حضرت طفیل بن عمرو الدوسی (رضی اللہ عنہ) قسط 9

✨باذن اللہ تعالی✨

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*

*2.حضرت طفیل بن عمرو الدوسی*


قسط 9.........


پھر آپ نے طفیل ( رضی اللہ عنہ) کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا:

اب آپ اپنی   قوم کے پاس بے دھڑک جائیں- ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں اوراسلام کی دعوت انہیں دیں-


حضرت طفیل ( رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:

میں مسلسل سر زمین دوس میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتا رہا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے-

یہاں پہنچ کے بدر , احد اور خندق ایسی ہولناک جنگوں کا آپ کو سامناکرنا پڑا-

 اس کے بعد مدینہ منورہ میں حضور نبی کریم صلي الله عليه وسلم کی خدمت اقدس میں حاضری دی-

 اس دفعہ میرے ہمراہ قبیلہ دوس کے تقریباً  اسی(80 ) گھرانے تھے- جو نعمت اسلام سے مشرف ہو چکے تھے اور ان کی اسلامی حالت بہت بہتر تھی- رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ہمیں دیکھ کر نہ صرف بہت خوش ہوئے بلکہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ خیبر کے مال غنیمت سے ہمیں بھی مقرر حصہ دیا-

ہم نے التجا کی یا رسول اللہ ﷺ
 ہر جنگ میں ہمیں میمنہ میں رکھئے- ( یعنی لشکر کے دائیں پہلو پر اور لفظ مبرور ہمارا شعار مقرر فرما دیجئے-

حضرت طفیل ( رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں !

اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ
 کی صحبت میں رہا یہاں تک کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مکہ فتح ہوگیا-

میں نے عرض کی!

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہتر یہ ہے کہ آپ مجھے عمرو بن حممہ کے بت ( ذوالکفین ) کی طرف روانہ کریں تاکہ میں اسے نذر آتش کر سکوں-

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جانے کی مجھے اجازت دے دی-

 میں اپنی قوم میں سے ایک جماعت لے کر اس بت کی طرف چل پڑا- جب میں اورمیرے ساتھی وہاں پہنچے اور اسے جلا ڈالنے کا ارادہ کیا تو کیا دیکھتا ہوں ہمارے گرد عورتوں، مردوں اور بچوں کی ایک بھیڑ جمع
ہوگئ-

یہ سب اس بات کے منتظر تھے کہ اگر ہم نے ذوالکفین بت کوذرا بھی نقصان پہنچایا - تو آسمان سے بجلی گر کرہمیں بھسم کر ڈالے گی-
 ان بچاریوں کی موجودگی میں ، میں بت کی جانب بڑھا اور بت کے عین دل میں آگ بھڑکادی-

اس وقت میری زبان پر رجزیہ اشعار تھے جن کا ترجمہ یہ ہے:

اے ذوالکفین! میں تیرےپجاریوں میں نہیں ہوں ہماری پیدائش تیری پیدائش سے کہیں پہلے ہوئ- آج میں آگ تیرے دل میں بھڑکا رہا ہوں-

یہ اشعار کہے اور اسے نذر آتش کردیا- دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے اس کو اپنا لقمہ بنا لیا اور یہ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا- اس کے جل جانے کے سے شرک کی جڑ بھی کٹ گئ اور پورا قبیلہ اسلام کی آغوش میں آگیا اور پھر ہم نے اپنے حسن اسلام کا ثبوت بھی دیا-

حضرت طفیل بن عمرو الدوسی ( رضی اللہ عنہ ) نے آخردم تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا-

آپ کے وصال کےبعدحضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) جب مسند خلافت پر فائز ہوئے تو حضرت طفیل بن عمرو ( رضی اللہ عنہ) خلیفہ رسول ﷺ
 کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یقین دلایا کہ میری ذات میری، تلوار اور میرا بیٹا آپ کی تائید و نصرت کے لئے وقف ہے-


جب ارتداد کی جنگیں چھڑیں اور کفر و الحاد کا شعلہ بھڑکا تو حضرت طفیل بن عمرو (رضی اللہ عنہ) مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ لڑنے کے لئے مسلمانوں کے لشکر میں مقدمۃ الجیش کی حیثیت سے شامل ہو کر نکل کھڑے ہوئے- اس وقت ان کے ہمراہ ان کا بیٹا عمرو بھی تھا-


یمامہ کی طرف روانگی کے سلسلہ میں ابھی وہ راستہ ہی میں تھے کہ انہوں نے خواب دیکھا، اپنے ساتھیوں سے انہوں نے کہا:

میں نے ایک خواب دیکھا ہے. میں اس کی تعبیر معلوم کرنا چاہتاہوں- ساتھیوں نے دریافت کیا آپ نے خواب میں کیا دیکھا؟

فرمایا:

میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا سر مونڈ دیا گیا ہے اور ایک پرندہ میرے منہ سے نکل کر اڑ گیا ہے اور ایک عورت نے مجھے اپنے پیٹ میں چھپا لیا ہے- میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا عمرو بھی تیزی سے بھاگتا ہوا میرے پیچھے پیچھےآ رہا ہے؛ لیکن میرے اور اس کے درمیان میں کوئ چیز حائل ہوگئی ہے

تمام ساتھیوں نے کہا

 خواب تو اچھا ہے ۔ انہوں نے کہا:بخدا میں نے اس کی ایک تعبیر کی ہے ۔

شر منڈوانے سے یہ مراد ہے کہ میرا سر کاٹ دیا جائے گا ۔ پرندہ جو میرے منہ سے آڑ کر نکل گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ "میری روح پرواز کر جائے گی اور وہ عورت جس نے مجھے پیٹ میں چھپا لیا ہے ، زمین ہے جو کھودی جائے گی اور اس میں مجھے دفن کیا جائے گا" ۔

 میری دلی تمنا ہے کہ مجھے شہادت نصیب ہو ۔

رہا میرے بیٹا کا میرے پیچھے بھاگنا! تو اس سے یہ مراد ہے کہ وہ بھی میری طرح شہادت کی تلاش میں سرگرداں رہے گا ۔

جو میرا مقصد ہے، لیکن اسے شہادت کا یہ مقام میرے بعد اس وقت ملے گا جب اللہ تعالٰی کو منظور ہو گا ۔

معرکہ یمامہ میں اس جلیل القدر صحابی حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ  الدوسی کو بڑی کڑی آزمائش سے دوچار ہونا پڑا  اور معرکہ میں  لڑتے لڑتے طرح طرح کی آزمائشوں سے دوچار ہوتے ہوئے جامے شہادت نوش فرمانے کی سعادت حاصل کی اور  ان کا بیٹا عمرو بھی لگاتار دشمنوں سے برسر پیکار رہا،  یہاں تک کہ زخمیوں نے اسے چور کر دیا اور اس طرح یہ ارض یمامہ میں اپنے باپ کو اور   اپنا کٹا ہوا ہاتھ یمامہ میں چھوڑ کر مدینہ واپس آ گیا ۔


حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ حضرت  عمرو بن طفیل  رضی اللہ عنہ آپ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ دسترخوان بچھا۔ اس وقت متعدد لوگ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ نے سب کو کھانے کی دعوت دی ۔

 حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ ایک طرف الگ ہو کر بیٹھ گئے ۔  فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے آپ کھانے میں شریک کیوں نہیں ہو رہے ۔ ایسا تو نہیں کی آپ اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کی وجہ سے شرم محسوس کر رہی ہے؟
جواب دیا: امیرالمومنین باکل یہی بات ہے۔

آپ نے ارشاد فرمایا:

اللہ کی قسم اس وقت آپ کے علاوہ کسی کو یہ شرف حاصل نیہں ہوا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ اس سے پہلے جنت میں پہنچ جائے، یعنی ان کا وہ ہاتھ جو کٹ کر ان سے پہلے جنت میں پہنچ چکا ہے-

حضرت عمرو بن طفیل رضی اللہ عنہ کو شہادت سے فیضیاب ہونے کا خواب اسی وقت سے نظر آنے لگا تھا، جب یہ اپنے باپ سے جدا ہوگئے تھے -

غزوہ یرموک نے ان کے خواب کو پورا کر دیا- دیگر مجاہدین کے ساتھ یہ جہاد میں کود پڑے اور دشمنوں سے لڑتے ہوئے اس جام شہادت کو نوش فرمایا جس کی ان کے والد نے تمنا کی تھی-

حضرت طفیل بن عمرو الدوسی پر اللہ تعالی کی رحمت ہو- یہ خود بھی شہید ہوئے اور ایک شہید کے باپ ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا-

حضرت طفیل بن عمو الدوسی کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوںکا مطالعہ کریں -

1۔الاصابہ فی تمینیزالصحابہ 3/286-213

2۔الاستیعالابن عبدالبرطبع حیدر آباد 1/  211-213

3۔اسد الغابہ    3 /54-58

4-صفتہ الصفوہ 1/ 245-213

5-سیر النباء 1/ 248 - 250

6- مختصر تاریخ دمشق 7/ 59- 64

7- البدایتہ و النھا یة 6/  337

8- شہدائےاسلام  138-143



===========>ختم شدہ

Post a Comment

0 Comments