حضرت نعمان بن مقرن المزنی رضی اللہ عنہ

 حضرت نعمان بن مقرن المزنی رضی اللہ عنہ 






بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

✨باذن اللہ تعالی✨

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه

*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*

حضرت نعمان بن مقرن المزنی رضی اللہ عنہ


*بعض گهرانے ایمان کا گہوارہ ہوتے ہیں اور بعض خاندان نفاق کی آماجگاہ. بنو مقر کا گهرانہ ایمان کا گہوارہ ہے*

*( ارشاد عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه)*

قبیلہ مزنیہ نے اپنی قیام گاہیں مدینہ طیبہ کے قریب ہی اس سڑک پر بنارکهی تهیں جو مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ کی طرف جاتی تهیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تهے، قبیلہ مزنیہ کے پاس آنے جانے والوں کی وساطت سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خوش آئند خبریں پہنچنے لگیں.

ایک شام قوم کے سردار حضرت نعمان بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ اپنے بهائیوں اور قبیلے کے بزرگوں کے پاس بیٹهے اور سب کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا :

میری قوم! بخدا ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عمدہ اور بہتر خبریں ہی معلوم ہوئیں، آپ کی دعوت. رحمت، احسان اور عدل و انصاف پر مشتمل ہے، کتنے تعجب کی بات ہے کہ ہم پیچهے رہتے جا رہے ہیں اور لوگ آپ کی دعوت قبول کرنے کے لئے آپ کی سر پٹ دوڑے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی فرمانے لگے:

میں تو پختہ ارادہ کر چکا ہوں کہ صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضری کے لیے روانہ ہو جاؤں گا،  آپ میں سے جو شخص میرے ساتھ جانا چاہے وہ تیار ہو جائے، نعمان کی باتیں اہل مجلس کے دلوں میں اتر گئیں.

صبح ہوئی تو آپ کیا دیکهتے ہیں کہ آپ کے دس بهائی اور قبیلہ مزنیہ کے چار سو شہسوار آپ کے ہمراہ مدینہ طیبہ جانے کے لئے تیار ہیں تاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور دین الہی کو قبول کرنے کی سعادت حاصل کر سکیں.

حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ خالی ہاتھ جانا مناسب نہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بهائیوں کے لئے کچھ تحائف ضرور ساتھ لے جانے چاہئیں، لیکن قحط سالی کی بنا پر گهروں میں فراوانی نہ رہی تهی.

حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام بهائیوں کے گهر چکر لگایا اور جو کچھ ہاتھ لگااپنے ساتھ لے لیا اور خاندان کے جملہ احباب کو اپنے ساتھ لے کر سوئے مدینہ روانہ ہو گئے.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ کر تمام تحائف آپ کی خدمت میں پیش کر دئے، آپ اور آپ کے تمام رفقاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حلقہ بگوش اسلام ہو گئے.


ان کے ایمان لانے سے مدینہ طیبہ کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک مسلمانوں کے گهروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ اس سے پہلے کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک گهرانے سے دس حقیقی بهائیوں اور چار سو شہسواروں نے بیک وقت اسلام قبول کیا ہو.

حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کے حلقہ بگوش اسلام ہونے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بهی انتہائی مسرت ہوئی.

اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اس وفد کے تحائف کو بهی شرف قبولیت بخشا اور قرآنی آیات نازل فرمائیں.

*((☆ومن الاحزاب من یومن باللہ والیوم الآخر و یتخذ ما ینفق قربات عنداللہ و صلوات الرسول الا انها قربة لهم سیدخلهم اللہ فی رحمتہ ان اللہ غفور رحیم☆))*

*(سورہ التوبہ  99)*

*("♢ اور بدوؤں میں سے کچھ لوگ ایسے بهی ہیں جو اللہ اور زور آخرت پر ایمان رکهتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں تقرب کا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں ہاں ! وہ ضرور ان کے لئے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ♢")*

حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جهنڈے تلے آکر تمام غزوات میں پوری بہادری و جوانمردی سے حصہ لیا.

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت نعمان رضی اللہ عنہ اور ان کی پوری قوم بنو مزنیہ نے فتنہ ارتداد کو دبانے کے لئے بهر پور کردار ادا کیا.

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں تو حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے وہ کار ہائے نمایان سر انجام دیئے کہ تاریخ اسلام میں جنہیں قابل ستائش حیثیت حاصل رہے گی.

جنگ قادسیہ سے پہلے سپہ سالار لشکر اسلام حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شاہ ایران کی طرف ایک وفد بهیجا تاکہ وہ اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرے، جب یہ وفد ایران کے دارالحکومت پہنچا اور شاہ ایران سے ملنے کی اجازت طلب کی تو اسے اجازت دے دی گئی.

اور ایک ترجمان کو بهی بلا دیا گیا.

شاہ ایران نے ترجمان کو حکم دیا: ان سے پوچهو کہ یہاں کیوں آئے ہو ؟ ہم سے کیوں جنگ کرنا چاہتے ہو ؟ تمہیں کسی لالچ نے گهیر رکها ہے ! یا ہماری بے پروائی کی بنا پر تمہیں یہ جرأت ہوئی.

یہ بات سن کر حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتهیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : شاہ ایران کی بات کا جواب میں دوں یا تم میں سے کوئی جواب دینے کا ارادہ رکهتا ہے.

سب نے کہا : آپ ہی اس سے بات کیجئیے، پهر سب نے یک زبان ہو کر شاہ ایران سے کہا : یہی ہماری ترجمانی کریں گے، ان کی باتیں ذرا غور سے سنو !

حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے حمد و صلاہ کے بعد ارشاد فرمایا : اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ہم پر بہت بڑا کرم کیا کہ ہماری طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بهیجا جو ہمیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور ہر قسم کے شر سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے، اور انہوں نے ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم ان کی دعوت قبول کر لیتے ہیں تو اللہ تعالٰی دنیا و آخرت کی بهلائی سے سرفراز فرمائے گا.

تهوڑے ہی عرصہ میں اللہ تعالٰی نے ہماری تنگی کو فراخی میں ، ہماری ذلت کو عزت میں اور ہماری عداوت کو اخوت میں بدل دیا، انہوں نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم لوگوں کو اس خیر و برکت کی طرف دعوت دیں اور اپنے ہمسایوں سے اس کا آغاز کریں.

ہم تمہیں دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیتے ہیں ، یہ ایک ایسا نظریہ حیات ہے جس نے ہر نیکی کے کام کو بنظر استحسان دیکها اور اس کی ترغیب دلائی اور ہر قسم کی برائی کو برا گردانا اور اس سے بچنے کی تلقین کی اور یہ اپنے ماننے والوں کو کفر کی اتهاہ گہرائیوں سے نکال کر نور ایمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے.

اگر تم اسلام قبول کرلو گے تو ہم تمہارے پاس اللہ کی کتاب چهوڑ جائیں گے، تم اس کے احکام کے مطابق نظام حکومت کو استوا کرنا ! ہم تمہارے کسی معاملہ میں مداخلت نہیں کریں گے.

اگر تم نے دین الہی کو قبول کر نے سے انکار کر دیا تو پهر ہم تم سے جزیہ وصول کریں گے اور تمہاری حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہوگی لیکن اگر تم نے جزیہ دینے سے انکار کر دیا تو ہماری تم سے جنگ ہوگی

شاہ ایران حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کی یہ باتیں سن کر مشتعل ہو گیا اور کہنے لگا : میری نظر میں روئے زمین پر تم سے زیادہ بدبخت، پرا گندہ حال و کمتر کوئی اور قوم نہ ہوگی.

ہم تمہارا معاملہ سر حد کی حکمرانوں کے سپرد کردیں گے، وہ تمہیں ہمارا مطیع بنائیں گے.

پهر غصہ ذرا نرم ہوا تو کہنے لگا :

اگر کسی ضرورت نے تمہیں ہمارے پاس آنے پر مجبور کیا ہے تو ہم اتنا غلہ دیں گے جس سے تمہارے گهروں میں خوشحالی آجائے گی، اس کے علاوہ تمہیں اور تمہارے دوسرے سرداروں کو عمدہ لباس بهی مہیا کریں گے، اور اپنی طرف سے تم پر ایک ایسا حکمران بهی مقرر کریں گے جو تمہارے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گا.

یہ باتیں سن کر وفد کے ایک رکن نے شاہ ایران کو خوب خوب سنائیں جس سے اس کے غصے کی آگ پهر بهڑک اٹهی اور غضبناک انداز میں کہنے لگا : اگر قاصدوں کے تحفظ کا بین الاقوامی معاہدہ نہ ہوتا تو آج میں تمہیں قتل کر دیتا.

میری آنکهوں سے دور ہو جاؤ، میرے پاس تمہارے لئے کچھ نہیں ! اپنے سالار کو جاکر بتا دینا کہ میں تمہاری طرف رستم کو بهیجوں گا، وہ تمہارے سردار اور تمہیں ایک ساتھ قادسیہ کی خندق میں دفن کر دے گا، پهر اس نے مٹی کا ایک تهیلا منگوایا، اور اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یہ تهیلا ان میں سے اس شخص کے سر پر رکهنا جو زیادہ معزز سمجها جاتا ہے، اور تمام لوگوں کے سامنے اسے ہانک کر دارالحکومت سے نکال دو.

درباریوں نے وفد سے پوچها : تم میں سب سے معزز کون ہے ؟

حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ آگے بڑهے اور فرمایا : میں !

تو انہوں نے اس پر مٹی کا تهیلا لاد دیا، اور وہ اسی حالت میں دارالحکومت مدائن سے نکلے. شہر سے باہر آکر وہ مٹی کا تهیلا انہوں نے اپنی اونٹنی پر لاد دیا اور اسے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس لے آئے اور یہ خوشخبری دی کہ اللہ تعالٰی مسلمانوں کے لئے ایران فتح کر دے گا اور انہیں سر زمین فارس کا مالک بنادے گا، کچھ عرصے بعد جنگ قادسیہ کا واقعہ پیش آیا اور قادسیہ کی خندق ہزاروں لاشوں سے بهر گئی، لیکن یہ لاشیں مسلمانوں کی نہیں تهیں ، بلکہ یہ ایرانی لشکر کی تهیں.

ایرانیوں نے قادسیہ کی شکست سے حوصلہ نہ ہارا، بلکہ از سر نو افراد کو جمع کیا اور لشکر کو ترتیب دیا، یہاں تک کہ ایک لاکھ پچاس ہزار تجربہ کار جنگجو اکهٹے ہوگئے، جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اس جم غفیر کے متعلق علم ہوا تو اس بڑے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے خود تیار ہوئے، لیکن لشکر اسلام کی بعض اہم شخصیتوں نے آپ کو اس سے روک دیا اور یہ تجویز پیش کی کہ ایک ایسے سپہ سالار کو یہ مہم سر کرنے کے لئے روانہ کریں جو قابل اعتماد ہو.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

مجهے ایسے شخص کی نشاندہی کرو جسے قائد بناکر اس مہم کو سر کرنے کے لئے روانہ کروں.

سب نے عرض کی:

امیر المومنین! آپ اپنے لشکر کے متعلق خوب اچهی طرح جانتے ہیں.

آپ نے ارشاد فرمایا :

اللہ کی قسم! میں مسلمانوں کے لشکر کا سالار ایک ایسے شخص کو بناؤں گا جس میں یہ خوبی ہو کہ جب دونوں فوجوں میں گهمسان کی جنگ چهڑتی ہے تو وہ تیر سے بهی زیادہ تیز ثابت ہوتا ہے اور وہ ہے نعمان بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ..

سب نے کہا :

واقعی وہ اس منصب کے لائق ہے.

تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف یہ لکها.

عمر بن خطاب کی جانب سے نعمان بن مقرن کی طرف.

بعد از تسلیمات:

مجهے یہ اطلاع ملی ہے کہ ایرانیوں نے نہاوند شہر میں کثیر تعداد میں فوج کرلی ہے، جب آپ کو میرا یہ خط ملے، اللہ کا نام لے کر اور اس کو شامل حال سمجهتے ہوئے دشمن کے مقابلے کے لئے روانہ ہوجائیں. یاد رکهنا ایک مسلمان میرے نزدیک ایک لاکھ دینار سے زیادہ قیمتی اور محبوب ہے.

                              
     والسلام

حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے دشمن سے مقابلے کے لئے اپنے لشکر کو تیار کیا اور تجربہ کار شہسوار صورت حال معلوم کرنے کے لئے جب یہ شہسوار نہاوند شہر کے قریب پہنچے تو ان کے گهوڑے اچانک رک گئے، شہسواروں نے انہیں دوڑانے کی کوشش کی لیکن وہ اسی جگہ جمے رہے. ایک قدم بهی آگے نہ بڑهے. شہسوار گهوڑوں کی پیٹھ سے نیچے اتر آئے، تاکہ صحیح صورت حال معلوم کر سکیں، وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ گهوڑوں کے پاؤں میں کیل پیوست ہو چکے ہیں، انہوں نے جب ادرگرد کا بغور جائزہ لیا تو کیا دیکهتے ہیں کہ ایرانیوں نے نہاوند کی طرف جانے والے تمام راستوں میں لوہے کے نوکدار کیل بکهیر دئے ہیں تاکہ شہسواروں اور پیادہ فوج کا دستہ روکا جاسکے اور نہاوند شہر تک پہنچ نہ سکیں.

شہسواروں نے اس صورتحال سے نعمان رضی اللہ عنہ کو مطلع کیا اور ان س رائے طلب کی، انہوں نے حکم دیا کہ سب اپنی جگہ کهڑے رہیں، جب رات کی تاریکی چها جائے تو بے تحاشا آگ جلائیں تاکہ دشمن اس روشنی میں تمہیں دیکھ لے، جب روشنی چہار سو پهیلی ہوئی ہو تو خوف و ہراس اور ہزیمت و پسپائی کا مظاہرہ کریں، اس سے دشمن فوج کے دل میں تمہارے پاس پہنچنے کی شدید دلی خواہش پیدا ہوگی جس کی تکمیل کے لئے وہ از خود راستوں میں بکهرے ہوئے کانٹے اور کیل چننے پر مجبور ہونگے. اس طرح تمہارے تمام راستے صاف ہو جائیں گے، ایرانیوں کے خلاف یہ تدبیر کارگرد ثابت ہوئی. جب انہوں نے آگ کے الاؤ کی روشنی میں دیکها کہ مسلمان کا لشکر پسپا ہو کر بهاگنا چاہتا ہے تو انہوں نے جلدی سے اپنے کارندے بهیج کر تمام راستے صاف کر وادیئے، جب راستے صاف ہوگئے تو مسلمانوں نے یکدم پیچهے مڑکر اچانک دشمن پر زور دار حملہ کر دیا.

حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کے ساتھ نہاوند شہر کے بالائی جانب پڑاؤ ڈال دیا اور دشمن پر حملہ کر نے کے لئے منصوبہ بندی کی، آپ نے لشکر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

میں تین مرتبہ نعرہ تکبیر بلند کروں گا، جب پہلی مرتبہ نعرہ تکبیر کروں گا تو سب لوگ چوکس ہو جائیں، جب دوسری مرتبہ نعرہ تکبیر کہوں تو اپنے ہتهیار سنبهال لیں اور جب تیسری مرتبہ نعرہ تکبیر کہوں تو میرے ساتھ مل کر دشمن پر زور دار حملہ کردیں.

حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے تین دفعہ اللہ اکبر کہا اور شیر کی سی دلیری کے ساتھ دشمن کی صفوں میں جا گهسے اور آپ کے پیچهے لشکر اسلام سیل رواں کی طرح دشمن کے خس و خاشاک کو بہاتا ہوا مسلسل آگے بڑهنے لگا، اور دونوں فوجوں کے درمیان ایسا گهمسان کا رن پڑا کہ جنگی تاریخ میں کم ہی ایسی لڑائی کی مثال ملتی ہوگی، ایرانی فوج گاجر مولی کی طرح کٹنے لگی، لاشوں کے انبار لگ گئے، میدان اور پہاڑ جس طرف نگاہ اٹهتی، لاشوں کے کشتوں کے پشتے لگے ہوئے تهے، گزرگاہوں اور راستوں میں خون پانی کی طرح بہہ رہا تها، اسی عالم میں سپہ سالار حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کا گهوڑا پهسلا اور گرتے ہی دم توڑ دیا اور حضرت نعمان رضی اللہ عنہ بهی گرتے ہی شہید ہوگئے، فوراً آپ کے بهائی نے آگے بڑھ کر جهنڈا اپنے ہاتھ میں تهام لیا اور آپ کے جسد خاکی پر اپنی چادر ڈال دی تاکہ آپ کی شہادت کی خبر مسلمان فوج کو نہ ہونے پائے.

جب لشکر اسلام کو ایسی مکمل فتح نصیب ہوئی، جسے فتح مبین کا نام دیا گیا تو فتح یاب لشکر نے اپنے قائد کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کہاں ہیں ؟

ان کے بهائی نے جسد خاکی سے چادر اٹهائی اور فرمایا : یہ ہیں آپ کے امیر.

بلاشبہ فتح سے ان کی آنکهیں ٹهنڈی ہوچکی ہیں، اور اللہ سبحانہ و تعالٰی نے انہیں شہادت کا عظیم مرتبہ بهی نصیب فرما دیا.

حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.

1. الاصابہ مترجم.           8745

2. ابن الاثیر.             29/2 ، 7/3

3. تهذیب التهذیب.          456/10

4. فتوح البلدان.                311

5. شرح الفیتہ العراقی.       76/3

6. الاعلام.                       9/9

7. القادسیہ.                   73-66

 
🌴بارک اللہ فیکم🌴

============>مکمل۔۔۔
 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر

طالب دعاء ---- لقمان قاسمی 



Post a Comment

0 Comments