سن نبوی ١٠ حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات



                 
                         سیرت النبی ﷺ

                  

                                ﷽  

🔻سنہ١٠ نبوی حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات🔻  
         

     أنحضرت ﷺ اب شعب ابی طالب سے نکلے تھے اور چند روز قریش کے جور و ظلم سے امان ملی تھی کہ ابوطالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوگیا۔

     ابوطالب کی وفات کے وقت حضرت انحضرتﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے ، ابو جہل اور عبد الله بن ابی امیہ پہلے سے موجود تھے۔ آپ نے فرمایا:مرتے مرتے (لا اله الا الله) کہ لجیے کہ میں خدا کے
ہاں آپ کے ایمان کی شہادت دوں ۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ نے کہا: ابوطالب! کیا تم عبدالمطلب کے دین
سے پھر جاؤ گے۔ بالآخر ابوطالب نے کہا: میں عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں ۔‘‘ پھر آنحضرتﷺ کی طرف خطاب کر کے کہا: میں وہ کلمہ کہہ دیتا لیکن قریش کہیں گے کہ موت سے ڈر گیا۔ آپﷺ نے فرمایا: میں آپ کے لئے دعائے مغفرت کروں گا جب تک کہ خدا بھی اس سے منع نہ کردے۔

    یہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ مرتے وقت ابوطالب کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ حضرت عباس نے (جو اس وقت تک کافر تھے) کان لگا کر سنا تو آنحضرت ﷺ سے کہا کہ تم نے جس کلمہ کے لئے کہا تھا ابوطالب وہی کہہ رہے ہیں۔ اس بنا پر ابو طالب کے اسلام کے متعلق اختلاف ہے۔
لیکن چونکہ بخاری کی روایت عموما صحیح مانی جاتی ہے۔ اس لئے محدثین زیادہ تر ان کے کفر ہی کے قائل ہیں۔

    لیکن محدانہ حیثیت سے بخاری کی یہ روایت چنداں قابل حجت نہیں کہ اخیر راوی مسیب ہیں ۔ جو فتح مکہ میں اسلام لائے اور ابوطالب کی وفات کے وقت موجود نہ تھے۔ اسی بنا پر علامہ عینی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ روایت مرسل ہے۔ ابن اسحاق کے سلسلہ روایت میں عباس بن عبد الله بن معبد اور عبداللہ بن عباس ہیں۔ یہ دونوں ثقہ ہیں۔ لیکن بیچ کا ایک راوی یہاں بھی رہ گیا ہے، اس بنا پر دونوں
روایتوں کے درجه استناد میں چنداں فرق نہیں۔

    ابو طالب نے انحضرتﷺ کے لئے جو جان نثاریاں کیں، اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ وہ اپنے جگر گوشوں تک کو آپ ﷺ پر نثار کرتے تھے۔ آپﷺ کی محبت میں تمام عرب کو اپنا دشمن بنا لیا۔
آپ ان کی خاطر حصور ہوئے، فاقے اٹھائے ، شہر سے نکالے گئے ، تین تین برس تک آب و دانہ بند رہا، کیا یہ محبت ، یہ جوش، یہ جان نثاریاں سب ضائع جائیں گی؟

    ابوطالب، انحضرت ﷺ سے ۳۵ برس عمر میں بڑے تھے ، رسول اللہﷺ کو ان سے نہایت محبت تھی ، ایک دفعہ وہ بیمار پڑے، انحضرتﷺ ان کی عیادت کے لئے گئے تو انہوں نے کہا: بھتیجیے ! جس خدا نے تجھ کو پیمبر بنا کر بھیجا ہے اس سے دعا نہیں مانگتا کہ مجھ کو اچھا کردے‘۔ آپ نے دعا کی اور وہ اچھے ہو گئے، آنحضرت ﷺ سے کہا: خدا تیرا کہنا مانتا ہے، آپ ﷺنے فرمایا کہ آپ بھی اگر خدا کا کہنا مانیں تو وہ بھی آپ کا کہنا مانے۔

    ابوطالب کی وفات کے چند ہی روز بعد حضرت خدیجہ نے بھی وفات پائی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے ابوطالب سے پہلے انتقال کیا۔ اب آپ ﷺ کے مددگار اور غمگسار دونوں اٹھ گئے ۔ صحابہ خود اپنی حالت میں مبتلا تھے ، یہی زمانہ ہے جو اسلام کا سخت ترین زمانہ ہے اور خود انحضرتﷺ اور اس سال کو عام الحزن ( سال غم ) فرمایا کرتے تھے حضرت خدیجہ نے رمضان ١٠ نبوی میں وفات کی ، ان کی عمر ٦۵ برس کی تھی، مقام حجون میں دفن کی گئیں، آنحضرت ﷺ خود ان کی قبر میں اترے۔ اس وقت تک نماز جناز مشروع نہیں ہوئی تھی۔

     ابوطالب اور حضرت خدیجہ کے اٹھ جانے کے بعد قریش کو کس کا پاس تھا، اب وہ نہایت بے رحمی و بیباکی سے آنحضرتﷺ کو ستاتے تھے، ایک دفعہ آپﷺ راہ میں جارہے تھے ، ایک شقی نے آکر فرق مبارک پر خاک ڈال دی۔ اسی حالت میں آپ ﷺ گھر میں تشریف لائے ، آپﷺ کی صاحبزادی نے دیکھا تو پانی لے کر آٓئیں ۔ آپﷺ کا سر دھوتی تھیں اور جوش محبت سے روتی جاتی تھیں، آپﷺ نے فرمایا ”جان پدر! رو نہیں ، خدا تیرے باپ کو بچا لے گا۔

     اہل مکہ سے قطعی نا امیدی تھی ۔ اس لئے آپﷺ نے ارادہ فرمایا کہ طائف تشریف لے جائیں اور وہاں دعوت اسلام فرمائیں ۔ طائف میں بڑے بڑے امراء اور ارباب اثر رہتے تھے۔ ان میں عمیر کا خاندان رئیس القبائل تھا۔ یہ تین بھائی تھے عبد یا لیل ، مسعود، حبیب، انحضرتﷺ ان کے پاس گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ ان تینوں نے جو جواب دیئے وہ نہایت عبرت انگیز تھے۔ ایک نے کہا: اگر تجھ کو خدا نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تو کعبہ کا پردہ چاک کررہا ہے۔ دوسرے نے کہا: کیا خدا کو تیرے سوا اور کوئی نہیں ملتا تھا‘‘ تیسرے نے
کہا: میں بہرحال تجھ سے بات نہیں کر سکتا تو اگر سچا ہے تو تجھ سے گفتگو کرنا خلاف ادب ہے اور جھوٹا ہے تو
گفتگو کے قابل نہیں “


     ان بد بختوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، طائف کے بازاریوں کو ابھار دیا کہ آپﷺ کی ہنسی اڑائیں، شہر کے اوباش ہرطرف سے ٹوٹ پڑے، یہ مجمع دورویہ صف باندھ کر کھڑا ہوا، جب آپﷺ ادھر سے گزرے تو آپﷺ کے پاؤں پر پتھر مارنے شروع کر دیے، یہاں تک کہ آپﷺ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں، جب آپﷺ زخموں سے چور ہو کر بیٹھ جاتے تو بازو تھام کر کھڑا کر دیتے، جب آپﷺ پھر چلنے لگتے تو پتھر برساتے،
ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور تالیاں بجاتے جاتے۔ آخر آپﷺ نے ایک باغ میں انگور کی ٹٹیوں میں پناہ لی ۔ یہ باغ عقبہ بن ربیعہ کا تھا جو باوجود کفر کے شریف الطبع اور نیک نفس تھا، اس نے آپﷺ کو اس حالت میں دیکھا تو اپنے غلام کے ہاتھ جس کا نام عداس تھا انگور کا خوشہ ایک کشتی میں رکھ کر بھیجا۔ اس سفر میں زید بن حارثہ بھی ساتھ تھے۔

    رسول اللہ ﷺ نے طائف سے پھر کر چند روز نخلہ میں قیام کیا، پھر حراء میں تشریف لائے اور مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا کہ مجھ کو اپنی حمایت میں لے سکتے ہو ،عرب کا شعار تھا کہ جب کوئی ان سے طالب حمایت ہوتا تو گو دشمن ہوتا انکار نہیں کر سکتے تھے مطعم نے یہ درخواست منظور کی بیٹوں کو بلا کر کہا کہ " ہتھیار لگا
کر حرم میں جاؤ" رسول اللہﷺ مکہ میں تشریف لائے مطعم اونٹ پر سوار ساتھ تھا حرم کے پاس آیا تو پکارا کہ میں نے محمدﷺ کو پناہ دی ہے۔ انحضرتﷺ حرم میں آئے نماز ادا کی اور دولت خانہ کو واپس گئے مطعم اور اس کے بیٹے آپﷺ کو تلواروں کے سایہ میں لائے۔

مطعم نے کفر کی حالت میں غزوہ بدر سے پہلے وفات کی ، حضرت حسان جو دربار رسالت کے شاعر تھے، انہوں نے مرثیہ لکھا، زرقانی نے یہ مرثیہ بدر میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں کچھ مضائقہ نہیں مطعم کا یہ کام بے شبہ مدح کا حق تھا لیکن آجکل کے مسلمان حضرت حسان اور زرقانی سے زیادہ شیفتہ اسلام ہیں، اس لئے معلوم نہیں حضرت حسان کا یہ فعل آج بھی پسند کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

 ≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠

❶سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد 
      

              🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments