Skip to main content

حضرت طفیل بن عمرو الدوسی (رضی اللہ عنہ) قسط 6

✨باذن اللہ تعالی✨

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه

*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*


*2۔حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضي الله عنه*


قسط 6۔۔۔۔۔۔۔۔


حضرت طفیل بن عمرو الدوسی ( رضی اللہ عنہ) زمانہ جاہلیت میں قبیلہ دوس کے اشراف اور سرداروں میں ایک ممتاز سردار تھے اور عرب کے چند گنے چنے بہادروں میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔
 ایسے سخی تھے کہ کبھی ہنڈیا  چولہے سے نہ اترتی اور ایسے فراخ دل تھے کہ کسی بھی ضرورت مند کی آمد پر ان کے گھر کا دروازہ بند نہ ہوا ۔

 بھوکے کو کھا نا کھلاتے, خوفزدہ کو تسلی دیتےاور پناہ چاہنے والے کو اپنے ہاں پناہ دیتے ۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ بلا کے ذہین فطین تھے.انہیں نہایت حساس دل ملا تھا۔ ان کا شعور بہت لطیف تھا۔ کلام کے تیور پہچانتے تھے اور ایسی بات کرتے جو جادو سا اثر رکھتی۔
   
جناب طفیل ( رضی اللہ عنہ) نے تہامہ میں اپنا گھر بار چھوڑ کر مکہ معظمہ کا رخ کیا۔

یہ وہ وقت تھا جب رسول اکرمﷺ  اور کفار قریش میں کفر و ایمان کی معرکہ آرائ ہورہی تھی۔

  ہر فریق کی خواہش تھی کہ اپنے گردزیادہ سے زیادہ ہم نوا جمع کر لےاور لڑائ جیتنے کے لئے زیادہ سے زیادہ اپنے مددگار اور معاون پیدا کرلے۔

رسول اللہ  ﷺ تو لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلاتے تھے اور آپ کا اصل ہتھیار ایمان کی محکمی اور حق پر یقین رکھنا تھا۔

 اس کے بر عکس کفار قریش کو شاں تھے کہ آپ کی دعوت کو رد کر دیں اور اس سلسلہ میں ہر حربہ استعمال کریں۔ یہی نہیں بلکہ لوگوں کو آپ کے پاس آنے سے روکیں۔

 یہاں آ کر حضرت طفیل بن عمرو ( رضی اللہ عنہ) نے ایسا محسوس کیا کہ میں بغیرکسی تیاری کے غیر شعوری طور پر اس معرکہ میں شرکت کر رہا ہوں۔
 وہ نہ چاہتے .ہوئے بھی کفر واسلام کی اس لڑائ میں کود پڑا ہوں۔

 مکہ مکرمہ اس غرض سے نہیں آئے تھے اور نہ حضرت محمد ﷺ اور قریش کی اس معرکہ آرائ کا خیال ان کے دل میں کبھی آیا تھا۔

اس وجہ سے حضرت طفیل بن عمرو الدوسی (رضی اللہ عنہ) کی ایک ناقابل فراموش داستان ابھر کر سامنے آتی ہے۔

یہ دلچسپ داستان سننے کے لائق ہے۔
حضرت طفیل بن عمرو (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ جونہی میں مکہ معظمہ پہنچا۔

 سرداران قریش مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ بڑی گرم جوشی سے انہوں نے میرا استقبال کیا اور بڑی ہی عزت افزائ کا ثبوت دیا۔ پھر تمام سردار اور معززین ایک جگہ جمع ہوئے۔ مجھے اپنے پاس بلا کر کہنے لگے۔

طفیل (رضی اللہ عنہ) آپ کے یہاں تشریف لائے ہیں۔ یہاں ایک شخص نے بزعم خود نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔اس نے ہمارے خیالات کو چوپٹ کر دیا ہے.ہم میں پھوٹ ڈال دی ہےاور ہمیں پارہ پارہ کر دیا ہے۔

اندیشہ ہے کہ یہ مصیبت کہیں آپ کی قوم پر بھی نازل نہ ہو جائے۔ ہماری یہ مخلصانہ تجویز ہےکہ آپ اس شخص کو منہ نہ لگائیں۔ نہ اس سے کلام کریں اور نہ اس کی کوئ بات سنیں۔

 اس لئے کہ اس کی بات میں جادو کا اثر ہے۔ یہ باپ کو بیٹے سے، بھائ کو بھائ سے اور خاوند کو بیوی سے جدا کر دیتا ہے۔

حضرت طفیل (رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں:
بخدا وہ مسلسل مجھے حضرت محمد  ﷺ کی طرف منسوب عجیب و غریب داستانیں سناتے رہےاور مجھے ڈراتے رہے۔

یہاں تک کہ میں نے دل میں ٹھان لی کہ میں آپ کے قریب تک نہیں بھٹکوں گا۔

نہ آپ سے بات کروں گا اور نہ ہی آپ کی بات سنوں گا۔

صبح کے وقت میں طواف کعبہ اور بیت اللہ میں رکھے گئے بتوں سے برکت حاصل کر نے کے لئے گھر سے نکلا جن کی کہ ہم بہت تعظیم کیا کرتے تھے۔

تو ازراہ احتیاط میں نے اپنے کانوں میں روئ ٹھونس لی کہ  مبادہ میرے کانوں میں کوئ بات پڑجائے۔

 حضرت محمد ﷺ کعبہ کے پاس کھڑے نماز اور عبادت میں مشغول تھے.
ان کی نماز اور عبادت کا اندازہ بالکل مختلف تھا مجھے اس منظر نے گھائل کر دیا۔ آپ کا یہ طریقہ عبادت مجھے ایسا بھایا کہ رگ رگ میں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئ دل ہی دل میں محسوس کیا

===========>جاری ہے..

Comments

Popular posts from this blog

قریش کی مخالفت اور اس کے اسباب

                                                                        سیرت النبی ﷺ                                                                         ﷽                                                    🔴قریش کی مخالفت اور اس کے اسباب🔴     مکہ کی جو عزت تھی کعبہ کی وجہ سے تھی ۔ قریش کا خاندان جو تمام عرب پر مذہی حکومت رکھتا تھا اور جس کی وجہ سے وہ ہمسائیگان خدا بلکہ آل اللہ یعنی خاندان الہی کہلاتے تھے۔ اس کی صرف یہ وجہ تھی کہ وہ کعبہ کے مجاور او...

آفتاب رسالتﷺ کا طلوع

                                                           سیرت النبی ﷺ                                          ﷽                     🔴 آفتاب رسالتﷺ کا طلوع۔ 🔴         رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں پیدا ہوئے مکہ بت پرستی کا مرکز اعظم تھا، خود کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا تمغۂ امتیاز صرف اس قدر تھا کہ اس صنم کدہ کے متولی اور کلید بردار تھے، با ایں ہمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا، دیگر رسوم جاہلیت میں کبھی بھی شرکت نہیں کی قریش نے اس بات پر کہ ان کو عام لوگوں سے ہر بات میں ممتاز رہنا چاہیے یہ قاعدہ قرار دیا تھا کہ ایام حج میں قریش کے لئے عرفات جانا ضروری نہیں او...

عمیر بن وھب رضی اللہ عنہ

                                     ✨سیر الصحابہ✨                            بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم                *صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*                🔴عمیر بن وھب ( رضی اللہ عنہ)🔴 *عمیر بن وھب ( رضی اللہ عنہ) مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔*  *"ارشاد فاروق اعظم ( رضی اللہ عنہ) "*      عمیر بن وھب خود تو میدان بدر سے جان بچا کر واپس لوٹ آئے، لیکن ان کے بیٹے کو مسلمانوں نے گرفتار کر لیا۔ عمیر کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ مسلمان اس کے نوجوان بیٹے کو باپ کے جرم کی پاداش میں سخت ترین سزا دیں گے؟ کیونکہ اس کا باپ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو دردناک تکالیف پہنچاتا رہا ہے۔ ایک دن صبح کے وقت عمیر مسجد حرام میں طواف اور بتان حرم سے برکت حاصل...