حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ

 حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ 




بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*



 حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ



وہ دیکھو! رسول مقدس صلی اللہ علیہ وسلم انتظار کے بعد یثرب کے ٹیلوں پر سے نمودار ہو رہے ھیں  ذرا ادھر دیکھو باشندگان مدینہ راستوں سڑکوں گھروں کی چھتوں پر  نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ہم سفر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دیدار کا شوق دل میں بسائے ہوے لا الہ الا اللہ کا ورد کر رہے ھیں اور نعرہ تکبیر سے فصائے مدینہ گونج رہی ہے۔


  مدینہ طیبہ کی چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنے ہاتھوں میں دف پکڑے وفور شوق سے یہ ترانہ گا رہی ہیں 


طلع      البدر    عیلینا  


   وجب     شکر   علینا  


    من   ثنیات   الوداع


   ما      دعا   للہ   داع 

                                   

 ان پہاڑوں سے جو ہیں سوے جنوب 


    چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا


      کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے 


          شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا


     اللہ اللہ ! کیا عجیب منظر ہے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری لوگوں کے درمیاں سے کس باوقار انداز سے گزر رہی ھے۔ مشتاق نگاہیں خوشی کے آنسو بہا رہی ہیں دلوں میں شوق دیدار انگرائیاں لے رہا ھے  لبوں پر دلاویز مسکراہٹیں پھیلی ہوئی ہیں

لیکن حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کی سعادت حاصل  نہ کر سکے چونکہ یہ آپ کی آمد سے پہلے بکریاں چرانے جنگل کی طرف روانہ ہو چکے تھے  اس لیے کہ مدینہ منورہ میں بکریاں چرانے کے لیے کوئی انتظام نہ تھا خطرہ تھا کہیں بکریاں بھوک کی وجہ سے ہلاک نہ ہو جائیں.


 اس دنیا فانی میں یہی بکریاں ان کی کل کائنات تھیں لیکن رسول اللہ کی تشریف آوری کا چرچا صرف مدینہ طیبہ میں ہی محدود نہ رہا  تھوڑے ہی عرصے میں مدینے کے قرب وجوار کی وادیوں میں آپ کے تشریف لانے کی خبر پھیل گئ  یہ خوش کن خبر حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی ملاقات کا منظر بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں  جب رسول اقدس  مدینہ منورہ تشریف لائے میں اس وقت دور دراز جنگل میں اپنی بکریاں چرا رہا تھا -


جب مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کی خبر ملی تو میں اسی وقت مدینہ کی جانب چل پڑا جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کی یا رسول اللہ کیا آپ مجھ سے بیعت لیں گے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کون ہو؟ 


میں نے عرض کی عقبہ بن عامر جہنمی


  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون سی بیعت کرو گے  بیعت اعرابی یا بیعت ہجرت؟


 میں نے کہا بیعت ہجرت کروں گا۔


 رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اسی طرح  بیعت لی جس طرح دیگر مہاجرین سے۔ بیعت کے بعد ایک رات میں نے وہاں قیام کیا اور پھر بکریوں کی دیکھ بھال کے لئے جنگل کی طرف روانہ ہو گیا

ہم بارہ ایسے اشخاص تھے۔ جو نئے نئے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ہم مدینہ طیبہ سے دور جنگلات میں اپنی بکریاں چرآیا کرتےتھے۔


 ایک دن بیٹھ کر ہم نے مشورہ کیا کہ ہمیں رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دینی چاھیے اگر ہم نے ایسے نہ کیا تو یہ ہمارے حق میں بہتر نہ ہو گا ہم دینی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے اور نہ ہی اس وحی الہی سے فیضیاب ہو سکیں گے جو آپ پر ناڑل ہو رہی ہے۔


 ایسا کریں کہ ہم میں سے ہر روز ایک ساتھی مدینہ طیبہ جائے اس کی بکریوں کی ذمہ داری ہم سب پر ہو گی  اور جو کچھ  وہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی مسائل سنے وہ ہمیں آ کر بتائے۔


 حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا  تم یکے بعد دیگرے مدینے جاؤ اور جانے والا اپنی بکریاں میرے سپرد کرتا جائے میں انہیں چرانے اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بخوشی قبول کرتا ہوں۔


 میری اس وقت دلی کیفیت یہ تھی کہ مجھے اپنی بکریوں سے بہت پیار تھا میرا دل نہیں چاھتا تھا کہ اپنی بکریاں کسی کے سپرد کروں

میرے ساتھی یکے بعد دیگرے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دینے کے لئے جانے لگے اور مدینے جانے والا اپنی بکریاں میرے سپرد کر جاتا-


 جب وہ واپس آتا تو جو کچھ بھی انہوں نے سنا ہوتا وہ مجھے سنا دیتے میں وہ دینی احکام پورے غور سے سنتا اور انہیں اپنے دل میں بٹھا لیتا۔


  کچھ عرصے کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ بڑے افسوس  کی بات ہے کیا میں ان بکریوں کی وجہ سے ٹکا ہوا ہوں ۔


کیا میں اس دنیاوی مال و متاع  کو رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دے رہا ہوں بھلا یہ بکریاں برائے راست  حصول علم کی راہ میں رکاوٹ بنی رہینگی یہ سوچ کر میں اپنی بکریاں وہیں چھوڑیں اور مدینہ طیبہ کی طرف چل دیا ۔


 تاکہ مسجد نبوی میں قیام کروں اور براہے راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی علم حاصل کروں۔



 حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی بکریوں کو خیر باد کہ کر جوار رسول میں اپنی بقیہ ڑندگی گڈارنے کا عزم کیا تھا تو ان کے وہم و  گمان بھی نہ تھا کہ آگے چل کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ بہت بڑے عالم فاضل اور قاری ،فاتح اور ایک کامیاب گورنر کی حیثیت سے مشہور ہوں گے۔



جب وہ اپنی بکریوں کو چھوڑ کر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو کر چل دئے تھے۔


تو ان کے دل میں یہ خیال تک نہ گزرا تھا کہ وہ اس اسلامی لشکر کے سپہ سالار ہوں گے ۔ ایسے امام الدنیا عروس البلد یعنی دمشق کو فتح کرنے کا عظیم شرف حاصل ہو گا اور وہ دمشق کے مشہور دروازے (باب پوما) کے نزدیک سر سبزو شادب باغات میں بنے ہوئے ایک عالی شان گھر میں سکونت پزیر  ہوں گے ۔



یہ بات ان کے تصور میں بھی نہ تھی کہ آگے چل کر ان کا شمار ان قائدین میں ہو گا جنھیں سر سبز شاداب مصر کو فتح کرنے کی سعادت نصیب ہو گی اور بالآخر بحثیت شاہ مصر جبل مقطم کی چوٹی پر ایک خوبصورت بنگلے میں رہائش پذیر ہوں گے۔ ان سب راز ہائے دروں کا علم اللہ تعالی کے سواکسی کو نہ تھا

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ رہے۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سفر پر روانہ ہوتے تو یہ آپ کے گھوڑے کی لگام تھام لیتے -


کئی دفعہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گھوڑے پر اپنے پیچھے بھی بٹھایا یہاں تک کہ یہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے باڈی گاڈ کی حثیت سے معروف ہوئے۔


 دوران سفر بسا اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اچانک سواری سے نیچے اترتے اور انہیں سوار ہونے کا حکم دیا اور خود پیدل چلنے لگے ۔


حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ایک روز میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کی لگام تھامے ایک ایسے راستے سے گزر رہا تھا جس کی دونوں جانب گھنے درخت تھے۔


 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عقبہ رضی اللہ علیہ تم سوار نہیں ہو گئے؟     میرے دل میں آیا کہ نفی میں جواب دوں لیکن فورا یہ خیال آیا کہیں آپ کی نافرمانی نہ ہو جائے  میں نےاثبات میں سر ہلایا  یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے نیچے اتر آئے اور مجھے سوار ہونے کا حکم دیا  میں تعمیل ازشاد کرتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو گیا آپ پیدل جلنے لگے میں یہ منظر برداشت نہ کر سکا اور گھوڑے سے نیچے اتر آیا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی سوار ہوں میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میں سوار ہوں اور آپ پیدل چل رھے ہوں اس کے بعد آپ سوار ہو گئے ۔


پھر آپ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی دو سورتیں نہ سکھاؤں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی میں نے عرض کی ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ نے مجھے قل اعوز برب الفلق  اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر سنائیں۔


 پھر نماز پڑھی تو اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دو سورتیں پڑھیں اور فرمایا : کہ ان دونوں سورتوں کو سوتے اور بیدار ہوتے وقت پڑھ لیا کرو۔


 حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ میں نے ان دونوں سورتوں کی تلاوت کو معمول بنائے رکھا


حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے تمام تر مساعی کا محور علم اور جہاد کو بنا لیا۔


جہاں تک میدان علم کا تعلق ہے، اس سلسلے میں یہ رسول اللہ ﷺ کے تروتازہ ، میٹھے اور صاف شفاف علمی چشمے سے سیراب ہوئے۔ 


 جس کی وجہ انہیں قاری, محدث, فقیہہ, ماہر علم, میراث, ادیب ,فصیح البیان مقرر اور شاعر ہونے کا شرف حاصل ہوا قران مجید نہیات دلسوز آواز میں پڑھا کرتے تھے۔


 جب رات پر سکون ہو جاتی دنیا کی چہل پہل تھم جاتی تو یہ پر سوز آواز میں قرآنی آیات کی تلاوت شروع کر دیتے جسے سن کر صحابہ اکرام کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے اور خشیت الہی سے ان کے دل میں لرزا طاری ہو جاتا۔


 ایک دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:


 عقبہ آج قرآن سناو!


 عرض کی امیر المومنین چشم ما روشن دل ماشاد پھر قرآن حکیم کی تلاوت شروع کر دی اور حضرت عمر پر اتنا اثر ہوا کہ زارو قطار رونا شروع کر دیا جس سے آپ کی داڑھی تر بتر ہو گئی۔


  حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پورا قرآن اپنے ہاتھ سے لکھا  اور یہ قلمی نسخہ ان کے بعد مدت تک مسجد عقبہ بن عامر میں محفوظ رہا ۔


لیکن افسوس کہ یہ بھی حوادث  زمانہ کی نظر ہو گیا ہم اس قیمتی ورثہ سے محروم ہو گئے


جہاں تک جہاد کا تعلق ہے آپکو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  غزوہ احد کے سوا دیگر تمام غزوات میں شریک ہوئے


 آپ ان گنے چنے بہادروں میں سے ایک تھے جنہوں نے دمشق فتح کرتے وقت جرآت شجاعت جنگی حکمت عملی کے جوہر دکھائے۔


 اسلامی لشکر کے قائد ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے انکے جنگی کارناموں سے متاثر ہو کر اپنا خصوصی نمائندہ بنا کر  امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف دمشق کی نوید فتح سنانے کے لئے مدینہ منورہ بھیجا۔


  انہوں نے آٹھ روز میں مدینہ پہنچ کر فتح دمشق کی خوشخبری سنائی اور عظیم اسلامی لشکر کا سپہ سالار ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔


اس کارنامے کے صلے میں امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان نے انہیں تین سال کے لئے مصر کا گورنر بنا دیا تھا پھر انہیں بحرہ ابیض کے جزیرے اودس کو فتح کرنے کے لئے روانہ کیا ۔


حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  نے وہ تمام احادیث زبانی یاد کر لی تھیں جن میں جہاد کا زکر تھا وہ تیر اندازی بڑے ماہر تھے جب کبھی دل کھیل کا شوق پیدا ہوتا تیر اندازی کرکے اپنا دل بہلا لیتے۔


 جب حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے اپنے بیٹوں کو پاس بلایا اور انہیں یہ وصیت کی میرے بیٹوں میں تمہیں تین چیزوں سے منع کرتا ہوں ان سے اجتناب کرنا


 1۔ غیر ثقہ راوی کی حدیث کو قبول نہ کرنا


  2 ۔پھٹے پرانے کپڑے پہن لینا لیکن کسی سے قرض نہ لینا ۔


 3 شعر گوئی میں دلچسپی نہ لینا کیوںکہ اس سے تمہارے دل قرآن مجید کی تلاوت سے غافل ہو جائیں گے-


جب آپ فوت ہو گئے تو انہیں جبل معطم کی بالائی سطح پر دفن کیا گیا'ان کا چھوڑا ہوا مال دیکھا گیا تو اس میں تقریبا ستر کمان تھے اور ساتھ یہ وصیت نامہ لکھا ہوا ملا یہ تیر اللہ اللہ کی راہ میں وقف کر دئیے کر دئیے جائیں۔


اللہ سبحان تعالی اس بلند پایہ عالم ، فاضل ، قاری، محدث، مرد مجاہد اور غازی حضرت عقبہ بن عامر جہنی  رضی اللہ عنہ کے چہرے کو روز قیامت تروتازہ  کرے۔


*"یہ اللہ سے راضی اور اللہ ان سے راضی"*

 


🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شدہ


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ----- لقمان قاسمی


Post a Comment

0 Comments