حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ

 حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ 






بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*


 حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ


*ابو درداء دنیا کو دونوں ہاتهوں سے پرے دهکیلتے رہے.*

*حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ*



حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سیدهے اس کمرے میں پہنچے جس میں ابو درداء رضی اللہ عنہ نے پوجا پاٹ کے لئے بت نصب کر رکها تها، بغل سے کلہاڑی نکالی، بت پر زور دار وار کیا اور اس کے حصے بکهرے کرنے شروع کر دئے، کلہاڑی کا وار کرتے اور ساتھ ساتھ یہ الفاظ کہتے جاتے. "جس کو بهی اللہ کا شریک ٹهہرایا جاتا ہے، وہ باطل ہے".

 "جس کو بهی اللہ کا شریک ٹهہرایا جاتا ہے، وہ باطل ہے".


جب اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا تو پھر گهر سے نکلے اور اپنی راہ لی.

ان کے چلے جانے کے بعد ام درداء کمرے میں داخل ہوئی، کیا دیکهتی ہے کہ بت کے ٹکڑے چاروں طرف بکهرے پڑے ہیں، یہ عجیب و غریب حالت دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے، غم کے مارے زارو قطار رونا شروع کر دیا، اور نوحہ کرتے کرتے کہنے لگی، اے ابن رواحہ تونے مجهے ہلاک کر دیا، اے ابن رواحہ تونے مجهے ہلاک کر دیا.


تهوڑی ہی دیر بعد ابو درداء گهر پہنچے. کیا دیکهتے ہیں کہ بیوی کمرے کی دہلیز پر بیٹهی زار و قطار رو رہی ہے، پوچها کیا ہوا؟


کہنے لگی تمہاری غیر حاضری میں ابن رواحہ گهر آیا. اجازت لے کر کمرے کے اندر داخل ہوا اور ہمارے بت کے خچے اڑا دیئے، ذرا اندر جاکر دیکهو، اس نے کس قدر ظلم ڈهایا ہے، ہماری دنیا لٹ گئی ! میں نے کیوں اسے اندر جانے دیا، ہائے ہم تو ہلاک ہوگئے، اب ہمارا کیا بنے گا. ابو درداء نے دیکها کہ بت کو ریزہ ریزہ کر دیا گیا ہے اور اس کے ٹکڑے چاروں طرف بکهرے پڑے ہیں. یہ حالت دیکھ کر وہ آگ بگولہ ہو گیا، عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سے انتقام لینے کا مصمم ارادہ کر لیا، لیکن تهوڑی ہی دیر بعد غصہ جاتا رہا. اس حادثے پر ٹهنڈے دل سے غور کرنے لگے. ان کے دل میں اچانک یہ خیال آیا کہ اگر اس بت میں کوئی خوبی ہوتی تو آج یہ ضرور اپنا دفاع کرتا، اور ہم کس قدر بے شعور ہیں کہ جو اپنے نفع نقصان کا مالک نہیں، ہم اس کی پوجا پاٹ کرتے ہیں. اس خیال کا آنا تها کہ دل کی دنیا بدل گئی، فوراً حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور انہیں اپنے ہمراہ لے کر رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہونے کا اعلان کر دیا، یہ اپنے محلے میں اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے سب سے آخری خوش قسمت انسان تهے. حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کو دیکهتے ہی کلمہ طیبہ پڑهتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور آفتاب رسالت کی جلوہ نمائیوں سے دل کی تاریکیاں چهٹ گئیں،  دل کی دنیا بدل جانے کے بعد انہیں اپنی سابقہ زندگی پر شدت سے ندامت محسوس ہونے لگی. انہیں اس بات کا شدید احساس ہوا کہ اس کے ساتهی دینی احکامات اور قرآنی تعلیمات میں مجھ سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں ، اور انہوں نے اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں کا بیش بہا خزانہ جمع کرلیا ہے، انہوں نے اپنی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے انتهک محنت کا پختہ ارادہ کر لیا، اور آپ نے علم و تقوٰی کے حصول کے لئے دن رات ایک کر دئے اور اس میدان میں بڑھ جانے والے قافلے کو بہت جلدی جاملے،  پوری یکسوئی کے ساتھ عبادت میں مصروف ہوگئے اور علم کی طرف اس طرح لپکے جیسے کوئی پیاسا پانی کے چشمے کی طرف لپکتا ہے، پوری توجہ سے قرآنی آیات کو زبانی یاد اور ان پر غور و تدبر کرنے لگے، آپ نے جب یہ محسوس کیا کہ تجارتی مصروفیات عبادت کی لذت پر اثر انداز ہو رہی ہیں، اور علمی مجالس میں بہت بڑی رکاوٹ بن رہی ہیں، تو بغیر کسی تردد کے تجارت کو خیر باد کہہ دیا، عبادت گزاری اور حصول علم کے لئے ہمہ تن مصروف ہوگئے

ایک شخص نے پوچھا کہ آپ نے تجارت کیوں ترک کر دی۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت سے پہلے ایک مصروف تاجر تھا، جب اسلام  قبول کیا تو میں نے عبادت اور تجارت دونوں کو ساتھ ساتھ چلانے کی کوشش کی لیکن میں اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا لہذا میں نے تجارت کو ترک کر دیا اور عبادت میں ہمہ تن مصروف ہو گیا، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اب تو مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ مسجد کے دروازہ پر میری دکان ہو اور با جماعت میری کوئی نماز فوت ہو اور میں خرید و فروخت کروں اور ہر روز مجھے تین سو دینار نفع ہو، مجھے اب اس تجارت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پھر آپ نے اس دریافت کرنے والے کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا : سنو میرے اس بیان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالٰی نے تجارت کو حرام قرار دے دیا ہے، میں تو اب صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے ہو جاوں جن کو تجارت اور خرید و فروخت ذکر الہی سے غافل نہیں کرتی۔

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے صرف تجارت کو ہی ترک نہیں کیا، بلکہ ہر قسم کی زیب و زینت سے بھی مکمل طور پر بے رخی اختیار کر لی اور صرف اتنے ہی کھانے پر اکتفا کرنے لگے جس سے ان کی کمر سیدھی رہ سکے اور کھردرا کپڑا صرف اتنی ہی مقدار میں پہننے کے لئے منتخب کیا جس سے صرف بدن ڈھانپا جا سکے۔

ایک سخت ترین ٹھنڈی رات میں چند احباب آپ کے یہاں مہمان ٹھہرے۔ آپ نے انکی خدمت میں گرم کھانا پیش کیا لیکن کوئی بستر مہیا نہ کیا جب سونے کا وقت ہوا تو مہمان آپس میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے ایک نے کہا : میں ان سے بات کرتا ہوں دوسرے نے کہا  چھوڑ دیجئے رھنے دیجئے، لیکن اس نے بات نہ مانی اور  ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر جا کھڑا ہوا، کیا دیکھتا ہے کہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے ہیں اور انکی بیوی پاس بیٹھی ہوئی ہے، صرف ایک ہلکی سی چادر اوڑھ رکھی ہے جو نہ سردی روک سکتی ہے اور نہ گرمی، اس نے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا آپ کے پاس کوئی لحاف نہیں، آپ کا گھریلو سامان کہاں ہے؟

آپ نے فرمایا : ہمارا اصل گھر ایک دوسری جگہ پر واقع ہے۔ جو بھی سامان ھمیں دستیاب ہوتا ہے ہم فورا اسے اس گھر کی طرف روانہ کر دیتے ہیں، اگر آج اس گھر میں ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ضرور آپکی خدمت میں پیش کر دیتے۔ ہمارے اس گھر کے راستے میں ایک دشوار گزار گھاٹی حائل ہے۔ اسے عبور کرنے کے لیے ہلکا پھلکا راہی بھاری بھرکم مسافر سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ اپنا بوجھ ہلکا کر دیں تاکہ آسانی سے اس دشوار گزار گھاٹی کو عبور کر سکیں۔ پھر آپ نے دریافت کیا :

کیا تم میری بات سمجھ گئے ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں! میں بالکل آپ کی بات اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔

اللہ تعالٰی آپ کا حامی و ناصر ہو


حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ارادہ کیا کہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر مقرر کر دیا جائے۔ انتہائی عزت و احترام سے اس عہدہ کی پیشکش کی۔ لیکن انھوں نے انکار کردیا۔

 جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہت اصرار کیا تو فرمانے لگے امیر المومنین! اگر آپ کو یہ پسند ہے کہ میں اہل شام کو قرآن و سنت کی تعلیم دوں اورانھیں نمازیں پڑھاؤں تو میں  یہ فریضہ سرانجام دینے کے لیے تیار ہوں ۔ 

یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رضامندی کا اظہار کردیا تو آپ ارض شام کے صدر مقام دمشق کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ باشندگان دمشق ناز و نعم کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آسائش و آرائش کے دلدادہ ہو چکے ہیں۔


 باشندگان دمشق کی یہ حالت دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوئے آپ نے لوگوں کو مسجد میں جمع ہونے کی دعوت دی جب لوگ اکٹھا ہو گئے تو آپ کھڑے ہو کر فرمانے لگے اےدمشق کے رہنے والو! تم میرے دینی بھائی ہو اور دشمنوں کے خلاف میرے معاون ہو۔ اے ساکنان دمشق! بھلا میری محبت و مؤدت اور میری نصیحت کو قبول کرنے سے تمہیں کیا چیز روکتی ہے؟ میں تو تم سے کوئی چیز طلب نہیں کرتا، میری نصیحت تمھارے فائدہ کے لئے اور میرے اخراجات کا بوجھ کسی اور کے ذمہ ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ علماءاس دنیائے فانی سے اٹھتے جا رہے ہیں اور ان جگہ پر کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہو رہا، میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگوں نے اللہ تعالٰی کی طرف سے ڈالی گئی ذمہ داری کو قبول تو کر لیا ہے لیکن حقیقتا اس کے احکام سے انحراف کر رہے ہو، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اتنا مال جمع کر رہے ہو جسے تم کھا نہ سکو گے اور ایسی امیدیں لیے بیٹھے ہو جسے تم پا نہ سکو گے، سنو! تم سے پہلے بہت سی قوموں نے بے انتہا مال اکھٹا کیا اسے دل و جان سے عزیز جانا اور سنبھال سنبھال کر رکھا لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ سارا مال تباہ و برباد ہو گیا ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا آبادیاں قبرستانوں میں تبدیل ہو گئیں۔


 اے ساکنان دمشق!  ذرا تم قوم عاد کو دیکھو جسکا اپنے دور میں روئے زمین پر رعب و دبدبہ تھا، جس کی اقتصادی حالت نہایت مستحکم تھی۔ جسے اپنی انفرادی قوت پر ناز تھا، لیکن آج اس قوم کا نام و نشان نہیں۔ 


یہ وعظ سن کر حاضرین محفل دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ چیخ و پکار کی دلدوز آوازیں مسجد سے باہر سنائی دے رہی تھیں


اس دن سے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ لوگوں کے پاس کثرت سے آنے جانے لگے بعض اوقات آپ بازار میی تشریف لے جاتے مسئلہ پوچھنے والوں کو تسلی بخش جواب دیتے، جاہل کو تعلیم دیتے، غافل کو تنبیہ کرتے اور ہر مناسب موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے بھرپور دینی فائدہ اٹھاتے ۔


 ایک روز آپ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ایک شخص کی پٹائی کر رہے ہیں اور گالی دے رہے ہیں آپ نے ان سے دریافت کیا: کیا بات ہے؟ انھوں نے کہا یہ شخص ایک کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا بھلا مجھے یہ بتاو اگر یہ شخص کنویں میں گر جاتا تو کیا تم اسے باہر نہ نکالتے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا :  اسے گالی نہ دو اور نہ اسے مارو بلکہ اسے نصیحت کرو اور سیدھا راستہ دکھاو۔ اور خدا کا شکر ادا کرو جس نے تمہیں اس جیسے گناہ سے محفوظ رکھا ہے۔ ان لوگوں نے آپ سے پوچھا: کیا آپ کو یہ شخص برا نہیں لگتا۔ آپ نے فرمایا میں اس کے برے فعل کو تو نا پسند کرتا ہوں۔ ہاں! اگر یہ توبہ کر لے تو یہ میرا دینی بھائی ہے۔

 آپ کی یہ بات سن کر وہ شخص زار وقطار رونے لگا اور بر سر عام اس نے توبہ کا اعلان کر دیا۔

ایک نوجوان نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے نصیحت کیجیے ۔ آپ نے فرمایا : بیٹے! تم اللہ کو خوش حالی میں یاد کرو وہ تجھے تنگدستی میں یاد رکھے گا، بیٹے!  تم اپنی زندگی میں عالم یا متعلم یا پھر علمی مجالس میں استفادہ کرنے والا بن کر رھنا۔ کوئی چوتھی صورت اختیار نہ کرنا ورنہ تباہ و برباد ہو جاوگے۔ بیٹا مسجد کو اپنا گھر سمجھنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے مسجد ہر متقی انسان کا گھر ہے۔ جو شخص مسجد کو اپنا گھر بنا لیتا ہے اللہ تعالٰی نے اس کے لئے خوش حالی، رحمت و برکت اور پل صراط سے بخیر و عافیت سے گزر کر جنت میں داخل ہونے کی ضمانت دی ہے۔

ایک روز آپ بازار سے گذر رہے تھے آپ نے دیکھا کہ جند نوجوان بازار میں بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے ہیں اور راہ گیروں کو کن انکھیوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ آپ نے انھیں تلقین کرتے ہوئے فرمایا : میرے بیٹو! مسلمان کا گھر اس کا قلعہ ہوتا ہے۔ اس میں وہ اپنی ذات اور نگاہ کو محفوظ رکھتا ہے بازاروں میں بلا وجہ مت بیٹھا کرو یہ بیٹھک انسان کو غافل کر دیتی ہے۔ اور اس کے کردار کو زبردست نقصان پہنچاتی ہے۔

دمشق میں قیام کے دوران حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کے لئے حضرت ابو الدرداء سے ان کی بیٹی درداء کا رشتہ طلب کیا، آپ نے صاف انکار کر دیا اور اپنی بیٹی کا نکاح عام مسلمانوں میں سے ایک ایسے نوجوان سے کیا جس کی دینی حالت آپ کو بہت پسند تھی۔ یہ بات لوگوں میں بڑی تیزی سے پھیل گئی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو الدرداء سے رشتہ طلب کیا تھا اور انھوں نے انکار کر دیا، لوگوں کو یہ بات سن کر بڑی حیرت ہوئی ۔

ایک شخص نے پوچھا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا :  میں اپنی بیٹی کے معاملے میں مناسب فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں، جو میں نے کیا ہے۔ اس میں میں نے اپنی بیٹی درداء کی بہتری کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس نے پوچھا وہ کیسے؟  آپ نے فرمایا :  ذرا آپ ھی بتایئے جب میری بیٹی ایسے محلات میں ہوگی جہاں موتیوں کی جگمگاہت نظروں کو خیرہ کرتی ہوگی اور کنیزیں خدمت کے لئے ہر دم موجود ہونگی تو پھر اس کی دینی حالت کا کیا حشر ہوگا؟


ایک دفعہ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دمشق کا دورہ کیا ۔

 حضرت ابو الدرداء اس وقت وہیں موجود تھے۔ امیرالمومنین ایک رات ملاقات کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے۔

 دروازے کو ہاتھ لگایا تو اسے کھلا پایا، آپ اندر تشریف لے گئے اندھیرا چھایا ہوا تھا روشنی کا کوئی انتظام نہ تھا، حضرت ابو الدرداء نے جب امیرالمومنین کی آہٹ سنی تو فورا اٹھے، خوش آمدید کہا اور اپنے پاس بٹھا لیا۔ دونوں باتیں کرنے لگے لیکن اندھیرے کی وجہ سے ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکتےتھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تکیے کو ہاتھ لگایا تو وہ سواری کا پالان تھا، بستر ٹٹولا وہاں کنکریاں بچھی ہوئی تھی، چادر کو ہاتھ لگایا تو وہ اتنی باریک تھی کہ دمشق کی سردی کو قطعا روک نہ سکتی تھی۔ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا : اللہ آپ پر رحم فرمائے یہ کیا حال بنا رکھا ہے، کیا میں نے آپ کے لئے بہتر انتظامات نہیں کئے تھے؟ 

حضرت ابو الدرداء نے جواب دیا : امیرالمومنین! کیا آپ کو وہ حدیث یاد ہے جو ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں بتائی تھی۔ آپ نے پوچھا: وہ کونسی؟ آپ نے فرمایا :  کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تمھارے پاس دنیا کا صرف اتنا مال ہونا چاہیئے جتنا مسافر کے پاس زاد راہ ہوتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں!

آپ نے فرمایا : اے امیر المومنین رضی اللہ عنہ اس کے بعد ہم نے کیا کیا؟

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر زار و قطار رونا شروع کر دیا اور آپ کے ساتھ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بھی رونے لگے، دونوں عظیم الشان صحابی ساری رات روتے رہے جہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ دمشق میں قیام کے دوران مسلسل لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہے اور انھیں کے علم و حکمت کی تعلیم دیتے رہے، یہاں تک کہ آپ کا آخری وقت آگیا، جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ کے ساتھی پوچھنے لگے : ابو الدرداء رضی اللہ عنہ آپ کو کیا شکوہ ہے؟  فرمایا : اپنے گناہوں کا۔ 

انھوں نے پوچھا: آپ کیا چاہتے ہیں؟ فرمایا : اپنے رب سے معافی!

پھر آپ کو اپنے ارد گرد بیٹھنے والوں سے کہا: میرے پاس

لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرو۔  

آپ بھی لگاتار کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہے، ہیاں تک کہ آپ کی پاکیزہ روح قفص عنصری سے پرواز کر گئی ۔


*لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ*



جب حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ اللہ کو پیارے ہوگئے تو حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا۔

کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سر سبز و شاداب بہت بڑا وسیع میدان میں ہیں۔ اس میں چمڑے کا بنا ہوا ایک قبہ ہے۔ اس کے ارد گرد نہایت خوبصورت اور صحت مند بکریاں چر رہی ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ سب کس کا ہے؟

آپ کو بتایا گیا یہ مال حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اتنے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اس قبہ سے نمودار ہوئے اور فرمایا : اے مالک یہ سب کچھ ہمیں اللہ تعالٰی نے قرآن مجید پر عمل کرنے کی وجہ سے عطا کیا ہے۔ اگر تم اس راستے کی طرف دیکھو تو تمھیں وہ کچھ نظر آئیگا جو تم نے کبھی نہ دیکھا ہوگا کبھی تمھارے کانوں نے ان کے نام نہ سنے ہونگے اور کبھی تمھارے دل میں اس کا خیال بھی نہ آیا ہوگا۔

حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا : اے ابو محمد!  یہ سب کس کا ہے؟ انھوں نے بتایا یہ سب اللہ تعالٰی نے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ یہ مال و متاع،  مختلف قسم کی نعمتیں اور رعنائیاں انھی کے لئے ہیں۔ کیونکہ وہ دنیا میں محض اخرت کے لئے ان راحتوں کو اپنے دونوں ہاتھوں اور سینے کے زور سے مسلسل پیچھے دھکیلتے رہے۔


حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔


1۔ الاصابه فی تمیز الصحابه مترجم 6117

2۔ الاستیعاب  35/3 ، 159/4


3۔ اسد الغابه      159/4

4۔ حلیةالاولیاء   308/1

5۔ حسن الصحابه 218

6۔ صفته الصفوه 357/1

7۔ تاریخ اسلام علامہ ذھبی 107/2

8۔ حیاة الصحابه  فھرست میں

9۔ الکواکب الدرریه 45/1

10۔ العلام زرکلی 281/5


      🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد۔۔۔

 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ----- لقمان قاسمی







Post a Comment

0 Comments