حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دانشمندی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر کا پینتیسواں (35) سال تھا کہ قریش نے نئے سرے سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی.
وجہ یہ تھی کہ کعبہ صرف قد سے کچھ اونچی چہار دیواری کی شکل میں تھا.
حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے زمانے ہی سے اس کی بلندی ۹ ہاتھ تھی اور اس پر چھت نہ تھی
اس کی تعمیر پر ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا
عمارت خستگی کا شکار ہوچکی تھی اور دیوار یں پھٹ گئی تھیں.
ادھر اسی سال ایک زور دار سیلاب آیا جس کے بہاؤ کا رخ خانہ کعبہ کی طرف تھا.
اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے ڈھ سکتا تھا.
اس لیے قریش مجبور ہوگئے کہ اس کا مرتبہ و مقام برقرار رکھنے کے لیے اسے ازسرِ نو تعمیر کریں.
ان ہی ایام میں ایک رومی جہاز طوفان میں گھِر کر شعیبہ
(جدّہ کا قدیم نام) کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.
یہ اطلاع قریش کو ملی تو انھوں نے جہاز کے تختے کعبہ کی تعمیر کے لیے خرید لئے.
طوفان میں بچنے والوں میں "باقوم" نامی ایک مصری معمار بھی تھا.
اس نے تعمیر کے لئے اپنی خدمات پیش کیں.
مکہ میں بھی ایک بڑھئی تھا جس سے کام لیا جا سکتا تھا.
اس مرحلے پر قریش نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی استعمال کریں گے.
اس میں رنڈی کی اُجرت , سود کی دولت اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے.
سہولت کی خاطر انھوں نے تعمیر کا کام تمام خاندانوں میں تقسیم کیا.
دروازہ والی دیوار کی تعمیر بنی عبد مناف اور بنی زہرہ کے ذمہ ہوئی.
حجر اسود اور رکن یمانی کی درمیانی دیوار کی تعمیر بنی مخزوم و تیم کے سپرد ہوئی اور پچھلی دیوار اٹھانے کا کام بنی سہم اور بنی حمج کے ذمہ ہوا.
بنی عبدالدار , بنی اسد اور بنی عدی نے مل کر حطیم والا رخ بنانے کی ذمہ داری لی.
نئی تعمیر کے لیے پرانی عمارت کو ڈھانا ضروری تھا لیکن پُرانی عمارت کو گرانے سے لوگ ڈر رہے تھے.
اس لئے کہ کچھ ہی عرصہ قبل یمن کا بادشاہ "ابرہہ" ہاتھیوں کو لے کر کعبہ کو ڈھانے کی نیت سے آیا تھا تو اس کا برا انجام ہوا تھا جسے دیکھنے والے لوگ موجود تھے.
بالآخر "ولید بن مغیرہ مخزومی" نے ابتداء کی اور کدال لے کر یہ کہا.
"اے اللہ ! ہم خیر ہی کا ارادہ کرتے ہیں.." اس کے بعد دو کونوں کے اطراف کو کچھ ڈھا دیا.
جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی دوسرے دن ڈھانا شروع کیا اور جب قواعد ابراہیم تک ڈھا چکے تو تعمیر کا آغاز کیا.
جب دیواریں حجر اسود نصب کرنے کے مقام تک اونچی ہوئیں تو قبائل میں سخت جھگڑا پیدا ہوا جو چار پانچ روز تک جاری رہا.
ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ اعزاز اس کو حاصل ہو.
نوبت یہا ں تک پہنچی کہ تلواریں کھنچ گئیں.
عرب میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتا تھا تو پیالہ میں خون بھر کر ان میں انگلیاں ڈبولیتا تھا.
اس موقع پر بھی بعض دعویداروں نے یہ رسم ادا کی.
اس جھگڑے کی وجہ سے چار دن تک کام رُکا رہا.
پانچویں دن قریش کے سب زیادہ معمر شخص "ابو امیہ بن مغیرہ" نے مشورہ دیا کہ کل صبح کو جو شخص سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو وہی ثالث قرار دے دیا جائے.. سب نے یہ رائے تسلیم کی.
دوسرے دن تمام قبائل کے سردار موقع پر پہنچے.
اللہ کی مشیت کہ اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے.
لوگوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ "ھذا الأمین رضیناہ ھذا محمد
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
یہ امین ہیں , ہم ان پر راضی ہیں , یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں..''
ذرا سوچیں اور غور کریں کہ جس عزت اور شرف کو ہر قبیلہ حاصل کرنا چاہتا تھا اور خون سے بھرے ہوئے پیالے میں انگلیاں ڈال ڈال کر مرنے مارنے پر شدید وغلیظ قسمیں کھا چکے تھے اُس عزت وشرف کے معاملہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کرنے میں سب مطمئن ہیں !!
یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کندھے سے ردائے مبارک اتاری اور اپنے دستِ مبارک سے حجر اسود اس کے اندر رکھا.
پھر فرمایا کہ تمام قبائل اپنی چار بڑی جماعتوں میں سے ایک ایک نمائندہ چُن لیں.
پہلی بڑی جماعت نے عتبہ بن ربیعہ , دوسری نے ابوزمعہ , تیسری نے ابوحذیفہ بن مغیرہ اور چوتھی جماعت نے قیس بن عدی کو اپنا نمائندہ منتخب کیا.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان چاروں سے کہا کہ چادر کا ایک ایک کونہ تھام لیں اور اٹھا کر دیوار تک لے چلیں جہاں اسے نصب کرنا ہے.
جب چادر موقع کے برابر آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود کو اٹھا کر نصب کردیا.
یہ گویا اشارہ تھا کہ کعبہ کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ہاتھوں سے نصب ہوگا.
تمام بوڑھے اورتجربہ کار سردارانِ قریش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذہانت , قوتِ فیصلہ اور منصف مزاجی کو دیکھ حیران رہ گئے اور سب نے بالاتفاق احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں..
جب خانہ کعبہ تعمیر ہوگیا تو بُت پرست اہل مکہ نے اس کی آرائش و زیبائش بھی شروع کی.
کعبہ کی دیواروں پر عمارت کے اندر قسم قسم کی تصویریں بنائیں جن میں فرشتے بھی تھے اور مختلف انبیاء کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام بھی تیروں سے فال دیکھتے دکھائے گئے.
نیز بی بی مریم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویریں بھی بنائی گئیں.
اس کے علاوہ کعبہ کے اطراف تین سو ساٹھ بُت بھی رکھے گئے جو تمام ہی قبائل کے تھے.
کعبہ کو اس طرح ایک ہمہ مذہبی "دیوستھان" بنا دینے سے قریش کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے.
بنو جرہم کی شہوت پرستی کو اتنا اُجاگر کیا گیا کہ خانۂ کعبہ کے مجرم بھی دیوتا بنا دئیے گئے.
مثال کے طور پر "نائیلہ بنت دیک" ایک حسین عورت تھی جو نیم عریاں لباس میں اپنے حُسن کی نمائش کرتی اور اسی حالت میں کعبہ کا طواف بھی کرتی.
اسے دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے شیدائیوں کا ہجوم رہتا تھا.
اس کے شیدائیوں میں ایک نوجوان سردار "اساف بن بغی" بھی تھا.
دوران طواف ایک دن اساف بے خود ہوکر دست درازی سے بھی آگے بڑھ گیا.
بنو جرہم کے لوگ جو شراب پئے ہوئے اور بد مست تھے , کعبہ کی اس بے حرمتی پر احتجاج کرنے کے بجائے اساف اور نائیلہ کے حسن و عشق کی داستان فخر سے بیان کرنے لگے.
نہ صرف یہ بلکہ نائیلہ اور اساف کے مرنے کے بعد ان کے بت بنائے اور انہیں عشق و محبت کا مظہر قرار دے کر ان کی پرستش کرنے لگے.
یہ بت چاہ زم زم کے کنارے نصب تھے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کی ان ذلیل حرکتوں کو دیکھتے تو بہت افسردہ اور غمگین ہوجاتے اور ان سے بچنے کے لئے کسی پہاڑ کے دامن میں وقت گذارا کرتے.
مکہ میں اس وقت چند اور سلیم الطبع افراد بھی تھے جنھیں قوم کی یہ حرکتیں پسند نہ تھیں.
وہ اس فکری ہم آہنگی کی بدولت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شریک صحبت رہتے.
ان میں بنو تیم کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو سال چھوٹے تھے.
وہ بھی اپنی قوم کی ذہنی گراوٹ پر افسوس کرتے.
بعثت کے بعد ان لوگوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا.
اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی قریش کے ایک معزز فرد تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانچ سال بڑے تھے لیکن فطری طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم آہنگ تھے.
فتح مکہ کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک دوست ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جن کا پیشہ طب اور جراحی تھا.
بعثت کے بعد قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجنون مشہور کردیا تو وہ آپ کے علاج کی خاطر ملنے کے لئے آئے.
ان کے پوچھنے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند آیاتِ قرآنی کی تلاوت فرمائی جنھیں سن کر وہ ایمان لائے.
حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی بت پرستوں سے نفرت کرتے تھے.. مکہ کے دیگر ہم خیال حضرات میں حضرت عثمان بن عفان , زبیر بن عوام , عبدالرحمن بن عوف , سعد بن ابی وقاص , جعفر بن ابو طالب , عبیداللہ بن جحش اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں.
مکہ سے باہر بنی غفار کے سردار ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی ہم فکر تھے.
عرب کے باہر سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ایران سے تلاش حق میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا.
گو کہ کعبہ تین سو ساٹھ بتوں کی آماجگاہ بن چکا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بُتوں کے آگے سر نہیں جھکایا اور نہ کبھی دیگر رسوم جاہلیت میں شرکت کی.
قریش نے اس بناء پر کہ خود کو عام لوگوں سے ممتاز رہنا چاہئیے , یہ قاعدہ قرار دیا تھا کہ ایام حج میں قریش کے لئے عرفات جانا ضروری نہیں اور یہ کہ جو لوگ باہر سے آئیں وہ قریش کا لباس اختیار کریں ورنہ ان کو عریاں ہو کر کعبہ کا طواف کرنا ہوگا.
چنانچہ اسی بناء پر طواف عریاں کا عام رواج ہوگیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان باتوں میں کبھی اپنے خاندان کا ساتھ نہ دیا.
عہد جاہلیت میں عرب میں افسانہ گوئی کا عام رواج تھا.
راتوں کو لوگ تمام کاموں سے فارغ ہو کر کسی مقام میں جمع ہوتے.
ایک شخص جس کو اس فن میں کمال ہوتا تھا , داستان شروع کرتا تھا.
لوگ بڑے ذوق و شوق سے رات رات بھر سنتے تھے.
بچپن میں ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس جلسہ میں شریک ہونا چاہا تھا لیکن اتفاق سے راہ میں شادی کا کوئی جلسہ تھا, دیکھنے کے لئے کھڑے ہو گئے.
وہیں نیند آگئی.. اٹھے تو صبح ہو چکی تھی.
ایک دفعہ اور ایسا ہی اتفاق ہوا.
چالیس برس کی مدت میں صرف دو دفعہ اس قسم کا ارادہ کیا لیکن دونوں دفعہ ھی توفیق الٰہی نے بچا لیا کہ اللہ کے نبی کی شان ان مشاغل سے بالاتر ہوتی ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب کو کبھی منہ نہ لگایا , آستانوں
کا ذبیحہ نہ کھایا اور بتوں کے
لیے منائے جانے والے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی.
حتیٰ کی لات وعزیٰ کی قسم سننا بھی آپ کو گوارا نہ تھا تاہم لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے.
مثلاً قریش جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے.
یہ فطرت سلیم اور نیک سرشتی کا تقاضا تھا لیکن ایک شریعت کبریٰ کی تاسیس کے لئے کچھ اور درکار تھا.
اسی زمانہ میں دیگر افراد
(ورقہ , زید , عثمان بن حویرث) تلاش حق میں سرگرداں تھے.
ان کے دل میں خیال آیا کہ بتوں کے آگے سر جھکانا حماقت ہے چنانچہ سب مذہب حق کی تلاش کے لئے نکلے لیکن ناکامی ہوئی.
ورقہ اور عثمان عیسائی ہوگئے اور زید یہ کہتے کہتے مر گئے.
"اے خدا ! اگر مجھ کو یہ معلوم ہوتا کہ تجھ کو کس طرح سے پوجنا چاہیے تو میں اسی طریقے سے تجھ کو پوجتا..''
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی. طبیعت تنہائی کی طرف مائل ہونے لگی. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے مزاج کو سمجھتی تھیں.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بے چین فطرت کی آسودگی کے لئے شہر اور ان کے ہنگاموں سے دور پہاڑوں کی طرف نکل جانے لگے..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اب تک کے تاملات نے قوم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذہنی اور فکری فاصلہ بہت وسیع کردیا تھا.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قوم کے لچر پوچ شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بالکل اطمینان نہ تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی واضح راستہ , معین طریقہ اور افراط وتفریط سے ہٹی ہوئی کوئی ایسی راہ نہ تھی جس پر آپ اطمینان وانشراح قلب کے ساتھ رواں دواں ہو سکتے.
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہائی محبوب ہوگئی.
جوں جوں آپ کی عمر چالیس سال کے قریب ہوتی گئی ' تنہائی اورخلوت نشینی بڑھتی گئی.
مکہ سے تین میل دور واقع جبل حِرا ہے (جس کو آج کل جبل نور کہتے ہیں)
اس میں ایک غار "حرا" ہے.
حِرا کے لفظی معنی تلاش و جستجو کے ہیں.
اس غار کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز تھا.
جس طرح بعض انبیائے ماسبق کی زندگی میں بعض پہاڑوں کی اہمیت ہے اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں دو پہاڑ یعنی جبل نور (حرا) اور جبل ثور کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے.
جبل حِرا کی اس لئے کہ بعثت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور تحنّث اسی پہاڑ پر گزرا تھا اور غار ثور کی اس سبب سے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے جاتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دن وہاں قیام فرمایا تھا.
سابق انبیا علیہم السلام میں حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کی ملاقات جبل ِ رحمت پر ہوئی تھی , حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری , صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام , حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام سے خاص نسبت ہے.
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوہِ طور سے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوہِ زیتون سے خاص نسبت ہے.
غارِ حرا کو بڑی فضیلت اس لئے حاصل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دور تحنّث یہیں گزارا اور یہیں حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی لے کر آئے.
یہ غار سطح زمین سے تقریباً دو ہزار فٹ کی اونچائی پر ہے.
غار مستطیل شکل کا ہے اور قدرتاً کعبہ رخ ہے.
اندر سے تقریباً چار گز لمبا , پونے دو گز چوڑا اور اتنا اونچا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر آسانی سے نماز ادا کر سکتا ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا جا کر مہینوں قیام کرتے اور مراقبہ فرماتے.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے.
وہ ختم ہو جاتا تو گھر تشریف لاتے اور پھر واپس جا کر مراقبے میں مصروف ہو جاتے.
صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارِ حرا میں تحنّث یعنی عبادت کیا کرتے تھے.
یہ عبادت کیا تھی..؟
شرح بخاری میں ہے "یہ سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کیا تھی..؟
جواب یہ ہے کہ غور و فکر اور عبرت پذیری.
یہ وہی عبادت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا ابراہیم علیہ السلام نے نبوت سے پہلی کی تھی.
ستاروں کو دیکھا تو چونکہ تجلی کی جھلک تھی , چاند نکلا ہوا تو اور بھی شبہ ہوا , آفتاب پر اس سے زیادہ _ لیکن جب سب نظروں سے غائب ہو گئے تو بے ساختہ پکار اُٹھے.
"میں فانی چیزوں کو نہیں چاہتا.
میں اپنا منہ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا.." (سورۃ لانعام : ۷۹)
غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب ماہِ رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ کیفیت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کے بعد ہی سے شروع ہو چکی تھی.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور تحنُّث پانچ سالوں پر محیط ہے.
پانچ برس کا زمانہ اسی شوقِ عبادت اور توجہ الی اللہ میں گزرا مگر آخری چھ مہینے میں گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمہ تن عبادت الہی اور غارِ حرا کی خلوت نشینی ہی میں مصروف رہے اور اسی چھ مہینے میں رویائے صادقہ کا سلسلہ بلا انقطاع جاری رہا.
مستند روایات اور سوانح نگاروں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان روحانی ترقیاتِ مدارج کے سلسلہ میں اولاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رویائے صادقہ (سچے خواب) پیش آنے لگے.
رویائے صادقہ کو نبوت کا ۴۶ واں حصہ کہا جاتا ہے.
بارہا ایسے خواب نظر آتے جن کی بعد میں جلد تعبیر نکل آتی.
چالیس سال ہونے کو آئے تو قدرت کی طرف سے وحی و الہام کے لئے تیار کیا جانے لگا اور رسولِ اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب العالمین نے چاہا کہ "رحمتہ للعالمین" بنا دے..
--------------->جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ..
مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم ..
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
0 Comments