امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ ( رضی اللہ عنہا)



 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم                    

   
✨باذن اللہ تعالی✨                       

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه              


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*                  

 امّ المؤمنین حضرت امّ سلمہ ( رضی اللہ عنہا)   

حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنہا) ! آپ کیا جانیں کہ حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنہا) کون ہیں ؟
ان کا باپ قبیلہ مخزوم کا ایک قابل رشک سردار تھا اور وہ دنیا ئے عرب کا ایک بڑا معروف سخی تھا۔ لوگ اسے مسافروں کا زاد راہ سمجھا کرتے تھے، کیونکہ قافلے جب اس کے گھر کی طرف روانہ ہوتے یا اس کی رفاقت میں سفر کرتے تو اپنے ساتھ زادراہ لے کر نہ جاتے، اس لئے کہ سب کے اخراجات یہ خود برداشت کیا کرتے تھے۔
حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنہا) کے خاوند عبداللہ ( رضی اللہ عنہ) بن عبد الاسد کا شمار ان دس صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم) میں ہوتا تھا جو سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ ان سے پہلے صرف حضرت ابو بکر ( رضی اللہ عنہ) اور چند دیگر صحابہ ( رضی اللہ عنھم ) مسلمان ہو ئے تھے۔
حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنہا) اپنے شوہر کے ساتھ ہی مسلمان ہوگئ تھیں اور ان کا شمار ان صحابیات میں ہوتا ہے جنہیں اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل ہے۔
حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنہا) اور ان کے شوہر کے اسلام قبول کرنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح چہار سو پھیل گئ۔ قریش غصے میں آکر ان دونوں کو ایسی دردناک سزائیں دینے لگے جس سے مضبوط چٹانیں بھی لرز جائیں، لیکن ان کے پائے استقلال میں کوئ لغزش پیدا نہ ہوئ، نہ ان کی طبیعت میں کوئ اضمحلال پیدا ہوا اور نہ ہی یہ کسی تردد کا شکار ہوئے۔ جب صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم ) مصائب کی چکی میں بری طرح پسنے لگے تو رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم ) کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دےدی۔ ان مہاجرین میں یہ دونوں میاں بیوی بھی تھے۔
حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنہا) اور آپ کے خاوند اپنا معزز گھرانہ اور عالیشان گھر چھوڑ کر اللہ سبحانہ و تعالی کی خوشنودی حاصل کر نے کے لئے ایک ان دیکھی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
باوجود یکہ حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنہا) اور آپ کے شوہر کو حبشہ کے حکمران نجاشی کی مکمل حمایت حاصل تھی، پھر بھی ان کی دلی تمنا تھی کہ وہ مبارک گھڑی کب آئے گی کہ جب وہ مرکز نزول وحی مکہ معظمہ بچشم خود دیکھیں گے اور منبع ہدایت محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی زیارت کریں گے۔ یہ تمنا ان کے دل میں سمائ ہوئ تھی۔
سر زمین حبشہ میں مقیم مہاجرین کے پاس اس قسم کی خبریں مسلسل آنے لگیں کہ مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حضرت حمزہ ( رضی اللہ عنہ) بن عبد المطلب اور حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) کے اسلام قبول کر نے سے مسلمانوں کی قوت میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے۔ قریش کی جانب سے ایذارسانی ختم ہو چکی ہے۔ یہ سن کر مہاجرین نے اطمینان کی سانس لی اور ان میں چند ایک نے مکہ معظمہ واپس جانے کا عزم کر لیا اور کشاں کشاں مکہ معظمہ روانہ ہو گئے۔  ان واپس آنے والوں میں ام سلمہ ( رضی اللہ عنہ) اور آپ کے شوہر بھی تھے۔
لیکن ان واپس آنے والے مسلمانوں کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ انہوں نے واپس آنے میں جلد بازی سے کام لیا ہے۔ جو خبریں ان کے پاس پہنچ رہی تھیں، ان میں بہت مبالغہ تھا۔ صحیح صورت حال یہ تھی کہ جب حمزہ ( رضی اللہ عنہ) اور حضرت عمر( رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوئے تو قریش اور زیادہ بھڑک اٹھے اور انہوں نے مسلمانوں پر مزید ظلم ڈھانا شروع کردیا، جس سے مسلمانوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔
مشرکین نے مکہ مکرمہ میں آباد مسلمانوں کو ایسی دردناک سزائیں دیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ اس اندوہناک صورت حال کو دیکھ کر رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنے جاں نثار صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم) کو مدینہ منورہ ہجرت کو جانے کا حکم دیا تو مہاجرین کے پہلے قافلے میں حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) اور آپ کے شوہر نے شمولیت کا ارادہ کیا، لیکن اس دفعہ حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) اور آپ کے شوہر کا مکہ سے ہجرت کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ اس دفعہ انہیں انتہائ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ہم یہاں مشکلات کی یہ کہانی حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا)کی زبانی آپ کو سناتے ہیں، اس لئے کہ جس طرح اپنی آپ بیتی وہ خود عمدہ پیرائے میں بیان کر سکتی ہیں، کوئ دوسرا اتنے اچھے اسلوب میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔
حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) فرماتی ہیں جب حضرت ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ ) نے مدینہ ہجرت کر جانے کا عزم کر لیا تو انہوں نے مجھے ایک اونٹ پر سوار کیا۔ میرا ننھا بیٹا سلمہ میری گود میں تھا۔ انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر سیدھا چلنا شروع کر دیا۔ ابھی مکہ معظمہ کی حدود سے نکلنے نہ پائے تھے کہ میری قوم بنو مخزوم کے چند افراد نے ہمیں دیکھ لیا اور انہوں نے ہمارا راستہ روک لیا۔
انہوں نے ابو سلمہ ( رضی اللہ عنھا) سے کہا :
اگر تم نے اپنی مرضی کو ہم پر ترجیح دے ہی لی ہے، تو اس عورت کو اپنے ہمراہ کیوں لے جارہے ہو، یہ ہماری بیٹی ہے۔ ہم اسے تیرے ساتھ کسی دوسرے ملک جانے کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے۔ پھر انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے ان کے ہاتھوں سے چھین لیا، جب میرے سرتاج شوہر کی قوم بنو اسد نے یہ منظر دیکھا کہ مجھے اور میرے بیٹے کو چھین کر لے جا رہے ہیں تو وہ غضبناک ہو گئے۔
انہوں نے کہا:
اللہ کی قسم ! ہم تمہارے قبیلہ کی اس عورت کے پاس یہ بچہ نہیں رہنے دیں گے۔ تم اسے قبیلہ کے مرد سے زبر دستی چھین کر لے جارہے ہو۔
یہ ہمارا بیٹا ہے، اس پر ہماراہی حق ہے، پھر وہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھین کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ صورت حال میرے لئے نا قابل برداشت تھی۔ ہمارا شیرازہ بکھر گیا۔ شوہر مدینہ روانہ ہو گئے۔ بیٹے کو بنو عبدالاسد اپنے ساتھ لے گئے اور مجھے میری قوم بنو مخزوم نے زبردستی اپنے ساتھ رکھ لیا۔ ہمارے درمیان پل بھر میں جدائ ڈال دی گئ۔
میں ان روح فرساں صدمات کو برداشت کرنے کے لئے تنہا رہ گئ۔ میں غم غلط کرنے کے لئے ہر صبح اس مقام پر جاتی جہاں جدائ کا یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ میں وہاں بیٹھ کر دن بھر روتی رہتی اور شام کےوقت گھر واپس آجاتی۔
تقریباً ایک سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں ایک دن وہاں بیٹھی رو رہی تھی کہ میرا چچازاد بھائ میرے پاس سے گزرا۔ میرا یہ حال دیکھ کر اسے مجھ پر رحم آگیا اور اسی وقت جا کر میری قوم کے بڑوں سے کہا کہ تم اس مسکین عورت کو کیوں تڑپا رہے ہو۔ کیا تم اس کی حالت نہیں دیکھ رہے کہ یہ اپنے شوہر اور بیٹے کے غم میں اس قدر بے چین ہے۔
آخر اسے ستانے سے تمہیں کیا ملے گا۔ اس بے چاری کو چھوڑ دو اس کی یہ باتیں سن کر ان کے دل نرم ہو گئے۔
انہوں نے مجھ سے کہا:
ہماری طرف سے اجازت ہے اگر تم چاہو تو اپنے خاوند کے پاس جاسکتی ہو۔
میں نے کہا:
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں تو مدینہ چلی جاؤں اور میرا لخت جگر بنواسد کے پاس ہی رہے؟ تم ہی بتاؤ میرے غم کی آگ کیسے بجھے گی۔ میری آنکھوں کے آنسو کیسے خشک ہوں گے میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتی کہ اپنے شوہر کے پاس مدینہ چلی جاؤں اور اپنے ننھے بیٹے کو مکہ ہی میں رہنے دوں اور اس کے متعلق مجھے کچھ معلوم ہی نہ ہو! مجھے اس غم میں مبتلا دیکھ کر کچھ لوگوں کے دل میں نرمی پیدا ہوگئ اور بنو اسد سے اس سلسلہ میں بات کی تو وہ بھی راضی ہو گئے اور انہوں نے میرا بیٹا مجھے واپس دےدیا۔
میں نے سوچا کہ اب مجھے یہاں سے فوراً نکل جانا چاہئے کہ کہیں کوئ اور رکاوٹ پیدا ہو جائے۔

میں نے جلدی جلدی تیاری کی، بیٹا گود میں لیا، اونٹ پر سوار ہوئ اور سوئے مدینہ اکیلے چل پڑی، مخلوق خدا میں بیٹے کے علاوہ کوئ بھی میرے ساتھ نہ تھا۔
جب میں مقام تنعیم پرپہنچی تو وہاں عثمان بن طلحہ ملے
اے زاد مسافر کی بیٹی، کہاں جارہی ہو؟
میں نے کہا: مدینہ منورہ اپنے خاوند کے پاس جا رہی ہوں۔
انہوں نے کہا: کیا اس سفر میں تمہارے ساتھ کوئ نہیں ؟
میں نے کہا: بخدا میرے ساتھ اللہ تعالی کے سوا کوئ نہیں۔
اللہ کی قسم ! اب میں تمہیں مدینہ پہنچا کر واپس آؤں گا پھر اس نے اونٹ کی نکیل پکڑی اور آگے چل دیئے۔
اللہ کی قسم ! میں نے عرب میں اس سے زیادہ نیک دل اور شریف انسان نہیں دیکھا۔ جب یہ ایک منزل طے کر لیتے تو میرے اونٹ کو بٹھا دیتے۔ پھر دور ہٹ جاتے۔ جب میں نیچے اتر جاتی تو وہ اونٹ پر سے ہووج اتار دیتے اور اسے کسی درخت کے ساتھ باندھ دیتے، پھر وہ خود کسی دوسرے درخت کے سائے میں جاکر لیٹ جاتے۔ جب روانگی کا وقت ہوتا تو یہ میرے اونٹ کو تیار کر کے میرے پاس لے آتے۔ جب میں اونٹ پر سوار ہوجاتی تو وہ اس کی نکیل پکڑ کر چل دیتے۔
وہ ہر روز اسی طرح میرے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ جب بنو عمروبن عوف کی بستی نظر آئ تو انہوں نے مجھے کہا: آپ کا خاوند اس بستی میں رہائش پذیر ہے۔ اللہ تعالی کی برکت سے اس میں چلی جائیے۔ یہ کہا اور ہمیں وہاں چھوڑ کر مکہ معظمہ واپس لوٹ گئے۔
یہ منتشر گھرانہ بڑی طویل جدائ کے بعد پھر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اکٹھا ہو گیا۔ اپنے خاوند کو دیکھ کر ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) کی آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں۔ حضرت ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ) نے اپنی بیوی اور بیٹے کوصحیح سلامت دیکھ کر سکھ کا سانس لیا اور انتہائ مسرت کا اظہار فرمایا۔
پھر بیشمار واقعات پلک جھپکنے میں گزرنے لگے۔
غزوہ بدر میں حضرت ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ) شریک ہوئے اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ بڑی واضح کامیابی حاصل کر کے واپس لوٹے۔ غزوہ بدر کے بعد غزوہ احد میں شرکت کی اور اس میں پیش آنے والے مشکل حالات و مصائب کا سامنا کیا۔ اس آزمائش میں بھی توفیق الہی سے پورے اترے، لیکن اس معرکہ میں انہیں ایک گہرا زخم لگا۔ علاج کرنے سے بظاہر تو وہ مندمل ہو گیا لیکن اندر سے زخم کچا رہ گیا تھا۔ تھوڑے عرصے بعد وہ زخم دوبارہ تازہ ہوگیا اور حضرت ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ) شدید تکلیف میں مبتلا ہو کر صاحب فراش ہو گئے۔
حضرت ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ) نے علاج کے دوران اپنی بیوی سے کہا:
ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا)  ! میں نے رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر کوئ شخص مصیبت کے وقت صبر کرے۔
اور ساتھ ساتھ یہ کلمات بھی کہے۔
الہی: میں اپنی اس مصیبت میں تیری ذات اقدس سے اجروثواب کی تمنا رکھتا ہوں۔
الہی: مجھے نعم البدل عطا کر:
تو اللہ سبحانہ و تعالی دعا کو قبول کرتے ہوئے اسے نعم البدل عطا کر دیتے ہیں۔
حضرت ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ) کافی عرصہ تک اسی بیماری میں مبتلا رہے۔ ایک دن رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) صبح کے وقت آپ کی تیمارداری کے لئے تشریف لائے آپ تیمارداری کرکے ابھی واپس گھر کے دروازے تک پہنچے ہی تھے کہ حضرت ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ) اللہ کو پیارے ہو گئے۔
رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے مبارک ہاتھ سے آپ کی آنکھیں بند کیں۔
اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے دعا کی:
الہی: ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ) کو بخش دے اور اسے اپنے مقرب بندوں میں اعلی مقام عطا کر اور اس کے لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے اورانہیں اس کا نعم البدل عطا کر۔
اے پروردگار عالم : اسے اور ہمیں بخش دے اور اس کی قبر کو فراخ اور منور فرما۔ اس موقع پر حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) کو یہ دعا یاد آئ جو حضرت ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ) نے رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کے حوالے سے بیان کی تھی تو اس نے فوراً اپنے رب تعالی سے التجا کی۔
الہی: میں اپنی اس مصیبت میں تیری ذات اقدس سے اجرو ثواب کی نیت کرتی ہوں۔
لیکن اس کا دل یہ بات کہنے کے لئے آمادہ نہ ہو رہا تھا کہ وہ یہ کلمات کہے کہ الہی! مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما۔ وہ دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ ان کا نعم البدل کون ہو سکتا ہے۔ بہر حال چارہ ناچار انہوں نے دعائیہ كلمات مکمل کر لئے۔
حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) کو پیش آنے والے اس حادثہ فاجعہ پر مسلمانوں میں غم کی لہر دوڑ گئ اور ہمدردی کے طور پر آپ کو بیوہ عرب کے نام سے یاد کرنے لگے۔
حضرت ابو  سلمہ ( رضی اللہ عنہ) کی وفات کے بعد چھوٹی عمر کی کثیر اولاد کے علاوہ عزیزو اقارب میں سے کوئ بھی بڑی عمر کا فرد موجود نہ تھا۔
اس صورت حال کے پیش نظر مہاجرین و انصار نے سوچا کہ حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) کی نصرت ہمارا دینی فرض ہے، اس لئے ایام عدت گزر جانے کے بعد سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر ( رضی اللہ عنہ) نے نکاح کا پیغام بھیجا تاکہ انہیں مکمل تحفظ مل سکے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) نے پیش کش کی، وہ بھی آپ نے قبول نہ کی۔
پھر چند دن گزر جانے کے بعد رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے پیش کش کی تاکہ ناتواں اولاد کو مکمل تحفظ مل سکے۔
حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) نے عرض کی یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) میری تین معروضات ہیں۔
ایک تو میں انتہائ غصیل عورت ہوں، مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو میری کوئ بات ناگوار گزرے اور آپ مجھ پر ناراض ہو جائیں اور میں اللہ تعالی کی طرف سے کسی عذاب میں مبتلا ہو جاؤں۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ میں ایک عمر رسیدہ عورت ہوں۔
اور تیسری بات یہ ہے کہ میں عیالدار ہوں اور چھوٹے چھوٹے میرے بچے ہیں۔
یہ سن کر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:
جہاں تک تیرے غصیل ہونے کا تعلق ہے، میں اللہ تعالی سے دعا کروں گا انشاءاللہ تیری یہ عادت کافور ہو جائے گی۔
جہاں تک عمر رسیدہ ہونے کی بات ہے، اب میں بھی تیری طرح عمر رسیدہ ہی ہوں اور جو آپ نے عیالداری کا تذکرہ کیا ہے تو اسی لئے تو میں پیش کش کر رہاہوں تاکہ ان کی ذمہ داری لے کر آپ کو اس پریشانی سے نجات دوں اس کے بعد آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر انہیں ہر قسم کی پریشانی سے نجات دلانے کا باعث بن گئے۔ اس طرح اللہ رب العزت نے حضرت ام سلمہ( رضی اللہ عنھا ) کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور انہیں حضرت ابو سلمہ ( رضی اللہ عنہ) کا نعم البدل عطا کردیا۔
رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد بنو مخزوم قبیلہ کی یہ ہند نامی عورت صرف ام سلمہ ( رضی اللہ عنہ ) ہی نہ رہی، بلکہ انہیں ام المومنین بننے کا عظیم شرف بھی حاصل ہو گیا۔
اللہ سبحانہ وتعالی حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) کا چہرا جنت میں روشن کردے اللہ تعالی ان سے راضی اور وہ اللہ تعالی سے راضی۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ ( رضی اللہ عنھا) کے مفصل حالات زندگی معلوم کر نے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
1. الاصابۃ          240-242
2. الاستیعاب طبع حیدرآباد    2/ 780
3. اسد الغابۃ   5/ 588. 589
4. تھذیب التھذیب    2/ 455. 456
5. تقریب التھذیب    2/ 627
6. صفۃ الصفوۃ     2/ 20. 21
7. شذرات الذھب    1/ 69. 70
8. تاریخ الاسلام    3/ 97. 98
9. ابدایۃ و النھایۃ   8/ 214. 215
10. الاعلام و المراجع   9/ 104

🌴بارک اللہ فیکم🌴
===========>ختم شدہ۔۔
 

طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments