آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود دوسرے مذاھب اور ادیان کا جائزہ
پچھلی اقساط میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ بیان کی گئی
اس قسط میں ھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود دوسرے مذاھب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے.
یہودیت..
عرب میں بت پرستی کے بعد دوسرا اھم ترین مذھب یہودیت تھا.. یہ لوگ دو وجہ سے سرزمین عرب میں آباد ھوۓ.
ایک تو اس لیے کہ حضرت عیسی' علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو سال پہلے جب بابل کے بادشاہ "بخت نزار" نے فلسطین کو تاراج کیا اور تباہ و برباد کیا تو یہودیوں کے بہت سے قبائل جان بچاکر دنیا کے کئی دوسرے حصوں کی طرف بھاگے.
انہی میں سے چند قبائل عرب کی طرف آ نکلے اور خود کو یہاں محفوظ جان کر آباد ھوگئے.
دوسری بہت اھم وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کو تورات و زبور کی پیش گوئیوں کی وجہ سے علم تھا کہ اللہ عنقریب اپنا آخری پیغمبر سرزمین عرب میں مبعوث فرمانے والا ھے.
یہ اس نبی کو اپنا نجات دھندہ جانتے تھے اس لیے یہ لوگ آخری نبی کے انتظار میں یہاں آ کر آباد ھوگئے.. چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام سے لےکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جتنے بھی نبی آۓ سب بنی اسرائیل میں سے ھی مبعوث ھوۓ تھے تو اس بناء پر ان کا خیال تھا کہ آخری نبی بھی بنی اسرائیل سے ھی ھوگا مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ملی تو اس بات کے باوجود کہ تورات و زبور اور دوسرے الہامی صحائف میں آخری نبی کی جو نشانیاں بتائی گئی تھیں سب کی سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کھلم کھلا نظر آ گئیں مگر عرب کے یہود نے محض اس حسد اور تعصب پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسماعیل میں سے تھے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی ماننے انکار کردیا.
سب سے پہلے یہ لوگ یثرب (مدینہ) اور خیبر کے علاقہ میں آباد ھوۓ.. ان کے اثر سے کچھ مقامی افراد نے بھی یہودیت اختیار کرلی.
پھر 354 قبل مسیح میں یثرب سے دو یہودی مبلغ یمن پہنچے تو ان کے اثر سے یمن کے حمیری بادشاہ "یوسف ذونواس" نے جب یہودی مذھب قبول کرلیا تو یمن میں یہودیت کو بہت فروغ ملا.
یہ لوگ اپنے علم اور دولت کی وجہ سے خود کو عربوں سے بہت برتر خیال کرتے تھے اور عربوں کو اپنے مقابلے میں "امی" یعنی جاھل سمجھتے تھے.
نسلی برتری کا شکار یہ متعصب قوم خود کو خدا کا چہیتا اور برگزیدہ تصور کرتی تھی.
ان کا خیال تھا کہ جہنم کی آگ ان کو چند دن سے زیادہ نہیں چھوۓ گی.
حالانکہ یہ لوگ اپنے تمام تر اوصاف کھوچکے تھے.
سودخوری ان کا شعار بن چکی تھی.
حسب ضرورت تورات اور مذھبی احکام میں تحریف کرنا ان کے ھاں عام تھا.
مذھب گویا ان کے گھر کی لونڈی جیسا تھا جس کے ساتھ وہ جو چاھیں کریں.
چونکہ خود کو تمام اقوام سے برتر جانتے تھے تو ان سے ھر قسم کا دجل و فریب اور ظلم جائز تھا تاھم اپنی پوری دنیا پرستی کے باوجود مدینہ اور اردگرد کے علاقے میں ان کو الہیات اور خدائی علوم میں اجارہ داری حاصل تھی.
ان کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ مدینہ کے قبائل اوس و خزرج میں کسی کی اولاد نہ ھوتی تو وہ منت مانتا کہ بیٹا ھونے کی صورت میں اسے یہودی بنادیں گے.
*عیسائیت..*
عربوں میں تیسرا اھم مذھب عیسائیت تھا.
حضرت عیسی علیہ السلام سے کم و بیش 250 سال بعد روم کی عیسائی حکومت کے زیراثر شام کی طرف کے عرب قبائل نے عیسائیت قبول کرلی.
دوسری طرف حیرہ کے عرب بادشاہ "نعمان بن منذر" نے دین عیسوی قبول کیا تو وھاں کے بہت سے لوگ عیسائی ھوگئے جبکہ یمن میں جب عیسائی مبلغین کی تبلیغ پر کچھ لوگ عیسائی ھوۓ تو یہودی بادشاہ "یوسف ذونواس" نے ان پر بے پناہ ظلم و ستم کیا اور پھر قتل کرادیا.. روم کی عیسائی حکومت تک جب یہ خبر پہنچی تو قیصر روم بہت غصبناک ھوا.
اس نے شاہ حبشہ کو جو رومی حلقہ اثر میں ایک عیسائی حکمران تھا , حکم دیا کہ یوسف ذونواس سے اس ظلم و ستم کا بدلہ لیا جاۓ چنانچہ وھاں سے ایک حبشی نژاد لشکر آیا اور یوسف ذونواس کو شکست دیکر یمن پر بھی عیسائی حکومت قائم کردی.
"ابرھہ بن اشرم" اسی لشکر کا ایک فوجی سردار تھا جو بتدریج ترقی کرکے بالآخر یمن کا نیم خودمختار بادشاہ بن بیٹھا.
یہ کٹر عیسائی تھا اور اس نے یمن میں عیسائیت کے فروغ کے لیے بے پناہ کام کیا.
یاد رھے کہ یہ وھی ابرھہ ھے جس نے "صنعاء" میں کعبہ کے مقابلے پر ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا اور پھر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادہ سے مکہ پر حملہ آور ھوا تھا۔(اس واقعہ کی تفصیل قسط نمبر 6 اور 7 میں گزر چکی ھے..)
اس زمانے کے عیسائی حضرت عیسی' علیہ السلام کی تعلیمات کے بجاۓ "سینٹ پال" کے مذھب کے پیرو ھو چکے تھے.
سینٹ پال پہلے یہودی تھا.
اس نے دعو'ی کیا کہ اسے حضرت عیسی' علیہ السلام نے خواب میں حکم دیا ھے کہ میرا دین پھیلاؤ.
یوں وہ عیسائی ھوا اور پھر اس نے بتدریج عیسائیت کو ایک الہامی مذھب سے شرک و گمراھی سے لتھڑا ھوا مذھب بنا دیا.
اس نے عیسائیت میں عقید تثلیث یعنی تین خداؤں کا عقیدہ شامل کیا.
حضرت عیسی' علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ٹھہرایا.
اس نے عیسائیوں کو اس فریب میں مبتلا کردیا کہ حضرت عیسی' علیہ السلام سولی چڑھ کر سب عیسائیوں کے گناھوں کا کفارہ ادا کرگئے ھیں اور اب انہیں گناہ کی کھلی چھٹی ھے.
سینٹ پال کے زیر اثر عیسائی صرف پادری کے سامنے اعتراف جرم و گناہ کو ھی کافی سمجھتے.
تاھم یہود کے مقابلے میں ان کی اخلاقی حالت قدرے بہتر تھی اور قبول حق کی صلاحیت سے بھی یہ لوگ بہرہ ور تھے.
اس بات کا اندازہ آج بھی کیا جاسکتا ھے کہ آج بھی اسلام کی حقانیت جان کر مسلمان ھونے والوں میں یہودیوں کے مقابلے میں عیسائیوں کی تعداد بہت زیادہ ھے
سیرت النبیﷺ قسط ۱۲
سابقہ اقساط میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ اور مذھب یہودیت و عیسائیت کا تذکرہ کیا گیا.
اس قسط میں ھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود باقی مذاھب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے..
آتش پرست..
ایران و عراق کی سرحد کے پاس آباد عرب قبائل ایرانیوں کے مذھب آتش پرستی سے بہت متاثر ھوۓ.
اھل ایران کی طرح یہ بھی نیکی اور بدی کے دو الگ الگ خداؤں کے قائل تھے اور اھل ایران کی طرح آگ کو خدا کا ظہور مانتے اور اس کی پوجا کرتے تھے.
صائبی..
عرب جاھلیت میں ایسے لوگ بھی تھے جن میں ستارہ پرستی کا چرچا تھا اور یہ ستاروں کی پوجا کرتے تھے.
غالبا" ان کا مذھب وادی دجلہ و فرات کی قدیم تہذیبوں کی باقیات میں سے تھا.
ان کا دعو'ی تھا کہ ان کا مذھب الہامی مذھب ھے اور وہ حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کے پیروکار ھیں.
ان کے ھاں سات وقت کی نماز اور ایک قمری مہینہ کے روزے بھی تھے.
ان کو مشرک عرب معاشرہ صابی یعنی بے دین کہہ کر پکارتا تھا.. یمن کا مشھور قبیلہ "حمیر" سورج کی پوجا کرتا تھا.
قبیلہ اسد سیارہ عطارد کی اور قبیلہ لحم و جزام سیارہ مشتری کو دیوتا مان کر پوجتے تھے.
بعض لوگ قطبی ستارہ کے پجاری تھے اور قطب شمالی کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے تھے.. یہ لوگ خانہ کعبہ کی بھی بہت تکریم کرتے تھے.
دھریت..
ان تمام مذاھب کے ساتھ ساتھ عرب میں ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے تھے جو سرے سے مذھب اور خدا پر یقین ھی نہ رکھتے تھے.
یہ نہ بت پرست تھے اور نہ کسی الہامی مذھب کے قائل تھے.
ان کے نزدیک خدا , حشر و نشر , جنت دوزخ اور جزا سزا کا کوئی وجود نہ تھا.
یہ دنیا کو ازلی و ابدی قرار دیتے تھے..
مسلک توحید کے علم بردار..
عرب معاشرہ میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اپنی فطرت سلیم اور قلبی بصیرت کی بدولت توحید خالص تک پہنچنے میں کامیاب ھوگئے تھے.
یہ لوگ ایک خدا کے قائل تھے اور شرک و بت پرستی سے نفرت کرتے تھے.
ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سگے چچا زید بن عمر بن نفیل اور عبیداللہ بن جحش مشھور ھیں.
دین حق کی تلاش میں سرگرداں ان لوگوں میں سے ورقہ بن نوفل بلآخر عیسائی ھوگئے.
یہ وھی ورقہ بن نوفل ھیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ھونے پر آپ کی نبوت کی تصدیق کی تھی.
عبیداللہ بن جحش اسلام کے بعد مسلمان ھوگئے لیکن حبشہ ھجرت کی تو وھاں بدقسمتی سے مرتد ھوکر عیسائی ھوگئے جبکہ ان میں زید بن عمر بن نفیل کو بہت اونچا مقام حاصل ھے.
حالاں کہ ان کو اسلام نصیب نہیں ھوا کیونکہ وہ پہلے ھی وفات پاگئے تھے لیکن ان کی فضیلت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ کے مفہوم سے لگایا جاسکتا ھے کہ جب قیامت کے دن ھر امت اپنے نبی کی قیادت میں اٹھاۓ جائی گی تو زید بن عمر بن نفیل اکیلے ایک امت کے طور پر اٹھاۓ جائیں گے.
زید بن عمر بن نفیل نے بت پرستی , مردار خوری , خون ریزی اور دیگر تمام معاشرتی خباثتوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اور جب ان سے ان کے مذھب کے متعلق پوچھا جاتا تو آپ جواب دیتے کہ
" اعبد رب ابراھیم " میں ابراھیم کے رب کی پرستش کرتا ھوں..
آپ بت پرستی سے سخت بیزار تھے اور خانہ کعبہ میں بیٹھ کر قریش کو کہتے کہ میرے سوا تم میں ایک بھی شخص دین ابراھیمی پر نہیں ھے.
آپ قوم کو بت پرستی سے منع کرتے رھتے تھے.
گو عرب میں ھر قسم کے دین موجود تھے مگر ان کی اصلی صورت اتنی مسخ ھوچکی تھی کہ کفر و شرک اور دین میں امتیاز کرنا مشکل ھوچکا تھا.
توحید جو ھر الہامی مذھب کا خاصہ تھا اس کا کسی مذھب میں کہیں نام و نشان تک نہ تھا اور کفر و شرک و توھم پرستی کا اندھیرا صرف عرب ھی نہیں تمام معلوم دنیا پر چھایا ھوا تھا.
غرض تمام ھی دنیا ضلالت و گمراھی کی دلدل میں غرق ھوچکی تھی.
تب خداۓ بزرگ و برتر کو اھل زمیں کی اس پستی و زبوں حالی پر رحم آیا اور اس نے ان میں اپنا عظیم تر پیغمبر مبعوث فرمایا..
ظہور اسلام کے وقت اگر عرب معاشرے کا ایک سرسری سا جائزہ بھی لیا جاۓ تو ایک بات شدت سے محسوس ھوتی ھے کہ تب کا عرب معاشرہ ایک ھی وقت میں اچھی بری متضاد خصلتوں کا شکار تھا.
اور اس سے بھی اھم بات یہ کہ اچھی بری یہ متضاد خصلتیں اپنی پوری شدت سے ان میں سرائیت پزیر تھیں.
ایسے میں اگر ھم ان میں رائج بد عادات و رسوم و رواج کو مدنظر رکھیں تو عرب معاشرہ ایک بدترین معاشرے کی تصویر پیش کرتا ھے.
اور اگر ھم عربوں کے اوصاف حمیدہ کو سامنے رکھیں تو درحقیقت ان سے بہتر انسانی معاشرہ اور معاشرتی اقدار کی نظیر ملنا مشکل ھے.
بنیادی طور پر عرب معاشرہ تین طبقات پر مشتمل تھا.
1 : حضری..
وہ لوگ جو شھروں میں آباد تھے اور مستقل طور پر شھروں میں ھی سکونت پذیر تھے.
ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی.
حضری عربوں کا ذریعہ آمدنی نخلستانوں کی آمدن اور تجارت تھا.
درخقیقت یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے پردادا حضرت ھاشم تھے جنہوں نے روم و ایران اور شام و ھندستان کے حکمرانوں کے ساتھ تجارتی معاھدات کیے.
اس طرح عرب لوگ بڑے بڑے قافلوں کی صورت میں ان کے ممالک جاتے اور وھاں سے قافلے عرب آتے.
قریش مکہ کو کیونکہ خانہ کعبہ کی تولیت کی وجہ سے مرکزی اھمیت حاصل تھی اس لیے قریش مکہ کے قافلوں کو عرب کے بدوی قبائل لوٹنے سے بھی گریز کرتے.
2 : بدوی..
عرب کی اکثر آبادی بدوی قبائل پر مشتمل تھی جو خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتی تھی.
ان کا اصل ذریعہ معاش گلہ بانی یعنی جانور پالنا تھا.
اس لیے جہاں کہیں چراگاہ نظر آتی وھیں ڈیرے ڈال دیئے جاتے تھے.
جب اس چراگاہ میں ان کے جانوروں کی خوراک ختم ھوجاتی تو وھاں سے کسی اور جگہ کا رخ کرتے.
اس کے علاوہ رھزنی بھی انکی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تھا.
یہ لوگ عرب کے صحراؤں میں آتے جاتے قافلوں کو لوٹ لیتے.
جو قبائل ڈاکہ کے ذریعے روزی کماتے تھے وہ اس پر بہت فخر کیا کرتے تھے.
3 : لونڈی اور غلام..
معاشرے کا تیسرا اور سب سے نچلا طبقہ لونڈیوں اور غلاموں کا تھا جو حضری و بدوی عربوں کے ساتھ خادم کی حیثیت سے رھتے تھے
غلاموں میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل تھے.
عرب تو قبائل کی آپس کی جنگ میں مغلوب ھونے یا پھر مقروض ھونے کی وجہ سے لونڈی اور غلام بنا لیے جاتے جبکہ غیر عرب بکتے بکاتے سرزمین عرب پہنچتے جہاں باقاعدہ منڈیوں اور بازاروں میں انکی خرید و فروخت ھوتی تھی.
مالک کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے غلام پر جسطرح چاھے ظلم ڈھاۓ اور چاھے تو اسے جان سے ھی مار ڈالے.
معمولی معمولی باتوں پر غلاموں کو اتنی سخت سزائیں دی جاتیں کہ انسانیت کی روح بھی کانپ اٹھتی.
غلام کا بیٹا بھی پیدائشی غلام ھوتا تھا.
اسی طرح لونڈیاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنتی تھیں.
اور ان سے بدکاری کا پیشہ بھی کرایا جاتا تھا.
ناچ گانے جاننے والی لونڈیوں کی قیمتیں نسبتا" زیادہ ھوتی تھیں.. غرضیکہ غلاموں اور لونڈیوں کی جان و مال ' عزت و آبرو اور اولاد سب کی سب انکے آقا کی ھی ملکیت ھوتی تھی.
عرب معاشرے میں جنگ و جدل کا سلسلہ مسلسل جاری رھتا مگر اس جنگ و جدل ' مسلسل خانہ جنگی اور صدیوں تک جاری رھنے والے باھمی بغض و عناد اور تعصب و عداوت کے باوجود عرب ایک مشترکہ ثقافت رکھتے تھے جس کے بنیادی عناصر میں اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا ' انکی روایات کو برقرار رکھنا اور مشترکہ زبان عربی کو گنوایا جاسکتا ھے.
عرب نسلی طور پر قحطانی اور عدنانی (بنو اسماعیل) دو گروھوں میں بٹے ھوتے تھے لیکن دونوں کو عربی زبان پر فخر تھا.
شعرو شاعری بچے بچے کی زبان پر تھی اور شعری ذوق اور عرب ثقافت کا بھرپور اظہار طائف کے قریب "عکاظ" کے مقام پر ھر سال لگنے والے میلہ میں کیا جاتا.
عام حالات میں ایک عرب جنگجو سپاھی تھا مگر اس میلے میں وہ بھی ایک شاعر کا روپ دھار لیتا.
شراب خوری کی مجلسیں سجائی جاتیں اور گردش جام کے ساتھ ایسی بلند پایہ غزلیں کہی جاتیں کہ آج تک اس دور کے ادب کو کلاسیکی مانا جاتا ھے.
فاحشہ عورتوں کی موجودگی نے ان مجالس کو بے ھودگی کی انتہائی پستیوں تک پہنچا دیا تھا.
پروفیسر عبدالحمید صدیقی اپنی کتاب " لائف آف محمد"
(صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم) میں لکھتے ھیں کہ جب عرب تاجر اپنے تجارتی کارواں لےکر روم و ایران و شام اور ھندستان تک جاتے وہ واپسی پر عیش پرستی اور تمام بری عادات لے کر لوٹتے.
شام و عراق سے لڑکیاں درآمد کی جاتیں جنہیں عیش پرستی کے لیے استعمال کیا جاتا.
شھوانی خواھشات کے اس چٹخارے نے عربوں کو بلا کا اوباش اور نفس پرست بنا دیا تھا.
اور ان کے ھاں بدکاری اتنی رچ بس گئی تھی کہ اگر کوئی صالح شخص ان بدکاریوں اور بری عادات سے اجتناب برتتا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا اور اسے کمینہ ' کنجوس اور غیر ملنسار قرار دے دیا جاتا.
عرب معاشرے کی اخلاق باختگی کا ایک اور تاریک پہلو خاندانی نظام کی گراوٹ تھا.
عرب کے متمول طبقے میں تو پھر بھی حالت کچھ بہتر تھی مگر عمومی طور پر مرد عورت کا اختلاط سواۓ فحاشی اور بدکاری کے اور کچھ نہیں تھا.
ایک ھی وقت میں کئی کئی عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کرلیا جاتا.
آدو سگی بہنوں سے بیک وقت نکاح کرلینا اور باپ کے مرنے کے بعد سوتیلی ماں کو اپنی زوجیت میں لے لینے میں کوئی عار نہ تھا.
دس دس لوگ ایک ھی عورت سے تعلقات قائم کرلیتے.
جگہ جگہ رنڈیوں اور طوائفوں کے گھر زنا اور بدکاری کے اڈے تھے. شراب نوشی اور جواء عام تھا.
انکی بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ انکی بیٹیاں تک نیم عریاں لباس میں قبائلی مخلوط مجالس میں شریک ھوتیں جہاں انکے جسمانی اعضاء پر نہایت فحش شعر پڑھے جاتے.
دنیا کی شاید ھی کوئی برائی ھو جو عربوں میں موجود نہ تھی.
لہو و لعب ' فسق و فجور اور قتل و غارتگری کے دلدادہ.
زنا و بدکاری کے رسیا اور شراب نوشی اس قدر کہ جیسے ھر گھر ایک شراب خانہ تھا.
عرب نہایت شقی القلب اور سنگدل تھے.
جانوروں کو درختوں سے باندھ کر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی.
زندہ جانور کا کوئی حصہ کاٹ کر کھا جاتے.
اسیران جنگ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا.
ایک ایک عضو کاٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا.
دشمنوں کا جگر نکال کر کچا چبا لیا جاتا.
ان کے کاسہ سر میں شراب ڈال کر پی جاتی.
مجرموں کو حد درجہ وحشیانہ سزائیں دی جاتیں.
درحقیقت یہ اسلام کی حقانیت و سچائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ھے کہ ایسی وحشی و جاھل قوم کو بدل کر تمام اقوام عالم کا پیشوا بنا دیا اور انکو اخلاقی طور پر فرشتوں کے جیسا پاکیزہ بنا دیا.
تاھم اخلاقی طور پر پستی اور گراوٹ کی اتھاہ گہرایوں میں ڈوبے اس معاشرے میں ایسے سلیم فطرت صالح انسان موجود تھے جو ان قبیح حرکات سے الگ تھلگ تھے.
دوسری طرف جب انہی بدکار و بے حیا عربوں میں کچھ ایسی اخلاقی اچھائیاں بھی پائی جاتی تھیں جو ان عربوں کے لیے وجہ امتیاز تھیں.
شجاعت عربوں میں اپنی معراج پر تھی.
ان کی بہادری درحقیقت سفاکی کے درجہ تک پہنچی ھوئی تھی.
کسی عرب کے لیے میدان جنگ میں تلوار کی دھار پر کٹ مرنا عزت اور شرافت کی بات تھی اور بستر پر ناک رگڑ رگڑ مرنا ذلت اور گالی سمجھا جاتا.
نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی میدان جنگ میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لیتیں.
سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا.. کبھی کبھی تو اپنے پاس کا آخری روپیہ تک سائل کے حوالے کردیا جاتا.
مہمان نواز اس درجے کے تھے کہ اگر کسی کے پاس صرف ایک اونٹ گزر بسر کے لیے ھوتا تو اگر مہمان آ جاتے تو اسے ذبح کرکے مہمانوں کو کھلا دیا جاتا.
عرب آزادی کے دلدادہ تھے اور اپنی آزادی برقرار رکھنے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے تھے.
یہ ایک تاریخی حقیقت ھے کہ روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کے بیچ میں ھونے کے باوجود کوئی ان کو محکوم نہ بنا سکا.
عرب آخر درجے کے وفا پیشہ تھے.
عہد و پیمان کی پابندی کو فرض سمجھا جاتا تھا اور ایفاۓ عہد میں اپنی جان و مال اور اولاد تک کو قربان کردیا جاتا تھا.
جب کسی کو پناہ دے دیتے تو اپنی جان قربان کردیتے مگر اپنی پناہ میں آۓ شخص پر ایک آنچ نہ آنے دیتے.
شاید عرب قوم کی یہ امتیازی صفات ھی تھیں کہ جن کی وجہ سے اللہ نے اس قوم کو اسلام کی داعی قوم کے طور پر فضیلت بخشی.
بلاشبہ عرب قوم بدکاری و بے حیائی کی دلدل میں مکمل طور ڈوبی ھوئی تھی مگر یہ سب وہ بری صفات تھیں جو ان کی فطرت میں شامل نہ تھیں اور انہیں ختم بھی کیا جاسکتا تھا اور اسلام کے ظہور کے بعد ختم ھو بھی گئیں مگر کسی قوم کو نہ تو کوشش سے بہادر بنایا جاسکتا ھے نہ ھی امانت دار اور نہ ھی حریت و آزادی کا متوالا.
یہ وہ صفات ھیں جن سے عرب قوم کو اللہ نے خوب خوب نواز رکھا تھا.
اور جب اسلام قبول کرنے کے بعد عرب قوم اپنی اخلاقی گراوٹ سے نکلی اور ان صفات میں جب اسلامی جذبہ جہاد کی روح بھی پھونک دی گئی تو پھر دنیا میں ان کی شجاعت اور تلوار کی بہادرانہ کاٹ کا کسی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا.
0 Comments