بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
سَیِّدَہْ حَوَّاء بِنْتِ یَزِیْد اَلْأَنْصَارِیَہْ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا
💕خاندانی پس منظر اور اسلام۔۔
ان کا نام حواء تھا ، والد کا نام یزید بن سکن اور والدہ کا نام عقرب بنت معاذ تھا ان کے ماموں قبیلہ اوس کے سردار سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے ۔
البتہ ان کا خاوند قیس بن خطیم زمانہ جاہلیت کے ان گمراہ نوعیت شاعروں میں سے ایک تھا جن کے بارے قرآن کریم میں یہ ارشاد ہے :
(سورہ الشعراء
🌷وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ ﴿۲۲۴﴾ؕ
شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں ۔
🌷اَلَمۡ تَرَ اَنَّہُمۡ فِیۡ کُلِّ وَادٍ یَّہِیۡمُوۡنَ ﴿۲۲۵﴾ۙ
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں ۔
قیس نے اپنی عمر کو فضول کاموں میں گزارا ۔ اس نے اپنی زندگی کھیل کود اور دیوانگی میں گزاری اس نے ہمیشہ گمراہی کو ہدایت پر تر جیح دی اور بے راہ روی کو رشد و ہدایت سے بہتر جانا اور وہ پرلے درجے کا گمراہ کن شخص تھا ۔
لیکن اس کی بیوی اس کے طرز عمل کے خلاف تھی ۔اللہ تعالی نے ان کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کیا کہ جلد ہی اسلام کی طرف رہنمائی کر دی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، لیکن اپنے مسلمان ہونے کا اپنے خاوند سے چھپائے رکھا ،در اصل وہ اس کے برے سلوک سے خود بھی بچنا چاہتی تھی اور اپنے پسندیدہ دین کو بھی بچائے رکھنا چاہتی تھی ۔ان کا اپنا خاوند کے ساتھ ایسا ہی حال تھا ،جیسا حال سیدہ آسیہ کا اپنے خاوند فرعون کے ساتھ تھا
سیدہ آسیہ کی داستان کے ضمن میں اللہ تعالی نے فرمایا:
🌷وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ○ (١١:٦٦)
"اور اللہ تعالٰی نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے"۔
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کے خاوند کو اللہ تعالی ایمان کی نعمت سے سرفراز کر دے، تاکہ وہ اپنے خیالات و احساسات کے لحاظ سے اس کے قریب ہو سکے۔ لیکن سیدہ حواء نے اپنے ایمان کو ہر چیز پر ترجیح دی یہاں تک کہ انہوں ایمان کو اپنی زندگی پر ترجیح دی اور اپنے دل کو ایمان کا خوگر بنا لیا ۔ان کی حالت یہ ہو گئی کہ اسلام اور ایمان کی حالت میں مر جانا شرک اور بت پرستی کی زندگی سے زیادہ محبوب دکھائی دینے لگا ۔
جب وہ سورہ شعراء کی درج ذیل آیات پڑھتیں تو ان کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوتی کہ کاش!اس کا خاوند شعراء کے اس طبقے میں شامل ہو جائے جن کو اللہ نے گمراہی سے مستثنی قرار دیا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
🌷اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ انۡتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا ؕ وَ سَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ○ (٢٢٧:٢٦)
"سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ تعالٰی کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں"-
قرآن کریم نے شعراء کو دو طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک طبقہ تو اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔ شعراء کا یہ طبقہ ان گمراہ لوگوں پر مشتمل ہے جو حرام کا ارتکاب کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتے، نہ ہی تباہ کر دینے والے اعمال سے باز آتے ہیں ، وہ منکرات کی طرف سر پٹ دوڑتے ہیں کمینگیوں کی طرف لپکتے ہیں اور اچھے کاموں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اللہ ہمیں ان سے بچائے اور دور رکھے۔
شعراء کا دوسرا طبقہ قابل ستائش ہے ،اللہ تعالی اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی ان شعرا کی تعریف کرتے فرماتا ہے کہ وہ مومن ہیں جنہوں نے اللہ تعالی کو اپنا رب مانا ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی تسلیم کیا اور قرآن کو اپنا امام بنا لیا، وہ اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہوئے اور جن کاموں سے اسلام نے روکا باز رہے وہ نیک عمل کرتے ہیں اور برے کاموں سے پہلو تہی کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے جملہ اقوال و افعال اور تمام تر معاملات میں اللہ سبحانہ و تعالی کو یاد رکھتے ہیں وہ شعراء ان لوگوں کے ظلم وستم پر خاموش نہیں رہتے جو اللہ کے رسول اور اہل ایمان پر کئے جاتے ہیں ہیں وہ اپنے اشعار کو خدمت اسلام کے لئے وقف کر دیتے ہیں
سیدہ حواءرضی اللہ عنہا کبھی کھبار اپنے آپ سے سوال کرتیں کہ میرا خاوند نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ شاعروں سیدنا حسان بن ثابت اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما کا اسلوب اختیار کیوں نہیں کرتا ۔ وہ دونوں اپنی شاعری سے اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہیں اور کافروں کے مقابلے میں اسلام کا دفاع کرتے ہیں اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کو اپنے قریب کرتے ہیں اور ان دونوں کو پسند کرتے ہیں ۔
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا کو اس بات پر افسوس تھا کہ اس کا خاوند قیس اپنی بے ہودہ شاعری کی وجہ سے خیر وبھلائی سے کوسوں دور ہے اور شر پر مبنی شاعری نے اس کے قد کاٹھ کو پست کر دیا ہے بڑے افسوس کی بات ہے کہ اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے لیکن کیا جو کچھ اس کائنات میں ہو رہا ہے وہ اللہ تعالی کی مشیت کے مطابق نہیں ہو رہا ، مخلوق میں تو اللہ تعالی کا حکم ہی نافذ ہونے والا ہے ۔
اللہ تعالی ہی زمین اور اس میں بسنے والوں کا وارث ہے ۔
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لے ، تاکہ وہ صبر کرنے والوں کا سا اجر و ثواب پائے ۔
💕فرعون کی بیوی آسیہ کے نقش قدم پر۔۔
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا اپنے دینی فرائض کو خفیہ انداز میں مسلسل سر انجام دیتی رہیں انہوں نے اپنے خاوند کو پتہ نہ چلنے دیا ، لیکن یہ راز کب تک چھپا رہ سکتا ہے؟ کیا سیدہ حواء رضی اللہ عنہا اپنے مسلمان ہونے کو زیادہ دیر تک صیغہ راز میں رکھ سکتی تھیں؟یہ کام تو بڑا محال ہے، کیونکہ ہر شخص اپنے گھر جب چاہے آسکتا ہے ،جس وقت وہ چاہے اپنے گھر میں داخل ہو سکتا ہے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ خاوند ایسے وقت گھر آ جائے جب اس کی بیوی نماز ادا کر رہی ہو ، یا وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دے اور وہ اس وقت روزے میں ہو تو ایسی صورت میں وہ کیا کرے گی ؟
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا مسلمان ہونے کا راز زیادہ دیر تک چھپا نہ رہ سکا ایک دن اس کے خاوند نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور پھر اس نے یہ منظر بھی بچشم خود دیکھا کہ اس کی بیوی چمڑے اور کھجور کی چھال پر کچھ لکھا ایسا کلام پڑھ رہی ہے جو پہلے اس نے کبھی نہیں سنا تھا اور وہ کلام اس کو بڑا ہی عجیب وغریب محسوس ہو رہا تھا
اس نے اپنے دل سے سوال کیا کہ یہ عورت مجھے بتائے بغیر ہی مسلمان ہو گئی ہے ؟
اس نے مجھے بتائے بغیر ہی اسلام قبول کر لیا ۔گویا کہ ٹھگنا فرعون بڑے فرعون کے نقش قدم پر چلنے لگا ،جس نے ان جادوگروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا :جو موسی اور ہارون علیہم السلام کے رب پر ایمان لے آئے تھے اور انہوں نے اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کر لیا تھا۔
فرعون کی طرف سے دی گئی دھمکی کو قرآن مجید میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے ارشاد باری تعالی ہے:
🌷قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَہٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ؕ اِنَّہٗ لَکَبِیۡرُکُمُ الَّذِیۡ عَلَّمَکُمُ السِّحۡرَ ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمۡ فِیۡ جُذُوۡعِ النَّخۡلِ ۫ وَ لَتَعۡلَمُنَّ اَیُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبۡقٰی○
"فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً یہی تمہارا وہ بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے ، ( سن لو ) میں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی پر لٹکوا دوں گا ، اور تمہیں پوری طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے ۔"
(٧١:٢٠)
اے مغرور چھوٹے سے شاعر !اور جابر فرعون !تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ کہ تمہاری رائے کو اختیار کیا جائے کہ اللہ پر کب ایمان لایا جائے ، کیا اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرنے کے لئے تجھ جیسے کج رو اور گمراہ کی اجازت اور موافقت ضروری ہے ؟ کیا حق کا اعتراف کرنے کے لئے تم دونوں کی موافقت ضروری ہے ؟تم دونوں کا ستیاناس ہو !تم دونوں کس قدر احمق ہو !
کیا تم دونوں کی کم عقلی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے ،اس کائنات کی ہر چیز فانی ہے ،صرف اللہ کی ذات کو بقا حاصل ہے
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا کے خاوند نے اس بات کا انتظار بھی نہ کیا کہ وہ نماز پوری کرلے اور پھر اس سے پوچھے کہ تم نے اسلام کیوں قبول کیا ؟
وہ اپنے رب کے حضور سجدے میں تھیں کہ اس نے اسی حالت میں اوپر اٹھایا اور پھر زمین پر پٹخ دیا اور اپنی اس شیطانی حرکت پر دانت نکالنے لگا ۔ وہ اپنی بیوی کو زمین پر گرے دیکھ کر کاندھے مٹکاتے ہوئے مسکرانے لگا ۔
دوسرے روز اس فاسق کافر نے ایک اور گھناؤنی حرکت کی ، یہ ترکیب اس کے دل میں اس کی گمراہی نے ڈالی تھی۔ ہوا یہ کہ سیدہ حواء رضی اللہ عنہا سجدے میں تھیں ان کے خاوند نے پیچھے سے ٹانگوں کو پکڑ کر اتنا اوپر اٹھایا کہ سیدہ حواء رضی اللہ عنہا کا سر زمین پر لگ گیا اور پھر اس شیطان صفت ناہنجار نے دوسری طرف الٹا دیا ۔
یہ صبر کی پیکر مومنہ خاتون رونے کے سوا کچھ نہ کر سکیں ، انہوں نے اپنے کافر خاوند کے خلاف اپنے اللہ سے مدد طلب کی کہ وہ ان کے لئے اس مصیبت سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ بنا دے اور اس عذاب سے چھٹکارا دے کر فرحت اور انسباط کے لمحے نصیب کرے ۔
صبر کا دامن تھامے بغیر ان کے لئے کوئی چارہ کار نہ تھا۔ انہوں نے اپنے رب سے مدد کی تمنا کی کہ وہ اپنے فضل و کرم سےاس فاسق و فاجر سے اسے غلبہ عطا کرے ۔
سیدہ حواء پر اس کے خاوند کا ظلم و ستم مسلسل ہونے لگا اس نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنی بیوی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ۔ وہ ان کے ساتھ نہایت برا سلوک کرتا تھا ،وہ اپنی نازیبا حرکتوں سے باز نہ آیا ،کیونکہ وہ کسی ایسے دین کا پابند نہیں تھا جو اسے خوفزدہ کرے اور نہ ہی کسی ضابطہ اخلاق کا پابند کہ وہ اسے نازیبا حرکات سے روکے ۔
جو شخص اخلاق اور دین سے محروم ہو ، وہ منکرات کا ارتکاب کرنے میں دلیر ہوتا ہے۔
قیس کی اپنی بیوی پر سختی کب تک جاری رہ سکتی تھی، آخر کار وہ کب تک اس کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا سکتا تھا ، کب تک وہ اپنی سرکشی دکھا سکتا تھا۔
انصار کی تمام عورتوں کو پتہ چل گیا کہ سیدہ حواء کا خاوند اس کے ساتھ بڑی سختی سے پیش آرہا ہے اور اسے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا ہے ۔اس دلخراش داستان کا تذکرہ ہر زبان پر تھا ۔سیدہ حواءرضی اللہ عنہا پر ڈھائے جانے ظلم و ستم کی خبر ہر گھر پہنچ چکی تھی ۔یہ بات مدینہ منورہ میں پھیل چکی تھی، پھر یہ خبر پھلتی ہوئی مکہ معظمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی ۔
انصار مدینہ کی خبریں مسلسل مکہ معظمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ رہی تھیں۔ انصار کے کچھ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مکہ معظمہ گئے، تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ حواء رضی اللہ عنہا کی اس آزمائش کا تذکرہ کیا جو انہیں اپنے خاوند کی طرف سے پیش آ رہی تھیں اور اس اذیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا جو وہ اپنے خاوند کی طرف سے برداشت کر رہی تھیں۔
✨💕 تنگی کے بعد آسانی۔۔۔
ایک دفعہ حج کے موسم میں قیس بن خطیم اہل مدینہ کے وفد کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوا ۔ وہ اس سفر میں سرداران قریش کے ساتھ اس دور کے علاقائی رسم و رواج کے مطابق وہاں اقامت کا خواہش مند تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف جھتوں سے جو قبائل موسم حج کے موقع پر مکہ معظمہ آتے ان کے ساتھ ملاقات کرکے انہیں اسلام کی دعوت دیتے اور انہیں دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرتے
جس وفد میں قیس بن خطیم شامل تھا وہ مکہ معظمہ کے مشہور و معروف میلے ذی المجاز میں آیا ہوا تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وفد سے ملے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیس بن خطیم کے سامنے اسلامی تعلیمات کو پیش کیا ۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں بڑی توجہ سے سنیں اور یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے عمدہ دین کی دعوت دے رہے ہیں۔ آپ مجھے کچھ دیر مہلت دیں، تاکہ میں مدینہ منورہ واپس جا کر ٹھنڈے دل سے ان با توں پر غور کر سکوں ، جو آپ نے مجھے آج بتائی ہیں آج کل تو قبیلہ اوس اور خزرج کے درمیان لڑائی ہو رہی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش تھی کہ قیس بن خطیم اسلام قبول کر لے ،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ دراز کر رہے تھے اور اسے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کر رہے تھے،لیکن قیس اپنے موقف پر ڈٹا ہوا تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اس سے کہا :
"اے ابو یزید! مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ تم اپنی بیوی حواء رضی اللہ عنہا سے بد سلوکی سے پیش آرہے ہو ۔جب سے اس نے تیرے دین کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا ہے تم اس کے ساتھ بہت برا سلوک کر رہے ہو ۔ اللہ تعالی سے ڈرو اور مجھ سے یہ وعدہ کرو کہ تم آئندہ کچھ نہیں کہو گے ۔"
قیس بن خطیم نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا :"میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد اسے کچھ نہیں کہوں گا ۔اسی طرح ہوگا جو آپ پسند کرتے ہیں، میں اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤں گا"
جب قیس مدینہ منورہ پہنچا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا :اے حواء! کیا تم جانتی ہو کہ میری ملاقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تھی۔ انہوں نے دوران گفتگو مجھے تلقین کی ہے کہ میں آپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤں اور میں نے ان سے وعدہ کر لیا ہے کہ آج کے بعد میں اسے کوئی گزند نہیں پہنچا ؤں گا اور میں اللہ کی قسم اپنا وعدے کو نبھاؤں گا ۔
یہ باتیں سن کر سیدہ حواء رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں کہ چلو روز روز کی بک بک اور جھک جھک سے چھٹکارہ ملا ۔
یہ خوشخبری سننے کے بعد انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان عام کر دیا اور جو راز تھا وہ ظاہر کر دیا ۔کیونکہ انہیں اپنے خاوند کی طرف کسی قسم کے جبر اور ایذا رسانی کا خطرہ نہ تھا ۔کچھ وقت گزر جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ایک رہائشی سے پوچھا سیدہ حواء کیسی ہیں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ بالکل خیریت سے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گیا کہ قیس نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا اور اس نے اپنی بیوی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ سیدہ حواء رضی اللہ عنہا پر سکون انداز میں زندگی بسر کر رہی ہیں اور خاوند کی طرف سے اب اسے کوئی تکلیف نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اس مجنون نے وعدہ تو پورا کیا ۔
جب سیدہ حواء رضی اللہ عنہا کے مسلمان ہونے کی خبر عام ہو گئی تو اس کے خاوند سے لوگوں نے کہا :اے ابو یزید! تیری بیوی حواء رضی اللہ عنہا تیرے دین کو چھوڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروکار ہو چکی ہے ۔
اس نے کہا میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کروں گا ، میں یہ وعدہ نبھاؤں گا اور کبھی اس وعدے کی خلاف ورزی نہیں کروں گا-
اس طرح اللہ تعالی نے سیدہ حواء رضی اللہ عنہا کی مصیبت کو ٹال دیا ، ان پر سے غم کے بادل چھٹ گئے ۔ اللہ تعالی نے انہیں امن و سکون کی نعمت سے نوازا لیکن قیس اس فرصت کو ضائع کر بیٹھا جو اسے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے میسر آئی تھی ۔ اسے مدینہ منورہ میں حالت شرک میں قتل کر دیا گیا ، اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل ہو گیا ۔
💞حدیث شریف کی روایت ۔۔۔
پھر بیعت عقبہ ثانیہ کا موقع آیا ، انصار نے بارہ نمائندے منتخب کیے ، ان میں سے تین قبیلہ اوس کے اور نو قبیلہ خزرج کے افرد تھے ۔ ان سب نے اسلام قبول کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کر لی اور آپ کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیا کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے ائیں تو ہم دل و جان سے آپ کی مدد کریں گے
اس معاہدے کو زیادہ طویل وقت نہ گزرا تھا کہ مدینہ منورہ کے باشندوں کو یہ علم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ منورہ تشریف لا رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے قریب پہنچنے ہی والے ہیں۔
یہ معلوم ہوتے ہی مدینہ کے مرد و زن اور بچے اور بوڑھے سب گھروں سے باہر نکل آئے ، تاکہ وہ اپنے معزز اور جلیل القدر مہمان کا استقبال کر سکیں اور انہیں آگے بڑھ کر نہایت عمدہ انداز میں خوش آمدید کہنے کی سعادت حاصل کر سکیں۔
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا بھی اس تاریخی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کا شرف حاصل کرنے سے پیچھے نہ رہیں ۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں خواتین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے کی سعادت کر لینے کے بعد اپنے گھریلو کاموں کی طرف توجہ دی ۔ اپنےبیٹے ثابت بن قیس کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہوئے اس کی تربیت میں مگن ہو گئیں۔
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا مسلم خواتین کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہونے اور آپ کی زبان مبارک سے احادیث سننے کا شرف حاصل کرنے لگیں۔ انہوں نے اس میدان میں اپنی محنت سے احادیث کے راوی ہونے کا شرف حاصل کر لیا اور پھر ان سے عمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی نے احادیث روایت کرنے کا شرف حاصل کیا ۔
اے حواء رضی اللہ عنہا اللہ تعالی نے تمھارے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کیا اور تجھے ہدایت سے سر فراز کیا ۔
اللہ تعالی نے اپنے دین کی نشرو اشاعت کے لئے تجھے باقی رکھا ۔۔
اے حواء رضی اللہ عنہا اللہ تعالی تمہارے راستے سے تمہارے خاوند کو دور ہٹا دیا جس نے تجھے اذیت دی تھی ۔۔
اے حواء رضی اللہ عنہا! اگر تیرا خاوند قیس تمہاری باتوں کو سن لیتا اور اگر سمجھ دار ہوتا تو تمہارے نقش قدم پر چلتا
ارشاد باری تعالی ہے: سوره الملك
🌷وَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ عَذَابُ جَہَنَّمَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۶﴾
"اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے ۔"
🌷اِذَاۤ اُلۡقُوۡا فِیۡہَا سَمِعُوۡا لَہَا شَہِیۡقًا وَّ ہِیَ تَفُوۡرُ ۙ﴿۷﴾
"جب اس میں یہ ڈالے جائیں گے تو اس کی بڑے زور کی آوازیں سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہوگی ۔"
🌷تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ کُلَّمَاۤ اُلۡقِیَ فِیۡہَا فَوۡجٌ سَاَلَہُمۡ خَزَنَتُہَاۤ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَذِیۡرٌ ﴿۸﴾
"قریب ہے کہ ( ابھی ) غصے کے مارے پھٹ جائے جب کبھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا اس سے جہنم کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والا کوئی نہیں آیا تھا؟"
اے حواء رضی اللہ عنہا تم نے اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے تقوی کو پسند کیا تمہارے اس انتخاب پر مبارک ہو اللہ سبحانہ و تعالی نے تجھ جیسی قابل قدر ہستیوں کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: سورہ القمر
🌷اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَہَرٍ ﴿ۙ۵۴﴾
"یقیناً ہمارا ڈر رکھنے والے جنتوں اور نہروں میں ہونگے ۔"
🌷فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ ﴿۵۵﴾٪
" راستی اور عزت کی بیٹھک میں قدرت والے بادشاہ کے پاس ۔"
اے حواء رضی اللہ عنہا! آپ نے اپنی دنیا میں رب العزت کو راضی کیا، عنقریب وہ آپ کو اپنی آخرت میں راضی کریگا ۔
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا پوری زندگی اپنے رب العزت اور دین اسلام کی وفادار رہیں اور مسلسل اس وفا کو نبھاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور انہیں اپنی رضا سے نوازے ۔۔
۔۔آمین یا رب العالمین۔۔۔
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>تمت باذن اللہ تعالی
تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments