حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ 






بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم


 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ


*سعد تیر چلاؤ، میرے ماں باپ آپ پر قربان*

*(فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم)*




*(= ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن و فصالہ فی عامین ان اشکرلی ولوالدیک الی المصیر ہ و ان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما و صاحبھما فی الدنیا معروفا واتبع سبیل من اناب الی ثم الی مرجعکم فانبئکم بما کنتم تعملون =)*


*[ سورہ لقمان 14-15]*


*{ اور حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے یہ کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر بجا لا میری طرف تجھے پلٹنا ہے، لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی ہر گز نہ ماننا، دنیا میں اس کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ، مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے، پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے. اس وقت میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو.}*


ان آیات کریمہ کے پس منظر میں ایک دل نواز داستان پوشیدہ ہے. 


یادوں کی بارات نے جوان رعنا کے دل گداز میں ایک طلاطم سا پیدا کر دیا، قانون فطرت ہے کہ شر کے مقابلے میں خیر اور کفر کے مقابلے میں ایمان غالب آجاتا ہے، اس داستان کا بطل جلیل مکہ کا وہ عالی نسب اور با وقار نوجوان ہے جسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.


یہ نوجوان حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے، جب وادی مکہ میں آفتاب نبوت جگمگانے لگا، اس وقت یہ عنفوانِ شباب میں تھے، یہ باریک بین اور دور اندیش ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے مطیع و فرمانبردار تھے. 


خاص طور پر والدہ محترمہ سے انتہا درجہ کا پیار تھا. اگر چہ ان کی عمر سترہ سال تھی، لیکن عقل و دانش اور فہم و فراست میں بڑوں کے بالمقابل تھے، اسے ان کھیلوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جو اس کے ہم عمر کھیلا کرتے تھے. 


بلکہ یہ اکثر اوقات تیر و تفنگ بنانے اور ان کو سنبھالنے میں صرف کیا کرتے تھے، اس کا سے جو وقت بچتا وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں صرف کرتے گویا کہ یہ کسی بڑی مہم کو سر کرنے کے لئے مسلسل تیاری میں ہیں. 


ان کا دل اپنی قوم کے فاسد عقائد اور بد اعمالی دیکھ کر ہمیشہ مضطرب و بے چین رہتا، یہ بڑی شدت سے اس کا انتظار میں تھے، کوئی طاقتور غیبی ہاتھ نمودار ہو اور اس قوم کو تاریکیوں سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کر دے.


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ انہی افکار و خیالات میں غلطاں و پریشان تھے کہ مشیت الہی سے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کب کوئی با برکت نورانی ہاتھ پردہ رغبت سے ظہور پذیر ہوتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے وہ متبرک ہاتھ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں حفصہ شہود پر جگمگانے لگا. 


اور آپ کے ہمراہ کتاب الہی کی وہ نورانی کرنیں بھی تھیں جن کی چمک دمک کبھی ماند نہ پڑے، جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی طبعی میلان کی وجہ سے اس رشد و ہدایت کی دعوت کو فوراً قبول کر لیا، آپ سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں تیسرے یا چوتھے نمبر پر تھے


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت مسرت ہوئی، ان میں شرافت، دیانت اور شجاعت کے جوہر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے، ان سے یہ صاف طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ یہ پہلی رات کا چاند عنقریب ماہ کامل بن جائے گا. 


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی خاندانی وجاہت اس کے ہم عمر نوجوان کو اس بات پر آمادہ کر رہی تھی کہ وہ بھی انہی کا راستہ اختیار کر لیں. 


سب سے بڑھ کر انہیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ یہ رشتہ میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے ماموں زاد بھائی لگتے تھے، چونکہ یہ بنو زہرہ قبیلہ سے تھے اور بنو زہرہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ ماجدہ کا خاندان ہے، اس قربت داری کا خود رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم بھی بعض اوقات تذکرہ فرمایا کرتے تھے. 


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا اور خوشی سے جھومتے ہوئے فرمایا :


یہ میرے ماموں آ رہے ہیں، کوئی ان جیسا اپنا ماموں تو دکھلائے.


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا ان کے لئے کوئی آسان ثابت نہ ہوا بلکہ اس جوان رعنا کو بڑے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا، راہ خدا میں انہوں نے سختیاں جھیلیں، اذیتیں برداشت کیں، مصائب و مشکلات کی چکی میں پسے، انعام و اکرام کے طور پر اللہ تعالٰی نے ان کے حق میں اپنے کلام مقدس قرآن مجید میں آیات نازل کیں. 


ہم ان نادر اور انوکھے تجربات کی داستان حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی زبانی سناتے ہیں، حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اسلام قبول کرنے سے تین راتیں پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خوفناک تاریکیوں میں ڈوبتا جا رہا ہوں، میں ابھی اس تاریک و پر آشوب سمندر کی موجوں میں ہچکولے کھا رہا ہوں. 


اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چاند جگمگا رہا ہے، میں اسی کی طرف لپکا ہوں. میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مجھ سے پہلے چند لوگ مہتاب کے قریب پہنچ چکے ہیں


میں نے غور سے دیکھا تو مجھے زید بن حارثہ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دکھائی دیئے، میں نے ان سے پوچھا، آپ کب یہاں تشریف لائے، انہوں نے بتایا بس ابھی آئے ہیں، جب صبح ہوئی تو مجھے یہ پتا چلا کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم پس پردہ اللہ کے دین کی دعوت دے رہے ہیں، میں بھانپ گیا کہ اللہ تعالٰی میرے ساتھ خیر و برکت کا ارادہ رکھتے ہیں. 


اللہ سبحانہ و تعالٰی اپنے فضل و کرم سے چاہتے ہیں کہ مجھے کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر رشد و ہدایت کی روشنیوں تک پہنچا دیں.


میں اسی وقت بلا تاخیر آپ کی تلاش کے لئے چل پڑا، محلہ جیاد کی ایک گھاٹی میں آپ کی زیارت ہوئی، آپ نماز عصر سے فارغ ہوچکے تھے، میں نے اسلام قبول کرنے کی تمنا کی، آپ نے کمال محبت و شفقت سے مجھے مشرف باسلام کیا. 


اسی وقت میرے سامنے وہی عالی مقام تین حضرات آئے جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا، بعد ازاں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اسلام قبول کرنے کی داستان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں، کہ جونہی میری ماں نے میرے حلقہ بگوش اسلام ہونے کی خبر سنی تو آگ بگولا ہو گئیں


مجھے اپنی ماں سے والہانہ عقیدت و محبت تھی، میں ان کی خدمت کو اپنے لئے بہت بڑا اعزاز سمجھتا، اس نے مجھ سے خفا ہو کر پوچھا : اے سعد یہ کیسا دین ہے کہ جس نے تجھے اپنے ماں باپ کے دین سے منحرف کر دیا. 


بخدا.! یا تو تم یہ دین ترک کردو، ورنہ میں مرتے دم تک کچھ نہ کھاؤں گی اور نہ پانی کا گھونٹ حلق سے نیچے اتاروں گی، یہاں تک کہ اسی حالت میں میری موت واقع ہوجائے گی، اور غم سے تیرا کلیجہ پھٹ جائے گا، ندامت و شرمندگی تیرا مقدر بن جائے گی، اور زندگی بھر لوگ تجھے طعنے دیتے رہیں گے. 


میں نے کہا : امی جان خدا کے لئے ایسا نہ کرنا، مجھے آپ سے انتہائی عقیدت ہے، لیکن مجھے یہ دین آپ سے بھی زیادہ پیارا ہے میں اسے ہرگز نہیں چھوڑوں گا، لیکن وہ اپنی اس دھمکی پر قائم رہی، اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا، کئی روز اس نے بغیر کچھ کھائے پیئے گزار دیئے. 


جس سے اس کا جسم لاغر ہوگیا، ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور جسمانی قوی مضمحل ہوگئے میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اس کے پاس آتا اور التجا کرتا، کہ کچھ کھاپی لے، لیکن وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ انکار کر دیتی، اور بڑے وثوق سے کہتی :


کہ میں مرتے دم تک نہ کچھ کھاؤں گی اور نہ پانی پیوں گی ہاں اگر تجھے میری زندگی عزیز ہے تو یہ دین چھوڑ دے، جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو میں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا :


امی جان.! بلاشبہ مجھے آپ سے محبت ہے، لیکن آپ سے کہیں زیادہ اللہ تعالٰی اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، اللہ کی قسم.! اگر تیرے جسم میں ہزار جان بھی ہو اور وہ ایک ایک کرکے قفس عنصری سے پرواز کر جائے تب بھی میں اپنے دین کو نہیں چھوڑوں گا.


جب ماں نے میرا یہ پختہ عزم دیکھا تو اسے یقین آ گیا کہ میں اس نازک صورت حال سے متاثر ہو کر اپنا دین قطعاً نہیں چھوڑوں گا تو اس نے بادل نخواستہ کھانے کے چند لقمے لئے اور تھوڑا سا پانی پیا، اور ادھر الله جل شانہ نے ہمارے بارے میں یہ آیت نازل کر دی. 


*[[ وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما و صاحبھما فی الدنیا معروفا.]]*


*{ سورہ لقمان}*


*"" اور اگر وہ دونوں تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ ماننا دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا ""*


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کر نے سے مسلمانوں کو بہت تقویت ملی، غزوہ بدر میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی عمیر رضی اللہ عنہ نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیئے وہ ناقابل فراموش ہیں. 


عمیر رضی اللہ عنہ ابھی بچہ تھے، سن بلوغت کو بھی نہیں پہنچے تھے، جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے لشکر اسلام کا معائنہ کیا، تو عمیر رضی اللہ عنہ چھپ گئے، انہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر آپ کی نگاہ پڑگئی، تو مجھے چھوٹا سمجھ کر واپس لوٹا دیا جائے گا، لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھ لیا اور بچہ سمجھ کر واپس لوٹا دیا

یہ فیصلہ سن کر حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے زار و قطار رونا شروع کر دیا، ان کی یہ حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ترس آگیا، اور انہیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت دے دی، اجازت ملنے پر ان کے بھائی حضرت سعد رضی اللہ عنہ شاداں و فرحاں ان کی طرف آئے، اپنے ہاتھ سے ان کے کندھے پر تلوار لٹکائی. 


اور پھر دونوں بھائی جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر میدان کارزار میں اترے، جب معرکہ آرائی ختم ہوئی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے چھوٹے بھائی عمیر رضی اللہ عنہ کو سر زمین بدر میں دفن کر کے اکیلے مدینہ طیبہ واپس لوٹے چونکہ عمیر رضی اللہ عنہ نے میدان بدر میں جام شہادت نوش فرمایا تھا اور اللہ تعالٰی کے جوار رحمت میں پہنچ چکے تھے. 


غزوہ احد میں درے کی جانب سے دشمن نے اچانک زوردار حملہ کیا تو مسلمانوں کے قدم لڑکھڑا گئے، رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نہ رہ گئے تھے، اس نازک ترین موقعے پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اس جرات اور مہارت ست تیر اندازی کی کہ دشمن میں سے جسے تیر لگتا وہ وہیں ڈھیر ہوجاتا، اس میدان میں ان کا کوئی نشانہ بھی خطا نہ گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ماہرانہ تیر اندازی دیکھی، تو حوصلہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا :


سعد تیر اندازی جاری رکھو. 


*میرے ماں باپ آپ پر قربان!*


سعد تیر اندازی جاری رکھو. 


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عمر بھر رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے اس جملے پر فخر کرتے رہے. 


اکثر فرمایا کرتے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے *=فداک ابی و امی (میرے ماں باپ آپ پر قربان)=* کا جملہ صرف میرے لئے استعمال کیا. 


لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی عظمت کے نکتہ عروج پر اس وقت پہنچے جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایران پر ایسی چڑھائی کا ارادہ کیا جس سے ایرانیوں کی سلطنت کا خاتمہ ہو. 


ان کا تخت منہدم ہوجائے، سر زمین ایران سے بت برستی کی جڑیں اکھاڑ پھینکی جائیں. آپ نے تمام سرکاری نمائندوں کو خطوط ارسال کئے، اور ان میں لکھا کہ جس کے پاس اسلحہ، گھوڑے یا جو کچھ بھی جنگی سامان موجود ہے، اسے فوراً میری طرف روانہ کر دیں. 


آپ کا حکم ملتے ہی ہر طرف سے مجاہدین کے قافلے مدینہ طیبہ پہنچنے شروع ہو گئے، جب تمام وفود مدینہ پہنچ گئے تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارباب حل و عقد سے مشورہ کیا کہ لشکر اسلام کا سالار کسے بنایا جائے، تمام نے یک زبان ہو کر کہا *شیر خدا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو*


سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے پاس بلایا اور لشکر اسلام کا جھنڈا ان کے سپرد کر دیا، جب یہ لشکر جرار مدینہ طیبہ سے روانہ ہونے لگا، تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ الوداع کہنے کے لئے اٹھے، اور سپہ سالار کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :


اے سعد! یاد رکھنا، اللہ تعالٰی کے ہاں خاندانی برتری کوئی حیثیت نہیں رکھتی، وہاں تو صرف اطاعت کو ہی بلند مقام حاصل ہے، دنیاوی اعتبار سے معزز اور کمتر لوگ اللہ تعالٰی کے ہاں بالکل برابر ہیں، اللہ ان سب کا رب ہے، اور وہ سبھی اسی کے بندے ہیں. 


وہاں تو فضیلت تقوٰی کی بنیاد پر ملتی ہے، اطاعت و فرمانبرداری سے ہی مقام بلند نصیب ہوتا ہے، ہمیشہ اس کام پر نگاہ رکھو جسے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے سر انجام دیا، اس مشن کو آگے بڑھانا ہمارا اجتماعی فرض ہے، جسے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے جاری کیا تھا. 


سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی نصیحت سننے کے بعد یہ لشکر اپنے مشن پر روانہ ہو گیا، اس لشکر اسلام میں ننانوے بدری صحابہ، تین سو دس بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تین سو فتح مکہ میں شرکت کا اعزاز رکھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تقریباً سات سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نوجوان بیٹے شامل تھے. 


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے قادسیہ کے مقام پر لشکر کو پڑاؤ کرنے کا حکم دیا، وہیں لشکر کو ترتیب دیا اور دشمنان اسلام سے زور دار مقابلہ کیا، لڑائی کے آخری دن مسلمانوں نے عزم کیا کہ آج فیصلہ کن آرائی ہو. 


انہوں نے دشمن کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا، مسلمان نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمن کی صفوں میں جا گھسے، چشم زدن میں ایرانی لشکر کے سپہ سالار رستم کا سر قلم کر دیا، ایرانیوں نے جب اپنے سپہ سالار رستم کا سر مسلمانوں کے نیزوں کی انیوں پر دیکھا تو حواس باختہ ہو گئے. 


نوبت بایں جارسید کہ اسلامی لشکر سے ایک مجاہد ایرانی فوجی کے پاس آتا اور اسی کا ہتھیار چھین کر اسے قتل کر دیتا، اس جنگ میں مال غنیمت وافر مقدار میں مسلمانوں کے ہاتھ لگا، اور تیس ہزار ایرانی فوجی تہہ تیغ کر دئیے گئے.


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے لمبی عمر پائی، اللہ تعالٰی نے وافر مقدار میں مال و دولت سے نوازا، لیکن جب موت کا وقت قریب آیا، تو اپنا ایک بوسیدہ اونی جبہ منگوایا،اور یہ وصیت کی، کہ مجھے اس جبے کا کفن پہنانا کیونکہ میں نے میدان بدر میں یہ جبہ پہن کر جہاد کیا تھا، میری دلی خواہش ہے کہ میں اسی جبے میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کروں.


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں. 


1.. الاستیعاب 18/2


2.. الاصابہ 30/2


3.. اشھر مشاھیرہ الاسلام 525/3


4.. الطبقات الکبری 21/1


5.. تحفۃ الاحودی 252/10


6.. سیر اعلام النبلاء 63/1


7.. زعماء الاسلام 14


8.. صفۃ الصفوہ 138/1


9.. الریاض النضیرۃ 292/2


🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد ۔


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ----- لقمان قاسمی


Post a Comment

0 Comments