تزویج خدیجہؓ

   

                               سیرت النبی ﷺ#

     

                   
                                   ﷽

                          🔴تزویج خدیجہؓ🔴#

         حضرت خدیجہ ایک معزز خاتون تھیں۔ ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ملتا ہے اور اس رشتہ کے لحاظ سے وہ آپ کی چچیری بہن تھیں ۔ ان کی دو شادیاں پہلے ہو چکی تھیں، اب وہ بیوہ تھیں، چونکہ نہایت شریف النفس اور پاکیزہ اخلاق تھیں، جاہلیت میں لوگ ان کو طاہرہ کے نام سے پکارتے تھے، نہایت دولت مند تھیں، طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ جب اہل مکہ کا قافلہ تجارت کو روانہ ہوتا تھا تو اکیلا ان کا سامان تمام قریش کے برابر ہوتا تھا۔

        جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اب پچیس برس کی ہو چکی تھی ، متعدد قومی کاموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہو چکے تھے ، تجارت کے کاروبار کے ذریعہ سے لوگوں کے ساتھ معاملات پیش آتے تھے، اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاملہ، راست بازی ، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاقی کی عام شہرت ہو چکی تھی ، یہاں تک کہ زبان خلق نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امین کا لقب دے دیا تھا، حضرت خدیجہ نے ان اسباب کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لے کر شام کو جائیں، جو معاوضہ میں اوروں کو دیتی ہوں آپ کو اس کا مضاعف دوں گی ۔ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور مال تجارت لے کر بصری تشریف لے گئے ۔

      واپس آنے کے تقریبا تین مہینہ کے بعد حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شادی کا پیغام بھیجا، ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا لیکن ان کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے عرب میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگو کر سکتی تھیں اور اس میں بالغہ نابالغہ کی قید نہ تھی ، حضرت خدیجہ نے چچا کے ہوتے ہوئے خود براہ راست تمام مراتب طے کئے ۔ تاریخ معین پر ابو طالب اور تمام روسائے خاندان جن میں حضرت حمزہ بھی تھے، حضرت خدیجہ کے مکان پر آئے ، ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا اور پانچ سو طلائی درہم مہر قرار پایا۔

       بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت خدیہ کے والد زندہ تھے اور ان کی موجودگی میں نکاح ہوا لیکن شراب میں مخہور تھے، جب ہوش میں آئے تو نکاح کا حال سن کے برہم ہوئے کہ یہ برابر کا جوڑ نہیں۔

      لیکن یہ روایت صحیح نہیں ، امام سہیلی نے بتصریح اور بدلیل ثابت کیا ہے کہ حضرت خدیہ کے والد جنگ فجار سے انتقال کر چکے تھے۔

     حضرت خدیہ جس مکان میں رہتی تھیں، وہ آج بھی (حسب بيان مؤرخ طبری) انہیں کے نام سے مشہور ہے، امیر معاویہ نے اس مکان کو خرید کر مسجد بنا دیا۔

    شادی کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس برس کی تھی اور پہلے دو شوہروں سے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھیں، ان کے نام اور مفصل حالات آگے آئیں گے۔

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس قدر اولاد ہوئی ، بجز حضرت ابراہیم کے حضرت خدیجہ ہی کے بطن سے ہوئی، ان کے حالات اگے تفصیل سے ائیں گے۔


                                🔴حدود سفر🔴     

       اہل مکہ عموما تجارت کی غرض سے سفر کرنے کے عادی تھے، انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس تقریب سے متعدد سفر کئے ، شام اور بصری کے سفر کا حال پہلے گزر چکا ہے، اس کے علاوہ اور مقامات تجارت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لے جانا ثابت ہے۔ عرب میں مختلف مقامات میں جو بازار قائم تھے ان میں سے معاش کا ذکر ابن سید الناس نے کیا ہے، حضرت خدیجہ نے جہاں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجارت کی غرض سے بھیجا تھا ، ان میں جرش بھی ہے، جو یمن میں ہے، حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے اور علامہ ذہبی نے بھی تصدیق کی ہے کہ جرش میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو دفعہ تشریف لے گئے اور ہر دفعہ حضرت خدیجہ نے معاوضہ میں ایک اونٹ دیا۔

      نبوت کے بعد جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرب کے تمام دور دراز مقامات سے وفود ائے۔ ان میں جب بحرین سے عبد القیس کا وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے ایک ایک مقام کا نام لے کر وہاں کا حال پوچھا، لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ ہمارے ملک کا حال ہم سے زیادہ جانتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہارے ملک کی خوب سیر کی ۔‘ مورخین یورپ نے جو علوم غیبی کے منکر ہیں اور جو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام معارف و معلومات سیر و سفر سے ماخوذ ہیں، قیاسات کے ذریعہ سے اس دائرہ کو اور وسعت دی ہے۔ ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحری سفر بھی کیا تھا جس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہازوں کی رفتار اور طوفان کی کیفیت کی ایسی صحیح تصویر ہے جس سے (نعوذ باللہ ) ذاتی تجربہ کی بو آتی ہے۔ مؤرخ مذکور کا یہ بھی دعوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصر بھی تشریف لے گئے تھے اور ڈیڈسی ( بحر میت ) کا بھی معائنہ کیا تھا لیکن تاریخی دفتر ان واقعات سے خالی ہے۔



         

                        🔴مراسم شرک سے اجتناب🔴

       یہ قطعا ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن اور شباب میں بھی جب کہ منصب پیغمبری سے ممتاز نہیں ہوئے تھے، مراسم شرک سے ہمیشہ مجتنب رہے۔

      ایک دفعہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا لاکر رکھا ، یہ کھانا بتوں کے چڑھاوے کا تھا، جانور جو ذبح کیا گیا تھا کیا بت کے نام پر ذبح کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے انکار کیا۔

      نصاری نے دعوی کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتقادات میں جو تغیر ہوا ہے وہ عہد نبوت سے ہوا ہے، ورنہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل وہی تھا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان اور اہل شہر کا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے صاحبزادہ کا نام عبدالعزی رکھا تھا اور یہ روایت خود امام بخاری کی تاریخ صغیر میں موجود ہے، لیکن یہ روایت اگر صحیح بھی ہو تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیوں کر استدلال ہوسکتا ہے۔

      حضرت خدیجہ اسلام سے پہلے بت پرست تھیں، انہوں نے یہ نام رکھا ہوگا ، انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک منصب ارشاد پر مامور نہیں ہوئے تھے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعرض نہ فرمایا ہوگا اور اصل واقعہ یہ ہے کہ یہ روایت فی نفسہ بھی ثابت نہیں ، اسی روایت کا سب سے زیادہ صحیح سلسلہ وہ ہے جو امام بخاری نے تاریخ صغیر میں روایت کیا ہے، اس کا پہلا راوی اسمعیل ہے، جس کا پورا نام اسماعیل بن ابی اویس ہے، اگرچہ بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن گروہ کثیر کی رائے حسب ذیل ہے: (ماخوز از تہذیب التہذیب، ج1ص: ٣١٠ تا ٣١٢ )

▪️معاویہ بن صالح : ⬅️ اسماعیل اور اس کا باپ دونوں ضعیف ہیں۔

▪️ یحی بن مخلط :⬅️ وہ جھوٹ بولتا ہے اور محض ہیچ ہے۔

▪️امام نسائی :⬅️ ضعیف اور غیر ثقہ ہے۔

▪️نفمصر بن سلمہ مروزی:⬅️ وہ کذاب ہے۔

▪️دارقطنی :⬅️ میں اس کو صحیح روایت کے لئے پسند نہیں کرتا۔

▪️سیف بن محمد :⬅️ وہ جھوٹی حدیثیں بناتا ہے۔

▪️سلمہ بن شیب :⬅️ مجھ سے اس نے خود اقرار کیا کہ جب بھی کسی بات میں اختلاف ہوتا تھا تو میں ایک
حدیث بنا لیتا تھا

       یہ امر واقعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے بت پرستی کی برائی شروع کردی تھی اور جن لوگوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعتماد تھا، ان کو اس بات سے منع فرماتے تھے

             

                        🔴موحدین کی ملاقات🔴

        اس میں شبہ نہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی بعثت سے پہلے فیض الہی کی خفیف شعاعیں عرب میں پھیلنی شروع ہوگئی تھیں، چنانچہ قس بن ساعده ، ورقہ بن نوفل ، عبید الله بن جحش ، عثمان بن الحويرث ، زید بن عمرو بن نفیل نے بت پرستی سے انکار کر دیا تھا ان میں سے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید سے ملاقات کی تھی، جس کا ذکر بخاری میں بھی ہے، ورقہ عیسائی ہو گئے تھے اور چونکہ حضرت خدیجہ کے برادر عم زاد تھے اور مکہ ہی میں رہتے تھے، اس لئے قیاس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بھی ملے ہوں گے ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوستی تھی۔

عرب و محاضرات کی کتابوں میں عموما اور بعض تاریخوں میں بھی مذکور ہے کہ قس بن ساعدہ نے عکاظ میں جو مشہور خطبہ دیا تھا، انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس خطبہ میں شریک تھے، اس خطبہ کا بڑا حصہ اکثر اہل ادب نے نقل کیا ہے اور چونکہ اس کے فقرے بظاہر قرآن مجید کی ابتدائی سورتوں کی طرح چھوٹے چھوٹے اورمقفی ہیں اس لئے عیسائی مورخین نے دعوی کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طرز انہی سے لیا ہے، چنانچہ بعض فقرے یہ ہیں

     "ايها الناس اسمعوا ووعوا واذا وعيتم فانتفعوا_ انه من عاش مات_ ومن مات فات وكل ماهو ات أت_ مطر و نبات_ و ارزاق و اقوات_ و آباء و أمهات_ واحياء وأموات_ وجميع و اشتات أن في السماء لخبرا_ وان في الأرض لعبرا، ليل داج_ وسماء ذات ابراج وبحار ذات امواج۔ مالی ارى الناس يذهبون فلا يرجعون۔ ارضوا بالمقام فأقاموا ام تركوا هناك فناموا- این من بنی و شید- وزخرف ونجد وعد المال والولد. این من بغی و طغی۔"

      قیس بن ساعدہ کی روایت اور اس کا خطبه مختصر ومطول بہ عبارات مختلفہ۔ بغوی، ازدی بیہقی ، جاحظ وغیرہ نے نقل کیا ہے لیکن وہ سرتا پا مصنوئی اور موضوع ہے، اس کے رواة عموما نا قابل سند بلکہ کذاب ہیں، چنانچہ سیوطی نے موضوعات میں اس روایت کے تمام طریقوں کو نقل کر کے ان کے روات سے بحث کی ہے اور علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر وغیرہ کے اقوال تفصیل سے نقل کئے ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ یہ روایت مختلف طریقوں سے مروی ہے لیکن ہر طریقہ میں کوئی نہ کوئی راوی ایسا ہے جو موضوع حدیثیں بنایا کرتا تھا، اس کا ایک مشترک راوی "محمد بن حجاج" ہے، اس کی نسبت ابن معین کا قول ہے کہ کذاب اور خبیث ہے۔ ابن عدی نے لکھا ہے کہ ہریسہ کی حدیث اسی نے وضع کی ہے۔ ایک طریقہ کا راوی سعید بن ہبیرہ ہے، اس کی نسبت ابن حبان نے لکھا ہے کہ ”ثقہ لوگوں کی زبانی جھوٹی حدیثیں روایت کرتا تھا، یا تو وہ خود یہ حدیثیں تصنیف کرتا تھا، یا اور لوگ اس کے لئے بنا دیا کرتے ۔‘‘ ایک طریقہ کے راوی قاسم بن عبداللہ اور احمد بن سعید ہیں اور یہ دونوں حدیث بنانے میں بدنام ہیں، بیہقی نے اس روایت کے متعلق ایک بڑا قصہ نقل کیا ہے جس میں حضرت ابوبکر نے
قیس بن ساعدہ کا پورا خطبہ اپنی یاد سے بیان کیا ہے، یہ روایت پوری کی پوری موضوع ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس روایت کے اور طریقے بھی نقل کئے ہیں اور ان کی تضعیف کی ہے۔

≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠
 ≠≠≠≠≠≠≠


سیرت النبی علامہ نعمان شبلی1️⃣

Post a Comment

0 Comments