حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ

 حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ 






بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه 



*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*



حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ



*اے ابو یحیی ! سودا نفع بخش رہا*


*(فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم)*



ہم میں سے کون ہے جو حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کو نہ جانتا ہو ! اور ان کی سیرت کے اہم ترین واقعات جاننے میں دلچسپی نہ رکهتا ہو، لیکن ہم میں سے اکثر و بیشتر یہ بات نہیں جانتے کہ آپ رومی نہیں تهے بلکہ خالص عربی النسل تهے، باپ کی جانب سے نمیری اور ماں کی جانب سے تمیمی تهے. یعنی ان کے والد قبیلہ بنو نمیر اور والدہ قبیلہ بنو تمیم سے تهی، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کا روم کی طرف انتساب ایک عجیب و غریب واقعہ ہے جو کہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ محفوظ رہے گا اور تاریخ دان اسے نہایت دلچسپی سے بیان کرتے رہیں گے.



بعثت نبوی سے دو سال پہلے کی بات ہے بصرہ سے ملحقہ قدیمی شہر ابلہ کا گورنر سنان بن مالک نمیری تها. اس کی تقرری شاہ ایران کے ایما پر کی گئی تهی، اسے اپنی اولاد میں سب سے زیادہ پیار اپنے پانچ سالہ بچے صہیب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تها.



صہیب رضی اللہ عنہ خوبصورت، اور سرخ سنہری بالوں والا جاذب نظر اور دلکش بچہ تهے، ان کی آنکهوں سے فطانت، ذہانت اور شرافت ٹپکتی تهی، ہر وقت خوش و خرم رہتے، طبیعت میں خوش دلی و خوش مزاجی کوٹ کوٹ کر بهری ہوئی تهی، اسے دیکهتے ہی باپ کا دل خوشیوں سے لبریز ہو جاتا اور تمام تهکاوٹ آن واحد میں کافور ہو جاتی.



ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی والدہ نے اپنے خدام اور حفاظتی دستے کے ہمراہ اپنے لخت جگر صہیب رضی اللہ عنہ کو لے کر سیر و سیاحت کی غرض سے عراق کے نہایت خوبصورت مقام ثنی نامی بستی کا رخ کیا. وہاں ابهی یہ پہنچی ہی تهیں کہ روم کے لشکر نے اس بستی پر حملہ کر دیا، ان کے تمام حفاظتی دستے کو قتل کر دیا، سب مال و متاع چهین لیا اور بچوں کو قیدی بنا لیا، ان قیدیوں میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بهی تهے.



صہیب رضی اللہ عنہ کو روم لے جاکر غلاموں کی منڈی میں بیچ ڈالا گیا، وہ بکتے ہوئے ایک آقا سے دوسرے آقا کی طرف منتقل ہونے لگے، ان کی حالت ان ہزاروں غلاموں کی سی تهی جن سے روم کے محلات بهرے پڑے تهے.



اس طرح حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کو رومی معاشرے کے داخلی حالات کو بنظر عمیق دیکهنے کا موقع ملا، ان کے محلات میں منکرات و فواحش کی گرم بازاری بچشم خود دیکهی، جب آپ نے کمزور و ناتواں لوگوں پر ڈهائے جانے والے مظالم کا مشاہدہ کیا تو ان کے دل میں رومی معاشرے کے خلاف شدید نفرت کے جذبات بهڑک اٹهے، وہ اپنے دل کہا کرتے تهے کہ اس معاشرے کو ہولناک طوفان ہی پاک کر سکتا ہے.



حضرت صہیب رضی اللہ عنہ غلام کی حیثیت سے روم میں پرورش پانے لگے اور اسی سر زمین میں پل کر جوان ہوئے، آپ عربی زبان بهول گئے تهے، لیکن یہ احساس بدستور قائم رہا کہ میں عربی النسل ہوں اور صحرائی باشندوں کی اولاد ہوں، انہیں اپنی قوم سے جاملنے کا شوق بدستور قائم رہا اور اس میں ایک لحظہ کے لئے بهی کبهی کمی واقع نہیں ہوئی اور سر زمین عرب کی زیارت کا شوق اس پر مستزوا، ایک دفعہ انہوں نے ایک نصرانی نجومی کو اپنے آقا سے باتیں کرتے ہوئے سنا، وہ اسے کہہ رہا تها، عنقریب جزیرہ نمائے عرب کے شہر میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے، جو عیسی بن مریم علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرےگا اور لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی کی طرف نکال لائے گا


ایک روز حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کو غلامی کی زنجیر توڑ کر بهاگ نکلنے کا موقع میسر آیا، اور آپ نے ام القرى مکہ معظمہ جلوہ گاہ نبی منتظر صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کیا، اور یہاں پہنچ کر مستقل رہائش اختیار کرلی.



زبان کی لکنت اور سنہری بالوں کی وجہ سے باشندگان مکہ آپ کو صہیب رضی اللہ عنہ رومی کے نام سے پکارنے لگے.



حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ کے ایک سردار عبداللہ بن جدعان سے مل کر تجارت شروع کردی جس میں بہت نفع ہونے لگا اور تهوڑے عرصے میں بہت سا مال جمع ہوگیا، تجارتی مصروفیات کے باوجود حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کو نصرانی نجومی کی وہ بات نہ بهولی جو انہوں نے اپنے رومی آقا کی زبان سے سنی تهی کہ "عنقریب مکہ معظمہ میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے" یہ اکثر اپنے دل میں سوچا کرتے کہ یہ سنہری موقع مجهے کب نصیب ہوگا، مجهے کب اس نبی کی زیارت کا شرف حاصل ہوگا، لیکن تهوڑے ہی عرصے بعد آپ کو اس سوال کا جواب مل گیا.



ایک روز حضرت صہیب رضی اللہ عنہ تجارتی سفر سے مکہ واپس تشریف لائے تو انہیں یہ اطلاع ملی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعوٰی کر دیا ہے، اور آپ لوگوں کو توحید باری تعالٰی اور ایمان کی دعوت دیتے ہیں، عدل و انصاف اور معروف کا حکم دیتے ہیں، فواحش و منکرات سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں.



حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے پوچها : کیا آپ وہی ہیں جسے لوگ امین و صادق کے نام سے پکارتے ہیں.



انہیں بتایا گیا کہ ہاں ! پوچها : آپ کی رہائش کہاں ہے ؟



بتایا گیا صفا کے پاس دار ارقم میں !



لیکن ذرا احتیاط سے جانا کہیں قریش تمہیں ادهر جاتے دیکھ نہ لیں، دیکهنا اگر انہیں معلوم ہوگیا کہ تم وہاں گئے ہو تو تمہارا جینا دو بهر کر دیں گے تم یہاں غریب الوطن ہو، تمہارا کوئی خاندان نہیں، جو مصیبت کے وقت تمہارے کام آ سکے.



حضرت صہیب رضی اللہ عنہ باشندگان مکہ سے نظریں چراتے ہوئے تاروں کی روشنی میں دار ارقم کی طرف روانہ ہوئے، وہاں پہنچے تو دیکهتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ پہلے سے دروازے پر کهڑے ہیں، پہلے تو گهبرائے، لیکن چونکہ ان کے ساتھ پہلے سے شنا سائی تهی، پوچها : عمار رضی اللہ عنہ کیا ارادے ہیں ؟



عمار رضی اللہ عنہ بولے : آپ کے کیا ارادے ہیں ؟



حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا : میں تو دارارقم میں داخل ہو کر اس شخص سے ملنا چاہتا ہوں جس نے نبوت کا دعوٰی کیا ہے اور اپنے کانوں سے ان کا پیغام سننے کا مشتاق ہوں.



حضرت عمار رضی اللہ عنہ بولے : میرا بهی یہی ارادہ ہے !



حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: واہ ! تو پهر آئیے دونوں اللہ کا نام لے کر اندر چلتے ہیں.



حضرت صہیب بن سنان رومی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، آپ کے ارشادات سنے تو نور ایمان سے دونوں کے سینے منور ہوگئے، دونوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور کلمہ طیبہ پڑهتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے، دن بهر سر چشمہ اسلام سے سیراب اور ہادئی برحق سے فیضیاب ہوتے رہے، دن ختم ہوا، رات کا اندهیرا چهانے لگا، لوگوں کی چہل پہل ختم ہوئ، اہلیان مکہ نیند کی آغوش  میں محو استراحت ہوئے تو دونوں رات کی تاریکی میں وہاں سے نکلے، ان کے سینے نور ایمان سے منور ہوچکے تهے اور اس نور ایمانی نے ان کے لئے تمام دنیا روشن کردی تهی



حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضرت عمار، حضرت سمیہ اور حضرت خباب رضوان الله عليهم أجمعين کے ہمراہ قریش کی جانب سے ڈهائے جانے والے مظالم نہایت صبر و تحمل سے برداشت کئے-  قریش کی طرف سے دیئے جانے والے مظالم اتنے شدید تهے کہ اگر کسی پہاڑ پر اتارے جاتے تو وہ بهی ریزہ ریزہ ہو جاتا، لیکن آپ نے انہیں صبر و تحمل سے برداشت کیا, کیونکہ آپ جانتے تهے کہ جنت کا راستہ مصائب و تکالیف سے اٹا ہوا ہے.



جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے بهی ہجرت کا پختہ ارادہ کر لیا، لیکن جب قریش کو ان کے اس ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے جاسوس مقرر کر دیئے تاکہ انہیں مکے کی حدود سے باہر نہ جانے دیا جائے، انہیں اندیشہ تها کہ اگر یہ گئے تو اپنے ساتھ مال تجارت اور سونا چاندی بهی لے جائیں گے.


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہجرت کے بعد حضرت صہیب رضی اللہ عنہ مسلسل اس موقع کی تلاش میں رہے کہ کب انہیں ہجرت کی فرصت میسر آئے، کیونکہ نگہبانوں اور جاسوسوں کی آنکهیں ہمیشہ ان کے تعاقب میں رہتی تهیں، بلآخر انہیں ایک ترکیب سوجهی، ایک خشک رات میں قضائے حاجت کے بہانے آپ گهر سے نکلے پهر گهر میں داخل ہوئے یہ عمل آپ نے بار بار دہرایا، جب آپ کی اس اضطراری حالت کو جاسوسوں نے دیکها تو ایک دوسرے سے کہنے لگے، مبارک ہو، لات و عزی نے آج اسے پیٹ کی شدید تکلیف میں مبتلا کردیا ہے. پهر وہ اطمینان سے اپنے بستروں میں جا لیٹے اور گہری نیند سو گئے- حضرت صہیب رضی اللہ عنہ اس صورت حال کو بهانپ کر وہاں سے چل نکلے اور مدینہ منورہ کا رخ کیا.


حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ابهی تهوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ نگرانی پر متعین لوگ ہڑبڑا کر اٹهے، آپ کو وہاں موجود نہ پاکر آپ کے تعاقب میں تیز رو گهوڑوں پر سوار ہو کر سرپٹ دوڑے، صہیب رضی اللہ عنہ ابهی تهوڑی دور گئے تهے کہ پیچهے سے تعاقب کرنے والے بهی پہنچ گئے۔ جب آپ نے ان کی آہٹ سنی تو ایک ٹیلے پر کهڑے ہو گئے ترکش سے تیر نکالا اور کمان پر چڑها کر کہنے لگے.


اے قریش ! تم جانتے ہو ! کہ میں سب لوگوں سے بڑھ کر تیر انداز ہوں اور میرا نشانہ بهی کبهی خطا نہیں جاتا، اللہ کی قسم! تم مجھ تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میں تمہارے اتنے آدمی قتل نہ کردوں جتنے میرے ترکش میں تیر موجود ہیں ، تیر ختم ہوگئے تو میں تلوار سے تمہاری گردنیں اڑانا شروع کر دوں گا، یہ معرکہ آرائی اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک میرے بازوؤں میں طاقت ہے، آپ کی جرأت مندانہ بات سن کر قریش میں سے ایک شخص بولا، لات و عزی کی قسم ! ہم تمہیں یہاں سے جانے نہیں دیں گے۔ جب تم یہاں آئے تو مفلس و قلاش تهے، لیکن تهوڑے ہی عرصہ میں دولت مند ہوگئے، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں سے حاصل کردہ مال تم اپنے ساتھ لے جاؤ اور ہم دیکھتے رہ جائیں.


آپ نے اس کی بات سن کر ارشاد فرمایا : اگر میں اپنا سارا مال تمہارے سپرد کردوں تو کیا تم میرا راستہ چهوڑ دوگے ؟



انہوں نے کہا : ہاں ! اگر تم اپنا سارا مال ہمارے سپرد کردو تو پهر ہم تمہارا راستہ نہیں روکیں گے.


آپ نے ارشاد فرمایا : جاؤ میرے گهر کے فلاں کونے میں خزانہ چهپایا ہواہے. جاکر نکال لو . یہ سن کر وہ سب واپس لوٹ گئے اور آپ کا سارا مال قبضے میں لے لیا، اس طرح آپ اطمینان سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے


حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ وفور شوق سے مدینہ منورہ کی جانب قدم بڑهانے لگے. مال و دولت کے ضائع ہونے کا آپ کو غم نہ تها، راستے میں جب تهکاوٹ محسوس ہوتی، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شوق دل میں موجزن ہوجاتا اور توانائیاں لوٹ آتیں. اور چاک و چونبد ہوجاتے اور تازہ دم ہوکر سوئے منزل رواں دواں ہوتے، جب آپ وادی قبا میں پہنچے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود تهے، انہیں دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا ابو یحیی ! سودا نفع بخش رہا سودا بہت ہی مفید رہا.


آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا.


آپ کی زبان مبارک سے یہ کلمات سن کر حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے ٹمٹما اٹها اور عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخدا ! مجھ سے پہلے تو آپ کے پاس کوئی نہیں آیا.

یقیناً یہ خبر آپ کو جبرئیل علیہ السلام نے دی ہوگی.


بلاشبہ یہ سودا نفع بخش رہا : وحی الہی نے اس کی تصدیق کردی. حضرت جبرئیل علیہ السلام اس پر شاہد ٹهہرے، کیونکہ وہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آیات لے کر نازل ہوئے تهے.


*((" ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضاة اللہ   واللہ رؤوف بالعباد ہ "))*


*( انسانوں ہی میں کوئی ایسا بهی ہے، جو رضائے الہی کی طلب میں اپنی جان کهپا دیتا ہے. اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے )*


حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے لئے یہ حسن انجام مبارک ہو.



حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.


1. الاصابہ مترجم.             4104


2. طبقات ابن سعد.          226/3


3. اسد الغابہ.                  30/3


4. الاستیعاب.                 174/2


5. صفتہ الصفوہ.             169/1


6.  البداية والنهاية.   318-319/7


7.  حیاتہ الصحابہ 


8. الاعلام و مراجعہ


🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شدہ ۔۔۔

 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ---- لقمان قاسمی


Post a Comment

0 Comments