قریش کی مخالفت اور اس کے اسباب

                                      

                                 سیرت النبی ﷺ

                       

         


                                      ﷽  


             

            

              

       🔴قریش کی مخالفت اور اس کے اسباب🔴


    مکہ کی جو عزت تھی کعبہ کی وجہ سے تھی ۔ قریش کا خاندان جو تمام عرب پر مذہی حکومت رکھتا تھا اور جس کی وجہ سے وہ ہمسائیگان خدا بلکہ آل اللہ یعنی خاندان الہی کہلاتے تھے۔ اس کی صرف یہ وجہ تھی کہ وہ کعبہ کے مجاور اور کلید بردار تھے، اس تعلق سے قریش کا کاروبار زیادہ پھیلتا گیا۔ یہاںتک کہ متعدد محکمے اور بڑے بڑے مناصب قائم کئے گئے  جن کی تفصیل یہ ہے


                   
       



   اغاز اسلام میں جو لوگ قریش کے روسائے اعظم تھے اور جن کی عظمت و اقتدار کا اثر تمام مکہ پر تھا، ان کے نام یہ ہیں_
                      👆👆👆

نوٹ      : ان کے علاوہ، اسود بن مطلب ، اسود بن عبد يغوث ، نضر بن الحرث بن کلده ، اخنس بن شریق ثقفي، ابی بن خلف، عقبہ بن ابي معيط ، صاحب اثر تسلیم کئے جاتے تھے۔

     اس موقعہ پر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خاندان ہاشم اور بنو امیہ برابر کے حریف تھے اور دونوں میں مدت سے رشک و رقابت چلی آتی تھی

              


                                            🔵پہلا سبب


      ناتربیت یافتہ اور تندخو قوموں کا خاصہ ہے کہ کوئی تحریک جو ان کے آبائی رسم و عقائد کے خلاف ہو، ان کو سخت برہم کر دیتی ہے۔ ان کے ساتھ ان کی مخالفت محض زبانی مخالفت نہیں ہوتی اور ان کی تشنگی انتقام کو خون کے سوا کوئی چیز بجھا نہیں سکتی۔ آج ہندوستان اس قدر مہذب ہو گیا ہے لیکن اب بھی کسی عام مسئلہ مذہبی کی مخالفت کی جائے تو ایک حشر برپا ہو جاتا ہے اور حکومت موجودہ اگر منظم اور صاحب جبروت نہ ہوتی تو اس زمین پر بارہا خون کا بادل برس چکا تھا۔


    عرب ایک مدت سے بت پرستی میں مبتلا تھا۔ خلیل بت شکن کی یادگار (کعبہ) تین سو ساٹھ معبودوں سے مزین تھی، جن میں ہبل‘خدائے اعظم تھا، یہی بت ہر قسم کے خیر و شر کے مالک تھے، پانی برساتے تھے، اولادیں دیتے تھے معرکہ ہائے جنگ میں فتحیں دلاتے تھے، خدا، تو سرے سے نہ تھا یا تھا تو وجود معطل تھا۔


                                     🔵 دوسرا سبب


     اسلام کا اصل فرض اس طلسم کو دفعته بر باد کر دینا تھا، لیکن اس کے ساتھ قریش کی عظمت و اقتدار اور عالمگیر اثر کا بھی خاتمہ تھا۔ اس لئے قریش نے شدت سے مخالفت کی اور ان میں جن لوگوں کو جس قدر زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا، اسی قدر مخالفت میں زیادہ سرگرم تھے۔


      قریش کا رئیس اعظم حرب بن امیہ تھا، چنانچہ حرب فجار میں وہی سپہ سالار اعظم تھا۔ لیکن حرب کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا ابوسفیان اس منصب عظیم کے حاصل کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا تھا، اس لئے ولید بن مغیرہ نے اپنی لیاقت اور اثر سے ریاست حاصل کی، ابو جہل اس کا بھتیجا تھا اور وہ بھی قریش میں امتیاز رکھتا تھا_


    ابوسفیان گو اپنے باپ کا منصب نہ حاصل کر سکا لیکن بنو امیہ کے خاندان کا سردار وہی تھا۔ خاندان ہاشم میں سب سے زیادہ کبیر سن ابولہب تھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا۔


     قبیلہ سہم میں سب سے زیادہ با اثر عاص بن وائل تھا۔ جو نہایت دولت مند اور کثیر الاولاد تھا۔


   قریش کی عنان حکومت انہی روسا کے ہاتھ میں تھی اور یہی لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی سخت مخالفت کی ، قریش کے اور اکابر مثلا :

 اسود بن مطلب،

 اسود بن عبد یغوث

 نضر بن الحرث،

امیہ بن خلف،

عقبہ بن ابی معیط

    انہیں لوگوں کے زیر اثر تھے اور اس وجہ سے اعدائے اسلام میں ان کے نام ہر جگہ نمایاں نظر آتے ہیں۔


     قریش کا یہ خیال تھا کہ نبوت کا منصب اعظم اگر کسی کو ملتا تو مکہ یا طائف کے کسی رئیس کو ملتا۔


{ وقالوا لو لا نزل هذا القران على رجل بين القريتين عظيم }. (43/ الزخرف: ۳۱)


   " وہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کو اترنا تھا تو ان دو شہروں ( مکہ و طائف) میں سے کسی رئیس اعظم پر اترنا تھا‘‘ (یعنی ولید بن ربیعہ یا ابو مسعود ثقفی)


     عرب میں ریاست کے لئے دولت اور اولاد سب سے پہلی اور سب سے ضروری شرط تھی ، اولاد کی نسبت اکثر وحشی قوموں میں ہندوستان میں بھی یہ خیال رہا ہے کہ جو شخص صاحب اولاد نہ ہو، وہ عالم آخرت کی برکات سے محروم رہتا ہے۔


    ہندووں میں بھی یہ خیال ہے کہ اولاد کے بغیر انسان کو پوری نجات نہیں مل سکتی۔


    قریش میں اوصاف مذکورہ کے لحاظ سے جو لوگ ریاست کا استحقاق رکھتے تھے۔ وہ 

ولید بن مغیرہ

امیہ بن خلف

عاص بن وائل سہمی

ابو مسعود سقفی

    تھے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ان اوصاف سے بالکل خالی تھے، دولت

کے غبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پاک تھا اور اولاد ذکور سال دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہی۔


                                         🔵 تیسرا سبب


    قریش کو عیسائیوں سے بالطبع نفرت تھی جس کی وجہ یہ تھی "ابراہة الاشرم" (بادشاه حبش ) جو کعبہ کے ڈھانے کو ایا تھا، عیسائی تھا، یہی وجہ تھی کہ قریش عیسائیوں کے مقابلہ میں پارسیوں کو زیادہ پسند کرتے تھے، ایران اور روم کی جنگ میں ایرانیوں کو فتح ہوئی تو قریش نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور مسلمان شکستہ ہوئے، چنانچہ یہ ایات اتریں:


{ آلٓمّٓ• غلبت الروم• في أدنی الأرض وهم من بعد غلبھم سيغلبون• في بضع سنين° لله الأمر من قبل ومن بعد° ويومئذ یفرح المومنون•بنصر الله } (۳۰/ الروم:۱ تا ٥٥ ٥٥ )


   "قریب کے ملک میں رومی مغلوب ہو گئے لیکن یہ لوگ مغلوب ہونے کے بعد چند سال میں پھر غالب آجائیں گے ، خدا ہی کو اختیار ہے پہلے بھی اور پیچھے بھی اور سب مسلمان الل کی مدد

سے خوشی منائیں گے"_


     اسلام اور نصرانیت میں بہت سی باتیں مشترک تھیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ اس زمانہ میں اسلام کا قبلہ بیت المقدس تھا اور مدینہ منورہ میں بھی ایک مدت تک یہی قبلہ رہا، ان اسباب سے قریش کو خیال ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ 




                                    🔵چوتھا سبب


     ایک بڑا سبب قبائل کی خاندانی رقابت تھی ۔ قریش میں دو قبیلے نہایت ممتاز اور حریف یک دگر تھے ، بنو باشم و بنو امیہ عبدالمطلب نے اپنے زور اور اثر سے بنو ہاشم کا پلہ بھاری کر دیا تھا۔ لیکن ان کے بعد اس خاندان میں کوئی صاحب اثر پیدا نہیں ہوا، ابوطالب دولت مند نہ تھے، عباس دولتمند تھے۔ لیکن فیاض نہ تھے، ابولہب بدچلن تھا، اس پر بنو امیہ کا اقتدار بڑھتا جاتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو خاندان بنو امیہ اپنے رقیب

( ہاشم ) کی فتح خیال کرتا تھا، اس لئے سب سے زیادہ اسی قبیلہ نے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ، بدر کے سوا باقی تمام لڑائیاں ابوسفیان ہی نے برپا کیں اور وہی ان لڑائیوں میں رئیس لشکر رہا۔


    عقبہ بن ابی معیط جو سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا اور جس نے نماز پڑھنے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش مبارک پر اونٹ کی اوجھ لاکر ڈالی تھی ( اموی تھا )


     بنوامیہ کے بعد جس قبیلے کو بنو ہاشم کی برابری کا دعوی تھا، وہ بنو مخزوم تھے، ولید بن مغیرہ اسی خاندان کا رئیس تھا، اس لئے اس قبیلہ نے بھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت مخالفت کی ۔ ابوجہل کی ایک تقریر سے اس بیان کی پوری تصدیق ہوتی ہے، ایک دفعہ اخنس بن شريق، ابوجہل کے پاس گیا اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟‘ ابوجہل نے کہا: ہم اور بنو عبد مناف (یعنی آل ہاشم) ہمیشہ حریف مقابل رہے، انہوں نے مہمان داریاں کیں تو ہم نے بھی کیں ۔ انہوں نے خون بہا دیئے تو ہم نے بھی دیے، انہوں نے فیاضیاں کیں تو ہم نے ان سے بڑھ کر کیں، یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے کاندھے سے کندھا ملا دیا تو اب بنوہاشم پیغمبری کے دعویدار ہیں، خدا کی تمقسم ہم اس پیغمبر پر کبھی ایمان نہیں لا سکتے ۔


                                       🔵 پانچواں سبب


    ایک بڑا سبب یہ تھا کہ قریش میں سخت بداخلاقیاں پھیلی ہوئی تھیں، بڑے بڑے ارباب اقتدار نہایت ذلیل بد اخلاقیوں کے مرتکب تھے، ابولہب جو خاندان ہاشم میں سب سے زیادہ ممتاز تھے، اس نے حرم محترم کے خزانہ سے غزال زریں چرا کر ظیچ ڈالا تھا-


    اخنس بن شریق جو بنو زہرہ کا حلیف اور روسائے عرب میں شمار کیا جاتا تھا ، نمام اور کذاب تھا-


     نضر بن حارث کو جھوٹ بولنے کی سخت عادت تھی، اسی طرح اکثر ارباب جاه مختلف قسم کے اعمال شنیعہ میں گرفتار تھے۔ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف بت پرستی کی برائیاں بیان فرماتے تھے، دوسری طرف ان بد اخلاقیوں میں سخت داروگیر کرتے تھے جس سے ان کی عظمت و اقتدار کی شہنشاہی متزلزل ہوتی جاتی تھی ، قرآن مجید میں پیہم علانیہ ان بدکاروں کی شان میں آیتیں نازل ہوتی تھیں اور گو طریقہ بيان عام ہوتا تھا۔ لیکن لوگ جانتے تھے کہ روئے سخن کس کی طرف ہے۔


{‌ولاتطع کل حلاف مهين ۝هماز مشاء بنميم۝ مناع للخير معتد أثيم۝ عتل بعد ذلك زنيم۝ ان کان ذا مال وبنين۝} . (٦ ۶۸٨/ القلم:۱۰ تا ۱۴ ١٤)


    اور اس شخص کے کہنے میں نہ آنا جو بات بات میں قسم کھاتا ہے، آبرو باختہ ہے، طاعن ہے، چغلیاں کھاتا ہے، لوگوں کو اچھے کاموں سے روکتا ہے، حد سے بڑھ گیا ہے، بد ہے، تندخو ہے اور ان سب باتوں کے ساتھ جھوٹا نسب بناتا ہے، اس لئے کہ وہ مالدار اور لڑکوں والا ہے۔“


{كلا لئن لم ینتہ٭ لنسفعا بالناصية۝ ناصية كاذبة خاطئة۝} (۹۶ العلق: ۱۵، ۱۶٦)


    ”وہ سن رکھے کہ اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے جو کہ جھوٹی اور خطا کار ہے۔‘‘


   ممکن تھا کہ وعظ و پند کا نرم طریقہ اختیار کیا جاتا لیکن مدت کی عربی نخوت، دولت و اقتدار کا فخر، ریاست کا زعم ان چیزوں کے ہوتے ہوئے جب تک ضرب نہایت سخت نہ ہوگی وہ خبردار نہ ہوتے ، اس لئے بڑے بڑے جبار اس طرح مخاطب کئے جاتے تھے:


{ ذرنی ومن خلقت وحیدا ۝وجعلت له مالا ممدودا۝ وبنين شهودا۝ ومھدت له تمهيدا ۝ثم يطمع ان ازيد ۝ کلا° انه كان لأيتنا عنيدا ۝} . (۷۶/ المدثر:۱۱ تا۱۶)


    "ہم کو اور اس کو تنہا چھوڑ دو۔ میں نے اس کو اکیلا پیدا کیا، پھر بہت سا مال دیا۔ بیٹے دیئے سامان دیا ۔ پھر چاہتا ہے کہ ہم اس کو اور دیں ، ہر گز نہیں ، وہ ہماری آیتوں کا دشمن ہے۔“


    "یہ خطاب ولید بن مغیرہ کے ساتھ ہے جو قریش کا سرتاج تھا اور یہ الفاظ اس شخص کی زبان سے ادا ہوتے تھے جس کو ظاہری جاہ و اقتدار حاصل نہ تھا۔




    لیکن مخالفت کی جو سب سے بڑی وجہ تھی اور جس کا اثر تمام قریش بلکہ تمام عرب پر یکساں تھا یہ تھا کہ جو معبود سینکڑوں برس سے عرب کے حاجت روائے عام تھے اور جن کے آگے وہ ہر روز پیشانی رگڑتے تھے، اسلام ان کا نام و نشان مٹاتا تھا اور ان کی شان میں کہتا تھا:


   {انکم وما تعبدون من دون الله حصب جهنم} (۲۱الانبياء:۹۸)


    "بلا شبہ تم اور جن چیزوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو ۔ سب دوزخ کے ایندھن ہوں گے"۔


≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠

                 

❶سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد 


                🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments