انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب چھ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ آپ کو لے کر مدینہ گئیں، چونکہ حضرت امنہ کے دادا کی ننہال خاندان نجار میں تھیں، وہیں ٹھہریں ، اس سفر میں ام ایمن بھی ساتھ تھیں جو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ تھیں ۔ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ کی والدہ اس ننہالی رشتہ کی وجہ سے مدینہ گئیں لیکن یہ رشتہ دور کا رشتہ تھا، قیاس میں نہیں آتا کہ صرف اتنے سے تعلق سے اتنا بڑا سفر کیا جائے۔ میرے نزدیک بعض مورخین کا یہ بیان صحیح ہے کہ حضرت آمنہ اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لئے گئی تھیں جو مدینہ میں مدفون تھے ، بہرحال ایک مہینہ تک مدینہ میں مقیم رہیں، واپس آتے ہوئے جب مقام ابواء میں پہنچیں تو ان کا انتقال ہوگیا اور یہیں مدفون ہوئیں ، ام ایمن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ میں آئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام مدینہ کی بہت سی باتیں یاد رہی تھیں، جب آپ قیام مدینہ کے زمانہ میں ایک دفعہ بنو عدی کے منازل پر گزرے تو فرمایا کہ اسی مکان میں میری والدہ ٹھہری تھیں، یہی وہ تالاب ہے جس میں میں نے تیرنا سیکھا تھا، اس میدان میں ، میں انیسہ ایک لڑکی کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔
🔴عبدالمطلب کی کفالت🔴
والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد عبد المطلب نے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دامن تربیت میں لیا، ہمیشہ آپ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
عبدالمطلب نے بیاسی برس کی عمر میں وفات پائی اور حجون میں مدفون ہوئے، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ برس کی تھی ، عبد المطلب کا جنازہ اٹھا تو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھ تھے اور فرط محبت سے روتے جاتے تھے ، عبد المطلب نے مرنے کے وقت اپنے بیٹے ابو طالب کو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سپرد کی، ابوطالب نے اس فرض کو جس خوبی سے ادا کیا اس کی تفصیل آگے آتی ہے، یہ واقعہ خاص طور پر لحاظ ر کھنے کے قابل ہے کہ عبدالمطلب کی موت نے بنو ہاشم کے رتبہ امتیاز و دفعتہ گھٹا دیا اور یہ پہلا دن تھا کہ دنیوی اقتدار کے لحاظ سے بنو امیہ کا خاندان بنو ہاشم پر غالب آگیا عبدالمطلب کی مسند ریاست پراب حرب متمکن ہوا، جو امیہ کا نامور فرزند تھا، مناصب ریاست میں سے صرف سقایہ حجاج کو پانی پلانا عباس کے ہاتھ میں رہا، جو عبد المطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔
🔴ابو طالب کی کفالت🔴
عبدالمطلب کے دس بیٹے مختلف ازواج سے تھے، ان میں سے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبد اللہ اور ابو طالب ماں جائے بھائی تھے، اس لئے عبد المطلب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوطالب ہی کے آغوش تربیت میں دیا، ابوطالب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت رکھتے تھے کہ آپ کے مقابلہ میں اپنے بچوں کی پروا نہیں کرتے تھے ، سوتے تو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر سوتے اور باہر جاتے تو ساتھ لے کر جاتے۔
غالبا جب آپ کی عمر دس بارہ برس کی ہوئی تو آپ نے بکریاں چرائیں ۔ فرانس کے ایک نامور مؤرخ نے لکھا ہے کہ ابوطالب چونکہ محمد کو ذلیل رکھتے تھے، اس لئے ان سے بکریاں چرانے کا کام لیتے تھے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عرب میں بکریاں چرانا معیوب کام نہ تھا، بڑے بڑے شرفا اور امرا کے بچے بکریاں چراتے تھے خود قرآن مجید میں ہے: " ولكم فيها جمال حين تريحون وحین تسرحون :(۱۹/ النحل:6) اور حقیقت یہ ہے کہ یہ عالم کی گلہ بانی کا دیباچہ تھا، زمانہ رسالت میں آپ اس سادہ اور پر لطف مشغلہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے، ایک دفعہ آپ تمام صحابہ کے ساتھ جنگل میں تشریف لے گئے ، صحابہ ’’جھڑ بیریاں توڑ توڑ کر کھانے لگے، آپ نے فرمایا:''جو خوب سیاہ ہو جاتے ہیں زیادہ مزے کے ہوتے ہیں، یہ میرا اس زمانے کا تجربہ ہے جبمیں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا۔‘‘
🔴شام کا سفر🔴
ابو طالب تجارت کا کاروبار کرتے تھے۔ قریش کا دستور تھا ، سال میں ایک دفعہ تجارت کی غرض سے شام کو جایا کرتے تھے۔ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تقریبا بارہ برس کی ہوگی کہ ابوطالب نے حسب دستور شام کا ارادہ کیا، سفر کی تکلیف یا کسی اور وجہ سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتے تھے، لیکن
انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب سے اس قدر محبت تھی کہ جب ابوطالب چلے گئے تو آپ ان سے لپٹ گئے ، ابو طالب نے آپ کی دل شکنی گوارا نہ کی اور ساتھ لے لیا، عام مؤرخین کے بیان کے موافق بحیرا ایک مشہور واقعہ اسی سفر میں پیش آیا، اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے، کہ جب ابوطالب بصری میں پہنچے تو ایک عیسائی راہب کی خانقاہ میں اترے جس کا نام بحیرا تھا، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا کہ یہ سید المرسلین ہیں ۔ لوگوں نے پوچھا: تم نے کیونکر جانا ؟ اس نے کہا: جب تم لوگ پہاڑ سے اترے تو جس قدر درخت اور پتھر تھے سب سجدے کے لئے جھک گئے ۔
0 Comments