سیرت النبی ﷺ
﷽
💎مدینہ منورہ اور انصارؓ💎
آفتاب کی روشنی دور پہنچ کر تیز ہوتی ہے، شمیم گل باغ سے نکل کر عطر فشاں بنتی ہے، آفتاب اسلام مکہ میں طلوع ہوا لیکن کرنیں مدینہ کے افق پر چمکیں۔
مدینہ کا اصلی نام یثرب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب یہاں آکر قیام کیا تو اس کا نام مدینہ النبی یعنی پیغمبر ﷺ کا شہر پڑ گیا اور پھر مختصر ہو کر مدینہ مشہور ہو گیا۔
یہ شہر مدتوں سے آباد ہے، بہت قدیم زمانہ میں یہودی یہاں آکر آباد ہوئے ۔ ان کی نسلیں کثرت سے چلیں اور مدینہ کے اطراف ان کے قبضہ میں آگئے ۔ انہوں نے مدینہ اور اس کے حوالی میں چھوٹے چھوٹے قلع بنالئے تھے اور ان میں سکونت رکھتے تھے ( یہود کے متعلق زائد تحقیق آگے آئے گی)۔
انصار اصل میں یمن کے رہنے والے اور قحطان کے خاندان سے تھے یمن میں جب مشہور سیلاب آیا جس کو "سیل عرم‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لوگ یمن سے نکل کر مدینہ میں آباد ہوئے ، یہ دو بھائی تھے ، اوس اور خزرج تمام انصار انہی دو کے خاندان سے ہیں۔ یہ خاندان جب یثرب میں آیا تو یہ نہایت اقتدار اور اثر رکھتے
تھے۔ آس پاس کے مقامات ان کے قبضہ میں تھے اور دولت و مال سے مالا مال تھے، چونکہ آل و اولاد کی کثرت سے بیس اکیس قبیلے بن گئے تھے اس لئے دور دور تک بستیاں بسائی تھیں، انصار کچھ زمانہ تک ان سے الگ رہے، لیکن ان کا زور اور اثر دیکھ کر بالآخر ان کے حلیف بن گئے، ایک مدت تک یہ حالت قائم رہی ،لیکن اب انصار کا خاندان پھیلتا جاتا تھا اور اقتدار حاصل کرتا جاتا تھا، یہود نے پیش بینی کے لحاظ سے ان سے معاہدہ توڑ دیا۔
یہودیوں میں ایک رئیس فطیون پیدا ہوا جو نہایت عیاش اور بدکار تھا، اس نے حکم دیا کہ جو دوشیزہ لڑکی بیاہی جائے ، پہلے اس کے شبستان عیش میں آئے ، یہود نے اس کو گوارا کرلیا تھا، لیکن جب انصار کی نوبت آئی تو انہوں نے سرتابی کی ، اس زمانہ میں انصار کا سردار ایک شخص مالک بن عجلان تھا، اس کی بہن کی شادی ہوئی تو وہ عین شادی کے دن گھر سے نکلی اور اپنے بھائی مالک بن عجلان کے سامنے سے بے پردہ گزری، مالک کو غیرت آئی ، اٹھ کر گھر میں آیا اور بہن کو سخت ملامت کی ، اس نے کہا: ہاں! لیکن کل جو کچھ ہو گا اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ دوسرے دن حسب دستور جب مالک کی بہن دلہن بن کر فطیون کی خلوت گاہ میں گئی تو مالک بھی زنانے کپڑے پہن کر سہیلیوں کے ساتھ گیا اور فطیون کو قتل کر کے شام کو بھاگ گیا، یہاں غسانیوں کی حکومت تھی اور ابو جبلہ حکمران تھا اس نے یہ حالات سنے تو ایک فوج گراں لے کر آیا اور اوس اور خزرج کے رؤسا کو بلا کر ان کو خلعت اور صلے دیے، پھر رؤسا سے یہود کی دعوت کی اور ایک ایک کو دھوکے سے قتل کرادیا ، یہود کا زور اب ٹوٹ گیا اور انصار نے نئے سرے سے قوت حاصل کی ۔
انصار نے مدینہ اور حوالیٔ مدینہ میں کثرت سے چھوٹے چھوٹے قلعے بنا لئے ۔ اوس اور خزرج ایک مدت تک باہم متحد رہے لیکن پھر عرب کی فطرت کے موافق خانہ جنگیاں شروع ہوگئیں اور سخت خونریز لڑائیاں ہوئیں، سب سے اخیر لڑائی جس کو بعاث کہتے ہیں میں ایسے زور کا معرکہ ہوا کہ دونوں خاندانوں کے تمام نامور لڑ لڑ کر مر گئے ، انصار اب اس قدر ضعیف ہو گئے کہ انہوں نے قریش کے پاس سفارت بھیجی کہ ہم کو حلیف بنا لیجئے ۔ لیکن ابوجہل نے معاملہ درہم برہم کر دیا۔
انصار گو بت پرست تھے، تاہم چونکہ یہود سے میل جول تھا، اس لئے نبوت اور کتب آسانی سے گوش آشنا تھے، یہود سے گو انصار اک گونہ رقابت رکھتے تھے۔ لیکن ان کے علمی فضل و کمال کے معترف تھے، یہود نے مدینہ میں جو علمی مدارس قائم کئے تھے اور جن کو بیت المدارس کہتے تھے ( بخاری وغیرہ میں نام مذکور ہے) ان میں تورات کی تعلیم ہوتی تھی ، انصار جاہل تھے، اس لئے ان پر یہود کےعلمی تفوق کا خواہ مخواہ اثر پڑتا تھا، یہاں تک کہ انصار میں سے جس کے اولاد زندہ نہیں رہتی تھی، وہ منت مانتا تھا کہ بچہ زندہ رہے گا تو یہودی بنادیا جائے گا۔
یہودی عموما یہ یقین رکھتے تھے کہ ایک پیغمبر ابھی اور آنے والا ہے، اس بنا پر انصار بھی ایک پیغمبر موعود
کے نام سے آٓشنا تھے۔
انصار میں ایک شخص ، سوید بن صامت جو شاعری اور جنگ آوری میں ممتاز تھا، اس کو امتثال لقمان کا نسخہ ہاتھ آگیا تھا جس کو وہ کتاب آسمانی سمجھتا تھا، وہ ایک دفعہ حج کو گیا، انحضرت ﷺ نے اس کے حالات سنے تو خود اس کے پاس تشریف لے گئے، اس نے امثال لقمان پڑھ کر سنایا، آپ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس اس سے بھی بہتر چیز ہے۔ یہ کہہ کر قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں ، سوید نے تحسین کی، اگرچہ وہ مدینہ واپس آکر جنگ بعاث میں مارا گیا لیکن اسلام کا معتقد ہو چکا تھا۔
سوید شجاعت اور شاعری دونوں میں کمال رکھتا تھا، ایسے شخص کو اہل عرب ”کامل“ کہتے تھے اور اسی بنا پر سوید اسی لقب سے پکارا جاتا تھا، سوید کے میلان اسلام کا اثر انصار پر پڑ چکا تھا۔
{ أن رسول الله ﷺ مانع لما فرغ من قتال أهل خيبر وان صرف الى المدينة رد
المهاجرون الى الانصار منائحهم التي كانوا منحوهم من ثمار هم }
" انحضرت ﷺ جب جنگ خیبر سے فارغ ہوئے اور مدینہ واپس آئے تو مہاجرین نے انصار کے عطیے جو نخلستان کی صورت میں تھے واپس کر دیے۔“
مہاجرین کے لئے مکانات کا یہ انتظام ہوا کہ انصار نے اپنے گھروں کے آس پاس جو افتاده زمینیں تھیں ان کو دے دیں اور جن کے پاس زمین نہ تھی انہوں نے اپنے مسکونہ مکانات دے دیے، سب سے
پہلے حارثہ بن نعمان نے اپنی زمین پیش کی ، بنو زہرہ مسجد نبوی کے عقب میں آباد ہوئے ، عبدالرحمن بن عوف الله نے یہاں ایک قلعہ ( جس کو گڑھی کہنا زیادہ موزوں ہوگا ) بنوایا حضرت زبیر بن العوام کو ایک وسیع زمیں ہاتھ آئی ، حضرت عثمان ، مقداد ، حضرت عبید کو انصار نے اپنے مکانات کے پہلو میں زمینیں دیں ۔ مواخات کے رشتہ سے، جو لوگ آپس میں بھائی بھائی بنے ، ان میں سے بعض حضرات کے نام یہ ہیں:
مہاجرین انصار
حضرت ابو بکر••••حضرت خارجہ بن زید انصاری
حضرت عمر••••حضرت عتبان بن مالک انصاری
حضرت عثمان•••• حضرت اوس بن ثابت انصاری
حضرت ابو عبیدہ بن جراح•••حضرت سعد بن معاذ
حضرت زبیر بن العوام••• حضرت سلامہ بن وقش
حضرت مصعب بن عمیر•••حضرت ابو ایوب انصاری
حضرت عمار بن یاسر•••حضرت حذیفہ بن یمان
حضرت ابوذر غفاری•••حضر منذر بن عمرو
حضرت سلمان فارسی•••حضرت ابو درداء
حضرت بلال•••••حضرت ابو رویحہ
حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ•••حضرت عباد بن بشر
حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل•••حضرت ابی بن کعب
مواخات کا رشتہ بظاہر ایک عارضی ضرورت کے لئے قائم کیا گیا کہ بے خانماں مہاجرین کا چند روزه انتظام ہو جائے لیکن درحقیقت یہ عظیم الشان اغراض اسلامی کی تکمیل کا سامان تھا۔
اسلام، تہذیب اخلاق و تکمیل فضائل کی شہنشاہی ہے۔ اس سلطنت الہی کے لئے وزراء، ارباب تدبیر سپہ سالاران لشکر، ہر قابلیت کے لوگ درکار ہیں ، شرف صحبت کی برکت سے مہاجرین میں ان قابلیتوں کا ایک گروہ تیار ہو چکا تھا اور ان میں یہ وصف پیدا ہو چکا تھا کہ ان کی درسگاہ تربیت سے اور ارباب استعداد بھی تربیت پاکر نکلیں، اس بنا پر جن لوگوں میں رشتہ اخوت قائم کیا گیا ان میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا کہ استاد اور شاگرد میں وہ اتحاد مذاق موجود ہو جو تربیت پذیری کے لئے ضروری ہے تفحص اور استقصا سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص جس کا بھائی بنایا گیا۔ دونوں میں یہ اتحاد مذاق ملحوظ رکھا گیا اور جب اس بات پر لحاظ کیا جائے کہ اتنی کم مدت میں سینکڑوں اشخاص کی طبیعت اور فطرت اور مذاق کا صحیح اور پورا اندازہ کرنا قریبا ناممکن ہے تو تسلیم
کرنا پڑے گا کہ یہ شان نبوت کی خصوصیات میں سے ہے۔
حضرت سعید بن زید عشرہ مبشرہ میں ہیں، ان کے والد زید انحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے ملت ابراہیمی کے پیرو ہو چکے تھے اور گویا اسلام کے مقدمة الجیش تھے۔ حضرت سعید نے ان ہی کے دامن تربیت میں پرورش پائی تھی ، اس لئے اسلام کا نام سننے کے ساتھ ہی انہوں نے لبیک کہا۔ ان کی ماں بھی ان کے ساتھ یا ان سے پہلے اسلام لائیں ، حضرت عمر انہی کے گھر میں اور ان ہی کی ترغیب
سے اسلام کی طرف مائل ہوئے تھے۔ علم و فضل کے لحاظ سے فضلائے صحابہ میں تھے ۔ ان کی اخوت حضرت ابی بن کعب سے قائم کی گئی جنہوں نے یہ مرتبہ حاصل کیا کہ حضرت عمر ان کو سید المسلمین کہتے تھے ، بارگاہ نبوت میں منصب انشا پر سب سے پہلے وہی ممتاز ہوئے فن قراءت کے وہ امام تسلیم کئے جاتے ہیں:
حضرت ابوحذیفہ عتبہ بن ربیعہ کے فرزند تھے، جو قریش کا رئیس اعظم تھا۔ اس مناسبت سے ان کو حضرت عباد بن بشر کا بھائی بنایا گیا جو قبیلہ اشہل کے سردار تھے۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح جن کو رسول اللہ ﷺ نے امین الامہ کا خطاب دیا تھا ، ایک طرف تو فاتح شام ہونے کی قابلیت رکھتے تھے، دوسری طرف اسلام کے مقابلہ میں پدری اور فرزندی کے جذبات ان پر کچھ اثر نہیں کر سکتے تھے، چنانچہ غزوہ بدر میں جب ان کے باپ ان کے مقابلہ میں آئے تو انہوں نے پہلے حقوق ابوت کی مراعات کی لیکن بالآخر اسلام پر باپ کو نثار کر دینا پڑا۔ ان کی تربیت میں حضرت سعد بن معاذ دیے گئے ، جو قبیلہ اوس کے رئیس اعظم تھے، ان میں بھی ایثار کا یہ وصف نمایاں طور پر نظر آتا ہے، بنوقریظہ ان کے حلیف تھے اور عرب میں حلف کا رشتہ اخوت اور ابوت کے برابر ہوتا تھا۔تاہم غزوہ بنی قریظہ میں جب اسلام کا مقابلہ پیش آیا تو انہوں نے اپنے چار سو حلیفوں کو اسلام پر نثار کر دیا۔
حضرت بلال اور حضرت ابورویحہ، حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابو درداء، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت حذیفہ بن یمان حضرت مصعب اور حضرت ابو ایوب میں وہ وحدت موجود تھی جس کی بدولت نہ صرف شاگرد، بلکہ استاد بھی شاگرد سے اثر پذیر ہوسکتا تھا، حضرت عبد الرحمن بن عوف مدینہ میں آئے تو پنیر سر پر رکھ کر بیچتے تھے، حضرت سعد بن الربيع کی صحبت میں جو امیر الامراء تھے دولت اور امارت کے جس درجہ پر پہنچے ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔
انصار نے مہاجرین کی مہمانی اور ہمدردی کا جو حق ادا کیا دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
بحرین جب فتح ہوا تو آنحضرت ﷺ نے انصار کو بلا کر فرمایا کہ ”میں اس کو انصار میں تقسیم کر دینا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے عرض کی کہ پہلے ہمارے بھائی مہاجروں کو اتنی ہی زمین عنایت فرما لیجئے تب ہم لینا منظور کریں گے ۔‘‘
ایک دفعہ ایک فاقہ زدہ شخص انحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا کہ سخت بھوکا ہوں، آپ ﷺ نے گھر میں
دریافت فرمایا کہ کچھ کھانے کو ہے؟ جواب آیا کہ صرف پانی‘‘ آپ ﷺ نے حاضرین کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: کوئی ہے؟ جو ان کو آج اپنا مہمان بنائے ۔ ابوطلحہ نے عرض کی میں حاضر ہوں ۔ غرض وہ اپنے گھر لے گئے لیکن وہاں بھی برکت تھی، بیوی نے کہا: صرف بچوں کا کھانا موجود ہے۔ انہوں نے بیوی سے کہا: چراغ بجھا دو اور وہی کھانا مہمان کے سامنے لا کر رکھ دو، تینوں ساتھ کھانے پر بیٹھے ۔ میاں بیوی بھوکے بیٹھے رہے اور اس طرح ہاتھ چلاتے رہے کہ گویا کھا رہے ہیں، اسی واقعہ کے بارہ میں میں آیت اتری ہے۔
[ ويؤثرون على آنفسهِمْ وَلَ كان بهم خصاصه ( ٥۹/ الحشر:۹)
" اور گو ان کو خود تنگی ہو، تاہم اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں" ۔
≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠
❶سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد
🌹 ͜͡ ͜͡ 🌹
0 Comments