صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔
اللہ رب العزت نے فرمایا:
محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
اور اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ میرے بعد سب سے بہترین دور میرے صحابہ کا دور ہے ۔
ہم ان شاءاللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زندگی کے حالات و واقعات پر ایک تفصیلی سیرت شروع کر رہے ہیں ۔
روزانہ ایک قسط شیئرکی جائے گی، آپ خواتین و حضرات سے گزارش ہے کہ خود بھی مطالعہ کریں اور دوسروں کے ساتھ بھی شیئرکریں ۔
اللہ ہم سب کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
*حضرت عبداللہ بن حذافہ السہمی ( رضی اللہ عنہ)*
*ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کے سر کا بوسہ دے اور میں اس کی ابتداء کرتا ہوں-* *(ارشاد حضرت فاروق*
*اعظم رضی اللہ عنہ )*
ہماری داستان کے بطل جلیل صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم) میں سے وہ عظیم المرتبت صحابی ہیں- جنہیں عبداللہ بن حذافہ السہمی ( رضی اللہ عنہ) کے نام نامی سے یاد کیا جاتا ہے-
تاریخ کے لئے ممکن تھا کہ وہ ان کے بارے میں تغافل شعاری کا وہی سلوک روا رکھتی ،جیسا کہ ہزاروں انسانوں کے بارے میں اس نے روا رکھا، لیکن اسلامی انقلاب نے حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کو موقع عطا کیا کہ اس دور کی دو بڑی طاقتوں سے ملیں یعنی قیصر روم اور شہنشاہ ایران-
ان سے مل کر ایسی داستان کو جنم دیں جو زمانہ کے حافظہ اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ محفوظ رہے-
فارس کے بادشاہ کسری سے عبداللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کی ملاقات چھ ہجری کو ہوئ جب نبی اکرم ﷺ نے عجمی بادشاہوں اسلام کا پیغام دینے کی خاطر خطوط دے کر صحابہ کرام کو وفود کی شکل میں مختلف ممالک کی طرف بھیجا-
رسول اللہ ﷺ کو اس مشن کہ اہمیت کا پہلے سے اندازہ تھا. یہ قاصد ایسے دوردراز ممالک کی طرف روانہ ہو رہے تھے جن کے بارے میں ان کا کوئ تجربہ اور علم نہ تھا- صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم) نہ تو ان ممالک کی زبان سے آشنا تھے اور نہ آداب شاہی اور مزاج شاہانہ کے محرم راز ہی تھے-
اس سے بڑھ کر طرہ یہ کہ ان کی دعوت کا مقصد بادشاہوں کو اپنا اختیار کر دہ دین ترک کرنے، سلطانی و حکمرانی سے دستبردار ہونے کا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر آمادہ کرنا تھا-
مہم بذات خود بہت خطرناک تھی. اس کے معنی تھے کہ اس مہم پر جانے والا ہتھیلی پر جان رکھ کر جائے اور جب کامیابی سے لوٹ آئے تو یوں سمجھے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہے-
معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم ) کو جمع کیا اور اللہ سبحانہ و تعالی کی حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا:
میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے بعض حضرات کو تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں شاہان عجم کی طرف روانہ کروں-
لیکن خبردار! تمھاری جانب سے اس معاملے کی وہ نوعیت نہ پیدا ہونے پائے جو حضرت عیسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے مابین رونما ہوئ تھی-
اس کے جواب میں صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم) نے یک زباں ہو کر عرض کیا:
یا رسول اللہ ﷺ !
ہم آپ کے حکم کی بہر حال تعمیل کریں گے اور آپ کی منشاء کے مطابق فرائض پوری ذمہ داری سے سر انجام دیں گے- آپ جہاں چاہیں ہمیں بھیج دیں-
آنحضرت ﷺ نے ان میں سے چھ صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم) کا انتخاب کیا کہ ملوک عرب اور شاہان عجم کی طرف دعوتی خطوط لے کر جائیں-
ان چھ میں سے ایک حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) بھی تھے جو رسول اللہ ﷺ مکتوب گرامی لے کر فارس کے بادشاہ کسری کی طرف روانہ ہوئے-
حضرت عبداللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) نے اپنی سواری تیاری کی بیوی بچوں کو الوداع کہا اور تنہا صحراؤں اور میدانوں کو طے کرتے ہوئے سر زمین فارس میں پہنچے-
بادشاہ سے ملاقات کی اجازت طلب کی اور درباریوں و مکتوب گرامی کہ اہمیت سے آگاہ کیا-
اس مرحلہ پر شاہ ایران نے ان کی آمد کی خبر سن کر شاہی دربار کو آراستہ کر نے کا حکم دے دیا اور اس سلسلہ میں ایک خصوصی اجلاس طلب کر لیا اور زعمائے فارس کو اس اجلاس میں شریک ہو نے کا حکم دیا-
اس اہتمام کے بعد حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کو دربار میں آنے کی اجازت دی-
حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) شاہ ایران کے دربار کی کیفیت سے در آئے کہ انہوں نے ایک معمولی چادر زیب بدن کر رکھی تھی
جس سے عربوں کی سادگی صاف طور پرجھلک رہی تھی-
آپ کا سر بڑا اور جسم گھٹا ہوا تھا۔
اسلام کی عزت ووقار کے شعلے دل میں بھڑک رہے تھے اور اسی طرح ایمان کی عظمت و بلندی دل کی گہرائیوں میں دمک رہی تھی اور کسریٰ نے جب انہیں اپنی طر ف آتے ہوئے دیکھا تو حاشیہ نشینوں میں سے ایک کواشارہ کیا کہ وہ ان سے خط پکڑیں ۔
ایوان میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر جب ان سے خط لینا چاہا تو آپ نے فرمایا:
یہ نہیں ہوسکتا. رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ خط براہ راست کسریٰ کے ہاتھ میں تھماؤں۔ میں رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کی جرآت ہرگز نہیں کر سکتا۔
یہ دیکھ کر کسریٰ نے حکم دیا! اسے چھوڑدو اور میرے پاس آنے دو۔
جب حضرت عبداللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کسریٰ کے قریب آئے تو اس نے آپ کے ہاتھ سے خط وصول کیا اور اہل حیرہ کے عربی ترجمان سے کہا کہ اس خط کو کھولے اور اس کے مندرجات پڑھ کر مجھے سنائے۔
یہ پیغام محمد ﷺ اللہ تعالی کے رسول کی جانب سے عظیم فارس کسریٰ کے نام۔ سلامتی کا استحقاق اس کو ہے جو ہدایت کی راہ پر چلا۔
کسریٰ نے ابھی خط کے ابتدائ الفاظ ہی سنے تھے کہ اس کے سینے میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی۔ چہرہ سرخ ہو گیا اور گردن کی رگیں پھول گئیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خط میں اپنا نام پہلے لکھا تھا اور اس کا بعد میں۔
کسریٰ نے مغلوب الغضب ہو کر خط چھین لیا اور اسے پرزے پرزے کر دیا اور بغیر یہ جانے کہ خط میں کیا لکھا ہے۔
چیخ کر یوں گویا کہ میرا غلام ہو کر اسے یہ جرات کیسے ہوئ کہ مجھے اس طرح مخاطب کرے؟
پھر حکم دیا کہ حضرت عبداللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کو میرے دربار سے نکال باہر کیا جائے چنانچہ ان کو دربار سے نکال دیا گیا۔
حضرت بن حزافہ ( رضی اللہ عنہ) ایوان کسریٰ سے نکل کر چل دئیے- انہیں کہیں کچھ علم نہ تھا کہ اب ان کے ساتھ قضا و قدر کیا سلوک روا رکھنے والی ہے- انہیں قتل کردیا جائے گا یا انہیں آزاد چھوڑدیا جائے گا-
اس پر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ کہہ اٹھے.
بخدا! آنحضرت ﷺ کا خط پہنچا دینے کے بعد مجھے اس بات کی کوئ پرواہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائےگا یہ کہہ کر اونٹنی پر سوار ہوئے اور چل دیئے-
جب کسریٰ کا غصہ تھما تو اس نے درباریوں کوحکم دیا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کو میرے پاس دوبارہ پیش کیا جائے- انہوں نے ہر چند تلاش کیا مگر کہیں بھی آپ کاسراغ نہ ملا-
آخر میں انہیں اتنا پتہ چلا کہ وہ جزیرۃ العرب سے نکل کر کہیں آگے چلے گئے ہیں-
جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ اس نے آپ کے گرامی نامہ کو پھاڑ کر پھینک دیا تھا-
اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالی اس کی قبائے اقتدار کے پرزے اڑادے-
ادھرکسریٰ نے یمن میں اپنے نائب باذان نامی جرنیل کو حکم دیا کہ حجاز میں جس شخص نے نبوت کا اعلان کیا ہے- اسے گرفتار کر نے کے لئے فوراً اپنے ہاں سے دو آدمی روانہ کرے، جو اسے پکڑ کر میرے دربار میں پیش کریں.
باذان نے رسول اللہ ﷺ کی گرفتاری کے لئے اپنے دو مضبوط جرنیل ایک خط دے کر مدینہ منورہ روانہ کر دئیے-
اس خط میں لکھا تھا کہ خط دیکھتے ہی بلاتاخیر ان کے ہمراہ کسریٰ کے دربار میں پہنچ جائیں- انہیں یہ بھی تاکید کی کہ اس شخص کا پوری طرح کھوج لگائیں اور اس کے بارے میں پوری پوری معلومات حاصل کریں-
یہ دونوں شخص تیزی سے سفر کرتے ہوئے پہلے طائف پہنچے- قریش کے چند تاجروں سے ان کی ملاقات ہوئ-
ان سے آنحضرت ﷺ کے بارے میں دریافت کیا- انہوں نے کہا کہ وہ یثرب میں رہتے ہیں- تاجروں کوجب یہ معلوم ہوا کہ یہ تو نبی ﷺ کو گرفتار کرنے کے لئے جارہے ہیں تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے-
شاداں و فرحاں مکہ پہنچ کر ان الفاظ میں مبارک بعد دی:
اے اہل قریش ! خوش ہو جاؤ اور چین سے رہو،کسری کی محمدﷺ سے ٹھن گئ ہے اور ان کو گرفتار کرنے کے لیے اپنے آدمی روانہ کر دیئے ہیں- اب تم اس کے شر سے بچ جاؤ گے
باذان کے ان دونوں نمائندوں نے مدینہ منورہ کا رخ کیا- وہاں پہنچ کر نبی ﷺ سے ملاقات کی اور باذان کا خط آپ کو پہنچایا اور کہا: کہ شہنشاہ کسریٰ نے ہمارے بادشاہ باذان کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کو پکڑ کر اس کے دربار میں پیش کردے ہمیں اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ آپ کو اپنے ساتھ لے جا کر اس کے حوالے کردیں- اگر آپ ہماری بات مان لیتے ہیں تو اس میں آپ ہی کا بھلا ہے اور اگر آپ نے ہمارے ساتھ چلنے سے انکار کیا تو جان لیجیئے کہ کسریٰ کا جاہ و جلال اور اس کی گرفت بہت مضبوط ہے. وہ اس بات پر قطعی قدرت رکھتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ آپ کی قوم کو ہلاک کردے-
رسول اللہ ﷺ ان کہ یہ بچگانہ باتیں سن کر مسکرائے اور فرمایا: کہ آج تو تم اپنی قیام گاہ میں آرام کرو، کل دیکھا جائے گا-
جب دوسرے دن یہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور پوچھا کیا آپ کسریٰ کے دربار میں پیش ہونے کے لئے آمادہ ہیں؟
اس کے جواب میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: کون کسریٰ ؟
سن رکھو کہ آج کے بعد تم اس کا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پاؤ گے- اللہ تعالی نے اسے ہلاک کردیا ہے اور اس کا بیٹا اس کو قتل کر کے خود سلطنت پر قابض ہو گیا ہے-
ان دونوں کا اس خبر کا سننا تھا کہ حیران و ششدررہ گئے اور خوف و دہشت کے ملے جلے جذبات سے آنحضرت ﷺ کی طرف دیکھنے لگے اور کہنے لگے:
جوکچھ آپ کہہ رہے ہیں، کیا اس کا آپ کو یقینی علم ہے؟ کیا یہ وحشت اثر خبر ہم باذان تک پہنچا دیں؟
آپ نےارشاد فرمایا:
ہاں یہ سچ ہے- اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اسے بتا دینا کہ دین اسلام کا دائرہ کسریٰ کی سلطنت تک پھیل جائے گا-
تم اگر اسلام قبول کرلو- توہم وہ سبھی کچھ تمہارے حوالے کر دیں گے جو اب تمہارے پاس ہے گویا اس صورت میں تمہاری موجودہ حکمرانی اپنی قوم پر بدستور قائم رہے گی-
یہ دونوں نمائندے رسول اللہ ﷺ سے رخصت ہو کر باذان کے پاس پہنچے اور اسے یہ خبر سنائ-
اس نے سن کر کہا:
حضرت محمد ﷺ کی یہ بات اگر درست ثابت ہوئ تو پھر ان کے نبی ہونے میں کوئ شبہ نہیں، لیکن اگر یہ بات صحیح ثابت نہ ہوئ ، تو پھر ہم ان کے متعلق جو رائے قائم کردیں گے وہ تم دیکھ لو گے-
ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ باذان کو کسریٰ کے بیٹے شیرویہ کا خط موصول ہوا جس میں یہ تحریر تھا " میں نے کسریٰ کو مار ڈالا ہے اور مارا بھی اسی لئے ہے کہ اپنی قوم کا انتظام لے سکوں- اس نے اپنے عہد اقتدار میں میری قوم کے شرفاء کا قتل عام شروع کیا تھا- یہی نہیں اس نے ان کی عورتوں کی بے حرمتی بھی کی اور ان کے مال و دولت کو غصب بھی کیا-
میرا یہ خط جب تمہارے پاس پہنچے تو تم میری حلقہ بگوشی اختیار کرنا-
باذان نے شیرویہ کا خط پڑھا تو خط کو ایک طرف پھینک دیا اور اسلام کا حلقہ بگوش ہوگیا اور اس کے ساتھ بلا د یمن کے تمام فارسی النسل باشندے بھی مسلمان ہوگئے-
یہ تو حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کی فارس کے بادشاہ کسریٰ کے ساتھ ملاقات کی دلچسپ داستان ہوئ-
قیصر روم کے ساتھ ان کی ملاقات کی تفصیلات کیا ہیں؟
قیصر کے ساتھ آپ کی ملاقات کا واقعہ حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) کے دور خلافت میں پیش آیا-
یہ بھی ایک عجیب و غریب داستان ہے-
19 ہجری میں حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) نے جنگ کے لئے مجاہدین اسلام کا ایک لشکر روانہ کیا جس میں حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) بھی شریک تھے-
بادشاہ روم کے پاس لشکر اسلام کے متعلق خبریں برابر پہنچ رہی تھیں اور اسے معلوم تھا کہ مجاہدین اسلام پختہ حوصلے، سچائ کے خو گر اور راہ خدا میں اپنی جانیں نثار کرنے کے جذبہ سے سرشار ہیں-
اس نے اپنے فوجیوں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ اگر لشکر اسلام میں سے کوئ قیدی تمہارے ہاتھ لگے تو اسے زندہ پکڑ کر میرے پاس لے آنا-
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ حضرت عبداللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کو رومی فوج نے گرفتار کر لیا اور قیصر کے سامنے حاضر کیا-
اسے یہ بتا یا کہ ہم ایسے شخص کو گرفتار کر کے لائے ہیں جو محمد ﷺ کے ان ساتھیوں میں سے ہے،
جنہوں نے سب سے پہلے دعوت اسلامی کو قبول کیا-
جب حضرت عبداللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کو بادشاہ روم کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے آپ کو بنظر غائر دیکھا-
پھر کہنے لگا:
میری ایک تجویز ہے
حضرت عبداللہ نے فرمایا: "وہ کیا"؟
اس نے کہا میری تجویز ہے کہ آپ عیسائیت قبول کر لیں- آپ کو میری یہ تجویز اگر منظور ہو تو میں آپ کو آزاد کردوں گا اور آپ کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ روا رکھوں گا-
حضرت عبداللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) نے جرآت و عزم کا اظہار کر. تے ہوئے کہا یہ ممکن ہی نہیں، جس چیزکی طرف آپ مجھے دعوت دے رہے ہیں، اس سے ہزار درجہ یہ بہتر ہے کہ میں مرجانا پسند کروں-
قیصر نے کہا:
آپ مجھے بہادر انسان معلوم ہوتے ہیں- آپ میری یہ تجویز قبول کرلیں تو میں آپ کو اپنی سلطنت میں شریک کر لینے پر بھی تیار ہوں-
بیڑیوں میں جکڑا ہوا یہ قیدی اس پر مسکرایا اور یوں گویا ہوا:
اللہ کی قسم ! آپ مجھے اپنی حکومت اور جزیرۃ العرب کی مملکت دے کر بھی یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ میں دین محمد ﷺ سے ایک لحظہ کے لئے بھی منحرک ہو جاؤں-
اس نے غضبناک ہو کر کہا:
میں آپ کو قتل کر دوں گا-
آپ نے فرمایا:
آپ جو چاہیں کر دیکھیں- اس کے بعد آپ کو پھانسی دے دینے کا حکم صادر کر دیا گیا- اس کا حکم یہ تھا کہ تختہ دار پر پابجولاں اس شخص کو اس طرح تیروں کا نشانہ لگاؤ کہ تیر اس کے ہاتھوں کے بالکل قریب گریں اور ہاتھوں کو زخمی کردیں، چنانچہ اس کے حکم کے مطابق نشانہ باندھا گیا اور تیر چلایا گیا
اس نازک اور تکلیف دہ موقعہ پر قیصر نے آپ کو دوسری مرتبہ
دعوت دی، لیکن آپ نے صاف انکار کردیا- پھر اس نے حکم دیا کہ اب اس کے بالکل پاؤں کے قریب تیر مارو- اس حکم کی بھی تعمیل کی گئ- اس موقعہ پر بھی اسلام کو ترک کردینے اور عیسائیت کے حلقہ بگوش ہو جانے کی دعوت دی- آپ نےایسا کرنے سے قطعی انکار کر دیا-
بلآخرقیصر نے حکم دیا کہ اسے تخت دار سے نیچے اتاردو- پھر ایک بہت بڑی دیگ منگوائ گئ اور اس میں تیل ڈال کر نیچے آگ جلا دی گئ- جب تیل کھولنے لگا تو اس نے حکم دیا کہ مسلمان قیدیوں کو حاضر کیا جائے- اس کے حکم کے مطابق دو مسلمان قیدی پیش کر دئیے گئے-
دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے ایک کو کھولتے ہوئے تیل میں پھینک دینے کا حکم دیا- گرم اور کھولتے ہوئے تیل میں گرتے ہی اس کا گوشت پوست چٹخنے لگا اور چشم زون میں کھال ہڈیوں سے الگ ہو گئ-
اس کے بعد وہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا اب بھی موقعہ ہے عیسائیت کو قبول کر لو-
آپ نے پہلے سے بڑھ کر دعوت کو ٹھکرا دیا- جب قیصر حد درجہ مایوس ہوگیا تو اس نے چاروناچار انہیں کھولتے ہوئے تیل میں پھینک دینے کا حکم دے دیا- جب آپ کو دیگ کے پاس لایا گیا تو آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے-
قیصر کے حواریوں نے جب یہ دیکھا تو عرض کی کہ حضور یہ تو سچ مچ رو رہا ہے- اس نے گمان کیا شاید یہ اس تکلیف سے گھبرا گیا ہے-
اسے میرے پاس لاؤ- جب آپ کو قیصر کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے پھرآپ کو تیسری مرتبہ عیسائیت کے سامنے سرجھکا دینے کی دعوت دی- آپ نے اس بار بھی انکار کر دیا-
اس نے تعجب سے پوچھا:
ارے یہ بات تھی تو تم روئے کیوں تھے؟
آپ نے جواب میں کہا:
میرے رونے کی وجہ یہ تھی یہ منظر دیکھ کر میرے خیال میں آیا تھا کہ میرے پاس تو صرف ایک ہی جان ہے- کاش! میرے پاس ہزار ہا ایسی جانیں ہوتیں اور ہر جان کو اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر اللہ کی راہ میں قربان کر دیتا-
اس ظالم کا یہ سننا تھا کہ انگشت بدنداں ہو کر رہ گیا کہنے لگا:
اب اگر میرے سر کو چوم لوتو میں تمہیں آزاد کردوں گا-
حضرت عبد اللہ ( رضی اللہ عنہ) نے پوچھا:
کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کردوگے؟
اس نے کہا:
ہاں! میں تمام مسلمان قیدیوں کو بھی رہا کردوں گا.
حضرت عبد اللہ ( رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر میں اس دشمن دین کے سر کو چوم لوں اور اس کےبدلے میں یہ سب مسلمان قیدیوں کو رہا کردے تواس میں کیا مضائقہ ہے-
پھر آپ اس کے قریب آئے اور اس کے سر پر اپنا بوسہ ثبت کر دیا. قیصر روم نے حسب وعدہ حکم دیا کہ تمام مسلمان قیدیوں کو حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کے سپرد کردیا جائے- تاکہ وہ ان کو اپنے ساتھ لے جائیں-
رہائ پاکر حضرت عبداللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) سیدھے حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ سارا ماجرا تفصیل سی کہہ سنایا-
فاروق اعظم ( رضی اللہ عنہ) نے انتہائ مسرت کا اظہار فرمایا اور کہنے لگے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھ کر عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کے سر کوچوم لے اور لو میں سب سے پہلے ان کے سر پر بوسہ دیتاہوں-
پھر آپ اٹھے اور ان کے سر کا بوسہ لیا-
حضرت عبد اللہ بن حذافہ ( رضی اللہ عنہ) کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطا لعہ کریں.
0 Comments