عرب جاہلیت اور دوسرے ممالک




💫تاریخ اسلام💫                           
                 
      
﷽                                     


🔴عرب جاہلیت اور دوسرے ممالک🔴                 


        اوپر کی فصل میں عرب اور اس کے باشندوں کی نسبت جو کچھ بیان ہوا ہے ۔ ظہور اسلام اور بعثت سے پہلے کی حالت ہے۔ اہل عرب کے اخلاق عادات معاشرت ندب عقائد وغیرہ کی نسبت جو کچھ اوپر بیان ہوا وہ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قریب ایک صدی پہلے تک کی حالت ہے اور یہی حالت بعثت بنوی تک قائم تھی ۔ قارئین کرام خود غور فرمائیں کہ جن لوگوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور جو اسلام کے اول الناظمین ہیں کس قدر پست اور ذلیل حالت میں تھے ۔ اور ائندہ صفحات میں رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسلام کے اثر سے عرب کے انقلاب کا حال پڑھ کر زیادہ صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت اور اسلام کا اثر کس عظیم الشان طاقت کا نام ہے اور یہ اندازہ اور کمی زیادہ کی اس وقت تک ہو سکے گا جب کہ بعثت نبوی کے وقت کی ساری دنیا پر ایک مجموئی نظر ڈالیں اور پھر بعد میں یہ دیکھیں کہ اسلام نے ساری دنیا میں شائع ہو کر دنیا کی ہر حالت میں تغیر پیدا کیا۔ لہذا عرب کی مذکوره حالت ظاہر کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ممالک عالم کی وہ حالت جو اسی مذکورہ عرب کی ہم عہد جہالت ہے نہایت مختصر اور اجمالی طور پر بیان کر دی جائے۔
        
                
     
                    🔴ایران🔴                            

         ایران دنیا کے نہایت مشہور قدیم اور با عزت ملکوں میں شمار ہوتا ہے ۔ عہد قدیم میں *مه آبادی مذہب* اس ملک میں رائج تھا۔ پھر مہ آبادی مذہب کی اصلاح و تجدید کے لیے بہت سے پیشوایان مذہب بطور مجدد اس ملک میں ظاہر ہوتے اور اصلاح دین کا کام کرتے رہے۔ اس سے پہلے دور کے ختم ہونے تک *زرتشت* نے دین آتش پرستی از سر نو جاری کیا جو دین *مه* آبادی کی ایک اصلاح شده حالت کا نام سمجھنا چاہئے ۔ زرتشت نے اپنے آپ کو ہادی برق بتایا اور بہت جلد سلطنت اور ایرانی رعایا کا مذہب *زرتشتی* دین ہو گیا ۔ ایرانیوں نے غالبا دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کی ۔ ایرانیوں کے انتہائے عروج کے زمانے میں ان کی حکومت *بحر روم، بلکہ مصر سے کوچین، اور منگولیا، اور کوہ ہمالیہ، خلیج فارس، کے بحره خزر و کوه، الٹائی تک وسیع تھی ۔
       تمام بر اعظم ایشیاء میں ان کا تمدن غالب تھا۔ ان کی تہذیب ایشیاء کے ہر ملک میں قابل تقلید اور ان کے اخلاق ہر ایشیائی قوم کے لیے قابل اقتداء سمجھے جاتے تھے لیکن ان کی حالت ظہور اسلام کے وقت اس قدر خراب اور ذلیل ہو چکی تھی کہ وہ شرک میں مبتلا ہونے کے سبب اپنی ایک ایک خوبی برباد اور زائل کر چکے تھے۔
     زرتشت کو الہیہ صفات دے کر انہوں نے اپنے معبودان باطلہ میں شامل کرلیا تھا۔ خالق خیر اور خالق شر دو معبود *یزدان و اہرمن* کے نام سے پوجے جاتے تھے۔ آگ کی پرستش علانیہ خوب زور و شور سے ہوتی تھی۔ چاند، سورج، ستاروں، سیاروں، کی پرستش بھی رائج تھی ۔ چوری اور رہزنی کا بھی ملک میں زور تھا۔
     زنا کا رواج اس درجہ ترقی کر گیا تھا کہ *مزدک نا ہنجار* نے سر دربار کسراۓ ایران کی بانوئے سلطنت کو بے عصمت کرنے کی فرمائش کی اور فرماں روائے ایران نے اس کی اس نا معقول و حیا سوز جرات کی مخالفت ضروری نہ سمجھی ۔
     آپس کی نا اتفاقی و درندگی، بغض و حسد دھوکہ بازی وفریب دہی زبردستوں کا زیر دستوں کو چوپایوں سے زیادہ ذلیل سمجھنا وہ معائب تھے جنہوں نے ایران پر ہر طرف سے نحوست و ادبار کو اس طرح متوجہ کر دیا تھا۔ جیسے سیلاب نشیب کی طرف متوجہ ہوتا ہے تمام علوم تمام تہذیب تمام اخلاق فاضلہ اور تمام انسانی خوبیاں ملک ایران کو خالی کر چکی تھیں اور وہ ملک جو کسی زمانہ میں تہذیب وتمدن کا منبع و مرکز تھا یکسر تاریک ہو چکا تھا۔
      نہ صرف ستارہ پرستی و اتش پرستی و مشاہیر پرستی ہی رائج تھی بلکہ بادشاہ، وزراء، سپہ سالار، اور امراء بھی عوام سے اپنی پرستش کراتے تھے۔ اس عذاب سے ایرانی مخلوق اس وقت آزاد اور ملک کی تاریکی اس وقت دور ہوئی جبکہ مسلمانوں نے حدود ایران میں فاتحانہ قدم رکھا۔
        
     
                
               🔴روم و یونان🔴                      


          ایرانی شہنشاہی کے مد مقابل دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت رومیوں کی سلطنت و حکومت تھی ۔ روم و یونان کی تہذیب بھی بہت قدیم و شاندار اور ان کے علوم و فنون اور شوکت و عظمت مشہور آفاق ہو چکی تھی ۔ طب، ریاضی، ہیئت، منطق، فلسفه، و حکمت وغیرہ کی ترقی میں دنیا کا کوئی ملک بھی یونان کا مقابلہ نہیں کر سکا تھا۔ اسی ملک میں سقراط، بقراط، لقمان، افلاطون، اور ارسطو، پیدا ہو چکے
تھے۔ اسی ملک میں *سکندر* جیسا فتح مند اور ملک گیر بادشاہ پیدا ہوا تھا۔
      یونانی قیصر جس کا دار السلطنت قسطنطنیہ تھا نہ صرف شہنشاہ بلکہ دینی پیشوا بھی سمجھا جاتا تھا با وجود ان مادی اورعلمی ترقیات کے چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں روم اور یونان اس قدر ذلت اور پستی کی حالت کو پہنچ چکے تھے کہ ایران کی تاریکی روم و یونان کی تاریکی سے ہرگز زیادہ نہ تھی ۔ جس طرح ایران میں ہر مقروض اپنے آپ کو بطور غلام بیچ ڈالتا تھا اسی طرح یونان میں غلاموں کی کئی قسمیں تھیں ۔ ایک قسم غلام کی ایسی تھی کہ وہ یونان کے باہر دوسرے ملکوں میں لے جاکر نہیں بیچی جاتی تھی لیکن عام طور پر اکثر غلام غیر ملکوں میں لے جاکر اسی طرح فروخت کئے جاتے تھے جس طرح گھوڑے بیل اونٹ، بکری وغیرہ فروخت کئے جاتے ہیں۔
     آقا اپنے غلام کو اسی طرح قتل کر دینے کا حق رکھتا تھا جس طرح کوئی شخص اپنے مویشی کو ذبح نہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد کو بیچ ڈالتے اور دوسرے کا غلام بنا دیتے تھے۔ روم و یونان میں غلاموں کو شادی کرنے کا اختیار نہ تھا۔ ان میں اور ان کی اولاد میں کوئی قانونی رشتہ نہ سمجھا جاتا تھا۔
       
                 
      
      🔴عیسائیوں کی پستی🔴                  


      حضرت عیسیؑ سے دو سو برس بعد تک عیسائیوں میں راہبوں کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا لیکن چھٹی صدی میں راہوں کی یہ کثرت شام و یونان اور روم میں ہوگئی کہ ہر شخص جو عزت و تکریم کا خواہاں ہوتا رہبانیت اختیار کر لیتا۔ پھر رفتہ رفتہ یہ رسم عورتوں میں بھی رائج ہوگئی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ خانقاه جو راہب مردوں اور راہب عورتوں کی قیام گاہیں تھیں قابل شرم حرکات کا مقام بنیں ۔
     بعض راہب صحرا نشین بھی تھے۔ عورتوں کی جائز عزت اور والدین کی تعظیم قطعا مفقود ہو چکی تھی۔ چوری زنا دھوکہ بازی عام طور پر رائج تھی ۔ گداگری معیوب نہیں سمجھی جاتی تھی۔ جوطوفان رہبانیت کا لازمی نتیجہ تھا توحید اور رب پرستی کا نام ونشان باقی نہ رہا تھا۔ زاہدوں راہبوں اور مذہبی پیشواؤں کی خدمت گزاری سے رضامند کر لینے کے ذریعہ نجات کا سرٹفکیٹ حاصل کیا جاتا تھا۔ امراء وغرباء کو اپنا خادم اور ان سے بطور غلام خدمت لینے کو اپنا جائز حق سمجھتے ۔ بادشاہ اور سپہ سالار رعایا کا مرتبہ حیوانوں سے برتر نہیں جانتے اور کاشتکاروں کی تمام محنت و مشقت کے نتیجہ پر خود قابض ہوکر بقدر قوت لایموت ان کے لیے کچھ قدر قلیل چھوڑ دیتے تھے
         
     
   
               
    
                     🔴مصر🔴                            


         مصر کی قدامت کا تصور اور مصری تمدن کی عظمت کا اندازہ کرنے کے لیے اہرام مصری ابوالہول کے مجسمے اور موجودہ زمانہ میں تہہ خانوں سے برآمد ہونے والی سے بہت کچھ مدد مل سکتی ہے۔ مصر چونکہ ایک زرعی ملک ہے لہذا قدیم مصریوں کی طاقت جب ذرا کمزور ہوئی تو ہو بیرونی ممالک اور بیرونی اقوام کے حملوں کی آماجگاہ بن گیا۔ مصر پر ایرانیوں یونانیوں اور رومیوں نے بار بار حملے کئے اور بہت دنوں تک قابض و متصرف رہے۔ قیاس چاہتا ہے کہ ان حملہ آوروں کی تہذیب و تمدن نے بھی مصر پر اپنا اثر ڈالا ہوگا اور مصریوں کی تہذیب نے ضرور ترقی کی ہوگی ۔ عیسائی مذہب رومیوں کے عہد حکومت میں مصریوں کے اندراج ہوا مصر کی آبادی کا ایک معقول حصہ عیسائی مذہب قبول کر چکا تھا مگر اسلام کے مصر میں داخل ہونے سے پہلے مصر کی حالت نہایت پست اور ہر ایک اعتبار سے بے حد ذلیل ہو چکی تھی۔ عیسائیت کی حالت مصر میں بت پرستی سے زیادہ بہتر نہ تھی۔ بت پرست مصریوں میں تمام وہ معائب موجود تھے جو کہ ذلیل سے ذلیل بت پرست قوم میں ہو سکتے ہیں ۔ رومی و یونانی جو فاتح و حکمران قوم سمجھے جاتے تھے رعایا کو چوپایوں سے زیادہ ذلیل سمجھتے تھے ۔ جو جو عیب یونانیوں اور رومیوں کے اندر موجود تھے وہ سب کے سب زیادہ خراب حالت میں مصر کے اندر دیکھے جاتے تھے۔ غلامی نہایت ظالمانہ انداز میں رائج تھی۔ زنا کاری اور غارتگری کے لیے ترغیب وہ اصول وقواعد بنا لئے گئے تھے قتل انسان معمولی تفرج گاہوں کے لیے تفریح سمجھا جاتا تھا۔ عورتوں کو خود کشی کی ترغیب دی جاتی تھی ۔ غرض کہ مصر کی تاریکی بھی کسی ملک کی تاریکی سے کم نہ تھی اور تہذیب و شائستگی کی علامات مصریوں کے اعمال و اخلاق سے بالکل معدوم تھیں اور جہالت و تاریکی جس قدر چاہو موجود تھی
        
    
      
               🔴ہندوستان🔴                       


        اشوک، چندر گپت، اور بکرماجیت، بڑے بڑے نامور مہاراجے، ہندوستان میں گزر چکے تھے۔ ہیئت، ریاضی، فلسفہ، وغیرہ علوم پر ہندیوں کو خاص طور پر ناز تھا۔ کرشن، رام، چندر، اور گوتم بدھ، جیسے بانیان مذاہب کی حکایات اور مہا بھارت و رام لیلا کے رزمیہ افسانے بھی ان کو یاد تھے لیکن جس زمانے کی دنیا کا ہم اس وقت معائنہ کر رہے ہیں اس زمانے میں بدھ مذہب ہندوستان سے خارج ہو رہا تھا اور برہمنی مذہب بتدریج زور پکڑتا جا رہا تھا۔ ہندوستان کے کسی ایک بڑےصوبے پر بھی کوئی ایک عظیم الشان سلطنت و حکومت قائم نہ تھی ۔ تمام ملک میں بت پرستی کا زور و شور اور خوب دور دورہ تھا۔ بدھ اور برہمنی دونوں مذہبوں میں بتوں کی پوجا یکساں طور پر موجب نجات سمجھی جاتی تھی۔ برہمنوں اور بدھوں کے بت اکثر مندروں میں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو رکھے ہوتے تھے اور بڑے جوش عقیدت کے ساتھ پوجے جاتے تھے۔ چینی سیاح لکھتا ہے کہ ہندوستان کا ایک بھی گھر قسم کھانے کو بتوں سے خالی نہ تھا۔ بام راگیوں کے پلید اور حیا سوز مسلک نے ملک کے ہر حصہ میں مقبولیت اور ہر دل عزیز کی حاصل کر لی تھی۔ زنا کاری کے لیے مصریوں کی طرح اصول و قواعد مقرر ہو کر داخل مذہب سمجھے گئے تھے۔ سندھ کے راجاؤں میں ایسی مثالیں موجو تھیں کہ حقیقی بہنوں سے انہوں نے شادیاں کیں ۔ جب راجاؤں اور حکمرانوں کی یہ حالت تھی تو عوام کی بد تمیزیاں کچھ ان سے بھی بڑھ کر ہی ہوں گی۔ اس زمانے کی بعض تصنيفات جو آج پرانوں اور مذہبی کتابوں کی صورت میں دستیاب ہوتی ہیں ۔ ہندیوں کی اخلاق کو نہایت پست اور ان کی معاشرت کو بے حد قابل شرم ظاہر کرتی ہیں ۔ ستاروں سیاروں پہاڑوں دریاؤں درختوں حیوانوں سانپوں پتھروں اور شرم گاہوں کی پرستش ملک ہندوستان میں رائج تھی اور ہر طرف جاری و ساری تھی۔ اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تاریکی کس قدر عظیم و اہم تھی۔
                 
                   🔴ملک چین🔴                        


        جن ملکوں کا ذکر اوپر ہو چکا ہے سب کے سب عرب کے ہر چہار سمت واقع ہیں اور یہی مشہور متمدن ملک سمجھے جاتے ہیں اور ان میں صرف ملک چین کا اور اضافہ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی آباد و سر سبز اور متمدن ممالک میں شمار ہوسکتا تھا۔ چین کی حالت مذکورہ ممالک سے بھی بدتر تھی ۔ کنفیوشش تاؤ اور بدھ تین مذاہب کے کیمیاوی امتزاج نے چین کی تہذیب اور اخلاقی حالت میں وہ کیفیت پیدا کر رکھی تھی جو سوڈا اور ٹارٹارک ایسڈ کے ملانے سے پیدا ہوتی ہے۔ بالآخر اس حالت میں داخل ہو کر سکونت اختیار کی اور اپنے اخلاقی نمونے سے اپنے ہمسایوں کو متاثر کیا۔ ترکستان، روس، برہما، یورپ، وغیرہ میں بھی انسانی آبادی موجود تھی لیکن ان ملکوں کے رہنے والے انسانوں سے یا تو دنیا واقف نہ تھی یا ان کو بمشکل انسان کہا جاتا ہوگا۔ بہرحال کوئی قابل رشک خوبی ان میں موجود نہ تھی۔
▪️ خلاصہ کلام : مذکورہ بالا حالات کے پڑھنے سے یہ بات آسانی سے ذہن نشین ہوسکتی ہے کہ احضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے اور آپ کی بعثت کے وقت ساری کی ساری دنیا تاریک ہو چکی تھی اور ربع مسکون پر جہالت کی اندھیری رات اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ کیا حصہ اور کسی ملک میں کوئی ٹمٹماتی ہوئی روشنی مطلق نظر نہیں آتی تھی ۔ دنیا پر اس سے پہلے ایسا وقت نہیں آیا تھا کہ ایک ہی وقت میں ہر جگہ تہذیب تمدن اخلاق علم حکمت معرفت الہی سب کے سب اس طرح برباد ہوئے ہوں اور تمام ریع مسکون تیره و تار ہو گیا ہو۔ ہر ملک میں الله تعالی کے مرسل اور ہادی و رہنما آتے رہے اور یکے بعد دیگرے روشنی اور تاریکی کے دور دورے سے رات اور دن کی طرح نمودار ہوتے رہے لیکن چونکہ اب تمام ملکوں یعنی دنیا کے لیے ایک ہی ہادی بر بحق مبعوث ہونے والا تھا لہذا اللہ تعالی نے تمام ہادیوں اور ہر ملک کے رہبروں کی لائی ہوئی تعلیمات کے زمانہ کو ایک ہی مقررہ وقت میں ختم کر کے ہر ملک اور دنیا کے ہر ایک حصہ میں نئے ہادی اور نئے ہدایت نامہ کی ضرورت کو پیدا و ہویدا کر دیا تھا اور ساری کی ساری دنیا یک زبان ہو کر زبان حال سے کیا ہادی اور ہدایت کی خواہش کا اظہار کر رہی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس کا ہادی اور ختم الرسل کی بعثت اور پیدائش کے لیے ملک عرب کو انتخاب کیا اور ربع مسکون کی اس تاریک شب کے ختم کرنے کے لیے ، مکه مکرمہ سے آفتاب رسالت طلوع ہوا اور اس نے طلوع ہو کر تمام دنیا کو اپنی نورانی شعاعوں سے منور کر دیا ۔
      
     
     
                 
      
            🔴عرب کا انتخاب🔴                       


     ہم کو اپنی کتاب اس طلوع آفتاب ہی سے شروع کرنی ہے مگر اصل مدعا کے شروع کرنے سے پیشتر اس سوال کا جواب دینا اور باقی ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی بعثت کے لیے ملک عرب ہی کیوں پسند کیا گیا؟ اور دوسرے ملک میں نبی آخر الزمان کو کیوں نہ پیدا کیا گیا؟
         اس سوال کا سب سے زبردست ، نہایت معقول اور مسکت جواب یہ ہے کہ نبی آخر الزمان خواہ کسی ملک میں پیدا ہو ہرحالت میں ہی اعتراض ہوسکتا ہے کیونکہ بہر حال وہ کسی ایک ہی ملک میں ہوگا اور دوسرے ممالک اس کی پیدائش و وجود سے محروم رہیں گے۔ پس جبکہ یہ صورت بہر حال شدنی ہے تو معترض کے لیے اعتراض کا کوئی حق باقی نہیں۔
      دوسرا جواب یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے تمام مشہور ممالک کسی نہ ناقوس کی قدیم زمانے میں ایک ایک مرتبہ ضرور ترقی یافتہ اور عروج کی حالت میں رہ چکے تھے ان کی تہذیب، تمدن اخلاق علوم وغیرہ ایسی حالت کو دیکھ چکے تھے کہ انہوں نے کوس انا ولا غیری دنیا کی قوموں کے سامنے بجایا تھا۔ نیز ہر ملک کو دوسرے ملک کا حاکم و محکوم بنے کا موقع مل چکا تھا۔ پھر یہ کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کی زبان اس زمانے میں ایسی عمل اور ادائے بیان پر قادر نہ تھی جیسی کہ عرب کی زبان عرب کے جغرافیائی حالات اور باشندوں کی بے شغلی کے سبب مکمل ہو چکی تھی۔ اگر عرب کے سوا کسیدوسرے ملک میں وہ کامل نبی مبعوث ہوتا تو اس ملک کے باشندے یعنی اول المخاطبیں چونکہ پہلے دوسرے ملکوں پر قابض ہو متصرف ره
چکے تھے لہذا اس نبی کی ہدایت اور ہدایت نامے کا قوی اثر اپنی پوری اور حقیقی شان دنیا پر ثابت نہ کرسکتا اور اس کا ایک بڑا حصہ ایک اس ملک کی قدیم روایات کی طرف منسوب ہو جاتا۔ اس نبی کے ذریعے تهذیب اخلاق اور تہذیب نفس کا جو عظیم الشان کام انجام پانے والا تھا وہ بھی اس ملک و قوم کی قدیمی روایات سے منسوب ہو کر نبی آخر الزمان اور خاتم الکتب کے عظمت و جلال کا ظاہر اور ثابت کرنے والا نہ ہوتا۔ کامل ہدایت نامہ کے لیے ضرورت تھی کہ وہ ایسی زبان میں نازل ہو جو دنیا کی زبانوں میں حد کمال کر چکی ہو۔ عربی کے سوا کوئی دوسری زبان ایسے ہدایت نامہ کی جو قیامت تک کے لیے اور ہر ملک اور ہر قوم کے لئے نازل ہو تحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس لیے ضرورت تھی کہ آخر نبی ملک عرب میں پیدا ہوں ۔ اہل عرب نہ کسی غیر ملک کے مظلوم بنے اور نہ کسی غیر ملک پر قابض و متصرف ہوئے تھے۔ عربوں
کے لیے دنیا کا ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم یکساں حیثیت رکھتی تھی۔ وہ جب اسلام کو لے کر نکلے ہیں تو ہسپانیہ یعنی بحر اٹلانٹک کے ساحل مشرقی سے چین یعنی بحیرہ چین کے مغربی ساحل تک ساری آباد و متمدن دنیا کے ملک اور قومیں ان کی نظر میں یکساں تھیں ۔ وہ سب سے اجنبی تھے اور سب ان سے اجنبی لہذا اللہ تعالی نے جب ساری دنیا کے لیے ایک مذہب تجویز کیا تو وہ مذہب ایک ایسی قوم کے ذریعہ ساری دنیا میں شائع کیا جو سب کے لیے یکساں تعلق قوم تھی۔ عرب کے اخلاق تہذیب اور تمدن نے چونکہ اس سے پہلے کوئی ترقی نہیں کی تھی لہذا اس عالمگیر مذہب نے ان کو یکایک سب سے زیادہ شائستہ سب سے زیادہ مہذب سب سے زیادہ با اخلاق سب سے زیادہ متمدن اور ساری دنیا کا استاد اور رہبر بناکر ثابت کر دیا کہ عرب کی ان تمام محیر العقول ترقیات کا سبب اسلامی تعلیم کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی روحانیت ایک زبردست ہے کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک ہر زمانہ میں اس سے فیضیاب ہوسکتا ہے۔ نیز یہ کہ دنیا کے تمام ہادی اور تمام انبیاء قوموں کے لیے جس قدر تعلیمات اور ہدایت نامے لے کر آئے تھے وہ سب کے سب اصولی طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ (فيها کتب قيمه ) اور رسول عربی امی لقب کی ذات جامع جمیع کمالات نبویہ و انسانیہ ہے۔
     "آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنها داری"
         
               
     
          🔴حضرت محمدؑ🔴                      

🔶 طلوع سحر
        آفتاب کے طلوع ہونے سے تھوڑی دیر پیشتر صبح کی ہلکی ہلکی روشنی افق مشرق سے نمودار ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ تمام دنیا پر شب دیجور کی سیاہی اور جہالت و کفر کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اس عالمگیر گمراہی کی شب تاریکی کے ختم ہونے کا وقت آیا تو طلوع آفتاب کی خبر دینے کے لیے اول سپیدہ سحر نمودار ہوا۔ ملک عرب میں جو مرکز تاریکی بنا ہوا تھا اور جس کے ریگستانوں میں شرک و عصیاں کی آندھیاں چل رہی تھیں خو دبخود ایسے نشانات ظاہر کرنے لگے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ اس ملک میں آفتاب رسالت طلوع ہونے اور ہدایت کا چشمہ پھوٹنے والا ہے۔
     اقوام عرب ہزارہا سال سے ذلت و مسکنت اور جہالت و گمراہی کی زندگی بسر کر رہی تھیں لیکن بعثت نبوی نہیں بلکہ پیدائش نبوی کے وقت سے قبائل عرب میں شریفانہ جذبات اور برے
کاموں سے نفرت پیدا ہونے لگی تھی۔
     ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی،  عثمان بن الحویرث بن اسید ، زید بن عمرو بن نفیل عم عمر بن الخطاب، عبید اللہ بن جحش وغیرہ کئی شخص ایک جگہ جمع ہوئے اور اپنے عقائد و اعمال پر غور کرنے لگے۔ بالآخر سب نے متفقہ طور سے پتھروں اور بتوں کی پرستش سے بیزاری ظاہر کی اور مختلف مقامات کی طرف دین ابراہیم کی جستجو میں نکل کھڑے ہوئے ۔
   ورقہ بن نوفل نے دین مسی اختیار کرلیا اور بڑی محنت و توجہ سے توریت و انجیل وغیرہ اہل کتاب کی کتابیں پڑھیں ۔
    عبید اللہ بن بخش اپنے خیال پر قائم یعنی دین حنیف کی جستجو میں مصروف رہا۔ یہاں تک کہ اسلام کا ظہور ہوا اور اس نے اسلام قبول کیا۔ حبش کی طرف ہجرت کی ۔ وہاں جاکر نصرانیت کی طرف مائل ہوا۔
   عثمان بن الحویرث قیصر روم کے پاس جاکر نصرانی ہوگیا۔
   زید بن عمر نے نہ تو یہود و نصاری کا مذہب اختیار کیا۔ نہ بت پرستی کی ۔ خون اور مردہ جانوروں کو اپنے اوپر حرام کیا ۔قطع رحم اور خون ریزی سے پرہیز کیا۔ جب کوئی شخص ان سے دریافت کرتا تو کہتے کہ میں رب ابراہیم کی پرستش کرتا ہوں ۔ بتوں کی برائیاں بیان کرتے اور اپنی قوم کو نصیحت و ملامت کرتے ۔ اکثر ان کی زبان پر یہ لفظ جاری ہوتے کہ
    "اللهم او اني اعلم اي الوجه لاحب الیک لعبادتك ولا كن لا اعلم"
    یعنی اے اللہ اگر میں اس بات سے واقف ہو جاتا کہ کس طرح تیری عبادت کی جائے تو میں ضرور تیری عبادت کرتا اور تیری رضامندی حاصل کرتا لیکن میں تو تیری رضا کی راہوں سے ناواقف ہوں ۔ یہ کہتے اور سجدہ میں چلے جاتے۔
      کاہنوں اور منجموں نے بھی یہ کہنا شروع کیا کہ ملک عرب میں ایک عظیم الشان نبی پیدا ہونے والا ہے اور بہت جلد اس کی حکومت ظاہر ہوا چاہتی ہے۔ ملک عرب میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے یہودی بھی آباد تھے اور نصاری بھی ۔ علمائے یہود نے بھی اور علمائے نصاری نے بھی توریت و انجیل کی بشارتیں بیان کرنی اور لوگوں کو سنانی شروع کیں کہ نبی آخرالزمان ملک عرب میں عنقریب ظاہر ہوا چاہتے ہیں ۔
     چند روز کے لیے ملک یمن پر شاہ حبش کا قبضہ ہو گیا تھا۔ عبدالمطلب کے زمانہ میں بھی یمن کا علاقہ شاہ حبش کے ماتحت تھا۔ اس زمانہ میں شاہ حبش کی جانب سے ابرہہۃ الاشرم یمن کا صوبہ دار تھا۔ اس نے یمن میں ایک معبد تیار کیا اور اہل عرب کو ترغیب دی کہ بجائے کعبہ کے اس یمن کے مندر کا رخ کیا کریں ۔ لیکن اس کو اپنی اس تحریک میں کامیابی نہ ہوئی بلکہ ایک عرب نے موقع پا کر اس مندر میں اس کی تذلیل کے لیے پاخانہ کر دیا۔ ابرہہ نے جوش انتقام میں مکہ پر چڑھائی کی اور اس ارادہ سے روانہ ہوا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کردوں گا۔ اس کی فوج میں ہاتھی بھی تھے اس لیے مکہ والوں نے اس فوج کا نام اصحاب الفیل اور اس سال کا نام عام الفیل رکھا۔ مکہ کے قریب پہنچ کر ابرہہ نے جب مقام کیا تو قریش مکہ اس فوج کے آنے کی خبر سن کر خوف زدہ ہوئے کیونکہ ان میں اس فوج کے مقابلہ کی طاقت نہ تھی ۔ سب نے مل کر سردار قریش یعنی عبد المطلب سے استدعا کی کہ آپ ابرہہ کے پاس جائیں اور کوئی صورت بہتری
کی نکالیں چنانچہ عبد المطلب ابرہہ کے پاس پہنچے۔ اس نے جب ان کی شریف و وجیہہ صورت دیکھی اور ان کی نجابت و سرداری کا حال سنا تو بہت متاثر ہوا اور عزت کے مقام پر بٹھایا اور آنے کا مقصد دریافت کیا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ آپ کے لشکر نے میرے (چالیس یا دوسو) اونٹ پکڑ لیے ہیں وہ مجھے دلوائے جائیں ۔ ابرہہ نے کہا کہ میں تم کو بہت عقلمند اور ذی ہوش شخص سمجھتا تھا لیکن میرا خیال غلط نکلا تم کو معلوم ہے کہ میں خانہ کعبہ کو مسمار کرنے ایا ہوں،
     تم نے اپنے اونٹ لینے کی کوشش کی لیکن خانہ کعبہ کے بچانے کی کوئی تدبیر نہ کی ۔ عبدالمطلب نے فورا بر جستہ جواب دیا کہ ( انارب الابل وللبيت رب يمنعه) میں تو صرف اونٹوں کا مالک ہوں مگر اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرے گا ابرہہ اس جواب کو سن کر برہم ہوا اور اس نے کہا کہ اچھا میں دیکھوں گا کہ رب البيت مجھ کو کس طرح روکتا اور کعبہ کی حفاظت کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے لشکر پر تباہی آئی اور وہ سب ( کعصف ماکول) ہو گئے ۔ ابرہہ اور اس کے لشکر کا عبد المطلب کے اس جواب کے بعد اس طرح تباہ و برباد ہونا ملک عرب کے لیے ایک نہایت عظیم الشان واقعہ تھا۔ جس نے سب کے دلوں میں ہیبت اتنی قائم کر دی تھی اور اکثر لوگوں کو ظلم و ستم اور قتل و غارت میں تامل ہونے لگا۔
       مذکورہ واقعہ اصحاب فیل کے بعد ہی ملک یمن کی حکومت شاہ حبش کے قبضہ سے نکل گئی اور سیف بن ذی یزن ( یادگار ملوک تبابعه ) یمن پر قابض و متصرف ہوا۔ عبدالمطلب چند شرفائے قریش کو ہمراہ لے کر سیف کو حکومت یمن کی مبارک باد دینے کے لیے گئے۔
      سيف بن ذی یزن نے اپنے علم و واقفیت کی بناء پر عبدالمطلب کو خوش خبری سنائی کہ نبی آخرالزمان جس کا تمام ملک اور ہرقوم کو انتظار ہے تمہاری اولاد سے ہو گا۔ اس بات کی عام طور پر شہرت ہوئی ۔ تمام شریک وفد شرفاء کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ وہ نبی ہماری اولاد سے ہو گا ۔ اب لوگ اہل کتاب
کے احبار و رہبان کے پاس جا جا کر نبی آخر الزمان کے حالات اور علامات دریافت کرنے لگے ۔ امیہ بن ابی کو یہ خیال ہوا کہ وہ نبی شاید میں ہوں گا۔ چنانچہ وہ ابوسفیان بن حرب کے ساتھ ملک شام کی طرف گیا اور کسی رہبان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی نسبت دریافت کیا مگر وہاں سے مایوس کن جواب ملا۔
       دنیا میں کسی بڑے نبی یا رسول کی بعثت یا پیدائش کے وقت آسمان پر بڑی کثرت سے اور غیر معمولی طور پر ستارے ٹوٹتے ہوئے دیکھے جاتے رہے تھے۔ چنانچہ اسی کثرت سے غیر معمولی طور پر أنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے قریب شہاب ثاقب آسمان پر نمودار ہوئے اور علمائے اہل کتاب نے حکم لگایا کہ یہ نبی آخرالزمان کی پیدائش کا زمانہ ہے۔ چنانچہ ۹ربیع الاول.        ۱؁ عام الفیل مطابق ۴۰ جلوس کسری نوشیروان مطابق ۱۲۲ اپریل          ۵۷۱؁ ء بروز دوشنبه بعد از صبح صادق اور قبل از طلوع آفتاب خضرت محمدؑ پیدا ہوئے۔
     
    
             
      
🔴ذبح ثانی عبداللہ بن عبدالمطلب🔴            


        چاه زمزم کی اصل حضرت اسماعیلؑ سے ہے کہ جب وہ اور ان کی ماں حضرت ہاجرہ مکہ کے صحرائے لق و دق میں پیاس سے بیتاب ہوئے تو اللہ تعالی کے حکم سے وہاں پانی کا چشمہ نمودار ہوا۔ حضرت ہاجرہ نے اس پانی کو چاروں طرف مینڈھ باندھ کر گھیر دیا اور وہ ایک کنوئیں کی صورت بن گیا۔ کچھ عرصہ تک تو وہ اسی حالت میں رہا اور پھر اس کے بعد وہ مٹی سے اٹ گیا اور رفتہ رفتہ اس کا مقام اور جگہ بھی کسی کو معلوم نہ رہی۔ چاه زمزم کا صرف تذکرہ ہی تذکرہ لوگوں کی زبان پر رہ گیا تھا۔ جب عبد المطلب کے ہاتھ میں سقایۃ الحاج کا کام آیا تو انہوں نے چاه زمزم کا پتہ و مقام تلاش کرنا شروع کیا۔ بہت دنوں تک عبد المطلب اور ان کا بڑا لڑکا حارث چاه زمزم کی تلاش میں سر گرداں رہے مگر چاہ زمزم کا پتہ نہ ملا۔ قریش میں سے کسی نے ان کی مدد اس کام میں نہ کی بلکہ باپ بیٹے کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔


حضرت ھاشم نے قیصر روم کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے..
چنانچہ اسی سلسلے میں شام کی طرف سفر کے دوران ان کی شادی بنو نجار کی ایک معزز خاتون سلمی' سے ھوئی مگر بدقسمتی سے اسی سفر کے دوران حضرت ھاشم کا انتقال ھوگیا.
ان کی وفات کے بعد ان کا ایک بیٹا پیدا ھوا جس کا نام " شیبہ " رکھا گیا مگر چونکہ شیبہ کو ان کے چچا مطلب بن عبد مناف نے پالا پوسا تو شیبہ کو عبدالمطلب (مطلب کا غلام) کہا جانے لگا اور پھر انہیں تاریخ نے ھمیشہ اسی نام سے یاد رکھا.
حضرت عبدالمطلب بے حد حسین جمیل , وجیہہ اور شاندار شخصیت کے مالک تھے.
اللہ نے انہیں بےحد عزت سے نوازا اور وہ قریش مکہ کے اھم ترین سردار بنے.
ایک مدت تک ان کی اولاد میں ایک ھی بیٹا تھا جن کا نام حارث تھا.
حضرت عبدالمطلب کو بہت خواھش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ھوں چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے.
اللہ نے ان کی دعا اور منت کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس یا بارہ بیٹے پیدا ھوئے جن میں سے ایک جناب حضرت عبداللہ تھے.
آپ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹ بیٹے تھے اور نہ صرف اپنے والد کے بلکہ پورے خاندان کے بہت چہیتے تھے.
حضرت عبدالمطلب کو ان سے بہت محبت تھی.
دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی.
چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لیکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے.
جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا.
حضرت عبدالمطلب یہ دیکھ کر بہت پریشان ھوۓ کیونکہ شدت محبت کی وجہ سے ان کا دل نہ چاھتا تھا کہ حضرت عبداللہ کو قربان کردیں مگر چونکہ وہ منت مان چکے تھے تو اس کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنا چاھتے تھے.. چنانچہ حضرت عبداللہ کو لیکر قربان گاہ کی طرف بڑھے.
یہ دیکھ کر خاندان بنو ھاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا ' بہت پریشان ھوۓ.
وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاھنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا.
چنانچہ جب اس کاھنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جاۓ.
عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دیے جاتے ھیں تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جاۓ اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جاۓ جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا.
چنانچہ ایسے ھی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں پر نکلا.
اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا.
حضرت عبداللہ کی شادی بنو زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف کی بیٹی جناب حضرت آمنہ سے ھوئی جن کے بطن سے تاجدار دوجہان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ھوئی.
اس سے پہلے کہ ھم کا باقائدہ آغاز کریں ضروری ھے کہ پیج میمبرز کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت قریش مکہ کے مذھبی , سیاسی , معاشرتی , معاشی اور تمدنی حالات سے روشناس کرایا جاۓ.. نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارکہ سے صرف پچاس دن پہلے ظہور پذیر ھونے والے واقعہ "عام الفیل" سے بھی آگاہ کیا جاۓ جب حبشی نژاد "ابرھہ" خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ھوا..



≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠
         تاریخ اسلام جلد ❶             
          
             🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹۔                 

Post a Comment

0 Comments