قریش کے تحمل کے اسباب




                         سیرت النبی ﷺ  

                 


                               ﷽  

                  
        🔴قریش کے تحمل کے اسباب🔴

    ان اسباب کے ساتھ جن میں سے ہر ایک قریش کو سخت مشتعل کر دینے کے لئے کافی تھا ، توقع یہ تھی کہ اعلان دعوت کے ساتھ سخت خونریزیاں شروع ہو جاتیں ، لیکن قریش نے تحمل سے کام لیا اور اس کے ناگزیر اسباب تھے۔ قریش خانہ جنگیوں میں تباہ ہو چکے تھے اور حرب فجار کے بعد اس قدر عاجز آگئے تھے کہ لڑائی کے نام سے ڈرتے تھے۔ قبیلہ پرستی کی وجہ سے لڑائی صرف اتنی سی بات پر شروع ہو جاتی تھی کہ کسی قبیلہ کا کوئی آدمی قتل کر دیا جائے ، مقتول کا قبیلہ بغیر کسی تحقیق کے انتقام کے لئے کھڑا ہو جاتا تھا اور جب تک بدلہ نہ لے لیا جائے ، یہ آگ بجھ نہیں سکتی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر آمادہ ہونا قریش کے لئے نہایت آسان تھا لیکن وہ جانتے تھے کہ بنو ہاشم خون کا انتقام نہ چھوڑیں گے اور پھر سلسلہ بہ سلسلہ تمام مکہ جنگ میں مبتلا ہو جائے گا، بہت سے لوگ اسلام لا چکے تھے اور تقریبا کوئی قبیلہ ایسا باقی نہ تھا جس میں دو ایک شخص اسلام نہ لا چکے ہوں، اس لئے اسلام اگر جرم تھا تو صرف ایک شخص اس کا مجرم نہ تھا، بلک سینکڑوں تھے اور سب کا استیصال کرنا ممکن نہ تھا۔

     رؤسائے قریش میں متعدد ایسے تھے جو شریف النفس تھے، وہ بد نفسی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے خیال میں نیک نیتی کی بنا پر مخالفت کرتے تھے، اس بنا پر وہ چاہتے تھے کہ معامله صلح و آشتی سے طے ہو جائے۔

    غرض جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان دعوت کیا اور بت پرستی کی علانیہ مذمت شروع کی تو قریش کے چند معززوں نے ابوطالب سے آکر شکایت کی ، ابوطالب نے نرمی سے سمجھا کر رخصت کر دیا۔ لیکن چونکہ بنائے نزاع قائم تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادائے فرض سے باز نہ آسکتے تھے، اس لئے یہ سفارت دوباره ابوطالب کے پاس آئی ، اس میں تمام روسائے قریش یعنی 
عقبہ بن ربیبہ،
شیبہ،
ابوسفیان،
عاص بن ہشام،
ابوجہل،
ولید بن مغیرہ،
عاص بن وائل

     وغیرہ شریک تھے، ان لوگوں نے ابوطالب سے کہا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے، ہمارے
آباء و اجداد کو گمراہ کہتا ہے، ہم کو احمق ٹھہراتا ہے، اس لئے یا تو تم نمبیچ میں سے ہٹ جاؤ یا تم بھی میدان میں آو کہ ہم دونوں میں سے ایک کا فیصلہ ہو جائے ۔ ابوطالب نے دیکھا کہ اب حالت نازک ہوگئی ہے۔ قریش اب تحمل نہیں کر سکتے اور میں تنہا قریش کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر لفظوں میں کہا که جان عم ! میرے اوپر اتنا بار نہ ڈال کہ میں اٹھا نہ سکوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری پشت و پناه جو کچھ تھے ابوطالب تھے، انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اب ان کے پائے ثبات میں بھی لغزش ہے، آپ نے آبدیدہ ہو
کر فرمایا: خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آوں گا، خدا، اس کام کو پورا کرے گا، یا میں خود اس پر نثار ہو جاؤں گا۔ آپ کی پر اثر آواز نے ابوطالب کو سخت متاثر کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جا؟ کوئی شخص تیرا بال بیکا نہیں کرسکتا۔‘

     آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدستور دعوت اسلام میں مصروف ہوئے ، قریش اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ نہ کر سکے لیکن طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے ، راہ میں کانٹے بچھاتے تھے، نماز پڑھنے میں جسم مبارک پر نجاست ڈال دیتے تھے، بدزبانیاں کرتے تھے ، ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں نماز پڑھ رہے تھے ، عقبہ بن ابی معیط نے آپ کے گلے میں چادر لپیٹ کر اس زور سے کھینچی کہ آپ گھٹنوں کے بل گر پڑے، قریش متحیر تھے کہ آپ یہ سب سختیاں کیوں جھیلتے ہیں۔ انسانی دماغ ایسی سخت نفس کشی اور جانبازی کا مقصد جاه و دولت اور نام و نمود کی خواہش کے سوا اور کیا کرسکتا ہے۔

     قریش نے بھی یہی خیال کیا ، اس بنا پر عتبہ بن ربیعہ قریش کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا چاہتے ہو؟ کیا مکہ کی ریاست؟ کیا کسی بڑے گھرانے میں شادی؟ کیا دولت کا زخیره؟ ہم یہ سب کچھ مہیا کر سکتے ہیں اور اس پر بھی راضی ہیں کہ کل مکہ تمہارا زیر فرمان ہو جائے لیکن ان باتوں سے باز آؤ۔

     عتبہ کو اس درخواست کی کامیابی کا پورا یقین تھا۔ لیکن ان سب ترغیبات کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں:

{قل انما أنا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم اله واحد فاستقیموا إليہ واستغروہ .
(41/ حم السجدة:1)


      " اے محمد یہ کہہ دے کہ میں تمہیں جیسا آدمی ہوں، مجھ پر وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک خدا ہے، بس سیدھے اس کی طرف جاؤ اور اسی سے معافی مانگو-

{ قل ائنکم لتكفرون بالذي خلق الأرض في يومين وتجعلون له أندادا، ذلك رب العالمین} . (41) حم السجدة:۹)

     ”اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! کہ دے کہ کیا تم لوگ خدا کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں ہی زمین پیدا کی اورتم خدا کے شریک قرار دیتے ہو، یہی سارے جہان کا پروردگار ہے۔

     عتبہ واپس گیا تو وہ عتبہ نہ تھا، اس نے قریش سے جا کر کہہ دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کلام پیش کرتے ہیں وہ شاعری نہیں کوئی اور چیز ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اگر وہ کامیاب ہو کر عرب پر غالب آجائیں گے تو تمہاری ہی عزت ہے، ورنہ عرب ان کو خود فنا کر دے گا لیکن قریش نے یہ رائے نامنظور کی ۔ 

≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠


      ❶ سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد  
      

                        🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments