حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ
*اے اہل بیعت تمہیں برکت نصیب ہو ،اے اہل بیعت تم پر رحمت کی برکھا برسے ۔ فرمان نبویﷺ*
حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے خوش نصیب گھر میں نشوونما پائی جس کے ہر زاوئے میں ایمان کی دل اویز مہک پھیلی ہوئی تھی اور جس کے ہر ساکن کے دل میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم پر قربان ہو جانے کا جزبہ موجزن تھا۔
حضرت حبیب بن زید رضی اللہ کے والد محترم زید بن عاصم رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے مسلمانوں میں ممتاز مقام رکھتے تھے اور یہ ان ستر خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جو بیعت عقبہ کے وقت موجود تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا ان کے ہمراہ بیوی بچے بھی تھے ان والدہ ام عمارہ بنو مازن قبیلے سے تھیں یہ وہ پہلی بہادر اور خوش نصیب خاتون ہیں جس نے دین الہی اور رسول مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں سب سے پہلے تلوار اٹھائی۔
ان کے بھائی عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کی خاطر اپنے سینے پر تیر کھانے کے لئے تیار ہو گئے یہ ایمان پرور منظر دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اہل بیعت تم پر اللہ کی برکتیں نازل ہوں اہل بیعت تم پر اللہ برکتیں نازل ہوں۔"
حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کے دل میں نور ایمان جلوہ نما ہوا اور حلاوت ایمانی سے لذت آشنا ہوئے یہ اپنے ماں باپ خالہ اور بھائی کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف رواں ہوئے تاکہ ان ستر تاریخ ساز ہستیوں میں شامل ہو سکیں جنہیں بیعت عقبہ کی سعادت نصیب ہوئی تھی انہوں نے بھی اپنا ننھا سا ہاتھ آگے بڑھایا اور تاروں کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت عقبہ کی سعادت حاصل کی۔
اس دن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ محبوب بن گئے اور اسلام انہیں اپنی جان سی بھی زیادہ عزیز ہو گیا
حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے کیونکہ اس وقت بہت کم عمر تھے اور نہ ہی انہیں غزوہ احد میں حصہ لینے کا شرف عظیم حاصل ہو سکا، اس لئے کہ اس وقت بھی تلوار اٹھانے کے قابل نہ ہوئے تھے، لیکن اس کے علاوہ تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کا بھر پور ساتھ دیا اور ہر غزوے میں شجاعت، تجربہ، مجدو شرف اور قربانی کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کیں۔
یہ تمام تر غزوات ایسے ہیں کہ اپنی عظمت اور جلالت شان کے باوجود ان کی تہہ میں ایک عزیم مقصد پنہاں ہونے کے علاوہ کوئی داعیہ نہیں پایا جاتا۔
لیکن آپ کو ایک ایسی درد ناک داستان سنانا مقصود ہے جو انسانی ضمیر کو جنجھوڑنے کا سبب بنتی ہے اور اس نے عہد نبوت سے لیکر آج تک لاکھوں مسلمانوں کے دل میں لرزہ طاری کیا۔
یقینا یہ داستان سن کر آپ بھی لرز آٹھیں گے ۔
9ہجری میں اسلام اپنے جوبن پر تھا۔ اسلامی شان و شوکت اپنے عروج پہنچ چکی تھی ۔ جزیرہ عرب کی ہر طرف بے شمار اسلامی قافلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت آپ کی بیعت کرنے اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا بر سر اعلان کرنے کے لئے جوق در جوق مدینہ پہنچنے لگے ان میں ایک وفد بنو حنفیہ کا بھی نجد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔
وفد نے اپنے اونٹ مدینہ منورہ کے باہر ہی بٹھا دیے اور سامان کے پاس مسیلمہ بن حبیب حنفی کو چھوڑ دیا ۔ یہ وفد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے رو برو اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وفد کی آمد سے بہت خوش ہوئے ان کی عزت افزائی کی اور آپ نے وفد کے ہر رکن کو قیمتی تحائف سے نوازہ اور ان کے اس ساتھی کو بھی تحائف دیے جسے اپنے سامان کے پاس چھوڑ آئے تھے
یہ وفد نجد میں واپس پہنچا ہی تھا کہ مسیلمہ بن حبیب مرتد ہو گیا اور بر سر عام اس نے یہ اعلان کر دیا میں رسول ہوں مجھے اللہ بنی حنفیہ کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے یہ سننے کے قوم نے بھرپور اس کا ساتھ دیا۔
یہاں تک کہ بنو حنفیہ کے ایک آدمی نے برملا کہا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور مسیلمہ جھوٹا ہے لیکن ربیعہ قبیلے کا جھوٹا شخص مجھے مضر قبیلے کے سچے سے زیادہ عزیز ہے ۔
جب مسیلمہ کی حٹیت زیادہ مضبوط ہو گئی اور ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر تھا۔
مسیلمہ رسول اللہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ۔
السلام علیک۔
مجھے نبوت اور رسالت میں آپ کا شریک کار بنا دیا گیا نصف زمین ہمارے لئے ہے اور نصف قریش کے لئے'لیکن قریش ظلم قوم ہیں ۔
یہ خط دو قاصدوں کے ذریعے نبی اکرم تک پہنچا دیا جب یہ خط رسو ل اللہ ﷺ کو پڑھ کر سنایا گیا آپ نے ان قاصدوں سے پوچھا: آپ لوگوں کیا رائے ہے؟
دونوں نے بیک زبان ہو کر کہا ہمارا وہی موقف ہے جو مسیلمہ کا ہے آپ نے ان بات سن کر ارشاد فرمایا:
اللہ کی قسم اگر قاصدوں کے تحفظ کا بین الاقوامی قانون نہ ہوتا تو آج میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔
پھر آپ مسیلمہ کی طرف یہ خط لکھا جس میں یہ تحریر تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسیلمہ کی طرف ۔
سلامتی ہو اس کیلئے جس نے ہدایت کی پیروی کی یہ زمین اللہ کی ہے اور اپنے بندوں میں سی جسے چاھتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام اھل تقوئ لے لئے ہے ۔
اور انہیں دو قاصدوں کے ہاتھ یہ خط روانہ کر دیا
مسیلمہ کذب کا جب شروفساد جب حد سے بڑھ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک ایسا خط لکھنے کا ارادہ کیا جس کے ذریعے اسے گمراہی سے روکیں اور یہ خط لے جانے کے لئے ہماری اس داستان کے ہیرو حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا یہ ان دنوں غفوان شباب میں تھے اور ایمان ان کے رگ و ریشے میں رچ بس چکا تھا۔
حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پا کر دیار بنو حنیفہ میں پہنچے اور یہ خط مسیلمہ کذاب کے حوالے کیا جونہی یہ خط مسیلمہ نے سنا وہ غصے سے پاگل ہو گیا اور غرور سے اس سینہ تن گیا -
کینہ وبغض کے اور جور و جفا کے اثار اس کے چہرے سے نمایاں نظر آ رہے تھے اس نے غیض و غضب سے بے قابو ہو کر حضرت حبیب رضی اللہ عنہ کو پابند سلاسل کرنے کا حکم دیا اور حکم دیا کل صبح اس کو میری عدالت میں پیش کیا جائے-
دوسرے دن مسیلمہ نے سرکش مریدوں کو دائیں بائیں بٹھایا اور عوام الناس کو داخلے کی اجازت دے دی جب دربار لوگوں سے بھر گیا تو حکم دیا حبیب کو پیش کیا جائے آپ بیڑیوں جکڑے جب وہاں پہنچے۔
حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ لوگوں کے جم غفیر کے درمیان بڑی شان وشوکت سے چلتے ہوے وہاں پہنچے ۔
مسیلمہ نے ان کی طرف دیکھا اور کہ۔
کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟
فرمایا ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔
یہ سن کر غیض وغضب سے مسیلمہ کی رگیں پھول گئیں اور کہا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کارسول ہوں
حضرت حبیب بن زید نے مذاق کے انداز میں کہا۔ میرے کان تیری بات سننے سے قاصر ہیں۔ یہ سن کر مسیلمہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا غصے سے ہونٹ کاننپے لگے اور جلاد سے کہا: اس کے جسم کا ایک حصہ کاٹ دو
جلاد نے حضرت حبیب رضی اللہ عنہ پر تلوار سے زور دار وار کیا اور جسم کا ایک حصہ کاٹ دیا ۔
اس کے بعد مسیلمہ نے دوبارہ پوچھا:
کیا تم گواہی دیتے ہو کہ حضرت محمد صلی علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں .
آپ نے غصے سے کہا:
ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں ۔
کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟
آپ نے غصے سے کہا میں نے پہلے نہیں کہا ک میرے کان تمہاری بات سننے سے قاصر ہیں ۔
یہ سن کر اس نے جلاد کو حکم دیا اس کے جسم کا دوسرا حصہ بھی کاٹ دو
اب یہ دونوں اس سے ایک دوسرے کے برابر زمین پر پڑے پھڑپھڑا رہے تھے۔
مجمع دم بخود یہ المناک منظر دیکھ رہا ہے اور حضرت حبیب رضی اللہ عنہ دیوانہ وار کہے جا رہے ہیں میں گواہی دیتا ہوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ ک رسول ہیں۔
جلاد ایک ایک کر کے جسم کے تمام حصے کاٹ دیے اور وہ اللہ کی واحدانیت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دیتا رہا۔
بلا آخر ان کی پاکیزہ روح پرواز کر جاتی ہے۔ ان کے پاکیزہ لبوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا نام ہے جن ک دستے مبارک پر بیعت عقبہ کی سعادت حاصل کی تھی ۔
سلطان دو جہان صلی اللہ علیہ و سلم کا پاکیزہ نام مسلسل ان کی زبان سے جاری ہے ۔
حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ان کی والدہ ماجدہ کو ملی تو انہوں نے ارشاد فرمایا:
اسی لیے میں نے اپنے بیٹے کو تیار کیا تھا اللہ تعالی کے ہاں میں ثواب کی طالب ہوں بچپن ہی میں میرے بیٹے نے رسول اقدس صلی علیہ وسلم کے دستے مبارک پر بعیت عقبہ کی اور اس کا حق ادا کر دیا اور اگر اللہ تعالی نے مجھے قدرت دی تو میں مسیلمہ کو عبرت ناک انداز میں موت کے گاٹ اتاروں گی۔
کہ اس کی بیٹیاں سینہ کوبی پر مجبور ہو جائیں گی
حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ کی جانب سے اس دلآویز تمنا کے اظہار پر زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا گیا۔
مسلمان وفور شوق سے چوکڑیاں بھرتے ہوے مسیلمہ کذاب کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے روانہ ہوے۔
لشکرے اسلام میں بنو مازن قبیلہ کی معزز و غیور خاتون حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ اپنے بیٹے عبداللہ بن زید ر ضی اللہ عنہ کے ہمراہ شامل ہوئیں۔
یمامہ مقام پر یہ خطرناک لڑی گئ۔ میدان کارزار میں یہ غیور جرآت و شجاعت کا پیکر بنے ہوے للکار رہی تھی۔
اللہ کا دشمن کون ہے ؟
مجھے اللہ کے دشمن کا پتا بتاؤ.
؟
جب وہ اس تک پحنچی تو وہ اوندھے منہ زمین پر گرا ہوا تھا.اور مسلمانوں کی تلواریں اس کا خون پی رہی تھیں اللہ کے دشمن مسیلمہ کذاب کا یہ انجام دیکھ کر اس کا دل بہت خوش ہوا .
آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوئی ُبھلا دل مسرور کیوں نہ ہوتا آنکھیں ٹھنڈی کیوں نہ ہوتی!
اللہ ذوالجلال والااکرام کی قدرت سے دونوں اپنے انجام کو پحنچے۔
لیکن اک جنت کو روانہ ہوا
دوسرا جہنم رسید
حضرت حبیب بن زید ر ضی اللہ عنہ مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیےدرج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:
1۔ اسد الغا یۃ : 443/1
2۔ انسا ب الااشراف: 316/4
3۔ الطبقات الکبری ؛ 316/4
4۔ السیرہ النبویہ لابن ھشام: فہرست دیکھے
5۔الاصابہ : 302/1
6۔ شہداء الاسلام فی عھد النبوہ
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments