انصار کے اسلام لانے کی ابتدا ١٠ نبوی

                            سیرت النبی ﷺ

                                     ﷽  

            💎انصار کے اسلام لانے کی ابتدا ١٠ نبوی💎

    جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے ۔ انحضرت ﷺ کا معمول تھا کہ حج کے زمانہ میں روسائے قبائل کے پاس جا کر تبلیغ اسلام فرمایا کرتے تھے، اس سال (رجب ۱۰ نبوی) میں بھی آپ ﷺ متعدد قبائل کے پاس تشریف لے گئے ، عقبہ کے پاس جہاں اب مسجد العقبہ ہے خزرج کے چند اشخاص آپ ﷺ کو نظر آئے ، آپ ﷺ نے ان سے نام و نسب پوچھا، انہوں نے کہا: "خزرج‘‘ آپ ﷺ نے دعوت اسلام دی اور قرآن مجید کی آیتیں سنائیں ، ان لوگوں
نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا: ’دیکھو، یہود ہم سے اس اولیت میں بازی نہ لے جائیں۔ یہ کہہ کر سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کیا، یہ چھ شخص تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں:

[ ١ ] ابو ہیثم بن تیهان

[ ٢ ] ابو امامہ اسعد بن زرارہ:  صحابہ میں سب سے پہلے ان ہی نے سنہ ھ ١ میں وفات پائی۔

[ ٣ ] عوف بن حارث : بدر میں شہادت پائی۔

[ ٤ ] رافع بن مالک بن عجلان : اس وقت تک جس قدر قرآن اتر چکا تھا، انحضرت ﷺ نے ان کو عنایت فرمایا، جنگ احد میں شہید ہوئے۔

[ ۵ ] قطبہ بن عامر بن حدیدہ : تینوں عقبات میں شریک رہے۔

[ ٦ ] جابر بن عبداللہ ( بن ریاب) : ( یہ مشہور صحابی حضرت جابر بن عبداللہ بن عمرو کے علاوہ تھے بدر وغیرہ میں شریک تھے)۔
     

        
                 💎بیعت عقبہ اولی ۱۱ نبوی💎

     دوسرے سال بارہ شخص مدینہ منورہ سے آئے اور بیعت کی ، اس کے ساتھ اس بات کی بھی خواہش کی
کہ احکام اسلام کے سکھانے کے لئے کوئی معلم ان کے ساتھ کر دیا جائے ۔ انحضرت ﷺ نے مصعب بن عمیر کو اس خدمت پر مامور فرمایا ۔ مصعب، ہاشم بن عبد مناف کے پوتے اور سابقین اسلام میں
سے تھے، غزوہ بدر میں لشکر کی علم برداری کا منصب انہی کو ملا تھا، وہ مدینہ میں آکر اسعد بن زرارہ کے
مکان پر ٹھہرے جو مدینہ کے نہایت معزز رئیس تھے روزانہ معمول تھا کہ انصار کے ایک ایک گھر کا دورہ کرتے، لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے اور قرآن مجید پڑھ کر سناتے ، روزانہ ایک دو نئے آدمی اسلام قبول کر تے ، رفتہ رفتہ مدینہ سے قبا تک گھر گھر اسلام پھیل گیا۔ صرف خطمہ ، وائل ، واقف کے چند گھرانے باقی رہ گئے ۔ ابن سعد نے طبقات میں یہ واقعات تفصیل سے لکھے ہیں۔

    قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ تھے۔ قبیلہ پر ان کا یہ اثر تھا کہ ہر کام میں ان کے اشاروں پر چلتے تھے ۔ مصعب نے جب ان کے پاس جا کر اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے پہلے نفرت
ظاہر کی ۔ لیکن جب مصعب نے قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں تو پھر موم تھا، ان کا اسلام لانا تمام قبیلہ اوس کا اسلام قبول کر لینا تھا۔
        
              
                   💎بیعت عقبہ ثانی ١٢ نبوی💎

     اگلے سال بہتر (۷۲) شخص حج کے زمانہ میں آئے اور اپنے ساتھیوں سے (جو بت پرست تھے) چھپ کر بمقام منی ( عقبہ ) انحضرت ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ، اس موقع پر حضرت عباس نے بھی جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے، انہوں نے انصار سے خطاب کر کے کہا: 

   " گروہ خزرج! محمد ﷺ اپنے خاندان میں معزز اور محترم ہیں ۔ دشمنوں کے مقابلہ میں ہم ہمیشہ ان کے سینہ سپر رہے، اب وہ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں ۔ اگر مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی سے جواب دے دو ۔‘‘

     حضرت براء نے انحضرت ﷺ کی طرف خطاب کر کے کہا: ہم لوگ تلواروں کی گود میں پلے ہیں ۔‘ وہ اسی قدر کہنے پائے تھے کہ ابوالہیثم نے بات کاٹ کر کہا یا رسول اللہ ﷺ! ہمارے یہود سے تعلقات ہیں، بیعت کے بعد یہ تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ جب آپﷺ کو قوت اور اقتدار حاصل ہو جائے تو آپﷺ ہم کو چھوڑ کر اپنے وطن چلے جائیں۔ آپ ﷺ نے مسکرا کر فرمایا: "نہیں تمہارا خون میرا خون ہے تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں ‘

آپ ﷺ نے اس گروہ میں سے بارہ شخص نقیب انتخاب کئے ، جن کے نام خود انصار نے پیش کئے تھے، ان میں سے نو خزرج کے اور تین اوس کے تھے۔ ان کے نام حسب روایت ابن سعد حسب ذیل ہیں:

[ ١ ] اُسید بن حضیر:
        جنگ بعاث میں انہی کے باپ اوس کے سردار تھے۔

[ ٢ ] ابو الہیثم بن تیہان:

[ ۳ ] سعد بن خیثمہ:
       جنگ بدر میں شہید ہوئے۔

[ ٤ ] اسعد بن زرارہ:
        ان کا ذکر اوپر گزر چکا یہ امام نماز تھے۔

[ ۵ ] سعد بن الربیع:
        جنگ اُحد میں شہید ہوئے۔

[ ٦ ] عبدالله بن رواحہ
       مشہور شاعر ہیں ۔ جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔

[ ٧ ] سعد بن عبادہ:
       معزز اور مشہور صحابی ہیں. سقیفہ بنی ساعدہ میں انہوں نے ہی پہلے خلافت کا دعویٰ کیا تھا۔

[ ۸ ] منذر بن عمرو:
       بیر معونہ میں شہید ہوئے۔

[ ۹ ] براء بن معرور:
       بیعت عقبہ میں انہوں نے انصار کی طرف تقریر کی تھی، انحضرت ﷺ کی ہجرت سے پہلے انتقال کر گئے۔

[ ۱۰ ] عبداللہ بن عمرو:
       جنگ احد میں شہید ہوئے۔

[ ١١ ] عبادہ بن الصامت:
       مشہور صحابی ہیں، ان سے اکثر حدیثیں مروی ہیں۔

[ ۱۲ ] رافع بن مالک:
        جنگ اُحد میں شہید ہوئے۔

      آنحضرت ﷺ نے جن باتوں پر انصار سے بیعت لی یہ تھیں: شرک، چوری، زنا قتل اولاد اور افترا کے مرتکب نہ ہوں گے اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے جو اچھی بات کہیں گے اس سے سرتابی نہ کریں گے ۔‘‘

    جب انصار بیعت کر رہے تھے تو سعد بن زرارہ نے کھڑے ہو کر کہا ”بھائیو یہ بھی خبر ہے کہ کس چیز پر بیعت کر رہے ہو؟ یہ عرب و عجم اور جن و انس سے اعلان جنگ ہے۔“ سب نے کہا: ہاں ہم اسی پر بیعت کر رہے ہیں ۔

     بارہ شخص جو نقیب انتخاب کئے گئے رئیس القبائل تھے، ان کا اسلام قبول کرنا تمام انصار کا اسلام قبول کرنا تھا. صبح کو اس بیعت کی اڑتی سی خبر پھیلی ، قریش انصار کے پاس آئے اور شکایت کی ، انصار کے ساتھ جو بت پرست تھے ان کو اس بیعت کی خبر نہ تھی ، انہوں نے تکذیب کی کہ ایسا ہوتا تو ہم سے کیون کر چھپ سکتا تھا ۔

      مدینہ میں اسلام کو پناہ حاصل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو اجازت دی کہ مکہ سے ہجرت کر جائیں۔ قریش کو معلوم ہوا تو انہوں نے روک ٹوک شروع کی ۔لیکن چوری چھپے لوگوں نے ہجرت شروع کردی ۔ رفتہ رفتہ اکثر صحابہ چلے گئے صرف انحضرت ﷺ ، حضرت ابوبکر اور حضرت علی رہ گئے، جو لوگ مفلسی سے مجبور تھے، وہ مدت تک نہ جا سکے ، یہ آیت انہی کی شان میں ہے:

    { والمستضعَفين من الرّجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا اخرجنا من هذه القرية الظالم اهلها }. (٤ / النساء:٧٥) 

   "کمزور مرد، عورتیں اور بچے جو یہ کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم کو اس شہر سے نکال کہ یہاں کے لوگ ظالم ہیں ۔

    ≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠

❶ سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد 
      

                           🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments