد پر مسلسل اپنی رحمت نازل فرمائے۔ آمین


حضرت عمیر بن وھب ( رضی اللہ عنہ) کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔


1 . حیاۃ الصحابہ (محمد بن یوسف کاندھلوی)


2 . سیرت ابن ہشام


3 . الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ( ابن حجر عسقلانی)


4 . طبقات ابن سعد

 

🌴بارک اللہ فیکم🌴



===========>ختم شدہ

   

طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments