سیرت النبی ﷺ
﷽
💎سنہ ھ ١ ہجرت💎
(اس وقت جبکہ دعوت حق کے جواب میں ہر طرف سے تلوار کی جھنکاریں سنائی دے رہی تھیں ، حافظ
عالم نے مسلمانوں کو دارالامان مدینہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا ۔ لیکن خود وجود اقدس ﷺ جو ان ستم گاروں کا حقیقی ہدف تھا، اپنے لئے حکم خدا کا منتظر تھا، مکہ کے باہر اطراف میں جو صاحب اثر مسلمان ہو چکے تھے وہ جان نثارانہ اپنی حفاظت کی خدمت پیش کرتے تھے۔ قبیلہ دوس ایک محفوظ قلعہ کا مالک تھا، اس کے رئیس طفیل بن عمرو نے اپنا قلعہ پیش کیا کہ آپ ﷺ یہاں ہجرت کر آئیں لیکن آپ ﷺ نے انکار فرمایا۔ اسی طرح بنی ہمدان کے ایک شخص نے بھی یہی خواہش کی تھی۔ بعد میں اس نے کہا کہ وہ اپنے اہل قبیلہ کو مطلع کر کے آینده سال آئے گا۔ لیکن کارساز قضا و قدر نے یہ شرف صرف انصار کے لئے مخصوص کیا تھا۔ چنانچہ قبل ہجرت آنحضرت ﷺ نے خواب دیکھا کہ دار الہجرہ ایک پر باغ و بہار مقام ہے۔ خیال تھا کہ وہ یمامہ یا ہجر کا شہر ہوگا لیکن وہ شہر مدینہ نکلا )۔
نبوت کا تیرھواں سال شروع ہوا اور اکثر صحابہ مدینہ پہنچ چکے تو وحی الہی کے مطابق آنحضرت ﷺ نے بھی مدینہ کا عزم فرمایا ۔ یہ داستان نہایت پر اثر ہے اور اسی وجہ سے امام بخاری نے باوجود اختصار پسندی کے اس کو خوب پھیلا کر لکھا ہے اور حضرت عائشہ زبانی لکھا ہے، حضرت عائشہ گو اس وقت سات آٹھ برس کی تھیں لیکن ان کا بیان در حقیقت خود رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر کا بیان ہے کہ انہی سے سن کر کہا ہوگا اور ابتدائے واقعہ میں وہ خود بھی موجود تھیں۔
قریش نے دیکھا کہ اب مسلمان مدینہ میں جا کر طاقت پکڑتے جاتے ہیں اور وہاں اسلام پھیلتا جاتا ہے۔ اس بنا پر انہوں نے دارالندوہ میں، جو دار الشوری تھا، اجلاس عام کیا، ہر قبیلہ کے رؤسا یعنی
عتبہ
ابوسفیان
جبیر بن مطعم
نضر بن حارث بن کلدہ ابوالبختری
ابن ہشام
زمعہ بن اسود بن مطلب
حکیم بن حزام
ابو جہل
نبیہ ومنبہ
امیہ بن خلف
وغیرہ وغیرہ، یہ سب شریک تھے، لوگوں نے مختلف رائیں پیش کیں، ایک نے کہا: محمد ﷺ کے ہاتھ پاؤں میں زنجیریں ڈال کر مکان میں بند کر دیا جائے ۔‘ دوسرے نے کہا: جلا وطن کر دینا کافی ہے۔ ابوجہل نے کہا: ہر قبیلہ سے ایک شخص کا انتخاب ہو اور پورا مجمع ایک ساتھ مل کر تلواروں سے ان کا خاتمہ کر دے، اس صورت میں ان کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور آل ہاشم اکیلے تمام قبائل کا مقابلہ نہ کر سکیں گے۔ اس اخیر رائے پر اتفاق ہو گیا اور جھٹ پٹے سے آکر رسول اللہ ﷺ کے
آستانہ مبارک کا محاصرہ کر لیا۔ اہل عرب زمانہ مکان کے اندر گھسنا معیوب سمجھتے تھے۔ اس لئے باہر ٹھہرے رہے کہ انحضرت ﷺ نکلیں تو یہ فرض ادا کیا جائے ۔
رسول اللہ ﷺ سے قریش کو اس درجہ عداوت تھی ، تاہم آپ ﷺ کی دیانت پر یہ اعتماد تھا کہ جس شخص کو کچھ مال یا اسباب امانت رکھنا ہوتا تھا آپ ﷺ ہی کے پاس لا کر رکھتا تھا اس وقت بھی آپ ﷺ کے پاس بہت سی امانتیں جمع تھیں، آپ ﷺ کو قریش کے ارادہ کی پہلے سے خبر ہو چکی تھی، اس بنا پر حضرت علی کو بلا کر فرمایا کہ مجھ کو ہجرت کا حکم ہو چکا ہے۔ میں آج مدینہ روانہ ہو جاؤں گا۔ تم میرے پلنگ پر میری چادر اوڑھ کر سو رہوں، صبح کو سب کی امانتیں جا کر واپس دے آنا ‘‘ یہ سخت خطرے کا موقع تھا، حضرت علی کو معلوم ہو چکا تھا کہ قریش آپ ﷺ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں اور آج رسول اللہ ﷺ کا بستر قتل گاہ کی زمین ہے لیکن فاتح خیبر کے لئے قتل گاه فرش گل تھا۔
ہجرت سے دو تین دن پہلے رسول اللہ ﷺ دو پہر کے وقت حضرت ابوکر کے گھر پر گئے ، دستور کے موافق دروازہ پر دستک دی، اجازت کے بعد گھر میں تشریف لے گئے ، حضرت ابو بکر سے فرمایا: "کچھ مشورہ کرنا ہے، سب کو ہٹادو ‘‘ بولے کہ یہاں آپ کی حرم کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ ( اس وقت حضرت عائشہ سے شادی ہو چکی تھی) آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھہ کو ہجرت کی اجازت ہوگئی ہے۔ حضرت ابو بکر نے نہایت بیتابی سے کہا: میرا باپ آپ ﷺ پر فدا ہو، کیا مجھ کو بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوگا؟‘‘ ارشاد ہوا ہاں ‘‘حضرت ابو بکر نے ہجرت کے لئے چار مہینہ سے دو اونٹنیاں ببول کی پتیاں کھلا کھلا کر تیار کی تھیں، عرض کی کہ ان میں سے ایک آپ ﷺ پسند فرمائیں محسن عالم کو کسی کا احسان گوارا نہیں ہوسکتا
تھا، ارشاد ہوا اچھا مگر بہ قیمت‘‘حضرت ابو بکر نے مجبورا قبول کیا۔ حضرت عائشہ اس وقت کمسن تھیں، ان کی بڑی بہن اساء نے جو حضرت عبد الله بن زبیر کی ماں تھیں ، سفر کا سامان کیا، دو تین دن کا کھانا ناشتہ دان میں رکھا، نطاق، جس کو عورتیں کمر سے لپیٹتی ہیں، پھاڑ کر اس سے ناشتہ دان کا منہ باندھا۔ یہ وہ شرف تھا جس کی بنا پر آج تک ان کو ذات النطاقین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
کفار نے جب آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا اور رات زیادہ گزر گئی تو قدرت نے ان کو بے خبر کر دیا، انحضرت ﷺ ان کو سوتا چھوڑ کر باہر آئے ، کعبہ کو دیکھا اور فرمایا: مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے، لیکن تیرے فرزند مجھ کو رہنے نہیں دیتے۔ حضرت ابوبکھر جانے سے پہلے سے قرار داد ہو چکی تھی، دونوں صاحب پہلے جبل ثور کے غار میں جا کر پوشیدہ ہوئے ، یہ غار آج بھی موجود ہے اور بوسہ گاہ خلائق ہے۔
حضرت ابو بکر کے بیٹے عبداللہ جو نوخیز جوان تھے، شب کو غار میں ساتھ سوتے صبح منہ اندھیرے شہر چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا مشورے کر رہے ہیں۔ جو کچھ خبر ملتی شام کو اکر انحضرت ﷺ سے عرض کرتے ، حضرت ابو بکر کا غلام کچھ رات گئے بکریاں چرا کر لاتا اور آپ ﷺ اور حضرت ابو بکر ان کا دودھ پی لیتے ، تین دن تک صرف یہی غذا تھی لیکن ابن ہشام نے لکھا ہے کہ روزانہ شام کو اسماء گھر سے کھانا کھا کر غار میں پہنچا آتی تھیں، اسی طرح تین راتیں غار میں گزریں۔
صبح کو قریش کی آنکھیں کھلیں تو پلنگ پر انحضرت ﷺ کے بجائے حضرت علی تھے، ظالموں نے آپ کو پکڑا اور حرم میں لے جا کر تھوڑی دیر محبوس رکھا اور چھوڑ دیا۔ پھر آنحضرت ﷺ کی تلاش میں نکلے ، ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار کے دہانہ تک آگئے، آہٹ پاکر حضرت ابوبکر غمزدہ ہوئے اور انحضرت ﷺ سے عرض کی کہ اب دشمن اس قدر قریب آگئے ہیں کہ اگر اپنے قدم پر ان کی نظر پڑ جائے تو ہم کو دیکھ لیں گے ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : ( لاتحزن إن الهُ معنا ) (۹/التوبة: ٤٠) گھبراؤ نہیں ، خدا ہمارے ساتھ ہے۔
مشہور ہے کہ جب کفار غار کے قریب آگئے تو خدا نے حکم دیا۔ دفعتہ ببول کا درخت اگا اور اس کی ٹہنیوں نے پھیل کر انحضرت ﷺ کو چھپا لیا، ساتھ ہی دو کبوتر آئے اور گھونسلہ بنا کر انڈے
دیئے حرم کے کبوتر انہی کبوتروں کی نسل سے ہیں۔ اس روایت کو مواہب لدنیہ میں تفصیل سے نقل کیا ہے اور زرقانی نے بزاز وغیرہ سے اس کے ماخذ بتائے ہیں ، لیکن یہ تمام روایتیں غلط ہیں اس روایت کا اصل راوی عون بن عمرو ہے، اس کی نسبت امام فن رجال یحییٰ بن معین کا قول ہے "لا شیئ" یعنی ہیچ ہے، امام بخاری نے کہا ہے کہ وہ "منکر الحدیث" اور "مجہول" ہے۔ اس روایت کا ایک اور راوی "ابو مصعب مکی" ہے، وہ "مجہول الحال" ہے، چنانچہ علامہ ذہبی نے "میزان الاعتدال" میں عون بن عمرو کے حال میں یہ تمام اقوال نقل کئے ہیں اور خود اس روایت کا بھی ذکر کیا ہے۔
بہرحال چوتھے دن آپ غار سے نکلے عبد الله بن اریقط ایک کافر جس پر اعتماد تھا، راہنمائی کے لئے اجرت پر مقرر کر لیا گیا۔ وہ آگے آگے راستہ بتاتا جاتا تھا، ایک رات دن برابر چلے گئے دوسرے دن دوپہر کے وقت دھوپ سخت ہوگئی تو حضرت ابو بکر نے چاہا کہ رسول اللہ ﷺ سایہ میں آرام فرمالیں، چاروں طرف نظر ڈالی ، ایک چٹان کے نیچے سایہ نظر آیا، سواری سے اتر کر زمین جھاڑی، پھر اپنی چادر بچھا دی،
آنحضرت ﷺ نے آرام فرمایا تو تلاش میں نکلے کہ کہیں کچھ کھانے کو مل جائے تو لائیں ، پاس ہی ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا، اس سے کہا ایک بکری کا تھن گرد و غبار سے صاف کر دے، پھر اس کے ہاتھ صاف کرائے اور دودھ دوہا، برتن کے منہ پر کپڑا لپیٹ دیا کہ گرد نہ پڑنے پائے، دودھ لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور تھوڑا سا پانی ملا کر پیش کیا، آپ ﷺ نے پی کر فرمایا کہ کیا ابھی چلنے کا وقت نہیں آیا؟‘‘آفتاب اب ڈھل چکا تھا، اس لئے آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے۔
قریش نے اشتہار دیا تھا کہ جو شخص محمد یا ابوبکر کو گرفتار کر کے لائے گا، اس کو ایک خون بها کے برابر (یعنی سو اونٹ) انعام دیا جائے گا، سراقہ بن جعشم نے سنا تو انعام کے لالچ میں نکلا ، عین اس حالت میں کہ آپ ﷺ روانہ ہو رہے تھے، اس نے آپ ﷺ کو دیکھ لیا اور گھوڑا دوڑا کر قریب آگیا، لیکن گھوڑے نے ٹھوکر کھائی ، وہ گر پڑا ترکش سے فال کے تیر نکالے کہ حملہ کرنا چاہیے یا نہیں؟ جواب میں نہیں‘ نکلا لیکن سو اونٹوں کا گراں بہا معاوضہ ایسا نہ تھا کہ تی کری بات مان لی جاتی ، دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا اور آگے بڑھا اب کی بار گھوڑے کے پاوں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے ، گھوڑے سے اتر پڑا اور پھر فال دیکھی، اب بھی وہی جواب تھا، لیکن مکرر تجربہ نے اس کی ہمت پست کردی اور یقین ہو گیا کہ یہ کچھ اور آثار ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے پاس آکر قریش کے اشتہار کا واقعہ سنایا اور درخواست کی کہ مجھ کو امن کی تحریر لکھ دیجئے۔ حضرت ابوبکر کے غلام عامر بن فہیرہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر فرمان امن لکھ دیا۔
حسن اتفاق یہ کہ حضرت زبیر شام سے تجارت کا سامان لے کر آرہے تھے، انہوں نے انحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کی خدمت میں چند بیش قیمت کپڑے پیش کئے جو اس بے سرو سامانی
میں غنیمت تھے۔
ابن سعد نے طبقات میں اس مقدس سفر کی تمام منزلیں گنائی ہیں ۔ اگرچہ عرب کے نقشوں میں آج ان کا نشان نہیں ملتا، تاہم عقیدت مند صرف نام سے لذت یاب ہو سکتے ہیں ،
خرار،
ثنیة المرة
لقف
مدلجہ
مرجح
حدائد
اذاخر
رابغ
( یہ مقام آج بھی حجاج کے راستہ میں آتا ہے، یہاں آپ ﷺ نے مغرب کی نماز پڑھی)
ذاسلم
عثانية
قاحہ
عرج
جدوات
رکوبہ
عقیق
جثجاثہ۔
تشریف آوری کی خبر مدینہ میں پہلے پہنچ چکی تھی ، تمام شہر ہمہ تن چشم انتظار تھا معصوم بچے فخر اور جوش میں کہتے تھے کہ پیغمبر ﷺ آرہے ہیں۔ لوگ ہر روز تڑکے سے نکل نکل کر شہر کے باہر جمع ہوتے اور دوپہر تک انتظار کر کے حسرت کے ساتھ واپس چلے جاتے ، ایک دن انتظار کر کے واپس جا چکے تھے کہ ایک یہودی نے قلعہ سے دیکھا اور قرائن سے پہچان کر پکارا کہ اہل عرب! لو تم جس کا انتظار کرتے تھے وہ آ گیا۔‘‘ تمام شہر تکبیر کی آواز سے گونج اٹھا، انصار ہتھیار سجا سجا کر بیتابانہ گھروں سے نکل آئے۔
مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر جو بالائی آبادی ہے اس کو عالیہ اور قباء کہتے ہیں۔ یہاں انصار کے بہت سے خاندان آباد تھے ، ان میں سب سے زیادہ ممتاز عمرو بن عوف کا خاندان تھا اور کلثوم بن الہدم خاندان کے افسر تھے ۔ آنحضرت ﷺ یہاں پہنچے تو تمام خاندان نے جوش مسرت میں اللہ اکبر کا نعرہ مارا، یہ فخر ان کی قسمت میں تھا کہ میزبان دو عالم ﷺ نے انہیں کی مہمانی قبول کی ، انصار ہر طرف سے جوق در جوق آتے اور جوش عقیدت کے ساتھ سلام عرض کرتے۔
اکثر اکابر صحابہ جو آنحضرت ﷺ سے پہلے مدینہ میں آچکے تھے، وہ بھی انہیں کے گھر میں اترے تھے، چنانچہ
حضرت ابوعبیده
مقداد
خباب
سہیل
صفوان
عیاض
عبداللہ بن مخرمہ
وہب بن سعد
معمربن ابی سرح
عمیر بن عوف رضی اللہ عنہم
اب تک انہی کے مہمان تھے۔
جناب امیر آنحضرت ﷺ کے روانہ ہونے کے تین دن بعد مکہ سے چلے تھے، وہ بھی آ گئے اور یہیں ٹھہرے۔ تمام مؤرخین اور ارباب سیر لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہاں صرف چار دن قیام فرمایا، لیکن صحیح بخاری میں چودہ دن ہے اور یہی قرین قیاس ہے۔
یہاں آپ ﷺ کا پہلا کام مسجد کا تعمیر کرانا تھا، حضرت کلثوم کی ایک افتاده زمین تھی، جہاں کھجوریں سکھائی جاتی تھیں، یہیں دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی، یہی مسجد ہے جس کی شان میں قرآن مجید میں ہے
{ لمسجد اسس على التقوى من اول يوم أحق أن تَقُومَ فيہ. فيه رجال يحبون آن يتطهروا. والله يحب المطهرين}
(۹/ التوبة:۱۰۸)
"وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن پرہیز گاری پر رکھی گئی ہے وہ اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس میں کھڑے رہو ، اس میں ایسے لوگ ہیں جن کو صفائی بہت پسند ہے اور خدا صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے"
مسجد کی تعمیر میں مزدوروں کے ساتھ آپ ﷺ خود بھی کام کرتے تھے، بھاری بھاری پتھروں کے اٹھاتے وقت جسم مبارک خم ہو جاتا تھا عقیدت مند آتے اور عرض کرتے ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں، آپ ﷺ چھوڑ دیں ہم اٹھالیں گے آپ ان کی درخواست قبول فرماتے لیکن پھر اسی وزن کا دوسرا پتھر اٹھا لیتے ۔
عبداللہ بن رواحہ شاعر تھے، وہ بھی مزدوروں کے ساتھ شریک تھے اور جس طرح مزدور کام کرنے کے وقت تھکن مٹانے کو گاتے جاتے ہیں، وہ بھی اشعار پڑھتے جاتے تھے۔
أَفَلَح مَنْ يُعالج المساجدًا
”وہ کامیاب ہے جو مسجد تعمیر کرتا ہے
ويقرء المُرانَ قائمًا وَقَاعدًا
اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے۔
وَلا يُبيتُ اللَّيْلَ عَنه رَاقدا
اور رات کو جاگتا رہتا ہے۔‘‘
آنحضرت بھی ہر ہر قافیہ کے ساتھ آواز ملاتے جاتے تھے۔
قباء میں آپ ﷺ کا داخلہ اسلام کے دور خاص کی ابتدا ہے، اس لئے مؤرخین نے اس تاریخ کو زیادہ اہتمام کے ساتھ محفوظ رکھا ہے، اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے کہ یہ آٹھ ربیع الاول ۳۔ نبوی ( مطابق ۲۰ ستمبر سنہء ٦٢٢ تھی (محمد بن ) موی خوارزمی نے لکھا ہے کہ جمعرات کا دن اور فارسی ماه تیرکی چوتھی تاریخ اور رومی ماه ایلول سنہ ۹۳۳ اسکندری کی دسویں تاریخ تھی مؤرخ یعقوبی نے ہیئت دانوں سے یہ زائچہ نقل کیا ہے۔
افتاب➖برج سرطان میں➖۲۳ درجه ٦ دقیقه پر
زحل➖برج اسد میں➖٢ درجہ
مشتری➖برج حوت میں➖٦ درجہ
زہرہ➖برج اسد میں➖١٣ درجہ
عطارد➖برج اسد میں➖١٥ درجہ
چودہ دن کے بعد (جمعہ کو) آپ ﷺ شہر کی طرف تشریف فرما ہوئے ۔ ( راہ میں بنی سالم کے محلہ میں نماز کا وقت آگیا ، جمعہ کی نماز یہیں ادا فرمائی ، نماز سے پہلے خطبہ دیا، یہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پہلی نماز جمعہ اور سب سے پہلا خطبه نماز تھا۔ لوگوں کو جب تشریف آوری کی خبر معلوم ہوئی تو ہر طرف لوگ جو مسرت سے پیش قدمی کے لئے دوڑے) آپ ﷺ کے ننہالی رشتہ دار بنونجار ہتھیار سجا سجا کر آئے قباء سے مدینہ تک دور دیہ جان نثاروں کی صفیں تھیں، راہ میں انصار کے خاندان آتے تھے، ہر قبیلہ سامنے آکر عرض کرتا "حضور ! یہ گھر ہے، یہ مال ہے، یہ جان ہے آپ منت کا اظہار فرماتے اور دعائے خیر دیتے شہر قریب آگیا تو جوش کا
یہ عالم تھا کہ پردہ نشین خاتونیں چھتوں پر نکل ائیں اور گانے لگیں:
طلع البدر عَلَيْنَا
چاند نکل آیا ہے۔
مِنْ ثنِياتِ الوَداع
کوہ وداع کی گھاٹیوں سے۔
وجب الشکر علینا
ہم سب پر خدا کا شکر واجب ہے۔
مَا دَغي للہ داع
جب تک دعا مانگنے والے دعا مانگیں ۔
معصوم لڑکیاں دف بجا بجا کر گاتی تھیں:
نحن جَوَار مِنْ بَنِي النّجار
ہم خاندان نجار کی لڑکیاں ہیں۔
يَاحَبذا مُحَمَّدًا مِنْ جار
محمد ﷺ کیا اچھا ہمسایہ ہے۔
آپ ﷺ نے ان لڑکیوں کی طرف خطاب کر کے فرمایا: کیا تم مجھ کو چاہتی ہو؟ بولیں "ہاں‘‘ فرمایا کہ میں بھی تم کو چاہتا ہوں ۔
جہاں اب مسجد نبوی ﷺ ہے، اس سے متصل حضرت ابو ایوب انصاری کا گھر تھا، کوکبۂ نبوی ﷺ یہاں پہنچا سخت کشمکش تھی کہ آپ ﷺ کی میزبانی کا شرف کسی کو حاصل ہو؟ قرعہ ڈالا گیا اور آخر یہ دولت حضرت ابو ایوب کے حصہ میں آئی ۔
حضرت ابو ایوب کا مکان دو منزلہ تھا، انہوں نے بالائی منزل پیش کی، لیکن آپ ﷺ نے زائرین کی آسانی کے لئے نیچے کا حصہ پسند فرمایا۔ ابو ایوب دو وقت آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا بھیجتے اور
آپ ﷺ جو چھوڑ دیتے ، ابوایوب اور ان کی زوجہ کے حصہ میں آتا ، کھانے میں جہاں انحضرت ﷺ کی انگلیوں کا نشان پڑا ہوتا، ابو ایوب تبرکا وہیں انگلیاں ڈالتے۔
ایک دن اتفاق سے بالائی منزل میں پانی کا برتن ٹوٹ گیا، اندیشہ ہوا کہ پانی بہہ کر نیچے جائے اور آنحضرت ﷺ کو تکلیف ہو، گھر میں اوڑھنے کا صرف ایک لحاف تھا، حضرت ابو ایوب نے اس کو ڈال دیا کہ پانی جذب ہو کر رہ جائے۔
آنحضرت نے سات مہینہ تک یہیں قیام فرمایا۔ اس اثنا میں جب مسجد نبوی اور آس پاس کے حجرے تیار ہو گئے تو آپ ﷺ نے نقل مکان فرمایا تفصیل آگے آتی ہے۔
مدینہ میں آکر آپ ﷺ نے حضرت زید (اور اپنے غلام ابو رافع ) کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر بھیجا کہ مکہ جاکر صاحبزادیوں اور حرم نبوی کو لے آئیں، حضرت ابو بکر نے اپنے بیٹے عبداللہ کو لکھا کہ وہ بھی اپنی ماں اور بہنوں کو لے کر چلے ائیں انحضرت ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے رقیہ حضرت عثمان کے ساتھ حبش میں تھیں ۔ حضرت زینب کو ان کے شوہر نے آنے نہ دیا۔ زید صرف حضرت فاطمہ زہراء (اور حضرت ام کلثوم ) اور حضرت سودہ (زوجہ محترم نبوی) کو لے کر آئے حضرت عائشہ اپنے بھائی عبداللہ کے ساتھ آئیں۔
≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠
❶ سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد
🌹 ͜͡ ͜͡ 🌹
0 Comments