ستاره پرستی


  
💫تاریخ اسلام💫              
                
            🔴ستاره پرستی🔴              

       
عرب جاہلیت میں ستارہ پرستی بھی خوب رائج تھی۔ مؤرخین کے پاس اس بات کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ *عرب، مصر، یونان، ایران، ان چاروں ملکوں میں کون سا ایک ملک ستاره پرستی کا استاد اور باقی تینوں اس کے شاگرد ہیں ۔ بہرحال اس بات کا ثبوت دشوار ہے کہ عرب میں ستاره پرستی باہر سے آئی ۔
قبیلہ حمیر *سورج* کو
کناہ *چاند* کو
تمیم *دہران* کو
لخم اور جذام *مشتری* کو
طے *سہیل* کو
قیس *شعر العور*کو
اسد *عطارد* کو پوجتے تھے۔ اکثر قبیلوں کے بت پرستاروں کے نام سے موسوم تھے۔ پھروں
کے بت اور مشہور ستارے مشترک طور پر قبائل میں پوجے جاتے تھے ستاروں کے طلوع اور غروب پر بڑے بڑے کاموں کا انحصار رکھتے تھے۔ کھلے میدانوں اور ریگستانوں میں بسر کرنے والے لوگوں کی توجہ ستاروں اور سیاروں کی طرف خصوصیت سے منعطف رہنا اور ان ستاروں میں سے بعض کو معبود ٹھہرا لینا کوئی تعجب کی بات نہ تھی ۔ قرآن کریم کی *سورة نوح* سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت *نوحؑ* کے زمانے میں بھی *عراق* *عرب* میں *یغوث ، یعوق، ود، نسر، سواع، وغیرہ* کی پرستش ہوتی تھی جو سب ستاروں کے نام ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ستارہ پرستی ملک عرب میں قدیم ایام سے رائج تھی۔ عرب کے ستاره پرستوں میں چاند کے پرستار سب سے زیادہ تھے اور چاند سب سے محبوب سمجھا جاتا تھا

             

        
   
                  🔴کہانت🔴                    

         عرب میں کاہن لوگ بڑی کثرت سے ہوتے تھے۔ کاہن وہ کہلاتا تھا جو اسرار کے جانے اور غیب کی خبروں پر اطلاع رکھنے کا دعوی کرے جو گذشتہ حالات کی خبر دے اس کو *کاہن* اور جو ائنده حالات کی خبر دے اس کو *اعراف* کہتے تھے غیب دانی کا دعوی کرنے والے مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی۔ عرب کے کاہنوں میں
افعی،
جزیمہ،
ابرش،
شق،
سطیح،
    وغیرہ مشہور کاہن تھے۔ غیب دانوں کی ایک قسم *ناظر* کہلاتی تھی جو *آٓئینہ* یا *پانی* سے لبریز طشت پر نظر ڈالتے اور غیب کی باتیں بتاتے یا حیوانات کی *ہڈیوں* اور *جگر* وغیرہ اعضاء کو دیکھ کر حکم لگاتے تھے انہیں میں *طارقین حصی* (سنگریزے پھینکنے والے) اور *گٹھلیاں* پھینکنے والے بھی تھے۔ یہ سب کاہنوں کی قسم میں شمار ہوتے تھے۔ مگر ان کا مرتبہ اعراف اور کاہن سے کم سمجھا جاتا تھا ان سے بھی کم رتبہ تعویذ گنڈے والے تھے۔

     
 
               
                 🔴فال🔴                        

        *تفاول اور تشادم* یعنی *نیک نالی* اور *بد فالی* کے بھی بہت قائل تھے ۔ *کوے* کو بہت *منحوس* اور *موجب فراق* سمجھتے تھے۔ عربی زبان میں چونکہ کوے کو *غراب* کہتے ہیں اس لیے *مسافرت* کو غربت اور *مسافر* کو غریب کہنے لگے ۔ یعنی کوے کے اثر سے جدائی اور مسافرت میں انسان مبتلا ہوتا ہے۔ *آلّو* کو بھی بہت منحوس جانتے تھے۔ ان کے نزدیک الو کے بولنے سے موت اور ویرانی ہوتی تھی ۔ عطسہ (چھینک ) کو بھی موجب بد فالی سمجھتے تھے۔ بعض لوگ ساحر تھے۔ وہ جادوگری کا پیشہ کرتے تھے اور شیطان کو اپنا دوست بنانے کے لیے بڑی بڑی ریاضتوں میں مصروف ہوتے تھے
  
                 
      
              🔴جنگ جوئی🔴                


  ذرا ذرا سی اور بہت ہی معمولی باتوں پر ان میں جنگ چھڑ جاتی تھی۔ ایک دفعہ جب لڑائی شروع ہو جاتی تو پھر کئی کئی پشتوں اور صدیوں تک برابر جاری رہتی ۔ ان کی لڑائیوں میں کوئی بھی لڑائی ایسی نہیں ملتی جو کسی معقول اور اہم سبب کی بنا پر شروع ہوئی ہو۔ عرب جاہلیت کی لڑائیوں میں *سو سوا سو لڑائیاں* بہت مشہور ہیں مثلا
بعاث
كلاب
فترت
نخلہ
قرن
سوبان
حاطب
    وغیرہ ۔ ان لڑائیوں سے کسی قبیلہ یا ملک کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ تباہی و بربادی اور نقصان جان و مال طرفین کو ہمیشہ برداشت کرنا پڑا۔ عرب جاہلیت میں ایک یہ رسم بھی تھی کہ جب دشمن پر قابو پاجاتے اور اس کے عیال واطفال کو قید کر لیتے تو بلا امتیاز اور بلا تکلف سب کو قتل کر دیتے لیکن قیدیوں میں سے کوئی شخص ان کے کھانے میں سے کچھ کھا لیتا تو قتل سے محفوظ ہو جاتا تھا۔ جس کو قید سے آزاد کر دینا چاہتے تھے تو اول اس کے سر کے بال تراش لیتے ۔ ان میں *مبارزہ کی لڑائیوں* کا بڑا رواج تھا۔ صف بندی کر کے لڑنا ان میں رائج نہ تھا۔ گھوڑوں اور ہتھیاروں کی نگہداشت کا ان کو بہت زیادہ خیال تھا۔ شمشیر زنی، تیر اندازی، شهسواری، نیزہ بازی، میں جس شخص کو کمال حاصل ہوتا اس کی بڑی عزت و توقیر کی جاتی اور اس کا نام فورا دور دور تک مشہو ہوجاتا ۔ بعض قبائل کو بعض فنون حرب اور اسلحہ جنگ کے استعمال میں شہرت حاصل تھی۔ خاص خاص *تلواروں، نیزوں، کمانوں، گھوڑوں، وغیرہ کے خاص خاص نام یعنی اسماء علم تھے اور سارے ملک میں سمجھے اور پہچانے جاتے تھے۔ مثلا
حرث بن ابی شمر غسانی کی تلوار کا نام *خذوم* تھا۔
عبدالمطلب بن ہاشم کی تلوار کا نام *عطشان*
مالک بن زبیر کی تلوار کا نام *ذوالنون* تھا۔ یہ سب کچھ دلیل اس امر کی
ہے کہ عرب کے لوگ جنگ و قتال کے بے حد شائق تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گھوڑے اور تلوار کے نام عربی زبان میں ہزار تک بتائے جاتے ہیں۔
    
     
           

              🔴عشق بازی🔴                   


         عرب جاہلیت میں پردہ کا مطلق رواج نہ تھا۔ ان کی عورتیں آزادانہ مردوں کے سامنے آتی تھیں ۔ مشاغل اور ضروریات زندگی کی کمی آزاد مزاجی اور شاعری و مفاخرت نیز ملک کی گرم آب و ہوانے یہ مرض بھی ان میں پیدا کر دیا تھا۔ ان میں وہ آدمی کمینہ اور ذلیل سمجھا جاتا تھا جس کو کسی عورت سے بھی عشق پیدا نہ ہوا ہو۔ عرب کے بعض قبائل اپنی عشق بازی کی وجہ سے مشہور تھے ۔ مثلا *بنی عذرہ* کے عشق کی یہاں تک شہرت تھی کہ *اعشق من بني عذره* کی مثل مشہور ہے ۔ یعنی فلاں شخص بنی عذرہ سے بھی زیادہ عاشق مزاج ہے ۔ ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ تو کس قوم سے ہے؟ اس نے جواب دیا میں ایسی قوم میں سے ہوں کہ جب وہ عاشق ہوتے ہیں تو ضرور مر جا تے ہیں ۔ اس کلام کو ایک لڑکی سن رہی تھی وہ کہنے کی *عذری ورب الكعبة* (رب کعبہ کی قسم ہے تو ضرور عذری ہے)۔
   
     
           
  
                 🔴شاعری🔴                      


         عرب جاہلیت میں ایسا کوئی شخص نہ تھا جس کو شاعری کا سلیقہ نہ ہو۔ مرد، عورت، بچے، بوڑھے، جوان، سب کے سب تھوڑے بہت شاعر ضرور ہوتے تھے گویا وہ ماں کے پیٹ سے شاعری اور فصاحت لے کر پیدا ہوتے تھے۔ ان کی شاعری عموما *فی البدیہہ* ہوتی تھی۔ سوچنے غور کرنے مضمون تلاش کرنے کی ان کو ضرورت نہیں۔ ان کو اپنی *فصاحت اور قادر الکلامی* پر اس قدر غرور تھا کہ وہ ساری دنیا کو اپنے آئے *گونگا* جانتے تھے مگر قرآن کریم نے نازل ہو کر اہل عرب کے غرور فصاحت و بلاغت کی ایسی کمر توڑ دی اور ان تمام فصیح و قادر الکلام اہل عرب کو قرآن کریم کے مقابلہ پر ایسا نیچا دیکھنا پڑا کہ رفتہ رفتہ اہل عرب کا غرور فصاحت جاتا رہا اور سب کو کلام الہی کے آگے سر تسلیم کرنا پڑا۔
      سالانہ میلوں، تقریبوں، اور حج، کے موقعوں پر جس شخص کا *قصیدہ* مجلس مشاعرہ میں سب سے زیادہ بہتر قرار دیا جاتا تھا وہ فورا سب سے زیادہ عزت و عظمت کا وارث بن جاتا تھا. شاعروں کی عزت ان کے نزدیک بہادر سپہ سالاروں اور بادشاہوں کے مساوی بلکہ ان سے زیادہ ہوتی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ قبیلوں کو لڑا دینا، قبیلوں کو غیر معمولی بہادر بنا دینا لڑائی کو جاری رکھنا یا اس کو ختم کر دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ بہترین قصائد خانہ کعبہ پر لکھ کر لٹکا دیئے جاتے ۔ چنانچہ ایسے سات قصیدے جو *سبع معلقات* کے نام سے مشہور ہیں
امراء القیس بن حجر کندی
زبیر بن ابی سلمی مزنی
لبید بن ربیعہ
عمر بن كلثوم
عنترہ عبسی وغیرہ کے مصنفہ تھے۔
  
           
   
             🔴شکار کا شوق🔴                  

       عرب جاہلیت کو شکار کا بہت شوق تھا اس لیے عربی زبان میں شکار کے متعلق بہت زیادہ اصطلاحیں موجود ملتی ہیں
جوشکار داہنی طرف سے آکر دائیں طرف چلا جاتا اس کو *سانح*
جو بائیں طرف سے آکر بائیں طرف کو چلا جاتا اس کو *بارح* کہتے تھے ۔ جوشکار سامنے سے آتا اس کا نام *ناطح*
اور جو پیچھے سے آتا اس کا نام *قعید* تھا۔
شکاری کی کمین گاہ کا نام *قرہ*
شری کے شکار کی غرض سے جو گڑھا
کھودا جاتا اس کا نام *زبیہ*
شکار کی طرف داؤں کرتے ہوئے پیٹ کے بل زمین سے چمٹے ہوئے جانے کو *تلبد*
شکاری کے محروم واپس آجانے کو *اخناق* کہتے تھے
وہ جس چیز کو شکار کر لیتے اس کا گوشت بلا تکلف کھاتے خواہ وہ حرام ہو یا حلال ۔ اسلام نے حرام و حلال کی قیود اور شکار کے لیے پابندیاں قائم کی_
     
 
            
     
             🔴لباس و طعام🔴               


           ملک عرب میں نہ *ریشم* پیدا ہوتا ہے نہ *کپاس*۔ یہ چیزیں اگر بعض صوبوں میں پیدا ہوتی ہیں تو بہت قلیل مقدار میں اور ملک کی ضروریات کے لیے ناکافی، *یمن* میں قدیم ایام سے *پارچہ بافی* کا رواج ہے۔ عام طور پر اہل عرب کا لباس بہت ہی سادہ رہا ہے۔ گاڑھے کے کرتے میں چمڑے کے پیوند لگا کر پہنا معمولی بات تھی ۔ بعض اشخاص چمڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو سوئی کے ٹانکوں سے جوڑ کر چادر بنا لیتے تھے اور یہ چادر بلا تکلف اوڑھنے اور بچانے کے لیے کام آتی تھی۔ اونٹ اور بھیڑ کے بالوں سے بھی کپڑے بنے اور تیار کئے جاتے تھے اور زیادہ تر انہیں کمبلوں کے خیمے اور فرش بنائے جاتے تھے ۔ ڈھیلے ڈھیلے اور نیچے کرتے تہہ بند اور سر پر رومال یا عمامہ کا رواج تھا۔
*عود، عنبر، لوبان، کافور، خوشبویات* سے بھی وہ واقف تھے۔ اہل عرب کی خوراک بھی بہت سادہ اور بے تکلفانہ ہوتی تھی ۔ خراب اور بد مزہ کھانوں پر بھی وہ قناعت کر لیتے تھے۔ گوشت کو سب سے زیادہ قیمتی اور لذیذ غذا سمجھتے تھے۔
*دودھ گوشت اور چینیا *وغیرہ و غلہ عام طور پر تمام ممالک کی غذا تھی ۔ *پنیر، ستو کھجور روغن زیتون حریره* وغیرہ کا بھی استعمال کرتے تھے ۔ *ٹڈیاں* بھی جو اس ملک میں بکثرت ہوتی ہیں کھاتے تھے۔ آٹے کو چھلنی میں چھالنے کا رواج عام نہ تھا۔ بلا چھنے ہوئے آٹے کی روٹی پکا کر کھاتے تھے۔ *سوسمار* بھی پکا کر خوب مزے سے کھاتے تھے۔ کھانا کھانے کے آداب بھی بہت ادنی درجہ کے تھے جن کا اندازہ ان احکام نبوی سے بخوبی ہو سکتا ہے جو کھانے پینے کے متعلق احادیث میں موجود ہیں اور جن میں بہت سی بدتمیزیوں سے منع کیا گیا ہے اور انسان کو دسترخوان پر بسیار خوری بے شرمی کثيف المزاجی اور اناب شناب باتوں سے باز رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
    
   
       
             🔴غارت گری🔴                    


       جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے عرب میں دو قسم کے لوگ تھے ۔ ایک وہ جو شہروں اور بستیوں میں آباد تھے۔ دوسرے وہ جو خانہ بدوشی کی حالت میں پھرتے تھے اور تعداد میں زیادہ تھے۔ شہری لوگوں میں اگرچہ حقوق ہمسایہ کی رعایت امانت داری دیانت وغیرہ صفات تھے مگر تجارت میں مکر ودغا دھوکہ بازی وغیرہ عیوب ان میں بھی موجود تھے۔ خانہ بدوش یا بدوی رہزنی اور ڈاکہ ڈالنے میں بے حد مشاق تھے۔ مسافروں کو لوٹ لینے اور زبردستی کسی کا مال چھین لینے کی سب کو عادت تھی کسی شخص کو تنہا سفر میں پاتے تو اس کا مال چھین لیتے اور اس کو غلام بنا کر بیچ ڈالتے ۔ راستوں میں کو کنوئیں بنے ہوتے ہیں ان کو گھاس وغیرہ سے چھپا دیتے کہ مسافر کو پانی نہ مل سکے اور پیاس سے مرجائے تو بلا زحمت اس کا مال ہاتھ آئے۔ چوری میں بھی خوب مشاق تھے ۔ بعض بعض تو چوری میں اس قدر مشہور تھے کہ ان کے نام بطور ضرب المثل مشہور ہوئے ۔ ان چوروں کو *ذوبان العرب* (عرب کے بھیڑیئے ) بھی کہا جاتا تھا۔
     
             
      
                    🔴تکبر🔴                       


           تکبر کی رذیل صفات بھی عرب جاہلیت میں حد کو پہنچی ہوئی تھی۔
*جذیمہ ابرش* کے تکبر کی یہ حالت تھی کسی کو اپنا وزیر و مشیر اور ہم نشیں نہیں بنایا۔ وہ کہتا تھا کہ *فرقدین ستارے* میرے ہم نشین ہیں ۔
*بنی مخزوم* بھی تکبر کے لیے کافی شہرت رکھتے تھے۔ اسی طرح بہت سے قبائل اس رذیل صفت میں ممتاز اور مشہور عوام تھے لیکن اس عیب سے خالی کوئی بھی قبیلہ نہ تھا۔ اسی تکبر کا نتیجہ تھا کہ انبیاء و رسل اور ہادیان برحق کے مواعظ حسنہ سنے اور احکام الہی کی فرماں برداری کرنے کو بھی عیب جانتے تھے-

   
                 🔴شتر کینہ🔴                     


  اگر کسی قاتل یا دشمن پر اس کی زندگی میں دسترس حاصل نہ ہوسکی تو اس کے لئے پوتوں اور رشتہ داروں سے بدلہ لیتے تھے اور جب تک انتقام نہ لے لیں چین سے نہ بیٹھتے تھے۔ اگر سبب عداوت یاد نہ رہے عداوت پھر بھی یاد رہتی ہے۔ بہت ہی شخصوں کو صرف اس لیے قتل کرتے تھے کہ ہم کو ان سے دشمنی ہے اور ان کا قتل کرنا ضروری ہے لیکن یہ نہ بتا سکتے تھے کہ ان سے کیوں دشمنی ہے؟

    
              🔴مراسم ماتم🔴                      


  جب کوئی شخص مرجاتا تو اس کے عزیز و اقارب اپنا منہ کھسوٹے اور بال نوچنے اور ہائے وائے کرتے تھے۔ عورتیں بال کھولے سر پر خاک ڈالے جنازے کے پیچھے پیچھے چلتی تھیں جس طرح ہندوستان میں ہندو لوگ مردہ کے غم میں سر کے بال اور داڑھی مونچھ منڈا دیتے تھے۔ عرب جاہلیت میں عورتیں بھی بلوائی جاتی تھیں وہ خوب زور شور سے نوحہ کرتی تھیں ۔ دفن سے فارغ ہو کر دسترخوان بچھایا جاتا اور ان نوحہ کرنے والیوں کو کھانا کھلایا جاتا ۔ اسلام نے ان تمام مراسم جاہلیت کو مٹایا لیکن تعجب ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں تیجا، دسواں، بیسواں، چالیسواں، چھ ماہی، اور برسی اب بھی موجودہے اور عرب جاہلیت کی تکلیف ابراہیم کا ماتم ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں انا للہ وانا الیہ راجیعون ....
                                                 
🔴 توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی 🔴     


       جنوں دیووں اور پریوں کے بھی قائل تھے۔ ان کا اعتقاد تھا کہ پریاں انسانی مردوں پر عاشق ہو جاتیں اور جن انسانی عورتوں سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں، جنوں کو وہ غیر مرئی مخلوق سمجھتے مگر ساتھ ہی یقین رکھتے تھے کہ مجردات اور مادیات سے مل کر اولاد پیدا ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ *جرہم* انسان اور فرشتے کے تناسل سے پیدا ہوا تھا۔ یہی عقیدہ ان کا *شہر سبا* کی ملکہ *بلقیس* کی نسبت تھا۔ *عمر بن بربوع* کی نسبت ان کا خیال تھا کہ *آدمی اور غول بیابانی* کے تناسل سے پیدا ہوا تھا۔ جس اوٹنی کے پانچ بچے ہو چکے ہوں اور پانچواں نر ہو اس کو *بحیرہ* کہتے ہیں اور اس کا کان چھید کر چھوڑ دیتے تھے ۔ وہ جہاں چاہے کھاتی چرتی پھرے کوئی اس سے تعرض نہیں کرتا تھا۔ اگر بھیڑ کے نر بچہ پیدا ہوتا اس کو بتوں پر چڑھا دیتے۔ مادہ ہوتا تو اپنے لیے رکھ لیتے۔ اگر دو بچے نر و مادہ پیدا ہوتے تو اس کی قربانی نہیں کرتے ۔ اس کا نام وصیلہ ہوتا تھا جس نر اونٹ کی پشت سے دس بچے پیدا ہو چکے ہوتے اس کی بڑی عزت کرتے تھے نہ اس پر بوجھ لادتے نہ خود سوار ہوتے اور سانڈ کی طرح آزاد چھوڑ دیتے تھے۔ اس کا نام *جام* ہوتا تھا۔
     بتوں کے سامنے یا بت خانوں کی ڈیوڑھی پر تین تیر رکھے رہتے تھے۔ ایک پر *لا* دوسرے پر نعم لکھا ہوتا۔ یہ تیر ایک ترکش میں ہوتے ۔ جب کوئی خاص اور اہم کام درپیش ہوتا تو جاتے اور ترکش میں سے ایک تیر نکالتے ۔ اگر "لا" والا تیر نکل آتا تو اس کام سے باز رہتے۔ "نعم" والا نکلتا تو اجازت سمجھتے۔ خالی تیر نکلتا تو پھر دوبارہ تیر نکالتے ۔ یہاں تک کہ *لا و نعم* میں سے کوئی ایک نکل آتا۔
       *رتم* ایک قسم کا درخت ہے۔ جب کہیں سفر میں جاتے تو جاتے وقت رتم کی کسی باریک *شاخ* میں گرہ لگا جاتے ۔ سفر سے واپس آکر دیکھتے کہ اس شاخ میں گرہ لگی ہوئی ہے یا کھل گئی ہے۔ اگر گرہ لگی ہوئی دیکھتے تو سمجھتے ہمہاری بیوی پاک دامن رہی ہے۔ اگر گرہ کھلی ہوئی پاتے تو یقین کر لیتے کہ عورتنے ہماری غیر موجود میں ضرور بدکاری کی ہے۔
     جب کوئی شخص مرجاتا تو اس کی اونٹنی کو اس کی قبر کے پاس باندھ کر آنکھیں اس کی بند کر دیتے۔ یہاں تک کہ وہ مر جاتی یا اس اونٹنی کے سر کو اس کی پشت کی جانب کھنیچ کر سینہ کے قریب لا کر باندھ دیتے اور اسی حالت میں چھوڑ دیتے یہاں تک کہ وہ مر جاتی ۔ یہ کام ان کے عقیدہ کے موافق اس لیے کیا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد یہ شخص جب قبر سے اٹھے گا تو اس اونٹنی پر سوار ہو کر اٹھے گا ۔
        ان کا عقیدہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی بستی میں جائے اور وہاں کی وباء کا اس کو خوف ہو تو چاہئے کہ اس بستی کے دروزاہ پر کھڑا ہو کر خوب زور سے گدھے کی سی آوازیں نکالے تاکہ وباء سے محفوظ رہے۔
        جب کسی کے پاس ایک ہزار سے زیادہ اونٹ ہو جاتے تو ان میں جو سانڈ ہوتا اس کی دونوں آنکھیں نکال لیتے تا کہ تمام اونٹ نظر بد سے محفوظ رہیں۔
      جب کوئ اونٹ کو *دارالعر* یعنی خارش کا مرض ہوتا تو مریض کو نہیں بلکہ تندرست اونٹ کو داغ دیتے اور یقین رکھتے کہ اس کے اثر سے بیمار اونٹ اچھا ہو جائے گا۔ ان کا شعر ہے کہ:
حملت على زنيه و تركته
                                     كذى العربكوى غيره وهو راتع
(تو نے غیر کو تو چھوڑ دیا اور اس کے گناہ میرے اوپر اس طرح لاد دیا جیسے عر کی بیماری کے مریض اونٹ کو چھوڑ کر اس کے عوض تندرست اونٹ کو جو مزے سے چررہاہو داغ دیا جاتا ہے)
        اسی طرح جب کوئی گائے پانی نہ پیتی تو بیلوں کو مارتے ان کا عقیدہ تھا کہ جب بیلوں پر سوار ہو جاتا ہے اور گایوں کو پانی پینے سے روکتا ہے۔
     ان کا عقیدہ تھا کہ اگر مقتول کا بدلہ قاتل سے نہ لیا تو مقتول کی کھوپڑی میں سے ایک پرندہ جس کا نام * ہامہ* ہے نکلتا ہے اور جب تک انتقام نہ لے لیا جائے برابر چیختا پھرتا ہے کہ مجھے پانی پلاؤ مجھے پانی پلاؤ ۔
         ان کا عقیدہ تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ رہتا ہے جب وہ سانپ بھوکا ہوتا ہے تو پسلی کی ہڈیوں پر سے گوشت نوچ کر کھاتا ہے۔
       ان کا عقیدہ تھا کہ اگر کسی عورت کے بچے مر جایا کرتے ہوں اور وہ عورت کسی شریف متمول آدمی کی لاش کو خوب اپنے پاؤں سے کچلے تو پھر اس کے بچے جینے لگتے ہیں ۔
          ان کا عقیدہ تھا کہ جن خرگوش سے بہت ڈرتا ہے اس لیے جنوں سے محفوظ رہنے کے لیے خرگوش کی ہڈی بطور تعویذ کے بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے۔

 
              🔴دختر کشی🔴                       


        *بنی تمیم اور قریش* میں دختر کشی کی رسم سب سے زیادہ جاری تھی ۔ اس رسم دختر کشی پر وہ فخر
کرتے اور اپنے لیے نشان عزت سمجھتے تھے ۔ بعض گھرانوں میں یہ سنگدلی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ لڑکی جب بڑی ہو جاتی یعنی خوب میٹھی میٹھی باتیں کرتی اور اس کی عمر پانچ چھ سال کی ہو جاتی تب اس کو اچھے کپڑے پہنا کر سنگدل باپ خود لے کر بستی سے باہر جاتا جہاں وہ پہلے سے ایک گہرا گڑا کھود اتا تھا۔ اس گڑھے کے کنارےاس لڑکی کو کھڑا کر کے پیچھے سے دھکا دے کر گرا دیتا۔ وہ لڑکی چیختی چلاتی اور باپ سے امداد طلب کرتی لیکن وہ ظالم باپ اوپر سے ڈھیلے مار کر اور مٹی ڈال کر اس کو دبا دیتا اور زمین ہموار کر کے واپس چلا آتا اور اس طرح اپنے لخت جگر کو زندہ درگور کرنے پر فخر کرتا۔
       بنی تمیم کے ایک شخص *قیس بن عاصم* نے اسی طرح اپنی *دس لڑکیاں* زندہ دفین کی تھیں ۔ دختر کشی کی اس ظالمانہ رسم سے عرب کو کوئی بھی قبیلہ پاک نہ تھا مگر بعض قبیلوں میں یہ حرکت کثرت سے ہوتی تھی اور بعض میں کسی قدر کم-
               
             🔴قمار بازی🔴                 


         عرب جاہلیت میں قمار بازی کے بھی بہت شائق تھے۔ زیادہ تر ازلام کے ذریہ جوا کھیلا جاتا تھا۔ ازلام جوا کھیلنے کے خاص تیر ہوتے تھے ۔ جن پر *پر* نہیں لگے ہوتے تھے۔ ان کی تعداد دس ہوتی تھی۔ ہر ایک تیر کا جدا جدا نام ہوتا تھا۔ بالترتیب ان کے نام یہ تھے۔
(۱) غذ
(۲) توام
(۳) رقیب
(۴) نافس
(۵) حلس
(٦) مبل
(٧) معلی
(۸) فسیح
(۹) ملیح
(۱۰) دغد۔
         ان میں سے ہر ایک تیر کا ایک خاص حصہ ہوتا تھا مثلا *غذ* کا *ایک حصہ* *توام* کے *دو* *رقیب* کے *تین* ۔ اسی طرح ایک ایک بڑھتا جاتا یہاں تک کہ *معلی* کے *سات* حصہ قرار پائے باقی آخر کے تین تیروں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ دس مال دار لوگ موٹی موٹی بکریوں کو مول لیتے اور ان کو ذبح کر کے اٹھائیس حصوں پر تقسیم کرتے۔ تمام تیروں کو ایک ترکش میں ایک شخص کے ہاتھ میں دے دیتے وہ ایک ایک تیر نکال کر ایک ایک شخص
کے ہاتھ میں دیا جاتا جو تیر جس شخص کے پاس آتا اسی کے موافق اس کو حصہ مل جاتا ۔ پچھلے تین تیر جن کے ہاتھ میں آتے وہ تینوں محروم رہتے یہ جوا خانہ کعبہ کے اندر ہبل کے سامنے کھیلا جاتا تھا۔
      ایک طریقہ قمار بازی کا یہ تھا کہ تھوڑی سی ریت جمع کرکے کوئی چیز اس میں چھپا دیتے اس کے بعد اس ریت کی دو ڈھیریاں کر دیتے اور دریافت کرتے کہ بتاؤ وہ چیز کون سی ڈھیری میں ہے۔ جو شخص ٹھیک بتا دیتا وہ جیت جاتا اور جو غلط بتاتا وہ ہار جاتا۔
≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠       
         تاریخ اسلام جلد ❶                     
     
               🌹  ͜͡ ۝͜͡🌹                          

Post a Comment

0 Comments