سیرت النبی ﷺ
﷽
🔴 آفتاب رسالتﷺ کا طلوع۔ 🔴
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں پیدا ہوئے مکہ بت پرستی کا مرکز اعظم تھا، خود کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا تمغۂ امتیاز صرف اس قدر تھا کہ اس صنم کدہ کے متولی اور کلید بردار تھے، با ایں ہمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا، دیگر رسوم جاہلیت میں کبھی بھی شرکت نہیں کی قریش نے اس بات پر کہ ان کو عام لوگوں سے ہر بات میں ممتاز رہنا چاہیے یہ قاعدہ قرار دیا تھا کہ ایام حج میں قریش کے لئے عرفات جانا ضروری نہیں اور یہ کہ جو لوگ باہر سے آئیں ، وہ قریش کا لباس اختیار کریں، ورنہ ان کو عریاں ہوکر کعبہ کا طواف کرنا ہو گا۔ چنانچہ اسی بنا پر طواف عریاں کا عام رواج ہو گیا تھا، لیکن انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں میں بھی اپنے خاندان کا ساتھ نہ دیا۔
عرب میں افسانہ گوئی کا عام رواج تھا۔ راتوں کو لوگ تمام اشغال سے فارغ ہو کر کسی مقام میں جمع ہوتے تھے، ایک شخص جس کو اس فن میں کمال ہوتا تھا ، داستان شروع کرتا تھا، لوگ بڑے
ذوق و شوق سے رات رات بھر سنتے تھے بچپن میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جلسہ میں شریک ہونا چاہا تھا، لیکن اتفاق سے راہ میں شادی کا کوئی جلسہ تھا، دیکھنے کے لئے کھڑے ہو گئے ، وہیں نیند آگئی، اٹھے تو صبح ہو چکی تھی۔ ایک دفعہ اور ایسا ہی اتفاق ہوا، اس دن بھی وہی اتفاق پیش آیا، چالیس برس کی مدت میں صرف دو دن اس قسم کا ارادہ کیا لیکن دونوں دفعہ توفیق الہی نے بچا لیا کہ تیری شان ان مشاغل سے بالاتر ہے۔
فطرت سلیم اور نیک سرشتی کا اقتضا تھا، لیکن ایک شریعت کبری کی تاسیس، ایک مذہب کامل کی تشیید اور راہنمائی کونین کے منصب عظیم کے لئے کچھ اور درکار تھا، اسی زمانہ کے قریب میں اور حق پرستوں (ورقہ ، زید، عثمان بن حویرث) کے دل میں خیال آیا کہ جماد لا یعقل کے آگے سر جھکانا حماقت ہے، چنانچہ سب مذہب حق کی تلاش کے لئے نکلے لیکن ناکامی کی دیوار سے سر ٹکرا ٹکرا کر رہ گئے ۔ ورقہ اور عثمان عیسائی ہو گئے اور زید یہ کہتے کہتے مر گئے اے خدا ! اگر مجھ کو یہ معلوم ہوتا کہ تجکو کس طریقہ سے پوجنا چاہئے تو میں اسی طریقہ سے تجھ کو پوجتھا۔‘‘
انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے دنیاوی تعلقات تھے، تجارت کا کاروبار تھا ، متعدد اولادیں تھیں، تجارت کی ضرورت سے اکثر سفر کرنا پڑتا تھا، لیکن دست قدرت کو جو کام لینا تھا ، وہ ان تمام مشاغل سے بالاتر تھا۔ دنیا اور دنیا کے تمام کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آتے تھے ، تاہم مطلوب حقیقی کا اب تک پتہ نہ تھا۔
مکہ معظمہ سے تین میل پر ایک غار تھا، جس کو حرا کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہینوں وہاں جاکر قیام فرماتے اور مراقبہ کرتے، کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے ، وہ ختم ہوجاتا تو پھر گھر پر تشریف لاتے اور پھر واپس جا کر مراقبہ میں مصروف ہوتے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تحنث یعنی عبادت کیا کرتے تھے، یہ عبادت کیاتھی؟ عینی شرح بخاری ( ج ١ ص: ٧٢) میں ہے:
"قیل ماكان صفة تعبده اجيب بأن ذلك كان بالتفكر والاعتبار"
یہ سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا تھی؟ جواب یہ ہے کہ غور وفکر اور عبرت پذیری۔
یہ عبادت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا ابراہیم نے نبوت سے پہلے کی تھی ۔ ستاروں کو دیکھا تو چونکہ تجلی کی جھلک تھی، دھوکا ہوا، چاند نکلا تو اور بھی شبہ ہوا، آفتاب پر اس سے زیادہ لیکن جب سب نظروں سے غائب ہو گئے تو بے ساختہ پکار اٹھے:
" لا أحب الأفلين............ اني وجهت وجهي للذی فطر السموت والأرض "
(6/ الأنعام: ۷۷ تا ۸۰)
میں فانی چیزوں کو نہیں چاہتا میں اپنا منہ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین و آسمان پیدا کیا ۔‘‘
ایک مغربی مؤرخ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عبادت کی کیفیت اس طرح ادا کی ہے:
"سفر و حضر میں ہر جگہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ہزاروں سوال پیدا ہوتے تھے، میں کیا ہوں؟ یہ غیر متناہی عالم کیا ہے؟ نبوت کیا شے ہے؟ میں کن چیزوں کا اعتقاد کروں؟ کیا کوہ حرا کی چٹانیں ، کوہ طور کی سر بفلک چوٹیاں، کھنڈر اور میدان کسی نے ان سوالوں کا جواب دیا، نہیں ہرگز نہیں ! بلکہ گنبد گرداں گردش لیل و نہار، چمکتے ہوئے ستارے، برستے ہوئے بادل ، کوئی ان سوالوں کا جواب نہ دے سکا ۔
نبوت کا دیباچہ یہ تھا کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اسرار منکشف ہونے شروع ہوئے، جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں دیکھتے تھے بعینہ وہی پیش آتا تھا، ایک دن جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسب معمول غار حرا میں مراقبہ میں مصروف تھے فرشتۂ غیب نظر آیا کہ آپ سے کہہ رہا ہے
( اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق، اقرأ وربك الأكرم الذی علم بالقلم، علم الانسان ما لم یعلم) . (۹٦ العلق:۱ تاه)
"پڑھ اس خدا کا نام جس نے کائنات کو پیدا کیا، جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ تیرا خدا کریم ہے، وہ جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا، وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو جلال الہی سے لبریز تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے تمام واقعہ بیان کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو عبری زبان جانتے تھے اور توریت و انجیل کے ماہر تھے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ کی کیفیت سنی تو کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسی پر اترا تھا۔
روایت میں ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈر پیدا ہوا! حضرت خدیجہ نے کہا کہ آپ متردد نہ ہوں، خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا‘‘ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ کے پاس لے گئیں، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بے شبہ یہ الفاظ نکلے مجھ کو ڈر ہے، لیکن یہ تردد، یہ ہیبت، یہ اضطراب ، جلال الہی کا تاثر ( اور نبوت کے بارگراں کی عظمت کا تخیل تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دیکھا؟ ناموس اعظم نے کیا کہا؟ کیا کیا مشاہدات ہوئے؟ یہ وہ نازک باتیں ہیں جو الفاظ کا تحمل نہیں کرسکتیں۔
صحیح بخاری ، کتاب التعبیر میں ہے کہ چند روز تک جب وہمحی رک گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے تھے کہ اپنے آپ کو گرادیں، دفعتا حضرت جبریل نظر آتے تھے اور کہتے تھے:”اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تم واقعی خدا کے پیغمبر ہو۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تسکین ہو جاتی تھی لیکن جب پھر وحی کچھ دنوں کے لئے رک جاتی تھی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنے آپ کو گرادینا چاہتے تھے اور پھر حضرت جبرائیل نمایاں ہوکر تسکین دیتے کہ آپ واقعی خدا کے پیغمبر ہیں۔
حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے حصہ اول کی شرح میں معترضین کا یہ اعتراض نقل کیا ہے کہ ایک پیغمبر کو نبوت میں کیوکر شک ہوسکتا ہے اور ہو تو کسی عیسائی کے تسکین دینے سے کیا تسکین ہوسکتی ہے۔ پھر ایک مشہور محدث کا یہ جواب نقل کیا ہے کہ نبوت ایک امر عظیم ہے، اس کا تحمل دفعتا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے پہلے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب کے ذریعہ سے مانوس کیا گیا، پھر جب دفعه فرشتہ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اقتضائے بشریت سے خوف زدہ ہو گئے ، حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین دی، پھر جب ورقہ نے تصدیق کی تو آپ کو پورا یقین ہوگیا محدث مذکور کے الفاظ یہ ہیں:
"فلما سمع كلامه أيقن بالحق واعترف به"
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ کا کلام سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعتراف کیا۔
محدث مذکور اس کے بعد لکھتے ہیں کہ وحی بار بار اس لئے رک جاتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفتہ رفتہ اس کے برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں ‘‘
لیکن جب کہ ترمذی میں یہ حدیث موجود ہے کہ نبوت سے پہلے سفر شام میں (مقام بصری) جس درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے اس کی تمام شاخیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک ائیں جس سے بحیرا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا یقین کیا۔ جبکہ صحیح مسلم میں یہ حدیث ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو نبوت سے پہلے مجھ کو سلام کیا کرتا تھا۔ جب کہ صحاح میں موجود ہے کہ نبوت سے پہلے فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا اور جسمانی الائش نکال کر پھینک دی‘‘ تو خود ان روایتوں کے روایت کرنے والے کیونکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فرشتہ کا نظر آنا ایسا واقعہ تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خوفزدہ ہو جاتے تھے کہ ایک دفعہ تسکین ہوکر بھی بار بار اضطراب ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو پہاڑ پر سے گرا دینے کا ارادہ کرتے تھے اور بار بار حضرت جبرائیل کو اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی تھی، کیا اور کسی پیغمبر کو بھی ابتدائے وحی میں بھی شک ہوا تھا۔ حضرت موسی) نے درخت سے آواز سنی کہ میں خدا ہوں تو کیا ان کو کوئی شبہ پیدا ہوا؟
حافظ ابن حجر وغیرہ کی پیروی کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں ، ہم کو پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ خود اصل روایت بسند مرفوع متصل ہے، یا نہیں، یہ روایت امام زہری کے بلاغات میں سے ہے، یعنی سند کا سلسلہ زہری تک ختم ہو جاتا ہے اور آگے نہیں بڑھتا، چنانچہ خود شارحین بخاری نے تصریح کر دی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے عظیم الشان واقعہ کے لئے سند مقطوع کافی نہیں۔
صرف تبلیغ دعوت پر اکتفا فرمائیں، یا حضرت موسی کی طرح اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل جائیں تو مشکل نہ تھی۔ لیکن خاتم انبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا کام خود سلامت رہ کر عرب اور نہ صرف عرب بلکہ تمام عالم کو فروغ اسلام سے منور کر دینا تھا اس لئے نہایت تدبیر اور تدریج سے کام لینا پڑا، سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ پرخطر راز پہلے کسی کے سامنے پیش کیا جائے ، اس کے لئے صرف وہ لوگ انتخاب کئے جا سکتے تھے جو فیض یاب صحبت رہ چکے تھے، جن کو آپس کے اخلاق و عادات کی تمام حرکات و سکنات کا تجربہ ہو چکا تھا، جو پچھے تجربوں کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق دعوی کا حتمی فیصلہ کر سکتے تھے، یہ لوگ حضرت خدیجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم تھیں، حضرت علی تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش تربیت میں پلے تھے، زید تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور بنده خاص تھے۔ حضرت ابو بکر تھے جو برسوں سے فیضیاب خدمت
تھے۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیہ کو یہ پیغام سنایا وہ سنے سے پہلے مومن تھیں، پھر اور بزرگوں کی باری آئی اور سب ہمہ تن اعتقاد تھے۔
حضرت ابو بکر دولت مند، ماہر انساب، صاحب الرائے اور فیاض تھے، ابن سعد نے لکھا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے، غرض ان اوصاف کی وجہ سے مکہ میں ان کا عام اثر تھا اور معززین شہر ان سے ہر بات میں مشورہ لیتے تھے، ارباب روایت کا بیان ہے کہ کبار صحابہ میں
سے حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص فاتح ایران، حضرت طلحہ ، یہ سب انہی کی ترغیب اور ہدایت سے اسلام لائے ۔ ان کی وجہ سے یہ چرچا چپکے چپکے اور لوگوں میں بھی پھیلا اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، ان سابقین اولین میں عمار، خباب بن الارت، حضرت عثمان ، عبدالرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص، طلحه ، ارقم، سعید بن زید، عبد اللہ بن مسعود ، عثمان بن مظنون ، عبیدہ اور صہیب روی زیادہ ممتاز ہیں۔
لیکن جو کچھ ہوا پوشیدہ طور پر ہوا۔ نہایت احتیاط کی جاتی تھی کہ محرمان خاص کے سوا کسی کو خبر نہ ہونے پائے، جب نماز کا وقت آتا تو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی پہاڑ کی گھاٹی میں چلے جاتے اور وہاں نماز ادا کرتے۔ ابن الاثیر کا بیان ہے کہ چاشت کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرم ہی میں ادا کرتے تھے، کیونکہ یہ نماز قریش کے مذہب میں بھی جائز تھی۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کے ساتھ کی درہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب آنکلے ، ان کو اس جدید طریقہ عبادت پر تعجب ہوا، کھڑے ہو گئے اور بغور دیکھتے رہے، نماز کے بعد پوچھا کہ یہ کون سا دین ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے دادا ابراہیم کا یہی دین تھا۔ ابوطالب نے کہا: میں اس کو اختیار تو نہیں کر سکتا لیکن تم کو اجازت ہے اور کوئی شخص تمہارا مزاحم نہ ہو سکے گا۔
یہ تاریخ اسلام کا ایک بڑا اہم مسئلہ ہے کہ اسلام کیونکر پھیلا ؟ مخالفین نے اس کا ذریعہ تلوار بتایا ہے۔ اس مسئلہ پر مفصل بحث کتاب کے دوسرے حصوں میں آئے گی لیکن ایک خاص پہلو پر یہیں نگاہ ڈال لینی چاہے یعنی یہ کہ اوائل اسلام میں جب کہ اسلام لانا جان و مال سے ہاتھ دھونا تھا، کون لوگ اور کس قسم کے لوگ ایمان لائے؟
اس زمانہ میں جو لوگ اسلام لائے ، ان میں چند خصائص مشترک تھے، اسی قسم کے (لیکن بالعکس) مشترک خصائف ان لوگوں میں بھی پائے جاتے تھے، جنہوں نے شدت سے مخالفت کی، چنانچہ تفصیل آگے آتی ہے:
① اکثر وہ لوگ اسلام لائے جو پہلے سے تلاش میں سر گرداں اور فطرۃ نیک طبع اور پاکیزہ اخلاق تھے۔ مثلا:
حضرت ابوبکر جاہلیت میں بھی عفیف، پارسا اور صدق و دیانت میں مشہور تھے۔
عثمان بن مظعون صوفی مزاج تھے اور اسلام سے پہلے شراب چھوڑ چکے تھے۔ اسلام کے بعد چاہتے تھے کہ راہب بن جائیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ۔
صہیب عبد الله بن جدعان کے تربیت یافتہ تھے جو اسلام سے پہلے تارک شراب ہو کر وفات پا چکے تھے،
حضرت ابوذر جن کا اسلام لانے والوں میں چھٹا یا ساتواں نمبر تھا، ان کے اسلام لانے کا واقعہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے بت پرستی چھوڑ چکے تھے اور غیر متعین طریقہ سے جس طرح ان کے ذہن میں آتا تھا، خدا کا نام لیتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، جب انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال سنا تو اپنے بھائی کو بھیجا کہ یہ خبر لائیں ، وہ مکہ میں آئے اور انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قرآن مجید کی سورتیں سنیں واپس جا کر ابوذر سے کہا کہ ”میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کو لوگ مرتد کہتے ہیں۔ وہ مکارم اخلاق سکھاتا ہے اور جو کلام سناتا ہے وہ شعر نہیں کوئی اور چیز ہے تمہارا طریقہ اس سے بہت ملتا جلتا ہے۔‘ ابوذر کو تسکین نہیں ہوئی اور خود مکہ آئے زبان مبارک سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا اور اسلام قبول کیا۔ وہ تمام عمر دنیاوی تعلقات سے الگ رہے، ان کا عقیدہ تھا کہ جو شخص زر و مال جمع کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ۔ چنانچہ اس بنا پر حضرت عثمان نے اپنے زمانہ میں ان کو مدینہ سے دور بھیج دیا تھا۔
② بعض صحابہ ایسے تھے جو احناف کے تربیت یافتہ تھے یعنی وہ لوگ جو زمانہ اسلام سے پہلے بت پرستی ترک کر چکے تھے اور اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کا پیرو کہتے تھے لیکن اس اجمالی اعتقاد کے سوا اور کچھ نہیں جانتے تھے اور اس لئے تلاش میں سرگرداں تھے۔ انہی میں زید بھی تھے، جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے، انہوں نے تو انحضرت صلى الله عليه وسلم کی بعثت سے پانچ برس پہلے وفات پاگئی ، لیکن ان کےصاحب زادے سعید موجود تھے۔ وہ باپ کے ارشادات سن چکے تھے، انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو ان کو وہ راہنما ہاتھ آگیا جس کی جستجو میں ان کے باپ دنیا سے چلے گئے اور وہ اب تک سرگشتہ تھے۔
③ یہ امر سب میں مشترک تھا کہ یہ لوگ قریش کے مناصب اعظم میں سے کوئی منصب نہیں رکھتے تھے، بلکہ اکثر ایسے تھے مثلا : عمار، خباب، ابوفکیہ ، صہیب رضی اللہ عنھم وغیرہ جن کو دولت و جاہ کے دربار میں جگہ بھی نہیں مل سکتی تھی، چنانچہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو لے کر حرم میں جاتے تو روسائے قریش ہنس کر کہتے:
( الهؤلاء من الله عليهمین بینام (٦/الأنعام:۵۳)
"یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے ہم لوگوں کو چھوڑ کر احسان کیا ہے۔“
کفار کے نزدیک ان کا افلاس ان کی تحقیر کا سبب تھا لیکن یہی چیز تھی جس کی وجہ سے ایمان کی دولت سب سے پہلے ان ہی کے ہاتھ آ مسکتی تھی ، دولت و مال ان کے دلوں کو سیاہ نہیں کر چکا تھا۔ فخر و غرور ان کو اختیار
سے روک نہیں سکتا تھا۔ ان کو یہ ڈر نہ تھا کہ اگر بت پرستی چھوڑ دیں گے تو کعبہ کا کوئی منصب عظیم ہاتھ سے جاتا رہے گا، غرض ان کے دل ہر قسم کے زنگ سے پاک تھے اور حق کی شعاعیں ان پر دفعته پرتوافگن ہو سکتی تھیں، یہی سبب ہے کہ انبیا کے ابتدائی پیروکار ہمیشہ نادار اور مفلس لوگ ہوتے تھے۔ عیسائیت کے ارکان اولین ماہی گیر تھے۔ حضرت نوح کے مقربین خاص کی نسبت کفار کو علانیہ کہنا پڑا:
{ وما نريك اتبعك إلا الذين هم اراذلنا بادى الرأي. وما نری لکم علينا من فضل بل نظنکم کاذبین} (۱۱/ هود:۲۷)
"اور ہم تو بظاہر یہ دیکھتے ہیں کہ تیری پیروی انہی لوگوں نے کی جو رذیل ہیں اور ہم تو تم میں کوئی برتری نہیں پاتے بلکہ ہمارا تو یہ خیال ہے کہ تم سب جھوٹے ہو‘‘
یہ سابقین اسلام جس قسم کا راسخ ایمان لائے تھے اس کی تفصیل آگے آتی ہے جس سے ظاہر ہوگا کہ قریش کی سخت خون خواریاں، جور و ظلم کے شدائد، دولت و مال کی انتہائی ترغیبیں ، کوئی چیز ان کو متزلزل نہ کرسکی اور آخر انہی کمزور ہاتھوں نے قیصر و کسری کا تخت الٹ دیا۔
تین برس تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت راز داری کے ساتھ فرض تبلیغ ادا کیا لیکن اب آفتاب رسالت بلند ہو چکا تھا، صاف حکم آیا
{ فاصدع بما تؤمر } (١٥/ الحجر: ۹٤)
اور تجھ کو حکم دیا گیا ہے واشگاف کہہ دے۔
اور نیز حکم ایا:
{ وانذر عشيرتك الأقربين } (٢٦/ الشعرآء: ۲۱٤ )
"اور اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو خدا سے ڈرا‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر پکارا "یامعشر القريش!" لوگ جمع ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر آرہا ہے تو تم کو یقین آئے گا؟“ سب نے کہا: ہاں۔ کیونکہ تم کو ہمیشہ سے ہم نے سچ بولتے دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر عذاب شدید نازل ہوگا‘۔ یہ سن کر سب لوگ جن میں ابولہب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا بھی تھا سخت برہم ہو کر واپس چلے گئے ۔
چند روز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے کہا کہ دعوت کا سامان کرو۔ یہ در حقیقت تبلیغ اسلام کا پہلا موقعہ تھا، تمام خاندان عبد المطلب مدعو کیا گیا، حمزہ، ابو طالب، عباس سب شریک تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے بعد کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں وہ چیز لے کر آیا ہوں جو دین اور دنیا دونوں کی کفیل ہے، اس بار گراں کے اٹھانے میں کون میرا ساتھ دے گا‘‘ تمام مجلس میں سناٹا تھا، دفعته حضرت علی نے اٹھ کر کہا اگر مجھ کو آشوب چشم ہے۔ گو میری ٹانگیں پتلی ہیں اور گو میں سب سے نو عمر ہوں ، تاہم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دوں گا ۔‘‘
قریش کے لئے یہ ایک حیرت انگیز منظر تھا کہ دو (جن میں ایک سیزده سالہ نوجوان ہے ) دنیا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں، حاضرین کو بے ساختی ہنسی آگئی لیکن آگے چل کر زمانے نے بتایا کہ یہ سراپا سچ تھا۔
اب مسلمانوں کی ایک معتد بہ جماعت تیار ہوئی تھی جن کی تعداد چالیس سے زیادہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان کیا ۔ کفار کے نزدیک یہ جرم کی سب سے بڑی توہین تھی، اس لئے دفعتہ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور ہر طرف سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب حضرت حارث بن ابی ہالہ گھر میں تھے، ان کو خبر ہوئی، دوڑے ہوئے آئے اور انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانا چاہا لیکن ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑیں اور وہ شہید ہو گئے ، اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جس سے زمین رنگین ہوئی۔
≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠
0 Comments