سیرت النبی ﷺ
﷽
💎 مواخات 💎
مہاجرین مکہ معظمہ سے بالکل بے سروسامان آئے تھے۔ گو ان میں دولت مند اور خوشحال بھی تھے لیکن کافروں سے چھپ کر نکلے تھے، اس لئے کچھ ساتھ نہ لا سکے تھے۔
اگرچہ مہاجرین کے لئے انصار کا گھر مہمان خانہ عام تھا تاہم ایک مستقل انتظام کی ضرورت تھی۔ مہاجرین نذر اور خیرات پر بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے، وہ دست و بازو سے کام لینے کے خوگر تھے، چونکہ بالکل نگھرے تھے اور ایک حبہ تک پاس نہ تھا۔ اس لئے آنحضرت ﷺ نے خیال فرمایا کہ انصار اور ان میں رشتہ اخوت قائم کردیا جائے۔ جب مسجد کی تمیر قریب ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے انصار کوطلب فرمایا۔ حضرت انس بن مالک جو اس وقت دو سالہ تھے، ان کے مکان میں لوگ جمع ہوئے، مہاجرین کی تعداد پینتالیس تھی، آنحضرت ﷺ نے انصار کی طرف خطاب کرکے فرمایا: یہ تمہارے بھائی ہیں۔ پھر مہاجرین اور انصار میں سے دو دو شخص کو بلا کر فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو اور اب وہ درحقیقت بھائی بھائی تھے۔ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جا کر گھر کی ایک ایک چیز کا جائزہ دے دیا کہ آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے، سعد بن الربيع جو عبدالرحمن بن عوف کے بھائی قرار پائے، ان کی دو بیویاں تھیں ، عبدالرحمن سے کہا کہ
ایک کو میں طلاق دیتا ہوں آپ اس سے نکاح کر لیجئے لیکن انہوں نے احسان مندی کے ساتھ انکار کیا۔
انصار کا مال و دولت، جو کچھ تھا نخلستان تھے، روپے پیسے تو اس زمانہ میں تھے نہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ یہ باغ ہمارے بھائیوں میں برابر تقسیم کر دیے جائیں ، مہاجرین تجارت پیشہ تھے اور اس وجہ سے کھیتی کے فن سے بالکل نا آشنا تھے۔ اس بنا پر انحضرت ﷺ نے ان کی طرف سے انکار کیا، انصار نے کہا سب کاروبار ہم خود انجام دے لیں گے جو کچھ پیداوار ہوگی اس میں نصف حصہ مہاجرین کا ہوگا ، مہاجرین نے اس کو منظور کیا۔
یہ رشتہ بالکل حقیقی رشتہ بن گیا، کوئی انصاری مرتا تھا تو اس کی جائیداد اور مال مہاجر کو ملتا تھا اور بھائی
بند محروم رہتے ، یہ اس فرمان الہی کی تعمیل تھی:
[ إن الذين أمنوا وَهَاجَرُوا وَجھدوا بأموالهم وانفسهم في سبيل الله والذين اووا ونصروا أولئك بعضھم اولیاء بعضا. (۸/ الأنفال: ۷۲)
" جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور خدا کی راہ میں مال و جان سے جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے ان لوگوں کو پناہ دی اور ان کی مدد کی ، یہ لوگ باہم بھائی بھائی ہیں" ۔
جنگ بدر کے بعد جب مہاجرین کو اعانت کی ضرورت نہ رہی تو یہ آیت اتری:
[ وأولوا الارحاو بعضهُم اولی ببعض ] (۸/ الانفال : ۷۵)
" ارباب قرابت ، ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں " ۔
اس وقت سے یہ قاعده جاتا رہا چنانچہ کتب تفسیر و حدیث میں بتصریح مذکور ہے۔
سنہ ھ ٤ میں بنو نضیر جب جلا وطن ہوئے اور ان کی زمین اور نخلستان قبضہ میں آئے تو آنحضرت ﷺ نے انصار کو بلا کر فرمایا کہ مہاجرین نادار ہیں ، اگر تمہاری مرضی ہو تو نئے مقبوضات تنہا ان کو دے دیئے جائیں اور تم اپنے نخلستان واپس لے لو ‘‘ انصار نے عرض کی کہ نہیں ہمارے نخلستان بھائیوں کے قبضہ میں رہنے دیجئے اور نئے بھی انہی کو عنایت فرمایئے۔
دنیا انصار کے اس ایثار پر ہمیشہ ناز کرے گی لیکن یہ بھی دیکھو کہ مہاجرین نے کیا کیا؟ حضرت سعد بن
الربیع نے جب حضرت عبدالرحمن بن عوف کو ایک ایک چیز کا جائزہ دے کر نصف لے لینے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا: خدا یہ سب آپ کو مبارک کرے ، مجھ کو صرف بازار کا راستہ بتا دیجئے ۔انہوں نے قینقاع کا، جو مشہور بازار تھا جاکر راستہ بتا دیا، انہوں نے کچ گھی ، کچھ پنیر خریدا اور شام تک خرید و فروخت کی چند روز میں اتنا سرمایہ ہو گیا کہ شادی کر لی۔ رفتہ رفتہ ان کی تجارت کو یہ ترقی ہوئی کہ خود ان کا قول تھا کہ خاک پر ہاتھ ڈالتا ہوں تو سونا بن جاتی ہے، ان کا اسباب تجارت سات سات سو اونٹوں پر لد کر آتا تھا اور جس دن مدینہ میں پہنچتا تمام شہر میں دھوم مچ جاتی تھی۔
بعض صحابہ نے دکانیں کھول لیں، حضرت ابو بکر کا کارخانہ مقام سخ میں تھا جہاں وہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے حضرت عثمان بنو قینقاع کے بازار میں کھجور کی خرید و فروخت کرتے حضرت عمر بھی تجارت میں مشغول ہو گئے تھے اور شاید ان کی اس تجارت کی وسعت ایران تک پہنچ گئی تھی دیگر صحابہ نے بھی اسی قسم کی چھوٹی بڑی تجارت شروع کردی تھی ۔ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ پر لوگوں نے جب کثرت روایت کی بنا پر اعتراض کیا کہ اور صحابه تو اس قدر روایت نہیں کرتے تو انہوں نے کہا: اس میں میرا کیا قصور ہے، دیگر صحابہ بازار میں تجارت کرتے تھے اور میں رات دن بارگاہ نبوت میں حاضر رہتا تھا۔ پھر جب خیبر ہوا تو تمام مہاجرین نے یہ نخلستان انصار کو واپس کر د یے۔ صحیح مسلم باب الجہاد میں ہے :
{ أن رسول الله ﷺ مانع لما فرغ من قتال أهل خيبر وان صرف الى المدينة رد
المهاجرون الى الانصار منائحهم التي كانوا منحوهم من ثمار هم }
" انحضرت ﷺ جب جنگ خیبر سے فارغ ہوئے اور مدینہ واپس آئے تو مہاجرین نے انصار کے عطیے جو نخلستان کی صورت میں تھے واپس کر دیے۔“
مہاجرین کے لئے مکانات کا یہ انتظام ہوا کہ انصار نے اپنے گھروں کے آس پاس جو افتاده زمینیں تھیں ان کو دے دیں اور جن کے پاس زمین نہ تھی انہوں نے اپنے مسکونہ مکانات دے دیے، سب سے
پہلے حارثہ بن نعمان نے اپنی زمین پیش کی ، بنو زہرہ مسجد نبوی کے عقب میں آباد ہوئے ، عبدالرحمن بن عوف الله نے یہاں ایک قلعہ ( جس کو گڑھی کہنا زیادہ موزوں ہوگا ) بنوایا حضرت زبیر بن العوام کو ایک وسیع زمیں ہاتھ آئی ، حضرت عثمان ، مقداد ، حضرت عبید کو انصار نے اپنے مکانات کے پہلو میں زمینیں دیں ۔ مواخات کے رشتہ سے، جو لوگ آپس میں بھائی بھائی بنے ، ان میں سے بعض حضرات کے نام یہ ہیں:
مہاجرین انصار
حضرت ابو بکر••••حضرت خارجہ بن زید انصاری
حضرت عمر••••حضرت عتبان بن مالک انصاری
حضرت عثمان•••• حضرت اوس بن ثابت انصاری
حضرت ابو عبیدہ بن جراح•••حضرت سعد بن معاذ
حضرت زبیر بن العوام••• حضرت سلامہ بن وقش
حضرت مصعب بن عمیر•••حضرت ابو ایوب انصاری
حضرت عمار بن یاسر•••حضرت حذیفہ بن یمان
حضرت ابوذر غفاری•••حضر منذر بن عمرو
حضرت سلمان فارسی•••حضرت ابو درداء
حضرت بلال•••••حضرت ابو رویحہ
حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ•••حضرت عباد بن بشر
حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل•••حضرت ابی بن کعب
مواخات کا رشتہ بظاہر ایک عارضی ضرورت کے لئے قائم کیا گیا کہ بے خانماں مہاجرین کا چند روزه انتظام ہو جائے لیکن درحقیقت یہ عظیم الشان اغراض اسلامی کی تکمیل کا سامان تھا۔
اسلام، تہذیب اخلاق و تکمیل فضائل کی شہنشاہی ہے۔ اس سلطنت الہی کے لئے وزراء، ارباب تدبیر سپہ سالاران لشکر، ہر قابلیت کے لوگ درکار ہیں ، شرف صحبت کی برکت سے مہاجرین میں ان قابلیتوں کا ایک گروہ تیار ہو چکا تھا اور ان میں یہ وصف پیدا ہو چکا تھا کہ ان کی درسگاہ تربیت سے اور ارباب استعداد بھی تربیت پاکر نکلیں، اس بنا پر جن لوگوں میں رشتہ اخوت قائم کیا گیا ان میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا کہ استاد اور شاگرد میں وہ اتحاد مذاق موجود ہو جو تربیت پذیری کے لئے ضروری ہے تفحص اور استقصا سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص جس کا بھائی بنایا گیا۔ دونوں میں یہ اتحاد مذاق ملحوظ رکھا گیا اور جب اس بات پر لحاظ کیا جائے کہ اتنی کم مدت میں سینکڑوں اشخاص کی طبیعت اور فطرت اور مذاق کا صحیح اور پورا اندازہ کرنا قریبا ناممکن ہے تو تسلیم
کرنا پڑے گا کہ یہ شان نبوت کی خصوصیات میں سے ہے۔
حضرت سعید بن زید عشرہ مبشرہ میں ہیں، ان کے والد زید انحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے ملت ابراہیمی کے پیرو ہو چکے تھے اور گویا اسلام کے مقدمة الجیش تھے۔ حضرت سعید نے ان ہی کے دامن تربیت میں پرورش پائی تھی ، اس لئے اسلام کا نام سننے کے ساتھ ہی انہوں نے لبیک کہا۔ ان کی ماں بھی ان کے ساتھ یا ان سے پہلے اسلام لائیں ، حضرت عمر انہی کے گھر میں اور ان ہی کی ترغیب
سے اسلام کی طرف مائل ہوئے تھے۔ علم و فضل کے لحاظ سے فضلائے صحابہ میں تھے ۔ ان کی اخوت حضرت ابی بن کعب سے قائم کی گئی جنہوں نے یہ مرتبہ حاصل کیا کہ حضرت عمر ان کو سید المسلمین کہتے تھے ، بارگاہ نبوت میں منصب انشا پر سب سے پہلے وہی ممتاز ہوئے فن قراءت کے وہ امام تسلیم کئے جاتے ہیں:
حضرت ابوحذیفہ عتبہ بن ربیعہ کے فرزند تھے، جو قریش کا رئیس اعظم تھا۔ اس مناسبت سے ان کو حضرت عباد بن بشر کا بھائی بنایا گیا جو قبیلہ اشہل کے سردار تھے۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح جن کو رسول اللہ ﷺ نے امین الامہ کا خطاب دیا تھا ، ایک طرف تو فاتح شام ہونے کی قابلیت رکھتے تھے، دوسری طرف اسلام کے مقابلہ میں پدری اور فرزندی کے جذبات ان پر کچھ اثر نہیں کر سکتے تھے، چنانچہ غزوہ بدر میں جب ان کے باپ ان کے مقابلہ میں آئے تو انہوں نے پہلے حقوق ابوت کی مراعات کی لیکن بالآخر اسلام پر باپ کو نثار کر دینا پڑا۔ ان کی تربیت میں حضرت سعد بن معاذ دیے گئے ، جو قبیلہ اوس کے رئیس اعظم تھے، ان میں بھی ایثار کا یہ وصف نمایاں طور پر نظر آتا ہے، بنوقریظہ ان کے حلیف تھے اور عرب میں حلف کا رشتہ اخوت اور ابوت کے برابر ہوتا تھا۔تاہم غزوہ بنی قریظہ میں جب اسلام کا مقابلہ پیش آیا تو انہوں نے اپنے چار سو حلیفوں کو اسلام پر نثار کر دیا۔
حضرت بلال اور حضرت ابورویحہ، حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابو درداء، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت حذیفہ بن یمان حضرت مصعب اور حضرت ابو ایوب میں وہ وحدت موجود تھی جس کی بدولت نہ صرف شاگرد، بلکہ استاد بھی شاگرد سے اثر پذیر ہوسکتا تھا، حضرت عبد الرحمن بن عوف مدینہ میں آئے تو پنیر سر پر رکھ کر بیچتے تھے، حضرت سعد بن الربيع کی صحبت میں جو امیر الامراء تھے دولت اور امارت کے جس درجہ پر پہنچے ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔
انصار نے مہاجرین کی مہمانی اور ہمدردی کا جو حق ادا کیا دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
بحرین جب فتح ہوا تو آنحضرت ﷺ نے انصار کو بلا کر فرمایا کہ ”میں اس کو انصار میں تقسیم کر دینا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے عرض کی کہ پہلے ہمارے بھائی مہاجروں کو اتنی ہی زمین عنایت فرما لیجئے تب ہم لینا منظور کریں گے ۔‘‘
ایک دفعہ ایک فاقہ زدہ شخص انحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا کہ سخت بھوکا ہوں، آپ ﷺ نے گھر میں
دریافت فرمایا کہ کچھ کھانے کو ہے؟ جواب آیا کہ صرف پانی‘‘ آپ ﷺ نے حاضرین کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: کوئی ہے؟ جو ان کو آج اپنا مہمان بنائے ۔ ابوطلحہ نے عرض کی میں حاضر ہوں ۔ غرض وہ اپنے گھر لے گئے لیکن وہاں بھی برکت تھی، بیوی نے کہا: صرف بچوں کا کھانا موجود ہے۔ انہوں نے بیوی سے کہا: چراغ بجھا دو اور وہی کھانا مہمان کے سامنے لا کر رکھ دو، تینوں ساتھ کھانے پر بیٹھے ۔ میاں بیوی بھوکے بیٹھے رہے اور اس طرح ہاتھ چلاتے رہے کہ گویا کھا رہے ہیں، اسی واقعہ کے بارہ میں میں آیت اتری ہے۔
[ ويؤثرون على آنفسهِمْ وَلَ كان بهم خصاصه ( ٥۹/ الحشر:۹)
" اور گو ان کو خود تنگی ہو، تاہم اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں" ۔
≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠
❶سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد
🌹 ͜͡ ͜͡ 🌹
0 Comments