حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ 





بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*



 حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ


*حذیفہ رضی اللہ عنہ جو کچھ تمہیں بتائیں سچ مانو اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو کچھ تمہیں پڑھائیں اسے پڑھ لو.*


*(فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم)*





چاہے مہاجر کہلاؤ، چاہے انصاری، ان دونوں میں سے جو نسبت پسند ہے. اس کا بخوشی انتخاب کر سکتے ہیں. 


یہ وہ سنہری کلمات ہیں جو رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت استعمال کئے جب حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے آپ سے پہلی ملاقات کی تھی. 


ان دو قابل قدر نسبتوں میں سے حضرت حذیفہ بن یمان کو ایک کا انتخاب کرنے کا حکم دیا گیا، یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے. 


حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے والد مکہ معظمہ کے بنی عبس قبیلے میں پیدا ہوئے. اپنے ہی قبیلے کے ایک شخص کو قتل کر دیا، مجبوراً یہ مکہ مکرمہ سے یثرب کوچ کر گئے،


 وہاں جاکر بنی عبدالاشہل سے اتنے گہرے روابط ہوگئے کہ انہوں نے اپنے قبیلے کی ایک خاتون سے ان کی شادی کر دی جس کے بطن سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے. 


اس کے بعد کچھ ایسی رکاوٹیں حائل ہوئیں کہ یہ مکہ معظمہ میں سکونت اختیار نہ کر سکے، مکہ معظمہ میں آمد و رفت تو رہی لیکن مستقل طور پر مدینہ منورہ میں ہی سکونت پذیر رہے.


جب اسلام کا نور جزیرہ نمائے عرب میں پھیلنے لگا، تو ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ بنی عبس کے ان دس خوش قسمت افراد میں سے ایک تھے، جو رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے روبرو اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا، یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ خاندانی اعتبار سے مکی اور پیدائشی اعتبار سے مدنی تھے. 


حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے، مسلمان ماں باپ کے گھر پرورش پائی، رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگانے سے پہلے ہی مسلمان بن چکے تھے، بچپن ہی سے آپ کے حالات سننے اور اوصاف حمیدہ معلوم کرنے کا انتہائی شوق دل میں سمایا ہوا تھا. 


ہر ایک ملنے والے سے پوچھتے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کیا حال ہے.؟ آپ کا چہرہ انور کیسا ہے.؟ اور آپ کے اوصاف حمیدہ کیا ہیں.؟ 


غرض یہ کہ ہر دم یہی دھن لگی ہوتی تھی کہ میں کسی طرح آپ کی خدمت میں پہنچ کر دیدار کا شرف حاصل کر سکوں، بلآخر ان سے نہ رہا گیا، دیدار مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کا شوق دل میں سمائے ہوئے مکہ روانہ ہو گئے. 


رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتے ہی با ادب عرض کیا، حضور میں مہاجر ہوں یا انصار. 


آپ ارشاد فرمایا : چاہو مہاجر کہلاؤ یا انصاری، تمہیں مکمل اختیار ہے، میں نے عرض کیا. یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نصاری بننا پسند کروں گا.


جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کرتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ہمراہ ہو لئے. 


غزوہ بدر کے علاوہ تمام معرکوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس طرح وابستہ رہے جیسے ایک آنکھ دوسری آنکھ سے وابستہ ہوتی ہے

جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو حقیقت حال کا علم ہوا، آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کے باپ کی دیت دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے عرض کی :


یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم.! ابا جان شہادت کے طالب تھے، وہ انہیں مل گئی. 


الہی.! گواہ رہنا میں نے یہ دیت مسلمانوں کے لئے وقف کردی اس کارنامے سے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں ان کی عزت و وقار میں اور اضافہ ہو گیا.


ایک دفعہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا بغور جائزہ لیا تو آپ پر ان کے اوصاف واضح ہوئے. 


# ذکاوت و بیداری مغز، جو مشکلات حل کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے. 



#"سرعت ادراک پہلے مرحلے میں معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتے. 


# رازداری، اسرار و رموز کو سینے میں محفوظ کرنے کا ایسا ملکہ کہ کسی کو بھی کان خبر ہی نہ ہو.


رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی طرز سیاست کا ایک اہم پہلو تھا کہ آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خوبیاں دیکھ کر مناسب حال فرائض ان کے سپرد کرتے، آپ کا یہ طرز عمل بہت ہی کامیاب ثابت ہوا. 


مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو سب سے بڑی جس مشکل کا سامنا تھا، وہ یہ تھی کہ وہاں یہود اور ان کے معاون منافقین رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نقصان پہنچانے کے لئے مسلسل سازشوں میں مصروف رہتے. 


اس نازک ترین صورت حال کو دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو منافقین کے نام دیئے، یہ ایک ایسا سر بستہ راز تھا جو آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کو نہ بتایا. 


اور انہیں یہ حکم دیا کہ منافقین کی حرکات کا خیال رکھیں، تاکہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ان کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے، اس دن سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رازدان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہونے کا عظیم شرف حاصل ہوا. 


رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو خداداد صلاحیتوں سے نازک مواقع پر بھرپور فائدہ اٹھایا، ان کی ذہانت، زکاوت، سرعت ادراک، معاملہ فہمی جیسے اعلی اوصاف نے کئی مواقع پر نہایت مفید کارنامے سرانجام دیئے. 


غزوہ خندق کے موقع پر مدینہ منورہ میں آباد مسلمانوں کو مشرکین عرب نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا. یہ محاصرہ بہت طول اختیار کر گیا، مصائب و مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے. 


اس مشکل گھڑی میں قریش اور ان کے حلیف بھی چنداں آسودہ حال نہ تھے، اچانک تیز آندھی چلی جس نے دشمن کے خیمے اکھاڑ دیئے. 


پکی پکائی دیگیں الٹا دیں، چراغ گل کر دیئے، چہرے خاک آلود، آنکھیں اور ناک مٹی سے بھر دیئے، آن واحد میں دشمن کی طاقت مضمحل ہوگئی اور فاسد عزائم خاک میں مل گئے



جنگی نقطہ نگاہ سے اس قسم کے نازک ترین مواقع پر شکست اس فوج کو ہوتی ہے جو پہلے آہ و زاری کرنے لگے، اور اس فوج کو کامیاب و فتح یاب تصور کیا جاتا ہے جو صبر و تحمل کا بھرپور مظاہرہ کرے. 


اس موقع پر رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے تجربہ و مہارت کی ضرورت پیش آئی، آپ نے انہیں دشمنان اسلام کے اندرونی حالات معلوم کرنے روانہ کیا، تاکہ یہ صحیح صورت حال کا جائزہ لے کر آپ کو آگاہ کر سکیں. 


آپ اپنا بھیس بدل کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے دشمن کی صفوں میں جا گھسے، اور کسی کو خبر بھی نہ ہونے دی، اس موت کے سفر کی روئیداد ہم آپ کو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی زبانی سناتے ہیں. 


حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں. 


ایک رات ہم صف بنائے بیٹھے تھے، ابو سفیان کا خیمہ بالائی جانب تھا، یہودی قبیلے بنو قریظہ کے افراد نشیبی علاقے میں براجمان تھے، مجھے ان کی طرف سے زیادہ خطرہ تھا کہ کہیں یہ ہماری خواتین اور بچوں کو نقصان نہ پہنچائیں. 


اتنی تیز آندھی اور تاریک رات ہم نے کبھی نہ دیکھی، آندھی کی آواز بجلی کی کڑک کی مانند تھی، ظلمت شب کا حال یہ تھا کہ کوئی اپنا ہاتھ قریب سے بھی نہیں دیکھ سکتا تھا.


منافقین رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کرنے لگے، عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے گھر بالکل کھلے ہیں، کوئی حفاظتی اقدامات نہیں، دشمن آسانی سے گھروں میں داخل ہوکر ہمارے مال و عزت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے. 


حالانکہ ایسا کوئی خطرہ نہ تھا، بلکہ وہ کذب بیانی سے کام لے رہے تھے، البتہ آپ سے جس نے بھی اجازت طلب کی آپ نے فراخ دلی سے اس کو اجازت دے دی، منافقین آہستہ آہستہ کھسکنے لگے، یہاں تک کہ صرف تین سو مسلمان باقی رہ گئے.


ایک رات رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے گشت کیا، ایک ایک مجاہد کا حال معلوم کرتے ہوئے جب میرے پاس پہنچے، میں نے ایک چھوٹی سی چادر اوڑھ رکھی تھی، سردی، بھوک اور تھکاوٹ کی وجہ سے گھٹنوں میں سر دیئے ہوئے بیٹھا تھا، آپ نے دریافت کیا کون ہو؟ 


میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں آپ کا خادم حذیفہ ہوں. 


آپ نے فرمایا : حذیفہ.! تم یہاں کیسے بیٹھے ہو، عرض کی بھوک اور سردی نے نڈھال کر رکھا ہے، آپ نے راز دارانہ انداز میں ارشاد فرمایا : دیکھو دشمن اس وقت نازک ترین صورتحال سے دو چار ہے. 


تم اس طرح کرو کہ چپکے سے دشمن کے لشکر میں شامل ہو جاؤ اور صحیح صورت حال کا جائزہ لے کر مجھے اطلاع دو، کہ اب ان کے عزائم کیا ہیں، آپ کا حکم سن کر میں جلدی سے اٹھا، لیکن میرے دل پر دشمن کا خوف طاری تھا، اور پورا جسم سردی سے کپکپا رہا تھا، میری حالت دیکھ کر آپ نے میرے حق میں دعا کی


جب اس مشن کے لئے روانہ ہوا تو آپ نے مجھے نصیحت کی، کہ تم نے صرف دشمن کے اندرونی حالات معلوم کرنے ہیں. 


اس کے علاوہ کوئی کسی قسم کا اقدام نہیں کرنا، 


میں یہ نصیحت سن کر رات کی تاریکی میں چھپتا ہوا دشمن کی صفوں میں جا گھسا، میں نے کسی کو محسوس تک نہ ہونے دیا، میں اس طرح گھل مل گیا، جیسے میں انہیں کا فرد ہوں. 


تھوڑی دیر بعد، ابو سفیان نے اپنے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے کہا :


اے خاندان قریش.! آج میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بات محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک نہ پہنچ جائے، ہر شخص دیکھ لے کہ اس کے دائیں بائیں کون بیٹھا ہے، 


میں نے یہ بات سنتے ہی فوراً اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا، تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے.؟ اس نے اپنا نام بتایا اور میں نے اسے موقع ہی نہ دیا کہ وہ مجھے بھی میرا نام پوچھ سکے، اس طرح میں اپنی تدبیر میں کامیاب رہا.


ابو سفیان نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا :


اے خاندان قریش. تمہیں یہاں قرار نصیب نہیں ہوگا، طوفان نے ہمارے جانور ہلاک کر دیئے. 


بنو قریظہ ہم سے الگ ہو گئے، تیز آندھی نے ہمارے خیمے اکھاڑ دیئے. 


میری رائے یہ ہے کہ اب یہاں سے کوچ کر چلو، میں خود جا رہا ہوں، اتنا کہا، اونٹ پر سوار ہوا اسے ایڑ لگائی اور چل دیا. 


حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابو سفیان اس رات میری زد میں تھا، اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحت نہ ہوتی تو میں اسے قتل کر ڈالتا. 


میں چپکے سے کھسکا اور سیدھا رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچ گیا، میں نے دیکھا کہ آپ چھوٹی سی چادر اوڑھے نماز پڑھ رہے ہیں. 


نماز سے فارغ ہو کر آپ نے مجھے اپنے قریب بٹھا لیا. سخت سردی تھی. چادر کا کونہ مجھ پر دے دیا، میں نے دشمن کے پسپا ہونے کی روئیداد سنائی تو آپ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کرنے لگے. 


حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ پوری زندگی منافقین کے اسرار و رموز سے آگاہ رہے، خلفائے راشدین ہمیشہ منافقین کے معاملات میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے رجوع کیا کرتے. 


سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ اگر کوئی مسلمان فوت ہوتا، آپ جنازہ پڑھانے سے پہلے یہ دریافت کرتے :


حذیفہ رضی اللہ عنہ اس جنازے میں شریک ہیں.؟ اگر حاضرین کہتے وہ موجود ہیں، تو آپ نماز پڑھاتے اور اگر یہ کہتے کہ وہ موجود نہیں، تو آپ اس میت کے بارے میں شک کرتے اور نماز پڑھانے سے رک جاتے


سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ میرے سرکاری نمائندوں میں کوئی منافق ہے؟ 

آپ نے کہا : صرف ایک ہے۔ 

فرمایا: مجھے بتایئے وہ کون ہے ؟

کہا: میں اس کا نام نہیں بتاو گا'

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں' تھوڑے عرصہ بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس نمائندے کو منصب سے الگ کر دیا۔ یوں معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں اللہ تعالی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی راہنمائی فرمائی۔ س

شائد بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایران کے نہاوند ' دینور' ہمدان اور ری جیسے اہم علاقے فتح کئےتھے اور دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جب ان کے دور میں قرآن مجید کے مختلف نسخے متداول ہو گئے تو آپ نے تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کے ایک نسخے پر جمع کر دیا ۔


ان تمام تر خوبیوں کے علاوہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے دل میں اللہ تعالی کا خوف اور اس کے عذاب کا ڈر بدرجہ غایت پایا جاتا تھا۔ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہو گئے تو آپ کی تیمارداری کے لیے چند صحابہ رضی اللہ عنہم رات کے آخری حصے میں تشریف لائے۔

آپ نےپوچھا کیا وقت ہے؟


صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا صبح ہونے والی ہے۔ یہ سن کر فورا پکار اٹھے ۔ میں اس صبح سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ جو جہنم رسید کرنے والی ہے۔


یہ جملہ دو مرتبہ اپنی زبان سے ادا کیا ۔ پھر پوچھا : کیا تم نے میرا کفن تیار کر لیا ہے؟


صحابہ نے بتایا: ہاں۔


فرمایا : زیادہ قیمتی کفن نہ بنانا۔ اگر اللہ تعالی کے ہاں میرے لیے خیر و بھلائی کا فصیلہ ہو تو اس کفن کو بہترین پوشاک میں بدل دیا جائے گا۔ 


اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا ' تو کفن بھی سڑ جائے گا۔


 اس کے بعد زبان سے یہ دعائیہ کلمات جاری ہو گئے:

الہی! تو جانتا ہے کہ میں نے زندگی بھر فقیری کو تونگری پر ' عاجزی و انکساری کو سر بلندی پر اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہے۔


جب آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر رہی تھی تو کہا: 


دیکھو ذوق و شوق سے میرا حبیب آیا۔ دربار الہی میں جو شرمندہ ہوا اسے کامیابی نہ ہو گی۔


 اللہ تعالی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے ۔ بے شمار خوبیوں کا مالک عجیب آزاد مرد تھا۔



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ----- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments