کعبہ کی تعمیر

                              

                           ﷽

                 سیرت النبی ﷺ   

     


                    🔴تعمیر کعبہ🔴


        کعبہ کی عمارت صرف قد آدم اونچی تھی اور دیواروں پر چھت نہ تھی جس طرح ہمارے ملک میں عید گاہیں ہوتی ہیں، چونکہ عمارت نشیب میں تھی، بارش کے زمانہ میں شہر کا پانی حرم میں آتا تھا، اس کی روک

کے لئے بالائی حصہ پر بند بنوادیا گیا تھا لیکن وہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا اور عمارت کو بار بار نقصان پہنچاتا تھا، بالآخر یہ رائے قرار پائی کہ موجودہ عمارت ڈھا کر نئے سرے سے زیادہ مستحکم بنائی جائے ، حسن اتفاق ہے کہ جدہ کی بندرگاہ پر ایک تجارتی جہاز کنارہ سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا قریش کو خبر ملی تو ولید بن مغیرہ نے جدہ جاکر جہاز کے تختے مول لے لئے ، جہاز میں ایک رومی معمار تھا جس کا نام باقوم تھا ، ولید اس کو ساتھ لایا اور تمام قریش نے مل کر تعمیر شروع کی مختلف قبائل نے عمارت کے مختلف حصے آپس میں تقسیم کر لئے تھے کہ کوئی اس شرف سے محروم نہ رہ جائے لیکن جب حجر اسود کے نصب کرنے کا موقع آیا تو سخت جھگڑا پیدا ہوا، ہرشخص چاہتا تھا کہ یہ خدمت اسی کے ہاتھ سے انجام پائے ، نوبت یہاں تک اپہنچی کہ تلواریں کھینچ گئیں۔


        عرب میں دستور تھا کہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتا تھا تو پیالہ میں خون بھر کر اس میں انگلیاں ڈبو لیتا تھا۔ اس موقع پر بھی بعض دعویداروں نے یہ رسم ادا کی ، چار دن تک یہ جنگڑا برپا رہا، پانچویں دن ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے زیادہ معمر تھا رائے دی کہ کل صبح کو سب سے پہلے جو آئے وہی ثالث قرار دے دیا جائے ، سب نے یہ رائے تسلیم کی ۔ دوسرے دن تمام قبائل کے معزز آدمی موقع پر پہنچیں، کرشمہ ربانی دیکھو کہ صبح کو سب سے پہلے لوگوں کی نظریں جس پر پڑیں وہ جمال جہاں تاب چره محمدی صلی اللہ علیہ وسلم تھا لیکن رحمت عالم نے قبول نہ کیا کہ اس شرف سے تنہا بہرہ ور ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قبائل دعویدار ہیں سب کا ایک ایک سردار انتخاب کر لیا جائے ۔ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر بچھا کر حجر اسود کو اس میں رکھ دیا اور سرداروں سے کہا کہ چادر کے چاروں کونے تھام لیں اور اوپر کو اٹھائیں، جب چادر موقع کے برابر آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو اٹھا کر نصب فرما دیا۔ یہ گویا اشارہ تھا کہ دین الہی کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی انہیں ہاتھوں سے نصب ہوگا۔


    اسی طرح ایک سخت لڑائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن تدبیر سے رک گئی ، کعبہ کی عمارت اب مسقف کر دی گئی لیکن چونکہ سامان تعمیر کافی نہ تھا، ایک طرف زمین کا کچھ حصہ چھوڑ کر بنیادیں قائم کی گئیں اور اس حصہ کے گرد چار دیواری دی گئی کہ پھر موقع ہوگا تو کعبہ کے اندر لے لیں گے، یہی حصہ ہے جس کو آج حطیم کہتے ہیں اور جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد نبوت ارادہ فرمایا تھا کہ دیوار ڈھا کر نئے سرے سے عمارت بنائی جائے لیکن پھر خیال ہوا کہ نئے نئے مسلمان ہیں ، دیوار کعبہ کے ڈھانے سے بدگمان ہو جائیں گے۔


≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠


1 سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد  

      


                   🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments