حضرت ثمامہ بن اثال




بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم                     

✨باذن اللہ تعالی✨                        

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه               
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*               
 حضرت ثمامہ بن اثال ( رضی اللہ عنہ)*         
*قریش کی اقتصادی ناکہ بندی کر دے گا۔*     
6 ہجری میں رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے دعوت الی اللہ کا دائرہ وسیع کرنے کا عزم فرمایا، تو عرب و عجم کے بادشاہوں کی طرف آٹھ خطوط لکھے اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔
جن سربراہوں کو خطوط لکھے ان میں ثمامہ بن اثال ( رضی اللہ عنہ ) کا نام بھی آتا ہے۔
بلاشبہ ثمامہ بن اثال ( رضی اللہ عنہ ) کا شمار زمانہ جاہلیت کے بارعب عرب بادشاہوں میں ہوتا ہے اور یہ قبیلہ بنو حنیفہ کے قابل رشک سردار تھے اور یمامہ کے ایسے ہر دلعزیز و بارعب سربراہ تھے کہ جس کی کبھی بھی حکم عدولی نہ ہوتی تھی۔
زمانہ جاہلیت میں ثمامہ ( رضی اللہ عنہ ) کو جب نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کا خط ملا تو اس نے بڑی حقارت سے دیکھا۔ اس کی سطوت و نخوت نے اسے گھناؤنا جرم کرنے پر آمادہ کیا۔ حق بات سننے کے لئے اس کے کان بہرے ہوگئے۔ پھر اس پر یہ جنون طاری ہوا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کردے اور آپ کے مشن کو ناکام بنادے، لیکن وہ اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مناسب موقعہ کی تلاش میں رہا۔ ایک دفعہ اسے موقعہ ملا، وہ دبے پاؤں حضور اکرم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر پیچھے سے وار کرنے ہی والا تھا، لیکن اس کے چچا نے اس کا ہاتھ روک دیا۔ اس طرح آپ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دشمن کے شر سے محفوظ رہے۔
ثمامہ نے رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ و سلم ) سے تو اپنا ہاتھ روک لیا، لیکن آپ کے صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم ) کو نقصان پہنچانے کے لئے کسی مناسب موقعہ کی تلاش میں رہا، ایک دفعہ ایسے ہوا کہ بہت سے صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم ) کا محاصرہ کرکے انہیں بے دریغ قتل کر دیا، یہ اندوہناک خبر سن کر نبی ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے عام اعلان فرمادیا کہ ثمامہ جہاں کہیں ملے اسے قتل کر دیا جائے۔
اس دلفراش واقعہ کو گزرے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ ثمامہ بن اثال کے دل میں آیا کہ بیت اللہ کی زیارت کی جائے اس لئے وہ یمامہ سے سوئے مکہ معظمہ روانہ ہوا، اس کی دلی تمنا تھی کہ طواف کعبہ کرے اور بیت اللہ میں رکھے گئے بتوں کے نام پر جانور ذبح کرے۔
جناب ثمامہ مدینہ منورہ کے قریب ابھی راستہ ہی میں تھے کہ ان کے ساتھ اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ہوا یہ کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کا ترتیب دیا ہوا، مجاہدین اسلام کا ایک گروپ مدینہ منورہ کی نگرانی پر مامور تھا، مباداکہ کوئ مدینہ منورہ پر رات کے وقت اچانک حملہ نہ کردے، مجاہدین کا یہ گروپ گشت کر رہاتھا کہ انہوں نے راستے میں جاتے ہوئے جناب ثمامہ ( رضی اللہ عنہ) کو گرفتار کر لیا، لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ کون ہے! وہ انہیں پکڑ کر مدینہ لے آئے اور مسجد نبوی ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا مجاہدین نے سوچا کہ نبی (صلی اللہ علیہ و سلم ) قیدی کو دیکھ لیں اور اس کے متعلق جو حکم فرمائیں اس کی تعمیل کی جائے۔
نبی ( صلی اللہ علیہ و سلم) جب مسجد نبوی میں تشریف لائے، آپ نے دیکھا کہ ثمامہ بن اثال ( رضی اللہ عنہ) مسجد کے ایک ستون کے ساتھ بندھا ہوا ہے، اسے اس حالت میں دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا:
کیا جانتے ہو کہ تم نے کسے گرفتار کیا ؟
سب نے کہا۔
یارسول اللہ ! ہمیں تو علم نہیں۔
آپ نے ارشاد فرمایا:
یہ تو ثمامہ بن اثال ہے اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔
گھر میں جو کھانا ہے، وہ ثمامہ بن اثال کے لئے بھیج دیا جائے۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ میری اونٹنی کا دودھ صبح و شام اسے پلایا جائے۔
آپ کے حکم کی فوراً تعمیل کی گئ، پھر نبی ( صلی اللہ علیہ و سلم ) ثمامہ بن اثال کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں آپ نے بڑے ہی مشفقانہ انداز میں دریافت کیا:
ثمامہ کیا رائے ہے؟
انہوں نے جواب دیا۔ بہتر ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کردیں تو یقیناً ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس نے آپ کے صحابہ ( رضی اللہ عنھم ) کاخون بہایا، اگر معاف فرمادیں تو ایک قدر دان پر مہربانی ہوگی اور اگر مال چاہئیے تو جس قدر فرمائیں مال آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے گا۔
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) تشریف لے گئے اور انہیں دودن تک اسی حالت میں رہنے دیا، لیکن کھانا پانی اور دودھ باقاعدگی سے انہیں ملتا رہا۔
پھر آپ نے دریافت فرمایا:
ثمامہ کیا رائے ہے؟
انہوں نے کہا:

بات تو وہی ہے جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔
اگر آپ معاف فرمادیں تو ایک قدر دان پر مہربانی کریں گے۔ اگر آپ مجھے قتل کردیں تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس نے آپ کے ساتھیوں کا خون بہایا ہے، اور اگر مال چاہئیے تو آپ کی منشاء کے مطابق مال آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے گا۔
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے اب بھی اسے اسی حالت میں رہنے دیا اور تیسرے دن تشریف لائے اور دریافت فرمایا:
ثمامہ ( رضی اللہ عنہ ) اب تمہاری کیا رائے ہے؟
انہوں نے کہا میری رائے تو وہی ہے جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔
اگر آپ معاف فرمادیں تو ایک قدر دان پر مہربانی کریں گے۔ اگر آپ مجھے قتل کردیں تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کی گردن پر خون ہے اور اگر مال چاہئیے تو آپ کی منشاء کے مطابق مال دیا جائے گا۔
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم ) کو حکم دیا کہ اسے آزاد کردو۔
جناب ثمامہ آزاد ہونے کے بعد مسجد نبوی سے نکل کر ایک طرف چل دئیے مدینہ منورہ کی ایک جانب بقیع کے نزدیک ایک نخلستان تھا۔ وہاں ایک مقام پر پانی بھی جمع تھا۔ اپنی اونٹنی وہاں بٹھا کر خوب اچھی طرح غسل کیا اور واپس مسجد نبوی میں آکر سب لوگوں کے سامنے بآواز بلند کہا:
*(" اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ")*
(" *میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئ معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔* ")
بعد ازاں محبت بھرے انداز میں یوں گویا ہوئے میرے پیارے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) اللہ کی قسم ! اسلام قبول کرنے سے پہلے روئے زمین پر مجھے آپ کے چہرے سے زیادہ کوئ چہرا برا نہ لگتا تھا، لیکن آج میرے لئے کائنات میں تمام چہروں سے محبوب ترین چہرہ آپ ہی کا ہے۔
اللہ کی قسم ! آج سے پہلے آپ کا یہ شہر دنیا کے تمام شہروں سے زیادہ برا معلوم ہوتا تھا اور آج یہ مجھے تمام شہروں سے زیادہ محبوب دکھائ دیتا ہے۔
پھر اس کے بعد درد بھرے لہجے میں عرض کی:
یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) مجھے انتہائ افسوس ہے کہ میں نے آپ کے صحابہ ( رضی اللہ عنھم ) کا بے دریغ خون بہایا ہے، بھلا میرے اس جرم کا مداوا کیسے ہوگا۔
یہ سن کر نبی ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے ارشاد فرمایا:
ثمامہ ( رضی اللہ عنہ ) آپ گھبرائیے نہیں اسلام پہلے سب گناہوں کو مٹادیتا ہے اور آپ نے اسے خیر و برکت کی بشارت دی جو اللہ سبحانہ و تعالی نے اسلام قبول کرنے کی بدولت اس کے نصیب میں لکھ دی۔
یہ سن کر جناب ثمامہ ( رضی اللہ عنہ ) کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور یوں کہنے لگے۔
اللہ کی قسم ! میں نے اپنے زمانہ جاہلیت میں جس قدر مسلمانوں کو قتل کیا ہے، اس سے دو گنا سے زیادہ مشرکین کو تہہ تیغ کردوں گا۔ اب میری جان، میری تلوار اور جو کچھ بھی میرے پاس ہے سب کچھ آپ کی اور آپ کے دین کی خدمت کے لئے وقف ہے۔
پھر عرض کی:
یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! مجھے اجازت ہو تو میں عمرہ ادا کروں۔
نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ارشاد فرمایا:
عمرہ ضرور ادا کریں لیکن اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ! اور آپ نے انہیں عمرہ ادا کرنے کا طریقہ بھی سمجھایا۔
حضرت ثمامہ ( رضی اللہ عنہ ) اجازت ملنے کے بعد عمرہ ادا کر نے کے لئے روانہ ہوگئے۔ مکہ معظمہ پہنچ کر آپ نے بآواز بلند یہ کلمات کہنے شروع کر دئے۔
*"لبیک اللھم لبیک۔ لبیک لاشریک لک لبیک۔ ان الحمد و النعمۃ لک و الملک۔ لا شریک لک"*
حاضر ہوں، الہی میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئ شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ سب تعریفیں اور نعمتیں تیری ہیں اور حکومت بھی تیری، تیرا کوئ شریک نہیں۔
حضرت ثمامہ ( رضی اللہ عنہ ) وہ پہلے مسلمان ہیں جو مکہ معظمہ میں بآواز بلند تلبیہ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔
قریش نے اونچی آواز میں جب یہ کلمات سنے تو ان کے غصے کی کوئ انتہا نہ رہی۔ سب لوگ تلواریں ہاتھوں میں لئے گھروں سے باہر نکل آئے تاکہ اس شخص کو گرفتار کرسکیں جس نے مکہ میں آکر ان کے عقائد کے خلاف ببانگ دہل کلمات کہنے کی جراءت کی جب قوم ثمامہ ( رضی اللہ عنہ ) کے پاس پہنچی تو آپ نے ایک بار پھر اونچی آواز سے تلبیہ کہا۔ کفار اسلحہ تان کر کھڑے ہو گئے قریش میں سے ایک نوجوان نیزہ لے کر آگے بڑھا تاکہ آپ پر حملہ آور ہو، لیکن دوسروں نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا:
ارے، تم جانتے نہیں ہو، یہ کون ہے؟
یہ تو یمامہ کا بادشاہ ثمامہ بن اثال ہے۔ بخدا ، اگر تم نے اسے کوئ تکلیف دی تو اس کی قوم ہماری اقتصادی امداد بند کردے گی اور ہم بھوکوں مر جائیں گے۔
قوم نے یہ سن کر اپنی تلواریں نیام میں ڈال لیں اور حضرت ثمامہ ( رضی اللہ عنہ ) سے محو گفتگو ہوئے۔
کہنے لگے ثمامہ ( رضی اللہ عنہ ) تجھے کیا ہوا؟
کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ کیا تم نے اپنے آبا و اجداد کے دین کو چھوڑ دیا۔
آپ نے فرمایا:
میں بے دین نہیں ہوا، بلکہ میں نے تو عمدہ دین اختیار کر لیا ہے۔
اور فرمایا:
رب کعبہ کی قسم ! اب سر زمین نجد میں سے اس وقت تک تمہارے لئے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا جب تک کہ تم میرے پیارے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اطاعت اختیار نہ کر لو گے۔
حضرت ثمامہ بن اثال ( رضی اللہ عنہ ) نے قریش کے سامنے بالکل اسی طرح عمرہ ادا کیا جس طرح رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے انہیں تعلیم دی تھی۔ عمرہ ادا کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ایک جانور قربان کیا اوراپنے ملک کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر سب سے یہی حکم صادر کیا کہ قریش کی اقتصادی امداد بند کردی جائے اور آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہو ئے قوم نے اہل مکہ کی اقتصادی امداد روک دی۔
حضرت ثمامہ بن اثال ( رضی اللہ عنہ ) کے اس حکم کے بعد قریش کا عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔ مہنگائ بڑھ گئ،بھوک عام ہو گئ، مصائب و مشکلات میں دن بدن اضافہ ہونے لگا۔ یہاں تک کہ انہیں اس بات کا خدشہ لاحق ہو گیا کہ وہ اور ان کے بچے بھوک سے ہلاک ہوجائیں گے۔ اس نازک ترین موقع پر انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف ایک خط میں لکھا جس میں یہ تحریر تھا۔
ہمارا تو خیال تھا کہ آپ صلی الله عليه وسلم صلہ رحمی فرمائیں گے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں گے، لیکن آپ نے تو قطع رحمی کی ایک مثال قائم کردی، ہمارے آباؤ اجداد کو تہہ تیغ کیا اور ہماری اولاد کو بھوک سے مار دیا۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ثمامہ بن اثال نے ہماری اقتصادی امداد بند کر دی ہے۔ از راہ کرم اسے حکم دیں کہ وہ ہماری اقتصادی امداد بحال کر دے اور اشیاء خوردنی ہمیں بھیجنا شروع کر دے ۔
نبیﷺ نے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ قریش کی اقتصادی امداد بحال کر دیں،تو انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قریش کی اقتصادی امداد بحال کر دی۔

حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ زندگی بھر اپنے دین کے وفادار نبیﷺ کے ساتھ کئے گئے عہد و پیماں کے پابند رہے۔
جب رسول اللہ ﷺ اللہ تعالی کو پیارے ہو گئے اور عام لوگ دین الہی سے اجتماعی اور انفرادی طور پر منحرف ہونے لگے، ادھر مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا اور اپنی قوم بنو حنیفہ کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دینے لگا تو حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ مسیلمہ کذاب کے مقابلہ میں اتر آئے اور اپنی قوم سے کہا:
اے بنو حنیفہ! اس اندھر نگری سے بچ جاؤ جس میں روشنی کی کوئ کرن نہیں ہے۔ بخداجس نے مسیلمہ کی دعوت قبول کی یہ اس کی انتہائ بدبختی ہو گی اور جس نے اس کی دعوت کو تسیلم نہ کیا وہ یقینا سعادت مند ہے۔
اور فرمایا:
اے بنو حنیفہ، تم باز آ جاؤ! مسیلمہ کذاب کے شیطانی داؤ سے بچو! تم اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ حضرت محمد ﷺ اللہ خے سچے رسول ہیں اور آپ کے بعد قیامت تک کوئ نبی نہ آئے گا اور نہ ان کی نبوت میں کوئ شریک ہے۔
پھر ان کے سامنے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت فرمائیں ۔
*حم تنزيل الكتاب من الله العزيز العليم. غافر الذنب وقابل التوب شديد العقاب ذى الطول لا اله الاهو اليه المصير*(المومن2-3 ) ترجمہ: اس کتاب کا اتارا جانا خدائے غالب و دانا کی طرف سے ہے۔ جو گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا (اور) سخت سزا دینے والا (اور) صاحب کرم ہے۔ اس کے سوا کوئ معبود نہیی ۔ اسی کی طرف پھر کر جانا ہے۔
اور ان سے یہ دریافت کیا کہ بھلا یہ تو بتائو کے اللہ تعالی کے اس پاکیزہ کلام کے مقابلے میں اس مسیلمہ کذاب کی اس فضول عبارت کی کیا حیثیت ہے ۔
یا ضفد ع نقی ما تنقین لا الشراب تمنعین  و لا الماء تکدیرین ۔
اے ٹرانے والے مینڈک' تو کسی قدر ٹراتا ہے ۔ نہ تو کسی کو پینے سے روکتا ہے اور نہ ہی تو پانی کو گدلا کرتا ہے ۔
اس کے بعد ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کے ان لوگوں کو جمع کیا جو اسلام پر مضبوطی سے قائم تھے اور مرتدین کے خلاف جدوجہد اور روئے زمین پر اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے میدان میں اتر آئے 
اللہ تعالی ثمامہ بن اثال رضی اللہ کو اسلام اور مسلمانوں کی جانب سے جزائے خیر عطا فرمائے اور جنت میں ان کو وہ اکرام و عزت نصیب ہو جس کا وعدہ اہل تقوی سے کیا گیا ہے ۔
ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
1-الاصا بة في تميز الصحابة ابن حجر ١/١٠٤
٢-الاستيعاب قي اسما للصحابة 1/٣٠٥
٣-سيرت ابن هشام
٤-الاعلام للزر كلي  ٣/٨٦

🌴بارک اللہ فیکم🌴              
===========>ختم شدہ۔۔          
طالب دعا۔۔لقمان قاسمی               

Post a Comment

0 Comments