حضرت صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا
"حضرت صفیہ بنت عبد المطلب وہ پہلی خاتون ہیں جس نے دین الہی کے دفاع میں ایک مشرک کو موت کی ننید سلا دیا" (مؤرخین)
بھلا یہ رانی کون ہے جو فہم وفراست کے اعلی معیار پر فائز ہے اور مرد جس کے کارناموں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یہ بہادر صحابیہ کون ہے جسے تاریخ اسلام میں ایک مشرک کو قتل کرنے کا سب سے پہلے اعزاز حاصل ہوا؟
یہ وہ محتاط اور زیرک خاتون ہیں جس نے مسلمانوں کے لئے ایک ایسے بہادر بیٹے کو جنم دیا جس نے اسلام کی سر بلندی کے لئے سب سے پہلے تلوار ہاتھ میں لی-
بلا شبہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب ہے ۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب کو مجد و شرف ہر جانب سے حاصل ہے۔
ان کا باپ عبدالمطلب بن ہاشم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا اور قریش کے ہر دل عزیز سردار تھے اور ان کی والدہ ہالہ بنت وہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب کی بہن تھیںان کا پہلا خاوند حارث بن حرب بنو امیہ کے سردار ابو سفیان بن حرب کا بھائی تھا ،وہ فوت ہو گیا ۔
اور ان کا دوسرا خاوند عوام بن خویلد، سیدہ خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہا کا بھا ئی تھا ۔جنہیں امہات المومنین میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ۔
اور ان کا بیٹا زبیر بن عوام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حواری تھا
کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور بھی شرف ہے جسے حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے دلوں میں کوئی طمع پیدا ہو
اس کا خاوند عوام بن خویلد فوت ہوا تو اس نے اپنے پیچھے زبیر نامی ایک چھٹا سا بچہ چھوڑا۔ والدہ نے جنگی نقطہ نظر سے اپنے بچے کی تربیت نہایت سخت انداز سے کی ۔کھیلنے اور دل لبھانے کے لئے تیر کمان دئیے
ہر خوف ناک جگہ اور پر خطرناک مقام میں دھکیل دیا اگر اس کبھی اس مقام پر جانے سے انکار کیا تو بری طرح پٹائی کی ۔حتی کہ ایک دفعہ ان کے چچا نے ان کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کیا اس طرح بچوں کو مارا جاتا ہے۔تیرے اس طرز عمل سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ تجھے اس بچے کے ساتھ عناد ہے ۔
اس نے فرمایا: کہ جو کوئی بھی کہتا ہے کہ مجھے اس بچے سے بغض ہے تو جھوٹ کہتا ہے۔ میں تو اسے اس لئے مارتی ہوں کہ یہ عقل مند ہو جائےاور یہ لشکر کو شکست فاش دے سکےاور کامیاب وکامران ہو کر لوٹ سکے۔
جب اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حق و صداقت اوررشد وہدائیت کا پیغام دے کر مبعوث فرمایا،اور لوگوں کے لئے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا اور یہ حکم دیا کہ سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں سے دینی دعوت کا آغاز کریں۔
آپ نے بنو عبدالمطلب کے مرد زن اور چھوٹے بڑوں کو جمع کرکے یہ ارشاد فرمایا:
اے فاطمہ !بنت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اے صفیہ بنت عبدالمطلب ،اے بنو عبدالمطلب آگاہ رہو ،میں اللہ کی طرف سے تمہارے لئے کسی چیز کا مالک نہیں، قیامت کے روز صرف عمل ہی کام آئیں گے ۔پھر انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اپ ی رسالت کا اقرار کرنے کی تلقین کی۔ ان میں سے بعض خوش قسمت لوگوں نے نور الہی کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور بعض بدقسمت اس روشنی سے محروم رہے لیکن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو سے پہلے ایمان لانے اور تصدیق کرنے والوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
اسی طرح حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو حسب و نسب اور اسلام قبول کرنے کا عز و شرف بیک وقت حاصل ہو گیا
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور ان کا نوجوان بیٹا حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نورانی جماعت کے ساتھ مل گئے اور انہیں بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح قریش کی جانب سے بے شمار تکالیف کا سامنہ کرنا پڑا۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا تو اس ہاشمی سیدہ نے مکہ معظمہ میں اپنی جملہ یاداشتیں، فخر و مباہات اور تمام تر ترجیہات کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف رضائے الہی کے لئے ہجرت کا سفر اختیار کیا ۔
باوجودیکہ یہ عظیم عورت اپنی عمر کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکی تھیں ،لیکن انہوں نے میدان ہائے جہاد میں ایسے ایسے کارنامے سر انجام دئیے جو تاریخ میں سنہری باب کی حثیت رکھتے ہیں۔ان میں سے دو کارنامے پیش خدمت ہیں ان میں سے ایک غزوہ احد میں سر انجام دیا اور دوسرا غزوہ خندق میں۔
غزوہ احد میں یہ عظیم خاتون دیگر خواتین کے ہمراہ لشکر اسلام میں شامل ہوئیں۔انہوں نے سپاہیوں کو پانی پلانے ،زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور تیر کمان درست کرنے کی خدمات سر انجام دیں۔ اس کے ساتھ لشکر میں شامل ہونے کا مقصد یہ بھی تھا کہ معرکہ آرائی کا بے چشم خود معائنہ کریں۔
آپ اس لئے بھی حوصلہ مند اور پر عزم تھیں کہ اپ کے بھتیجے رسول اللہ ﷺ حقیقی بھائی شیر خدا حضرت حمزہ عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور بیٹا حوارئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ان کے ہمراہ تھے اور سب سے بڑھ کر اسلامی حمیت اور ایمانی جرآت و شجاعت شامل حال تھی۔ اسلام کی سر بلندی کے لئے ہجرت کا راستہ اختیار کیا اور اس میں ہی جنت کا راستہ دکھائی دیا
غزوہ احد میں جب اس نے دیکھا کہ میدان جنگ میں چند ایک کے علاوہ تمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے ہٹ گئے۔۔۔۔
اس نے دیکھا کہ ایک مسلح دشمن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ہی چاہتا ہے اور خطرہ ہے کہ وہ آپ ﷺ نقصان پہنچائے گا، گھبراہٹ میں اپنا مشکیزہ زمین پر پھینکا اور شیرنی کی طرح جھپٹی،جس کے بچے پر حملہ کر دیا گیا ہو، ایک شکست خوردہ صحابی سے نیزہ چھینا اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتی ہوئی اور اپنے نیزے سے دشمنوں کے چہرے کو چھیلتی ہوئی آگے بڑھی اور مسلمانوں کو جنجھوڑتی ہوئی کہنے لگی :
مسلمانوں! تم پر افسوس تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلے چھوڑ کر دور ہٹ گئے ہو !
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پر جوش انداز میں آگے بڑھتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے کہ کہیں اپنے بھائی حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کو نہ دیکھ لے جسے دشمن نے بری طرح مسل رکھا تھا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے سے کہا:
زبیر! اسے روکیں۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے آگے برھ کر کہا :
امی جان! رک جائیں۔۔
اس نے کہا مجھ سے دور ہٹ جائیں۔
بیٹے نے عرض کیا ۔امی جان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے ۔ آپ واپس آ جائیں۔۔
فرمایا کیوں؟
مجھے خبر ملی ہے کہ میرے بھائی کے اللہ راہ میں ناک،کان کاٹ دئیے گئے ہیں۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے جانے دیں اس کا راستہ نہ روکیں۔۔
جب جنگ کی آگ ماند پڑ گئی تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی کی لاش دیکھی۔ ان کا پیٹ کاٹ دیا گیا تھا ان کا جگر نکال دیا گیا تھا ،ناک،کان کاٹ دئیے گئے تھے۔چہرے پر گہرے زخم لگائے گئے تھے۔بہن نے بھائی کے حق میں مغفرت کی دعا کی اور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی:
بھائی جان یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں ہے ۔
میں اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں۔
اللہ کی قسم! میں صبر کروں گی اور عنداللہ ثواب کی امید رکھوں گی
یہ تو غزوہ احد میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا مثالی اور قابل تقلید کارنامہ تھا ، لیکن انہوں نے غزوہ خندق میں جو کارنامہ انجام دیا ، وہ ان کی ہمت و جرآت اور عقل و دانش کا شاہکار تھا
تاریخ کے آئینہ میں اس حیرت انگیز واقعہ کا مشاہدہ کریں۔
رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی آپ کسی غزوہ پر روانگی کا ارادہ کرتے تو مسلمان عورتوں اور بچوں کی رہائش کا انتظام کسی قلعہ میں کرتے تاکہ دشمن انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
غزوہ خندق میں مدینہ کی تمام خواتین اور بچوں کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اس قلعے میں محفوظ کر دیا جو انہیں اپنے اجداد سے ورثہ میں ملا تھا۔ یہ قلعہ ہر طرف سے انتہائی محفوظ تھا۔
مسلمان خندق کے کنارے قریش کے مقابلے میں ڈھاٹے ہوئے تھے۔ دشمن کے بالمقابل آنے کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کی طرف مکمل توجہ نہ دے سکے۔
ایک صبح منہ اندھیرے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے قلعہ کے نزدیک ایک سایہ متحرک ہے اور کسی کے پاؤں کی آہٹ بھی سنی ۔ غور سے دیکھا تو انہیں ایک یہودی قلعہ کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دیا اور وہ قلعے کے اندرونی حالات معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس کی حرکات دیکھ کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو یقین ہو گیا کہ یہ تو اپنی قوم کے لئے جاسوسی کر رہا ہے اور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ قلعے کے اندر مرد بھی ہیں یا عورتیں اور بچے ہی ہیں۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دل میں کہا:
بنو قریظہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کو پامال کر کے مسلمانوں کے خلاف قریش سے تعاون کرنا شروع کر دیا ہے۔
اب قلعے کے اندر کوئی مرد نہیں جو عورتوں اور بچوں کے دفاع کے لئے آگے بڑھے ۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم دشمن کے مقابلے میں مصروف ہیں۔
اگر یہ دشمن قلعے کی اندرونی صورت حال سے آگاہ ہو کر اپنی قوم کو بتانے میں کامیاب ہو گیا تو یہودی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے عورتوں اور بچوں کو قید کر لیں گے اور یہ اندوہناک صورت حال مسلمانوں کے لئے سوہان روح ثابت ہو گی
اس نازک موقعہ پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ڈوپٹہ سر پر باندھا اور ایک پٹکا کمر میں کس لیا ،لاٹھی ہاتھ میں لی اور قلعے کے دروازے پر پہنچ گئیں۔
بڑی احتیاط کے ساتھ دروازے میں ایک چھوٹا سا سوراخ کر لیا اور اس میں سے دشمن کا بڑی احتیاط سے انتظار کرنے لگیں، جب وہ قریب آیا تو انہوں نے بڑے زور سے لاٹھی اس کے سر پر ماری اور وہ چکرا کر گر گیا ۔ اس کے بعد تابڑ توڑ لاٹھیوں کی بوچھاڑ کر دی ،یہاں تک کہ وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔
آپ آگے بڑھیں، چھری لے کر اس کی گردن کاٹی اور قلعے کے اوپر سے اس کا سر نیچے پھینک دیا وہ لڑھکتا ہوا ان یہودیوں کے سامنے جا گرا جو شدت سے اس کا انتظار کر رہے تھے اپنے ساتھی کا کاٹا سر دیکھ کر وہ گھبرا گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ قلعے کے اندر مجاہدین بھی موجود ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتیں اور بچے اکیلے نہیں چھوڑے۔ یہ صورت حال دیکھ کر الٹے پاؤں مڑ گئے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے راضی ہو گیا ۔بلا شبہ انہوں نے مسلمان خواتین کے لئے ایک روشن مثال قائم کی
اپنے اکلوتے فرزند کی احسن طریقے تربیت کی ۔ اپنے بھائی کی لاش دیکھ کر انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ۔
مشکلات ومصائب کو صبر استقامت سے برداشت کیا اور تاریخ کے اوراق میں یہ بات ثبت ہو گئی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبد المطلب وہ پہلی عظیم خاتوں ہیں جس نے جرآت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مشرک کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کے مفصل حالات جاننے کے کئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:
1۔ اسد الغابة : 173/7
2۔ الطبقات الکبرى : 41/8
3۔ سیراعلام النبلاء : 193/2
4۔ الاصابہ : 348
5۔ الاستیعاب : 345/4
6۔ سمط اللالی : 18/1
7۔ حیات صحابہ :154/4
8۔ السیرةالنبویة : فہرست دیکھے
9۔ ذیل تاریخ الطبری : فہرست دیکھے
10۔ الکامل فی التاریخ : فہرست دیکھے
11۔اعلام النساء : 346۔341/2
12۔ فتوح البلدان
13۔ الاغانی : فہرست دیکھے
14۔المستطرف : فہرست دیکھے
15۔المعارف لابن قتیبہ : فہرست دیکھے
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments