سیرت النبی ﷺ
🔴قصی🔴
نضر کے بعد فہر اور فہر کے بعد قصی بن کلاب نے نہایت عزت اور اقتدار حاصل کیا، اس زمانہ میں حرم کے متولی خلیل خزاعی تھے قصی نے خلیل کی صاحبزادی سے جن کا نام *حبی* تھا شادی کی تھی ، اس تعلق خلیل
نے مرتے وقت وصیت کی کہ حرم کی خدمت قصی کو سپرد کی جائے ، اس طرح یہ منصب بھی ان کو حاصل ہو گیا، قصی نے ایک دار المشورہ قائم کیا جس کا نام دارالندوہ رکھا، قریش جب کوئی جلسہ یا جنگ کی تیاری کرتے تو اسی عمارت میں کرتے ، قافلے باہر جاتے تو یہیں سے تیار ہو کر جاتے، نکاح اور دیگر تقریبات کے مراسم بھی یہیں ادا ہوتے۔
قصی نے بڑے بڑے نمایاں کام کئے ، جو ایک مدت تک یادگار ہے، مثلا *سقایہ* اور *رفاده* جو خدام حرم کا سب سے بڑا منصب تھا ، انہی نے قائم کیا، تمام قریش کو جمع کرکے تقریر کی کہ سینکڑوں ہزاروں کوس سے لوگ حرم کی زیارت کو مکہ مکرمہ آتے ہیں، ان کی میزبانی قریش کا فرض ہے، چنانچہ قریش نے ایک سالانہ رقم مقرر کی جس سے منی اور مکہ معظمہ میں حجاج کو کھانا تقسیم کیا جاتا تھا ، اس کے ساتھ چرمی حوض بنوائے جن میں ایام حج میں پانی بھر دیا جاتا تھا کہ حجاج کے کام آئے مشعرحرام بھی انہی کی ایجاد ہے، جس پر ایام حج میں چراغ جلاتے تھے، چنانچہ عقد الفرید میں تصریح کی ہے قصی نے اس قدر شہرت اور اعتبار حاصل کیا کہ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ قریش کا لقب اول انہی کو ملا۔ چنانچہ علامہ ابن عبد ربہ نے عقد الفرید میں بھی لکھا ہے اور یہ بھی تصریح کی ہے کہ قصی نے چونکہ خاندان کو جمع کر کے کعبہ کے آس پاس بسایا ، اس لئے ان کو قریش کہتے ہیں کیونکہ تقریش کے معنی جمع کرنے کے ہیں، اسی بنا پر ان کو مجمع بھی کہتے تھے، چنانچہ شاعر کہتا ہے
قصی ابوكم من يسمی مجمعا
به جمع الله القبائل من فهر
قصی کی چھ اولاد تھی ،عبدالدار ، عبد مناف ، عبدالعزی ، عبد بن قصی تخمر ، برہ_ قصی نے مرتے وقت حرم محترم کے تمام مناصب سب سے بڑے بیٹے عبدالدار کو دیے، اگرچہ وہ سب بھائیوں میں نا قابل تھے لیکن قصی کے بعد قریش کی ریاست عبد مناف نے حاصل کی ۔ اور انہیں کا خاندان رسول اللہ کا خاص خاندان ہے۔ عبد مناف کے چھ بیٹھے تھے، ان میں سے ہاشم نہایت صاحب صولت اور با اثر تھے، انہوں نے بھائیوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ حرم کے مناصب جو عبدالدار کو دیے گئے ، واپس لے لئے جائیں، وہ لوگ اس منصب عظیم کے قابل نہیں ۔ عبدالدار کے خاندان نے انکار کیا اور جنگ کی تیاریاں شروع کیں، بالآخر اس پر صلح ہوئی کہ عبدالدار سے سقایہ اور رفادہ واپس لے کر ہاشم کو دے دیا۔
🔴ہاشم🔴
ہاشم نے اپنے فرض کو نہایت خوبی سے انجام دیا جارج کو نہایت سیر چشمی سے کھانا کھلاتے تھے، چرمی حوضوں میں پانی بھروا کر زمزم او منی کے پاس سبیل رکھتے تھے ، تجارت کو نہایت ترقی دی، قیصر روم سے خط و کتابت کر کے فرمان لکھوایا کہ قریش جب اس کے ملک میں اسباب تجارت لے کر جائیں تو ان سے کوئی ٹیکس نہ لیا جائے ۔ حبش کے بادشاہ نجاشی سے بھی اسی قسم کا فرمان حاصل کیا ۔ چنانچہ اہل عرب جاڑوں میں یمن اور گرمیوں میں شام اور ایشیائے کوچک تک تجارت کے لئے جایا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں انگوریہ (انقرہ) جو ایشیائے کوچک کا مشہور شہر ہے۔ قیصر کا پایہ تخت تھا، تجار قریش، انگوریہ میں جاتے تو قیصر نہایت عزت اور حرمت سے خیر مقدم کرتا تھا۔
عرب میں راستے محفوظ نہ تھے۔ ہاشم نے مختلف قبائل میں دورہ کر کے قبائل سے یہ معاہدہ کیا کہ قریش کے کاروان تجارت کو ضرر نہ پہنچائیں گے، جس کے صلہ میں کاروان قریش ان قبائل میں ان کی ضرورت کی چیزیں خود لے کر جائے گا اور ان سے خرید و فروخت کرے گا۔ یہی سبب تھا کہ عرب میں باوجود عام لوٹ مار کے قریش کا قافلہ تجارت ہمیشہ محفوظ رہتا تھا۔
ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑا، ہاشم نے اس قحط میں شوربہ میں روٹیاں چورا کر کے لوگوں کو کھلائیں، اس وقت سے ان کا نام ہاشم مشہور ہوگیا عربی زبان میں چورہ کرنے کو ہشم کہتے ہیں، جس کا اسم فاعل ہاشم ہے۔
ایک بار تجارت کی غرض سے شام گئے ، راستہ میں مدینہ میں شہر ہے، وہاں سال کے سال بازار لگتا تھا، بازار میں گئے تو ایک عورت کو دیکھا جس کی حرکات و سکنات سے شرافت اور فراست کا اظہار ہوتا تھا، اس کے ساتھ سینڈ اور جمیل بھی تھی ، دریافت سے معلوم ہوا کہ خاندان بنی نجار سے ہے اور سلمی نام ہے۔ ہاشم نے اس سے شادی کی درخواست کی اور اس نے قبول کر لی ،غرض نکاح ہو گیا۔ شادی کے بعد ہی شام کو چلے گئے اور غزوہ میں جا کر انتقال کیا سلمی کو حمل رہ گیا تھا لڑکا پیدا ہوا، اس کا نام شیبہ رکھا گیا، اس نے تقریبا ۸ برس تک مدینہ میں پرورش پائی، ہاشم کے بھائی جان کا نام مطلب تھا، ان کو یہ حالات معلوم ہوئے تو فورا مدینہ روانہ ہوئے ، وہاں پہنچ کر بھتیجے کی جستجو کی، سلمی نے ان کے آنے کا حال سنا تو بلوا بھیجا۔ تین دن مہمان رہے، چوتھے دن شیبہ کو ساتھ لے کر مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ ان کی عمر ٨ برس کی تھی یہاں آکر ان کا نام عبد المطلب پڑ گیا۔
🔴عبد المطلب🔴
عبدالمطلب کے لفظی معنی مطلب کا غلام ہیں ۔ اس لئے ارباب سیر نے وجہ تسمیہ میں بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جن میں صحیح تر یہ ہے کہ چونکہ مطلب نے ان کی پرورش کی تھی اور یتیم تھے، اس لئے عرب کے محاورہ کے مطابق غلام مطلب مشہور ہو گئے ۔ عبد المطلب کی زندگی کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ چاہ زمزم جو ایک مدت سے اٹ کر گم ہو گیا تھا۔ انہوں نے اس کا پتہ لگایا اور کھدوا کر نئے سرے سے درست کروایا۔
🔴عبداللہ🔴
انہوں نے منت مانی تھی کہ دس بیٹوں کو اپنے سامنے جوان دیکھ لیں گے تو ایک کو خدا کی راہ میں قربان کر دیں گے ۔ خدا نے یہ آرزو پوری کی ، دسوں بیٹوں کو لے کر کعبہ میں آئے اور پجاری سے کہا کہ ان دسوں پر قررہ ڈالو، دیکھو کس کے نام پر نکلتا ہے، اتفاق سے عبد الله کا نام نکلا کہ ان کو لے کر قربان گاہ کو چلے، عبداللہ کی بہنیں جو ساتھ تھیں رونے لگیں اور کہا کہ ان کے بدلے دس اونٹ قربانی کیجئے ، ان کو چھوڑ دے، عبدالمطلب نے پچاری سے کہا کہ عبداللہ پر اور دس اونٹوں پر قرعہ ڈالو، اتفاق ہے کہ عبداللہ ہی کے نام پر قرعہ نکلا عبد المطلب نے اب اس کے بجائے بیس اونٹ کر دیے، یہاں تک کہ بڑھاتے بڑھاتے سو تک نوبت ائی تو اونٹوں پر قرعه آیا عبدالمطلب نے سو اونت قربانی کئے اور عبد اللہ بچ گئے ۔ یہ واقدی کی روایت ہے۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اونٹوں کے معاوضہ کی تدبیر رؤسائے قریش نے تجویز کی تھی۔
عبدالمطلب کے دس یا بارہ بیٹوں میں سے پانچ شخصوں نے اسلام یا کفر کی خصوصیت کی وجہ سے شہرت عام حاصل کی ۔ یعنی ابولہب، ابوطالب، عبد الله حمزه عباس-
عام طور پر مشہور ہیں، کہ ابولہب کا اصلی نام اور ہے۔ خطاب انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ نے دیا لیکن یہ غلطی ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں تصریح کی کہ یہ لقب خود عبد المطلب نے دیا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ ابولہب نہایت حسین اور جمیل تھا اور عرب میں گورے چہرے کو شعله آتش کہتے ہیں ، فارسی میں بھی آتشیں رخسار ہے۔
🔴آمنہ🔴
عبداند قربانی سے بچ گئے تو عبدالمطلب کو ان کی شادی کی فکر ہوئی قبیلہ زہرہ میں وہب بن عبد مناف کی صاحبزادی جن کا نام آمنہ تھا، قریش کے تمام خاندانوں میں ممتاز تھیں وہ اس وقت اپنے چچا وہیب کے پاس رہتی تھیں ، عبد المطلب وہیب کے پاس گئے اور عبد اللہ کی شادی کا پیغام دیا انہوں نے منظور کیا اور عقد ہو گیا ۔ اسی موقع پر خود عبد المطلب نے بھی وہیب کی صاحبزادی سے جن کا نام ہالہ تھا ، شادی کی ۔ حضرت حمزہ انہی ہالہ کے بطن سے ہیں۔ ہالہ رشتہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ ہوئیں اور اس بنا پر حضرت حمزه انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خالہ زاد بھائی بھی ہیں ۔ دستور تھا کہ
≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠
سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد ❶
0 Comments