بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨ باذن اللہ تعالی✨
حضرت براء بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ
*براء بن مالک ( رضی اللہ عنہ) کو کسی اسلامی لشکر کا سپہ سالار نہ بنانا مبادا کہ کہیں جذبات میں آکر کوئ ایسا جارحانہ اقدام کر بیٹھیں جس سے لشکر کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے.*
*"ارشاد فاروق اعظم ( رضی اللہ عنہ) "*
بکھرے ہوئے بال، غبار آلودہ چہرہ، نحیف و لاغر ایسا
جسم کہ دیکھنے والا انہیں کوئ حیثیت ہی نہ دے۔
لیکن اس قدر بہادر کہ ایک موقعہ پر انہوں نے تنہا مقابلہ کرتے ہوئے پورے ایک صد مشرکین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ مقتولین اس کے علاوہ ہیں جنہیں مجاھدین اسلام کے ساتھ مل کرمختلف معرکوں میں انہوں نے تہہ تیغ کیا۔
آپ بڑے نڈر، جفاکش، فن سپہ گری کے ماہر، بے جگری سے لڑنے والے مجاہد اور ایک بہادر انسان تھے، لیکن ہمیشہ آپ بے خوف و خطر میدان کارزار میں کود پڑتے، اس لئے فاروق اعظم ( رضی اللہ عنہ) نے اپنے تمام گورنروں کو یہ لکھ بھیجا تھا:
براء بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) کو کسی لشکر اسلام کا سپہ سالار نہ بنانا مباداکہ کہیں جذبات میں آکر کو ئ ایسا جارحانہ اقدام کر بیٹھیں جس سے لشکر اسلام کو کوئ نقصان اٹھانا پڑے۔
حضرت براء بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) خادم رسول ﷺ حضرت انس بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) کے بھائ تھے۔
اگر میں حضرت براء بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) کی بہادری کی داستانیں سنانے لگوں تو بات اتنی طویل ہو جائے کہ ان صفحات میں سما نہ سکے، اس لئے میں آپ کے سامنے ان کی بہادری کا صرف ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جو آپ کو دوسرے حیرت انگیز واقعات کی خود بخود نشاندہی کر دے گا۔
اس داستان کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کی وفات حسرت آیات کا واقعہ پیش آیا تو کمزور ایمان والے لوگ دین سے منحرف ہونے شروع ہوگئے۔ جس تیز رفتاری سے انہوں نے دین قبول کیا تھا، اسی رفتار سے وہ دین اسلام کو چھوڑنے لگے۔
نوبت بایں جا رسید کہ، مدینہ طائف اور چند دیگر علاقوں کے وہی لوگ دائرے اسلام میں رہے جنہیں اللہ سبحانہ و تعالی نے پختہ ایمان نصیب فرما دیا تھا۔
حضرت صدیق اکبر ( رضی اللہ عنہ) نے اس ہولناک فتنے کو دبانے کے لئے انتہائ عظمت اور بہادری کا ثبوت دیا۔ فتنہ انگیزی کرنے والوں کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے ہو گئے۔ آپ نے مہاجرین و انصار کے گیارہ لشکر تیار کئے اور ہر لشکر کے لئے ایک پرچم تیار کیا گیا اور تمام لشکروں کو جزیرہ عرب میں چاروں طرف اسلامی پرچم دے کر روانہ کر دیا تاکہ وہ مرتدین کو راہ راست پر لائیں اور انہیں حق بات سمجھانے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں،اگر نرمی کارگر ثابت نہ ہو تو بزور شمشیر اسلام کی حقانیت ان کے دلوں میں بٹھائیں۔
صورت حال یہ تھی کہ جملہ مرتدین میں سے مسیلمہ کذاب کا قبیلہ بنو حنیفہ جنگ و جدل کے اعتبار سے انتہائ طاقتور اور تعداد کے اعتبار سے بہت زیادہ تھا۔ مسیلمہ کذاب کی قوم اور اس کے حلیفوں میں سے چالیس ہزار تجربہ کار جنگجو ایک جمع ہو گئے۔ ان میں اکثریت نے مسیلمہ کذاب کی پیروی محض قومی عصبیت کی بنا پر کی۔ ان میں سے ایک شخص تو یہ بات کہتا ہوا بھی سنا گیا۔
میں صمیم دل سے اقرار کرتا ہوں کہ مسیلمہ کذاب جھوٹا ہے اور محمد ﷺ سچے ہیں، لیکن ربیعہ قبیلہ کا جھوٹا شخص ہمیں مضر قبیلے کے سچے سے زیادہ عزیز ہے۔
ہوا یہ کہ مسیلمہ کذاب نے مسلمانوں کے لشکر کو شکست دے دی جس نے عکرمہ ( رضی اللہ عنہ) بن ابو جہل کی قیادت میں اس پر چڑھائ کی تھی، اس لشکر کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس کے بعد حضرت صدیق اکبر ( رضی اللہ عنہ) نے دوسرا لشکر حضرت خالد بن ولید ( رضی اللہ عنہ) کی قیادت میں روانہ کیا، یہ لشکر اسلام انصار و مہاجرین کے تجربہ کار مجاہدین پر مشتمل تھا۔ ان روشن چہروں میں حضرت براء بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔
علاقہ نجد کے ایک مرکزی مقام یمامہ میں ان دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ تھوڑی ہی دیر میں مسیلمہ کذاب اور اس کی فوج کاپلہ بھاری ہوگیا۔ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ اپنے مورچوں سے پیچھے ہٹنے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئ کہ مسیلمہ کے ساتھی حضرت خالد بن ولید ( رضی اللہ عنہ) کے خیمے میں داخل ہو گئے۔ خیمے کی رسیاں کاٹ دیں قریب تھا کہ وہ آپ کی زوجہ محترمہ کو قتل کر دیتے، لیکن ان میں ایک شخص نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔
اس موقع پر مسلمانوں نے شدید خطرہ محسوس کیا اور انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ اگر مسیلمہ کذاب سے مقابلہ میں وہ شکست کھا گئے تو پھر آج کے بعد اسلام کی سر بلندی کے لئے کوئ بھی سر نہ اٹھا سکے گا اور جزیرہ عرب میں اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت کرنے والا کوئ نہ ہوگا۔
حضرت خالد بن ولید ( رضی اللہ عنہ) نے فوری طور پر اپنے لشکر کو ازسر نو منظم کیا۔ مہاجرین و انصار کی الگ الگ گروپ بندی کی اور پھر ہر خاندان کا الگ الگ گروپ بنا کر اس کی قیادت انہیں میں سے ایک فرد کے سپرد کردی۔ تاکہ معرکہ آرائ میں ہر فریق کی کاگردگی معلوم کی جا سکے اور اسکا اندازہ لگایا جاسکے کہ لشکر میں کمزوری کہاں پائ جاتی ہے۔
دونوں فوجوں کے درمیان ایسی تباہ کن اور ہولناک لڑائ شروع ہوئ جس کی مثال پہلی جنگوں میں نہیں ملتی۔ مسیلمہ کذاب کی فوج میدان جنگ میں جم کر لڑی اور اسے اس کی پرواہ نہ تھی کہ فوجیوں کی کثیر تعداد تہہ تیغ ہو رہی ہے۔
مسلمان فوج نے اس مقام پر بہادری کے ایسے ایسے جوہر دکھائے کہ اگر انہیں اکھٹا کر دیا جائے تو ایک دلچسپ داستان جہاد مرتب ہوجائے۔
انصار کے علم بردار حضرت ثابت بن قیس ( رضی اللہ عنہ) نے اس طرح کیا کہ اپنے بدن کو خوشبو لگا کر کفن پہن لیا اور نصف پنڈلیوں تک ایک گڑھا کھود کر اس میں جم کر کھڑے ہوگئے۔ تاکہ پرچم اسلام کو تادم آخر لہراتے رہیں، یہاں تک کہ انہوں نے جام شہادت نوش کرلیا۔
حضرت عمر بن خطاب( رضی اللہ عنہ) کے حقیقی بھائ جناب زید بن خطاب ( رضی اللہ عنہ) بلند آواز سے کہتے ہیں۔
لوگو ! جم کر دشمن کا مقابلہ کرو۔ مقابلے میں آنے والے کو پسپا کر دو لوگو ! اللہ کی قسم، میں آج اس بات کے علاوہ کوئ اور بات تم سے نہیں کروں گا، یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب شکست کھا جائے، یا میں بذات خود اللہ تعالی کی راہ میں شہید ہو کر اپنی شہادت کو اللہ تعالی کے حضور بطور حجت پیش کردوں۔ یہ کہہ کر وہ دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور میدان جنگ میں دادشجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے۔
ایک جانب حضرت ابو حذیفہ ( رضی اللہ عنہ) کا غلام حضرت سالم ( رضی اللہ عنہ) مہاجرین کا پرچم اٹھائے ہوئے تھا۔ قوم کو اندیشہ تھا کہ کہیں میدان جنگ میں اس کے قدم ڈگمگانہ جائیں۔ بعض مجاہدین نے تو اس بات کا اظہار بھی کردیا کہ اے سالم ( رضی اللہ عنہ) ہمیں اندیشہ ہے کہ میدان میں اگر دشمن کی جانب سے کوئ ہم پہ مصیبت نازل ہوئ تو وہ آپ کی طرف سے ہوگی۔
انہوں نے فرمایا: آپ فکر نہ کریں، میں انشاء اللہ قطعاً کمزوری نہیں دکھاؤں گا۔ میں اپنی طرف سے انتہائ ذمہ داری کا ثبوت دوں گا۔ پھر انہوں نے بڑی بہاردی سے دشمنوں پر حملہ کیا اور میدان کارزار میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، لیکن شجاعت کے یہ تمام واقعات حضرت براء بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) کی شجاعت کے سامنے معمولی معلوم ہوتے ہیں۔
حضرت خالد بن ولید ( رضی اللہ عنہ) نے جب یہ دیکھا کہ لڑائ بڑی خطرناک صورت حال اختیار کر چکی ہے، تو حضرت براء بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: اے نوجون انصار ! قوم کی مدد کے لئے آگے بڑھو ! تو حضرت براء ( رضی اللہ عنہ) نے قوم کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئ بھی اب مدینہ واپس جانے کی نہ سوچے۔ یوں سمجھو کہ آج سے تمہارے لئے مدینہ ختم۔
بس اب تمہارے لئے ایک اللہ اور جنت ہے۔ یہ کہہ کر نعرہ تکبیر کہتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے، تلوار سے گردنیں اڑاتے ہوئےآگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ ایسے زوردار انداز میں حملہ کیا کہ مسیلمہ اور اس کی فوج کے قدم ڈگمگا گئے اور مجبور ہو کر دشمن فوج نے ایک باغیچہ میں پناہ لی۔ یہ باغیچہ بعد میں تاریخ کے اوراق میں باغیچہ موت کے نام سے مشہور ہوا، کیونکہ اس باغیچہ میں بے پناہ مشرکین کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا۔
چونکہ دشمن نے باغ میں داخل ہو کر باغ کا دروازہ بند کرلیا تھا اور بظاہر ان سے مقابلے کی کوئ صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ اس موقع پر حضرت براء بن مالک ( رضی اللہ عنہ) بڑی تیزی اور احتیاط سے ایک ڈھال پہ بیٹھ گئے اور ساتھیوں نے دس نیزوں کے زور سے بڑے ہی ماہرانہ انداز میں اس ڈھال کو اچھال کر باغ کے اندر پھینک دیا۔ حضرت براء بن مالک ( رضی اللہ عنہ) ان دشمنوں پر بجلی بن کر گرے جو ہزاروں کی تعداد میں اس باغ میں پناہ لے چکے تھے۔ انہیں بے دریغ قتل کرتے ہوئے مرکزی دروازے تک پہونچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس معرکہ آرائ میں آپ کے جسم پر اسی سے زائد تیروں اور تلوروں کے زخم لگ چکے تھے۔ مسلمانوں نے دروازے سے داخل ہو کر مسیلمہ کذاب کی فوج پر زور دار حملہ کر دیا، دیواروں کی اوٹ میں جو پناہ لئے بیٹھے تھے، ان سب کو قتل کردیا۔ تقریباً بیس ہزار افراد قتل کرکے مسلمان مجاہدین مسیلمہ کذاب تک پہونچنے میں کامیاب ہو گئے اور بلآخر اسے بھی جہنم واصل کردیا۔
حضرت براء بن مالک ( رضی اللہ عنہ) کو اٹھا کر خیمے میں لایا گیاتاکہ وہاں پر ان کا علاج کیا جائے، حضرت خالد بن ولید ( رضی اللہ عنہ) بھی ان کے علاج معالجہ کی خاطر وہیں ٹھہرے رہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے انہیں شفا عطا فرمادی اور لشکر اسلام کو ان کے ہاتھوں بفضلہ تعالی فتح نصیب ہوئ۔
حضرت براء بن مالک ( رضی اللہ عنہ) ہمیشہ شہادت کا شوق اپنے دل میں بہائے رکھتے۔ باغیچہ موت میں بھی شہادت نصیب نہ ہوئ۔ وہ یکے بعد دیگرے جنگوں میں شریک ہوتے رہے تاکہ شہادت کا شرف حاصل کر سکیں، جو ان کی سب سے بڑی دلی تمنا تھی، یہاں تک کہ سرزمین فارس میں جنگ تسترلڑی گئ۔ فارسی فوج ایک مظبوط ترین قلعہ میں محفوظ ہوگئ۔ مسلمان فوج نے ان کا محاصرہ کرلیا۔ ان کے گرد ایسا گھیرا ڈالا جیسے کہ کنگن کلائ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ محاصرہ طویل عرصہ تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ فارسی فوج بری طرح مصیبت میں مبتلا ہوگئ، تو انہوں نے محاصرہ توڑنے کے لئے ایک ترکیب سوچی اور وہ یہ کہہ کہ لوہے کی زنجیروں کو بڑی احتیاط سے قلعہ کی دیوار کے اوپر سے نیچے اتار دیا۔ ان زنجیروں کے ساتھ لوہے کی کنڈیاں گرم کرکے لگائ گئ تھیں جو انگاروں کی طرح دمک رہی تھیں تاکہ وہ قلعے کی دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے مسلمان مجاہدین کے جسموں میں پیوست ہوجائیں اور انہیں زندہ یا مردہ حالت میں اوپر اٹھایا جائے۔ ان میں ایک کنڈی حضرت براء بن مالک ( رضی اللہ عنہ) کے بھائ حضرت انس بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) کے جسم میں پیوست ہوگئ، دشمن تیزی سے انہیں اوپر اٹھا نے لگا۔ حضرت براء نے تیزی سے جست لگائ اور اس زنجیر کو قابو کر لیا جو ان کے بھائ کو اٹھا لے جارہی تھی۔ کنڈی کو ان کے جسم سے نکالنے کی کوشش میں ان کا ایک ہاتھ بھی جھلس گیا، لیکن انہوں نے اس کی کوئ پرواہ نہ کی۔ بلآخر ان کی محنت کارگر ثابت ہوئ۔ بڑی جفاکشی سے اپنے بھائ کو اس مصیبت سے چھڑانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کشمکش میں ان کا ہاتھ بری طرح متاثر ہو چکا تھا۔
اس معرکہ آرائ میں حضرت براء بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) نے اللہ سبحانہ و تعالی سے شہادت کی التجا کی۔ اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول کر لی اور آپ دیدار الہی کا شوق دل میں لئے جام شہادت نوش کر گئے۔
اللہ سبحانہ و تعالی حضرت براء بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) کے چہرے کو جنت میں روشن کرے اور روز آخرت نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رفاقت سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کرے۔
اللہ تعالی ان سے راضی اور وہ اللہ تعالی سے راضی۔
حضرت براء بن مالک انصاری ( رضی اللہ عنہ) کے مفصل حالات زندگی معلوم کر نے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
1 الاصابہ فی تمییز الصحابہ 620
2 الاستیعاب 2 / 137
3 الطبقات الکبری 3 / 441
4 تاریخ طبری
5 الکامل فی التاریخ
6 سیرت ابن ہشام
7 حیاۃ الصحا بہ
8 قادۃ فتح فارس
🌴بارک اللہ فیکم🌴
===========> ختم شدہ ۔۔
طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی
طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی
0 Comments