*السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه*
*حيات صحابہ اكرام رضي الله عنهم*
قسط2۔۔۔۔۔
لیکن اس نوجوان سعیدبن عامر رضی اللہ عنہ کے پردہ دل سے ایک لحظہ کے لئے بھی حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر محو نہ ہوا۔
چنانچہ یہ جب بھی سوتے خواب میں یہ منظر برابر دکھائ دیتا اور بیدار ہوتے تو چشم خیال میں یوں محسوس ہوتا جیسے کہ تختہ دار کے آگے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ پورے اطمینان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کر رہے ہیں. یہی نہیں بلکہ ان کی پردرد آواز جیسے ان کے کانوں میں گونج رہی ہے اور وہ قریش کے خلاف بد دعا میں مصروف ہیں اور اس خیال سے ان کا کلیجہ دہل جاتا ہےکہ کہیں آسمان کا کڑکا ان کو آنہ لے یا آسمان سے پتھر گر کر ان کو تباہ نہ کر دیں.
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کر کے جناب سعید کو وہ کچھ سکھا دیا جس کا انہیں پہلے قطعی علم نہ تھا.
انہوں نے سکھایا کہ حقیقی زندگی عقیدہ اور عقیدے کی راہ میں تادم آخر مسلسل جہاد کرنے کا نام ہے.
دوسری بات جو اس واقعہ سے انہوں نے سیکھی وہ یہ تھی کہ پختہ و محکم ایمان ایسے عجیب و غریب کردار کو جنم دے سکتا ہے جو عام حالات میں ظہور پذیر نہیں ہوتے.
علاوہ ازیں انہیں اس حقیقت کا بھی احساس ہوا کہ وہ شخص جس سے اس کے رفقاء اس درجہ محبت رکھتے ہیں کہ اس پر جان نچھاور کردیں ۔
بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالی نے سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ، چنانچہ بر سر مجمع یہ اعلان کر دیا کہ میں سر تسلیم خم کرتا ہوں . میں آج سے مسلمان ہوں...
حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے مکہ کی سکونت ترک کر کے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت اور صحبت میں رہنے لگے۔
خیبر اور اس کے بعد ہونے والے غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کے جوار رحمت کی طرف کوچ کیا ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان کی خدمات کی وجہ سے خوش تھے۔
آپ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ برہنہ شمشیر بن کر رہے. اور ایسی زندگی بسر کی جو مسلمانوں کے لیے کردار کا نادر نمونہ ثابت ہوئ ۔
جنہوں نے دنیا کو بیچ کر آخرت کا سودا کیا اور اللہ تعالی کی رضا جوئ کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں راجح اور مقدم جانا..
رسول اقدس صلي اللہ علیہ و سلم کے یہ دونوں خلفاء حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کی صداقت اور تقوی کو خوب جانتے تھے.
لہذا ان کی نصیحتوں کو غور سے سنتے اور ان کی ہر بات پر کان دھرتے.
جناب سعید بن عامر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت تشریف لائے جبکہ وہ مسند خلافت پر فروکش ہوئے ہی تھے.
آپ نے فرمایا : اے عمر رضی اللہ عنہ میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ لوگوں کے معاملہ میں اللہ تعالی سے ڈر تے رہنا اور اللہ تعالی کے بارے میں لوگوں سے کبھی نہ ڈرنا اور یہ کہ تمہارے قول اور فعل میں تضاد کبھی نہ ہو نا چاہئے .
اس لئےکہ انسان کی بہترین گفتار وہی ہوتی ہے. جس کی تصدیق اس کا کردار کرے.
اے عمر رضی اللہ عنہ !
اللہ سبحانہ وتعالی نے جن مسلمانوں کا تمہیں نگران بنایا ہے .ان کے معاملات کی طرف خصوصی دھیان دیتے رہنا.
اللہ سبحانہ وتعالی نے جن مسلمانوں کا تمہیں نگران بنایا ہے .ان کے معاملات کی طرف خصوصی دھیان دیتے رہنا.
ان کیلئے وہی پسند کرنا جو خود تمہیں اپنے اور اپنی اولاد کی لیے پسند ہو.
اور ان کے لیے ہر اس چیز کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھنا جو خود تمہیں اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے لیے نا پسندیدہ ہو.
شدائد کا سامنا کرنے سے نہ گھبرانا اور راہ حق پر مضبوطی سے جمے رہنا اور حق کی راہ میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہ لانا.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
سعید رضی اللہ عنہ ! بھلا کس میں یہ ہمت ہے کہ ان ذمہ داریوں سے عہد برآ ہو سکے؟
سعید رضی اللہ عنہ ! بھلا کس میں یہ ہمت ہے کہ ان ذمہ داریوں سے عہد برآ ہو سکے؟
سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
آپ اس کے اہل ہیں. آپ ان لوگو ں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالی نے امت محمدیہ صلي اللہ علیہ و سلم کی نگرانی کا فریضہ سونپا.
1 Comments
An episode will be shared daily,