مسجد نبوی ﷺ اور ازواج مطہراتؓ کےحجروں کی تعمیر


                        سیرت النبی ﷺ

                  
                                 ﷽  

مسجد نبوی ﷺ اور ازواج مطہراتؓ  کےحجروں کی تعمیر
    

 مدینہ میں قیام کے بعد سب سے پہلا کام ایک خانہ خدا کی تھی تھی، اب تک یہ معمول تھا کہ مویشی خانه میں آپ ﷺ نماز پڑھا کرتے تھے، دولت کدہ کے قریب خاندان نجار کی زمین تھی جس میں کچھ قبریں تھیں، کھجور کے درخت تھے۔ آپ ﷺ نے ان لوگوں کو بلا کر فرمایا: میں یہ زمین بہ قیمت لینا چاہتا ہوں ۔ وہ بولے کہ ہم قیمت لیں گے لیکن آپ ﷺ سے نہیں بلکہ خدا سے ۔‘‘ چونکہ اصل میں وہ زمین دو یتیم بچوں کی تھی آپ ﷺ نے خود ان یتیموں کو بلا بھیجا۔ ان یتیم بچوں نے بھی اپنی کائنات نذر کرنی چاہی لیکن آپ ﷺ نے گوارا نہ کیا۔ حضرت ابو ایوب نے قیمت ادا کی ، قبریں اکھڑوا کر زمین ہموار کر دی گئی اور مسجد کی تعمیر شروع ہوئی ، شہنشاہ دو عالم ﷺ پھر مزدوروں کے لباس میں تھے ، صحابہ پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے تھے اور یہ رجز پڑھتے جاتے تھے، انحضرت ﷺ بھی ان کے ساتھ آواز ملاتے اور فرماتے -

   " اللهم لا خير الا خير الاخرة 
                        فاغفر الانصار والمهاجرة

اے خدا! کامیابی صرف آخرت کی کامیابی ہے۔

 اے خدا! مہاجرین اور انصار کو بخش دے۔“

     یہ مسجد ہر قسم کے تکلفات سے بری اور اسلام کی سادگی کی تصویر تھی ، یعنی کچی اینٹوں کی دیواریں، برگ خرما کا چھپر اور کھجور کے ستون تھے ۔ قبلہ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا لیکن جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو شمالی جانب ایک نیا دروازہ قائم کر دیا گیا فرش چونکہ بالکل خام تھا، بارش میں کیچڑ ہو جاتی تھی۔ ایک
دفعہ صحابہ نماز کے لئے آئے تو کنکریاں لیتے آئے اور اپنی اپنی نشست گاہ پر بچھا لیں ، انحضرت ﷺ نے پسند فرمایا اور سنگریزوں کا فرش بنوادیا۔

       مسجد کے ایک سرے پر ایک مسقف چبوترہ تھا جو صفہ کہلاتا تھا۔ یہ ان لوگوں کے لئے تھا جو اسلام لاتے
تھے اور گھربار نہیں رکھتے تھے۔

      مسجد نبوی ﷺ جب تعمیر ہو چکی تو مسجد سے متصل ہی آپ ﷺ نے ازواج مطہرات کیلئے مکان بنوائے ۔ اس وقت تک حضرت سودہ اور حضرت عائشہ نکاح میں آچکی تھیں، اس لئے دو ہی حجرے بنے جب اور ازواج آتی گئیں تو اور مکانات بنتے گئے ۔ یہ مکانات کچی اینٹوں کے تھے، ان میں سے پانچ کھجور کی ٹٹیوں سے بنے تھے، جو حجرے اینٹوں کے تھے ان کے اندرونی حجرے بھی ٹٹیوں کے تھے۔ ترتیب یہ تھی کہ حضرت ام سلمہ، حضرت ام حبیبہ، حضرت زینب ، حضرت جویریہ، حضرت میمونہ، حضرت زینب بنت جحش کے مکانات شامی جانب تھے اور حضرت عائشہ ، حضرت صفیہ ، حضرت سودہ مقابل جانب تھیں ۔ یہ مکانات مسجد سے اس قدر متصل تھے کہ جب آپ ﷺ مسجد میں اعتکاف میں ہوتے تو مسجد سے سر نکال دیتے اور ازواج مطہرات گھر میں بیٹھے بیٹھے آپ ﷺ کے بال دھو دیتی تھیں۔

     یہ مکانات چھ چھ، سات سات ہاتھ چوڑے اور دس دس ہاتھ لمبے تھے۔ چھت آتنی اونچی تھی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا تھا ، دروازوں پر کمبل کا پردہ پڑا رہتا تھا۔ راتوں کو چراغ نہیں جلتے تھے۔

      آنحضرت ﷺ کے ہمسایہ میں جو انصار رہتے تھے ان میں حضرت سعد بن عبادہ ، حضرت سعد بن معاذ ، حضرت عمار بن حزم اور حضرت ابو ایوب رئیس اور دولت مند تھے۔ یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی  خدمت میں دودھ بھیج دیا کرتے تھے اور اسی پر اپ ﷺ بسر فرماتے تھے۔ سعد بن عبادہ نے التزام کر لیا تھا کہ رات کے کھانے پر ہمیشہ اپنے ہاں سے ایک بڑا بادیہ بھیجا کرتے تھے جس میں کبھی سالن، کبھی دودھ، کبھی گھی ہوتا تھا۔ حضرت انس کی ماں ، أم انس نے اپنی جائیداد انحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کی ۔ انحضرت ﷺ نے قبول فرما کر اپنی دادی ام ایمن کو دیدی اور خود فقر و فاقہ اختیار فرمایا۔


       
   
              
                             💎اذان کی ابتدا💎


        اسلام کے تمام عبادات کا اصلی مرکز وحدت و اجتماع ہے۔ اس وقت تک کسی خاص علامت کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز با جماعت کا کوئی انتظام نہ تھا۔ لوگ وقت کا اندازہ کر کے آتے تھے اور نماز پڑھتے تھے۔ انحضرت ﷺ کو یہ پسند نہ تھا، آپ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ کچھ لوگ مقرر کر دیے جائیں جو وقت پر لوگوں کو گھروں سے بلا لائیں لیکن اس میں زحمت تھی صحابہ خواتین کو بلا کر مشورہ کیا، لوگوں نے مختلف رائیں دیں کسی نے کہا نماز کے وقت مسجد پر ایک علم کھڑا کر دیا جائے ،لوگ دیکھ دیکھ کرآتے جائیں گے، آپ ﷺ نے یہ طریقہ نا پسند فرمایا، عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاں اعلان نماز کے جو طریقے ہیں وہ بھی آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کئے گئے لیکن آپ ﷺ نے حضرت عمر کی رائے پسند کی اور حضرت بلال کو حکم دیا کہ اذان دیں اس سے ایک طرف تو نماز کی اطلاع عام ہو جاتی تھی، دوسری طرف دن میں پانچ دفعہ دعوت اسلام کا اعلان ہو جاتا تھا۔

    صحاح ستہ کی بعض کتابوں میں ہے کہ اذان کی تجویز عبداللہ بن زید نے پیش کی تھی جو انہوں نے خواب میں دیکھی تھی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر کو بھی خواب میں توارد ہوا لیکن صحیح بخاری کی روایت کے مقابلے میں کسی اور روایت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔

    بخاری میں صاف تصریح ہے کہ انحضرت ﷺ کے سامنے بوق اور ناقوس کی تجویز پیش کی گئیں، لیکن حضرت عمر نے اذان کی تجویز پیش کی اور آپ ﷺ نے اس کے موافق حضرت بلال کو بلا کر اذان کا حکم دیا خواب کا ذکر نہیں۔

      ≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠

 ❶ سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد  
      

                        🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments