السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*حيات صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم*
(حضرت سعيد بن عامر رضي الله عنه)
1.
قسط3۔۔۔۔۔
آپ سے زیادہ اور کوئ اس کا مستحق نہیں۔
اس مرحلہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جناب سعید رضی اللہ عنہ کو اپنی نصرت و تائید کے لئے دعوت دی اور فرمایا:
اے سعید رضی اللہ عنہ ہم تمہیں علاقہ حمص کا گورنر مقرر کرتے ہیں۔
انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا:
اے عمر رضی اللہ عنہ اللہ کا واسطہ ہے، "مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالئے۔ "
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر خفا ہو کر فرمایا:
بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خلافت کا بار تنہا میری گردن پر ڈال دیا.اور خود اس سے الگ تھلگ ہونے کی کوشش کر رہے ہو۔
خدا کی قسم میں چھوڑ نے والا نہیں۔
اس کے بعد آپ نے ان کو صوبہ حمص کا گورنر مقرر کیا اور ارشاد فرمایا:
کیا تمہارے لیے ہم کچھ معاوضہ مقرر نہ کر دیں.?
اس پر سعید رضی اللہ عنہ نے کہا.
امیر المومنین ! میں معاوضہ لے کر کیا کروں گا. بیت المال سے جو ملتا ہے وہ بھی میری ضرورت سے زیادہ ہے. یہ کہا اور حمص کی طرف چل دیے.
کچھ عرصہ بعد اہلیان حمص میں سے قابل اعتماد افراد پر مشتمل ایک وفد امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
آپ نے وفد کو حکم دیا.
تم لوگ مجھے ان افراد کے نام لکھ کردو جو تم میں مفلس و نادار ہیں تاکہ میں ان کی مالی مدد کر سکوں. وفد نے آپ کی خدمت میں ایک دستاویز پیش کی۔
آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اس فہرست میں حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کا نام بھی درج ہے.۔
آپ نے دریافت فرمایا:
کون سعید بن عامر رضی اللہ عنہ
انہوں نے بتایا کہ ہمارا گورنر
فرمایا آپ کا گورنر مفلس ہے؟
انہوں نے کہا جی ہاں ، خدا کی قسم ! کئ کئ دن ان کے چولہے میں آگ نہیں جلتی.
یہ سننا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ بے اختیار رو پڑے اور اتنے روئے کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئ.
آپ اٹھے اور ہزار دینار لئے اور ان کو ایک تھیلی میں بھرکر فرمایا:
اس سے میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ امیر المومنین نے یہ تھیلی تمہارے لئے بھیجی ہے تاکہ اس سے تم اپنی ضروریات کو پورا کرسکو.
یہ وفد حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے ہاں تھیلی لے کر آیا . آپ نے دیکھا کہ اس میں تو دینار ہیں تھیلی کو اپنے سے دور ہٹا کر بس یہ کہنے لگے.
انا للہ و انا الیہ راجعون..
گویا کوئ بپتا نازل ہوگئ یا کوئ ناگوار واقعہ پیش آگیا.
یہ کیفیت دیکھ کر آپ کی بیوی گھبرائ ہوئ اٹھی اور کہنے لگی..
میرے سر کے تاج! کیا سانحہ رونما ہوگیا!.
کیا امیر المومنین وفات پا گئے؟
آپ نے فرمایا. نہیں بلکہ یہ بات کہیں زیادہ اہم ہے.
اس نے پوچھا..کیا کسی معرکہ جہاد میں مسلمانو ں کو کوئ صدمہ پہنچا؟
آپ نے فرمایا.اس سے بھی بڑی بات-
اس نے عرض کی. بھلا اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے؟
فرمایا:
میرے ہاں دنیا اور آئ تاکہ میری آخرت بگاڑ دے. میرے گھر فتنہ ابھر آیا.
اس نے عرض کی..
کیوں نہ آپ اس فتنہ سے گلو خلاصی کر لیں. اسے دیناروں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا.
انہوں نے فرمایا.
کیا اس سلسلہ میں میری مدد کروگی؟
===========>جاری ہے..
*حيات صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم*
(حضرت سعيد بن عامر رضي الله عنه)
1.
قسط3۔۔۔۔۔
آپ سے زیادہ اور کوئ اس کا مستحق نہیں۔
اس مرحلہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جناب سعید رضی اللہ عنہ کو اپنی نصرت و تائید کے لئے دعوت دی اور فرمایا:
اے سعید رضی اللہ عنہ ہم تمہیں علاقہ حمص کا گورنر مقرر کرتے ہیں۔
انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا:
اے عمر رضی اللہ عنہ اللہ کا واسطہ ہے، "مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالئے۔ "
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر خفا ہو کر فرمایا:
بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خلافت کا بار تنہا میری گردن پر ڈال دیا.اور خود اس سے الگ تھلگ ہونے کی کوشش کر رہے ہو۔
خدا کی قسم میں چھوڑ نے والا نہیں۔
اس کے بعد آپ نے ان کو صوبہ حمص کا گورنر مقرر کیا اور ارشاد فرمایا:
کیا تمہارے لیے ہم کچھ معاوضہ مقرر نہ کر دیں.?
اس پر سعید رضی اللہ عنہ نے کہا.
امیر المومنین ! میں معاوضہ لے کر کیا کروں گا. بیت المال سے جو ملتا ہے وہ بھی میری ضرورت سے زیادہ ہے. یہ کہا اور حمص کی طرف چل دیے.
کچھ عرصہ بعد اہلیان حمص میں سے قابل اعتماد افراد پر مشتمل ایک وفد امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
آپ نے وفد کو حکم دیا.
تم لوگ مجھے ان افراد کے نام لکھ کردو جو تم میں مفلس و نادار ہیں تاکہ میں ان کی مالی مدد کر سکوں. وفد نے آپ کی خدمت میں ایک دستاویز پیش کی۔
آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اس فہرست میں حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کا نام بھی درج ہے.۔
آپ نے دریافت فرمایا:
کون سعید بن عامر رضی اللہ عنہ
انہوں نے بتایا کہ ہمارا گورنر
فرمایا آپ کا گورنر مفلس ہے؟
انہوں نے کہا جی ہاں ، خدا کی قسم ! کئ کئ دن ان کے چولہے میں آگ نہیں جلتی.
یہ سننا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ بے اختیار رو پڑے اور اتنے روئے کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئ.
آپ اٹھے اور ہزار دینار لئے اور ان کو ایک تھیلی میں بھرکر فرمایا:
اس سے میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ امیر المومنین نے یہ تھیلی تمہارے لئے بھیجی ہے تاکہ اس سے تم اپنی ضروریات کو پورا کرسکو.
یہ وفد حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے ہاں تھیلی لے کر آیا . آپ نے دیکھا کہ اس میں تو دینار ہیں تھیلی کو اپنے سے دور ہٹا کر بس یہ کہنے لگے.
انا للہ و انا الیہ راجعون..
گویا کوئ بپتا نازل ہوگئ یا کوئ ناگوار واقعہ پیش آگیا.
یہ کیفیت دیکھ کر آپ کی بیوی گھبرائ ہوئ اٹھی اور کہنے لگی..
میرے سر کے تاج! کیا سانحہ رونما ہوگیا!.
کیا امیر المومنین وفات پا گئے؟
آپ نے فرمایا. نہیں بلکہ یہ بات کہیں زیادہ اہم ہے.
اس نے پوچھا..کیا کسی معرکہ جہاد میں مسلمانو ں کو کوئ صدمہ پہنچا؟
آپ نے فرمایا.اس سے بھی بڑی بات-
اس نے عرض کی. بھلا اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے؟
فرمایا:
میرے ہاں دنیا اور آئ تاکہ میری آخرت بگاڑ دے. میرے گھر فتنہ ابھر آیا.
اس نے عرض کی..
کیوں نہ آپ اس فتنہ سے گلو خلاصی کر لیں. اسے دیناروں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا.
انہوں نے فرمایا.
کیا اس سلسلہ میں میری مدد کروگی؟
===========>جاری ہے..
0 Comments