ہجرت حبشہ سن نبوی٥



                        سیرت النبی ﷺ

                  

                          
                                    ﷽

                      🔴ہجرت حبشہ ۵ نبوی🔴

    قریش کے ظلم و تعدی کا بادل جب پیہم برس کر نہ کھلا تو رحمت عالم نے جان نثاران اسلام کو ہدایت کی۔ کہ حبش کو ہجرت کر جائیں حبش قریش کا قدیم تجارت گاہ تھا، وہاں کے حالات پہلے سے معلوم تھے،اہل عرب حبش کے فرمان روا کو نجاشی کہتے تھے اور اس کے عدل و انصاف کی عام شہرت تھی۔

    جان نثاران اسلام ہر قسم کی تکلیف جھیل سکتے تھے اور ان کا پیمانۂ صبر لبریز نہیں ہوسکتا تھا لیکن مکہ میں رہ کر فرائض اسلام کا آزادی سے بجا لانا ممکن نہ تھا اس وقت تک حرم کعبہ میں کوئی شخص بلند آواز سے قرآن نہیں پڑھ سکتا تھا عبداللہ بن مسعود جب اسلام لائے تو انہوں نے کہا میں اس فرض کو ضرور ادا کروں گا لوگوں نے منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے حرم میں گۓ اور مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر سورۃ الرحمٰن پڑھنا شروع کی کفار ہر طرف ٹوٹ پڑے اور ان کے منہ پر طمانچے مارنے شروع کئے اگرچہ انہوں نے جہاں تک پڑھنا تھا پڑھ کر دم لیا لیکن واپس گئے تو چہرہ پر زخم کے نشان لے کر گئے

            حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جاہ و اقتدار میں دیگر قریش سے کم نہ تھے لیکن آواز سے قرآن نہیں پڑھ سکتے تھے اور اسی بنا پر ایک بار ہجرت کے لئے آمادہ ہو گئے

              اس کے علاوہ ہجرت سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی تھا کہ جو شخص اسلام لے کر جہاں جاتا وہاں اسلام کی شمعیں خود بخود پھیلتی تھی

            غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما سے اول اول گیارا مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی جن کے نام حسب ذیل ہیں

❶ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ محترمہ
❷ حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا کے جو رسول اللہﷺ کی صاحبزادی تھیں
❸ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ
❹ مع اپنی زوجہ کے جن کا نام حضرت سہل رضی اللہ عنہا (بنت سہیل﴾ تھا ان کا باپ عتبہ قریش کا مشہور سردار تھا لیکن چونکہ سخت کافر تھا اس لئے ان کو گھر چھوڑنا پڑا
❺ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی اور مشہور صحابی تھے
❻ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہاشم کے پوتے تھے
❼ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مشہور صحابی اور عشرہ مبشرہ میں شمار کیے جاتے ہیں قبیلہ زہرا سے تھے اور اس بنا پر آنحضرت ﷺ کے ننہالی رشتے دار تھے
❽ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ﴿ بن عبدالاسد ﴾ مخزومی 
❾ مع زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا یہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا جو ابو سلمہ کے مرنے کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں
❿ حضرت عثمان بن مظعون مشہور صحابی ہیں 
❶❶ حضرت عامر بن ربیعہ
⑫ مع اپنی زوجہ کے جن کا نام حضرت لیلیٰ رضی اللہ عنہا بنت ابی حشمہ تھا سابقین اولین میں ہیں بدر میں بھی شریک تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سفر حج میں ان کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا تھا_
 ❶ حضرت ابو برہ بن ابی رہم یا ان کی ماں برہ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی  تھیں، یہ سابقين في الاسلام میں
ہیں، حافظ ابن حجر نے رحمۃ اللہ علیہ  نے اصابہ میں لکھا ہے کہ ہجرت ثانیہ میں گئے تھے۔
 حضرت ابو حاطب رضی اللہ عنہ عثمان بن عمرو سہیل بن بیضاء بدر میں شریک تھے، امام زہری کا بیان ہے کہ سب سے پہلے  ان ہی نے ہجرت کی ہے۔
 حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ مشہور صحابی اور مجتہدین صحابہ میں داخل ہیں۔

              ان لوگوں نے 5 نبوی ماه رجب میں سفر کیا۔ حسن اتفاق ہے کہ جب یہ بندرگاہ پر پہنچے تو وہ تجارتی جہاز حبش کو جا رہے تھے، جہاز والوں نے سستے کرایہ پر ان کو بٹھا لیا ہر شخص کو صرف 5 درہم دینا پڑے۔ قریش کو خبر ہوئی تو بندرگاہ تک تعاقب میں ائے۔ لیکن موقع نکل چکا تھا۔




عام مؤرخین کا خیال ہے کہ ہجرت انہی لوگوں نے کی جن کا کوئی حامی اور مددگار نہ تھا لیکن فہرست مہاجرین میں ہر درجہ کے لوگ نظر آتے ہیں ۔ حضرت عمان رضی اللہ عنہ بنو امیہ سے تھے جو سب سے زیادہ صاحب اقتدار خاندان تھا۔ متعدد بزرگ مثلا : زبیر اور مصعب رضی اللہ عنہا خود انحضرت ﷺ کے خاندان سے ہیں۔ عبدالرحمن بن عوف اور ابو برہ رضی اللہ عنہا معمولی لوگ نہ تھے، اسی بنا پر زیادہ ترین قیاس یہ ہے کہ قریش کا ظلم و ستم بے کسوں پر محدود نہ تھا ، بلکہ بڑے بڑے خاندان والے بھی ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے۔ 

              ایک عجیب بات یہ ہے کہ جو لوگ سب سے زیادہ مظلوم تھے اور جن کو انگاروں کے بستر پر سونا پڑا تھا، یعنی حضرت بلال ، عمار ، یاسر رضی اللہ عنہم وغیرہ ان لوگوں کا نام مہاجرین کی فہرست میں نظر نہیں آتا۔ اس لئے یا دو انکی بے سروسامانی اس حد تک پہنچی تھی کہ سفر کرنا بھی ناممکن تھا یا یہ کہ درد کی لذت آشنا تھے اور اس لطف کو چھوڑ نہ سکتے تھے

     "دلم زجور تو اسودہ است ومی نالم کہ غیرپے نہ برد لذّت خدنگ ترا"

     نجاشی کی بدولت مسلمان حبشہ میں امن و امان سے زندگی بسر کرنے لگے لیکن قریش یہ خبریں سن سن کر پیچ و تاب کھاتے تھے آخر یہ رائے ٹھہری کہ نجاشی کے پاس سفارت بھیجی جائے کہ ہمارے مجرموں کو اپنے ملک سے نکال دو عبداللہ بن ربیعہ ، عمرو بن العاص (فاتح مصر) اس کام کے لیے منتخب ہوئے نجاشی اور اس کے درباریوں میں سے ایک ایک کے لئے گراں بہا تحفہ مہیا کئے گئے اور نہایت سروسامان سے سفارت حبش کو روانہ ہوئی، یہ سفراء نجاشی سے پہلے درباری پادریوں سے ملے اور ان کی خدمت نذریں پیش کی اور کہا کہ ہمارے شہر کے چند نادانوں نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا ہے ہم نے ان کو نکال دیا تو آپ کے ملک میں بھاگ آئے کل ہم بادشاہ کے درمیان میں ان کے متعلق درخواست پیش کریں، آپ بھی ہماری تائید فرمائیں ، دوسرے دن سفراء دربار میں گئے اور نجاشی سے درخواست کی کہ ہمارے مجرم ہم کو حوالے کردیئے جائیں درباریوں نے بھی تائید کی نجاشی نے مسلمانوں کو بلا بھیجا اور کہا تم نے یہ کونسا دین ایجاد کیا ہے جو نصرانیت اور بت پرستی دونوں کی مخالف ہے

          مسلمانوں نے اپنے گفتگو کرنے کے لئے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی) کو انتخاب کیا انہوں نے اس طرح تقریر شروع کی:

    "ایھا الملک! ہم لوگ ایک جاھل قوم تھے بت پوجتے تھے مردار کھاتے تھے بدکاریاں کرتے تھے ہمسایوں کو ستاتے تھے، بھائ بھائ پر ظلم کرتا تھا لوگ کمزوروں کو کھاجاتے تھے اس اثنا میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی شرافت اور صدق و دیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دے سچ بولے خونریزی سے باز آئے یتیموں کا مال نہ کھائے  ہمسایوں کو آرام دے عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں نماز پڑھیں روزے رکھیں زکوۃ دیں ہم اس پر ایمان لائے شرک اور بت پرستی چھوڑ دے اور تمام اعمال بد سے باز آئے اس جرم پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ اسی گمراہی میں واپس آجائیں"

    نجاشی نے کہا: " جو کلام الہی تمہارے پیغمبر پر اترا ہے کہیں سے پڑھو" جعفر رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم کی چند آیتیں پڑھیں- نجاشی پر رقت طاری ہوئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے پھر کہا خدا کی قسم یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پرتو ہے یہ کہہ کر سفرائے قریش سے کہا تم واپس جاؤ میں ان مظلوموں کو ہرگز واپس نہ دوں گا"-

دوسرے دن عمر بن عاص نے پر دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی سے کہا حضور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت کی اعتقاد رکھتے ہیں نجاشی نے مسلمانوں کو بلا بھیجا کہ اس سوال کا جواب دیں ان لوگوں کو تردد ہوا کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں تو نجاشی عیسائی ہے ناراض ہو جائے گا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کچھ ہو ہم کو سچ بولنا چاہیے

  غرض یہ لوگ دربار میں حاضر ہوئے نجاشی نے کہا تم لوگ عیسی ابن مریم کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہو حضرت جعفر نے کہا ہمارے پیغمبر نے بتایا ہے کہ عیسی علیہ السلام خدا کا بندہ اور پیغمبر اور کلمۃ اللہ ہے نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھالیا اور کہا واللہ جو تم نے کہا عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں" بطریق جو دربار میں موجود تھے نہایت برہم ہوئے نتھنوں سے خرخراہٹ کی آواز آنے لگی نجاشی نے ان کے غصے کی کچھ پرواہ نہ کی اور قریش کے سفیر بالکل نا کامیاب آئے-




     اسی اثنا میں کسی دشمن نے نجاشی کے ملک پر حملہ کیا نجاشی اس کے مقابلے کے لئے خود گیا صحابہ نے مشورہ کیا کہ ہم میں سے ایک شخص جائے اور خبر بھیجتا رہے کہ اگر ضرورت ہو تو ہم بھی نجاشی کی مدد کے لئے آئیں، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اگرچہ سب سے زیادہ کم سن تھے لیکن انہوں نے اس خدمت کے لئے اپنے کو پیش کیا مشک کے سہارے دریائے نیل تیر کر رزمگاہ میں پہنچے ادھر صحابہ رضی اللہ عنہم نجاشی کی فتح کے لئے خدا سے دعا مانگتے تھے چند روز کے بعد زبیر واپس آئے اور خوش خبری سنائی کہ نجاشی کو خدا نے فتح دی

    حبشہ میں کم و بیش ٨٣ مسلمان ہجرت کرکے گئے چند روز آرام سے گزرنے پائے تھے کہ یہ خبر مشہور ہوئی کہ کفار نے اسلام قبول کر لیا ہے یہ سن کر اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم نے مکہ معظمہ کا رخ کیا لیکن شہر کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے اس لئے بعض لوگ واپس چلے گئے اور اکثر چھپ چھپ کر مکہ میں آگئے یہ روایت ( طبری جلد 3 صفحہ 1193 - 1194 ) اور اکثر تاریخوں میں مذکور ہیں اور ممکن ہے کہ صحیح ہو لیکن ان کتابوں میں اس خبر کے مشہور ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم میں ایک دفعہ نماز ادا کی کفار بھی موجود تھے جب آپ نے یہ آیت پڑھی: 

    ﴿ ومنوة الثالثة الاخری ﴾ <٥٣/النجم ٢٠ > تو شیطان نے آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلوا دیے

"  تلک الغرانیق العلی و ان شفاعتھن لترتجٰی "

   "یعنی ( یہ بت ) معظم و محترم ہے اور ان کی شفاعت مقبول ہے"

     اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور تمام کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی اس روایت کا یہ آخری حصہ کے چند کافروں کے سوا تمام جن و انس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دفعہ سجدہ کیا صحیح ہے جیسا کی صحیح بخاری میں ہے: باب قولہ ( فاسجدوا للہ واعبدوا ) <٥٣/النجم: ٦٢> مذکور ہے، مگر باقی حصہ بے ہودہ اور ناقابل ذکر ہے اور اکثر کبار محدثین مسلم، بیہقی، قاضی عیاض، علامہ عینی، حافظ منذری، علامہ نووی، نے اس کو باطل اور موضوع لکھا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ بہت سے محدثین نے اس روایت کو بہ سند نقل کیا ہے ان میں طبری، ابن ابی حاتم، ابن المنذر، ابن مردویہ، ابن اسحاق، موسی بن عقبہ، ابومعشر، شہرت عام رکھتے ہیں اس سے بڑھ کر تعجب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر جن کے کمال فن حدیث پر زمانہ کا اتفاق ہے اس روایت کی صحت پر اسرار ہے چنانچہ لکھتے ہیں:

    '' وقد ذکرنا ان ثلاثة اسانید منھا علی شرط الصحیح وھی مراسیل یحتج بمثلہا من یحتج بالمراسیل''

    "ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ اس روایت کی تین سندیں صحیح کی شرط کے موافق ہے اور یہ روایتیں مرسل ہے اور ان سے وہ لوگ استدال کر سکتے ہیں جو مرسل روایتوں کے قائل ہیں"

    حقیقت یہ ہے کہ کفار کی عادت تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو شور مچاتے اور اپنے فقرے ملا دیتی، قرآن مجید کی آیت ذیل میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے:

   ( لا تسمعوا لهذا القران والغوا فيه لعلكم تغلبون ) (حم سجده ٢٦) 

   "اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں گڑبڑ کر دو، شاید تم غالب آؤ"- 

    قریش کا معمول تھا کہ جب کعبہ کا طواف کرتے تو یہ فقرے کہتے جاتے:

   " واللات والعزي ومناة الثالثة الاخري فانهن الغرانيق العلي وان شفاعتهن لترتجي " 

   " لات اور عزیٰ اور تیسرے بت منات کی قسم یہ بلند و بزرگ ہے اور ان کی شفاعت کی امید ہے "

     آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورہ والنجم کی وہ آیتیں پڑھیں تو کسی شیطان کافر نے یہی فقرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میں ملاکر پڑھدیے ہونگے، دور کے لوگوں کو ( کفار میں سے ) شبہ ہوا ہوگا کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ الفاظ ادا کیے اس واقعہ کا چرچا جو مسلمانوں میں ہوا ہوگا تو لوگوں نے کہا ہوگا کہ کسی شیطان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہ فقرے کہ لئے ہونگے اس واقعہ نے روایتوں میں صورت بدل بدل کر یہ صورت اختیار کرلیں کہ شیطان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلوا دیے اور چونکہ عام مسلمان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ شیطان دوسرے شخص کی زبان سے بول سکتا ہے اس لیے راویوں نے اس روایت کو تسلیم کر لیا یہ صرف قیاس نہیں بلکہ اگلے محققین نے بھی تصریح کی ہے، مواہب میں ہے:

    " قیل انه لما وصل الي قوله ومناة الثالثة الاخري خشي المشركون ان ياتي بعدها بشيء يذم الهتهم فبادروا الي ذالك الكلام فخلطوه في تلاوة النبي صلي الله عليه وسلم علي عادتهم في قولهم لا تسمعوا لهذا القران والغوا فيه او المراد بالشيطان شيطان الانس "



       " بعض لوگوں نے کہا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے: 
   ( ومنوة الثالثة الاخرى ) تو مشریکوں کو یہ ڈر پیدا ہوا کہ اب ان کے معبودوں کی کچھ برائی کا بیان ہوگا اس بنا پر انہوں نے جھٹ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت میں یہ فقرے غلط کرکے پڑھ دیے جیسا کہ ان کی عادت تھی کہ کہتے ہیں کہ قرآن پر کان نہ لگاؤ اور اس میں گڑبڑ مچا دو- یا شیطان سے شیطان آدمی مراد ہے"

      جو لوگ حبش سے واپس آگئے تھے اہل مکہ نے اب ان کو اور زیادہ ستانا شروع کیا اور اس قدر اذیت دی کہ وہ دوبارہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، لیکن اب ہجرت کچھ آسان نہ تھی، کفار نے سخت مزاحمت کی تاہم جس طرح ہو سکا بہت سے صحابہ جن کی تعداد تقریبا سو تک پہنچتی ہے مکہ سے نکل گئے اور حبش میں اقامت اختیار کی، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو کچھ لوگ فورا واپس چلے آئے اور جو لوگ رہ گئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ٧ ہجری کو بلا لیا-

      کفار کی ایذا و تعدی اب کمزوروں اور بے کسوں پر محدود نہ تھی حضرت ابوبکر کا قبیلہ معزز اور طاقتور قبیلہ تھا ان کے یاور اور انصار بھی کم نہ تھے تاہم وہ بھی کفار کے ظلم سے تنگ آگئے اور بالآخر حبشہ کی ہجرت کا ارادہ کیا برک الغماد جو مکہ معظمہ سے یمن کی سمت پانچ دن کی راہ ہے وہاں تک پہنچے تھے کہ ابن الدغنہ سے ملاقات ہو گئی جو قبیلہ قارہ کا رئیس تھا، اس نے پوچھا: کہاں؟  حضرت ابوبکر نے کہا میری قوم مجھ کو رہنے نہیں دیتی چاہتا ہوں کہ کہیں الگ جا کر خدا کی عبادت کروں، ابن الدغنہ نے کہا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم جیسا شخص مکہ سے نکل جائے میں تم کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ واپس آئے ابن الدغنہ مکہ پہنچ کر تمام سرداران قریش سے ملا اور کہا کہ ایسے شخص کو نکالتے ہو جو مہمان نواز ہے مفلسوں کا مددگار ہے رشتے داروں کو پالتا ہے مصیبت میں کام آتا ہے قریش نے کہا لیکن شرط یہ ہے کہ ابوبکر نمازوں میں چپکے جو چاہے پڑھے آواز سے قرآن پڑھتے ہیں تو ہماری عورتیں اور بچوں پر اثر پڑتا ہے حضرت ابوبکر نے چند روز یہ پابندی اختیار کی لیکن آخر انہوں نے گھر کے پاس ایک مسجد بنا لیں اور اس میں خضوع و خشوع کے ساتھ بآواز قرآن پڑھتے تھے وہ نہایت رقیق القلب تھے قرآن پڑھتے عورتیں اور بچے ان کو دیکھتے اور متاثر ہوتے قریش نے ابن الدغنہ سے شکایت کی اس نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ اب میں تمہارے حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا حضرت ابوبکر نے کہا مجھ کو خدا کی حفاظت بس ییں، میں تمہاری جوار سے استعفیٰ دیتا ہوں-

≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠

سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد ❶ 
      


                     🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹
          

Post a Comment

0 Comments