حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ

    

بہترین ملازمت کے لئےیہاں کلک کریں اور فارم بھریں

                بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

                    ✨باذن اللہ تعالی✨

              السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



                *صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*


          *حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ*

ایسا عظیم صحابی جس نے جنت میں لنگڑاتے ہوئے چل کر داخل ہونے کا عزم کیا



حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو زمانہ جاہلیت میں یثرب کا ایک عظیم رہنما مانا جاتا تھا ۔ آپ قبیلہ بنو سلمہ کے سردار تھے ۔ اور آپ کا شمار اس وقت کے سخی اور بہادر لوگوں میں ہوتا تھا ۔


زمانہ جاہلیت میں سرداران عرب کے لیے ایک خصوصی بت ہوتا تھا جس کو وہ اپنے گھر میں رکھتے تھے اور صبح و شام اس سے برکت حاصل کرنا مقصود ہوتا تھا ۔خوشی کے وقت اس کے نام پر جانور قربان کرتے اور مصیبت کے وقت اس سے پناہ طلب کرتے تھے ۔


حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کے بت کا نام مناة تھا اور اس کر خاص لکڑی سے تیار کیا گیا تھا ۔ گھر میں اس کی بہت حفاظت کی جاتی اور اس کو اعلی قسم کے عطریات لگائے جاتے ۔


جب ایمان کی کرنیں یثرب کے گھروں میں پھیلنے لگیں تب حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ سال تھی ۔


 سب سے پہلے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی کوششوں کی بدولت حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے اور ان کے قریبی دوست حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اسلام میں داخل ہوئے ۔


اپنے بیٹوں سے متاثر ہو کر ان  حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی اہلیہ بھی مسلمان ہو گئیں لیکن حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم نہیں ہوا کہ ان کے تمام افراد مسلمان ہو گئے ہیں  


 ان کی بیوی ہند کے دل میں یہ خیال آیا کے اہل یثرب کے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور سرداران قریش میں سے بھی اکثر نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن کہیں ان کے شوہر کفر کی حالت میں نہ مر جائیں۔


اور حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو یہ اندیشہ تھا کہ ان کے بیٹے آباؤ واجداد کے دین کو چھوڑ کر مبلغ اسلام حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے ہوئے دین اسلام نہ قبول کر لیں ۔

جنہوں نے تھوڑی  دیر میں بہت سے لوگوں کو ان کے پرانے دین سے منحرف کر کے دین محمد صلي الله عليه وسلم کا پیروکار بنا دیا تھا ۔



انہوں نے اپنی بیوی سے کہا:

ہند' خبردار کہیں اپنے بیٹے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے چنگل میں نہ پھنس جائیں ۔

پھر یوں کیا :
کہ ہمیں اس شخص کے بارے میں سوچنا ہی پڑے گا ۔

بیوی نے کہا :
آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن کیا آپ اپنے بیٹے معاذ رضی اللہ عنہ کے منہ سے وہ بات سننا پسند کریں گے جو وہ مصعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔


انہوں نے کہا:
بڑے افسوس کی بات ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ اپنے دین سے منحرف ہو چکا ہے اور مجھے اس کا علم بھی نہیں ۔
اس نیک خاتون نے جب اپنے خاوند کے تیور دیکھے تو فورا بولی نہیں' نہیں ۔

بیٹا صرف مصعب رضی اللہ عنہ کی ایک مجلس میں شریک ہوا تھا اور اس مجلس میں جو باتیں ہوئی وہ اس نے یاد کر لی۔


انہوں نے کہا:
اچھا تو بیٹے کو میرے پاس لاؤ جب وہ یعنی معاذ رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو کہا کہ مجھے بھی وہ کچھ سناؤ ۔ 
جو تم نے سنا ہے تو بیٹے نے سورة فاتحة کی تلاوت شروع کر دی ۔


 الحمد لله رب العالمين.  الرحمن الرحيم.  مالك يوم الدين.  إياك نعبد وإياك نستعين.  اهدنا الصراط المستقيم.  صراط الزين أنعمت عليهم. غير المغضوب عليهم والالضا لين. 


تمام تعرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ جو رحمان اور رحیم ہے ۔ جزا کے دن کا مالک۔ هم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہی مدد مانگتے ہیں ۔ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔ نہ کہ ان کا جن پر تو غضب ناک ہوا اور جو گمراہ ہیں ۔


سن کر کہنے لگے:
یہ تو بہت عمدہ کلام ہے ۔
کیا اس کی ہر بات ایسے ہی ہوتی ہے ؟


حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا:

اباجان!
ان کی باتیں اس سے بھی عمدہ ہوتی ہیں ۔ اسی لیے تو آپ کی پوری قوم نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے ۔ کیا آپ بیعت نہیں کریں گے؟


بیٹے کی یہ بات سن کر تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے کہ میں اتنا بڑا اقدام اپنے معبود مناة سے مشورہ کیے بغیر نہیں اٹھا سکتا ۔
دیکھتا ہوں کہ وہ مجھے کیا مشورہ دیتا ہے ۔


بیٹے نے کہا !
اباجان! یہ ممکن نہیں کہ مناة  آپ سے کچھ کہے یا کوئی بات کہے یہ تو لکڑی کا ایک بت ہے ۔ نہ تو بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ یہ سننے کی ۔


باپ غصے میں بولا!
میں نے تجھے کہ دیا ہے کہ جب تک اس سے مشورہ نہیں کر لوں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا ۔


پھر حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ آٹھ کر مناة کی طرف گئے ۔
ان کا معمول تھا کہ جب بھی اپنے بت سے کوئی بات کرنا ہوتی تو اس کے پیچھے اوٹ میں ایک بڑھیا عورت کو کھڑا کر دیتے ۔


اس سلسلے میں ان کا یہی خیال تھا کہ بڑھیا میرے ہر سوال کا وہی جواب دیتی ہے جو مناة اس کے ذہن میں ڈال دیتا ہے  ۔
پھر وہ مناة کے سامنے ایک ٹانگ کے بل۔کھڑے ہو گئے کیوں کہ ان کی ایک ٹانگ لنگڑی تھی ۔


پہلے تو انہیں نے مناة کی بہت تعریف کی پھر یہ عرض پیش کی ۔


اے مناة!
سب سے پہلے تو تجھے اس بات کا علم ہے کہ مبلغ مصعب رضی اللہ عنہ جو یہاں پر وارد ہوئے ہیں ان کا مقصد سوائے تیرے اور کسی کو کوئی نقصان پہنچانا نہیں ۔
یہ یہاں صرف اس لیے آیا ہے کہ ہمیں تیری عبادت سے روک سکے ۔


مجھے یہ بات مناسب معلوم نہیں ہوتی کہ میں  اس کے ہاتھ پر یوں ہی بیعت کر لوں حالانکہ میں نے اس کی بہت عمدہ باتیں سنی ہیں 
آج میں اسی لیے آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ میری رہنمائی فرمائیں گے میں بہت پریشان ہوں ۔

لیکن مناة کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ۔

یہ بات سن کر بہت افسوس ہوا اور کہا:

میرے پیارے مناة شاید آپ ناراض ہو گئے ہیں ۔

میں  آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جو آپ کو ناگوار گزرے ۔
آپ ناراض نہ ہوں ۔
میں چند دن تک آپ کے پاس آؤں گا تاکہ آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے ۔


حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کے تینوں بیٹے یہ جانتے تھے کہ آپ کا مناة  کے ساتھ کتنا گہرا رشتہ ہے ۔
یہ تعلق بھلا کیوں نہ ہو  کہ ایک عرصے سے بت مناة کی پوجا آپ کی رگوں میں بس گئی ہے ۔


لیکن انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ باپ کے دل میں مناة کی قدر اور منزلت میں چنداں کمی واقعہ ہوئی ہے   
لیکن ان کی یہ کوشش تھی کی مناة کی عزت ان کے دل سے بالکل نکال دیں  
تبھی وہ ایمان قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوں گے ۔


یک دفعہ حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کے تینوں بیٹے  معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات کی تاریکی میں مناة کے پاس آئے ۔

انہوں نے اس کو اٹھایا اور لے جا کر گڑھے میں پھینک دیا ۔
جس میں بنو سلمہ گندگی پھینکا کرتے تھے اور یہ کام کرنے کے بعد وہ چپکے سے گھر لوٹ آئے ۔

کسی کو بھی اس واقعہ کا علم نہ ہو سکا ۔
جب صبح کے وقت جناب عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اپنے معبود کو سلام کرنے کے لیے گئے ۔
تو کیا دیکھا کہ بت تو وہاں سے غائب ہے ۔

کہنے لگے :

صدا افسوس ہمارے بت کو کسی نے غائب کر دیا ۔

اہل خانہ میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا تو انہوں نے غصے سے اپنے ارد گرد تلاش کرنا شروع کر دیا  ۔

تو اس گڑھے تک جا پہنچے جہاں لوگ گندگی پھینکتے تھے ۔


دیکھا کے بت اس میں سر کے بل گرا پڑا ہے ۔اس وہاں سے لیا اور صاف کیا اور خوشبو لگا کر دوبارہ اس کی جگہ پر رکھ دیا ۔

اور کہنے لگے ۔
اللہ کے قسم! گر اس شخص کا مجھے آج علم ہو جاتا جس نے تیرے ساتھ یہ کیا ہےتو اس کو بہت ذلیل و رسوا کرتا ۔


جب دوسری رات ہوئی تو بیٹے بت کو پھر اسی گڑھے میں پھینک آئے جہاں پہلے پھینکا تھا ۔

باپ نے پھر صبح دیکھا کہ بت پھر غائب ہے ۔
تو تلاش کے بعد پھر اسی گڑھے میں اس کو منہ کے بل گرا دیکھا۔


وہاں سے اس کو اٹھایا دھویا اور پھر سے گھر میں لا کر رکھ دیا ۔
تینوں بیٹے یہ مناة کے ساتھ روزانہ یہی سلوک کرتے رہے ۔
باپ اس بات سے بہت زیادہ پریشان ہوا ۔ 
ایک دن اس نے ایسا کیا کے اپنی تلوار مناة کے گلے میں لٹکا دیا اور کہنے لگا !


اے میرے مناة مجھے تو علم نہیں کہ تیرے ساتھ یہ کون کر رہا ہے ۔
اگر تم میں ہمت ہو تو اس سے بدلہ لو تلوار تیرے پاس موجود ہے ۔
یہ کہا اور خود اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا ۔


جب ان کے بیٹوں کو یقین ہو گیا کہ ان کا باپ سو گیا ہے ۔تو وہ مناة کو دبے پاؤں مناة کے پاس آئے اس کی گدن سے تلوار اتاری اور سے چپکے اٹھا گھر سے باہر نکل گئے اور اس کی تلوار کو اتار دیا اور اس کے ساتھ ایک مرا ہوا کتا بھی رکھ دیا ۔
اور بنو سلمہ کے اس کنوئیں میں پھینک دیا جہاں گندا پانی جمع ہوتا تھا ۔


باپ جب نیند سے بیدار ہوا اور دیکھا کہ مناة  پھر غائب ہے تو تلاش کرتا ہوا پھر کنوئیں تک پہنچا ۔
اس میں دیکھا کہ وہ منہ کے بل پڑا ہوا ہے اور ایک مرا ہوا کتا بھی اس کے ساتھ ہے ۔اور تلوار اس سے چھین لی گئی ہے ۔


یہ منظر دیکھ کر اس کے دل میں نفرت پیدا ہو گئی۔ اور اس دفعہ اس کو وہیں رہنے دیا اور کہنے لگا ۔

*اللہ کی قسم اگر تو مشکل کشا ہوتا تو تو اور کتا ایک ساتھ کنوئیں میں نہ پڑے ہوئے ہوتے ۔*


تھوڑی ہی دیر بعد اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔

حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئے لیکن انہیں نے شرک کی حالت میں جو دن گزارے تھے ان پر ان کو دکھ اور رنج تھا ۔
اب وہ دین کی طرف پورے دل و جان سے متوجہ ہوئے۔

اور اپنی جان مال اور اولاد کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں وقف کر دیا ۔


تھوڑے ہی عرصہ بعد غزوہ احد وقوع پذیر ہوا اور حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے تینوں بیٹے دشمن کے خلاف لڑنے کی تیاری میں مصروف ہیں ۔


وہ صبح شام بہادر شیروں کی مانندآ جارہے ہیں اور جام شہادت نوش کرنے اور اللہ تعالٰی کی خوشنودی  حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں 
آپ نے اپنے بیٹوں کو دیکھ کر خود بھی میدان کارزار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے دشمنوں سے نبر آزما ہونے کا عزم کر لیا ۔


لیکن بیٹوں نے اپنے باپ کو روکا ۔
کیونکہ عمر رسیدہ تھے اور ایک ٹانگ سے معذور بھی تھے ۔


بیٹوں نے عرض کیا:

کہ آبا جان آپ اللہ تعالی کی طرف سے معذور ہیں اور آپ یہ تکلیف نہ اٹھائیں کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے آپ کو اس ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا ہے ۔



باپ اپنے بیٹوں کی باتیں سن کر رنجیدہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور شکوہ کیا کہ میرے بیٹے مجھے جہاد میں شریک ہونے سے روک رہے ہیں ۔


اور دلیل یہ دے رہے ہیں کہ میں لنگڑا ہوں۔
لیکن اللہ کی قسم ' میں تو لنگڑاتا ہوا جنت میں داخل ہونا چاہتا ہوں ۔


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ شوق دیکھ کر ان کے بیٹوں سے فرمایا کہ ان کو جہاد میں شامل ہونے دو ۔
شاید اللہ تعالی ان کو شہادت نصیب فرما دے 
بیٹوں نے اللہ۔کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنا تو خاموشی اختیار کر لی ۔


جب جہاد کے لیے میدان میں نکلنے کا وقت آیا تو حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایسے الوداع کہا جیسے کبھی گھر واپس نہیں آئیں گے ۔


بھر قبلہ رخ ہو کر آسمان کی طرح ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی ۔

الٰہی مجھے شہادت نصیب کرنا اور مجھے ناکام بنا کر واپس اپنے اہل خانہ کی طرف نہ لوٹانا ۔


بھر وہ میدان جنگ کی طرف چل پڑے ۔
انہوں کی قوم بنو سلمہ کے بہت سے افراد اس جنگ میں شامل ہوئے ۔ 

جب میدان کار زار گرم ہوا تو مجاہدین اسلام مختلف دستوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بٹ گئے ۔


حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو وہ سب سے اگلے  دستے میں ایک ٹانگ کے سہارے چلتے جا رہے ہیں ۔
اور اپنی زبان سے یہ کہہ رہے ہیں ۔

کہ میں  جنت کا مشتاق ہوں ۔ میں جنت کا متلاشی ہوں ۔


اور ان کے پیچھے ان کا بیٹا خلاد رضی اللہ عنہ چلے آ رہے تھے ۔
یہ بوڑھے مجاہد اور ان کا جوان بیٹا اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسلسل دفاع کرتے رہے ۔
یہاں تک کہ دونوں یکے بعد دیگرے میدان جنگ میں جام شہادت نوش فرما گئے ۔


جب جنگ ختم ہو گئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شہداء کی طرف تشریف لے گئے تاکہ ان کی تدفین کا بندوبست کیا جائے ۔

آپ نے فرمایا:
شہداء اسلام کو خون اور زخموں کی حالت میں  یہ رہنے دو ۔
روز قیامت اللہ کے حضور میں ان کی شہادت کی گواہی دوں گا ۔


پھر فرمایا:
جب کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جاتا ہے تو قیامت کے دن اس کو اسی حالت میں اٹھایا جائے گا ۔
کہ اس کے زخموں سے زعفرانی رنگ کا خون بہہ رہا ہوں گا اور اس سے کستوری کی خوشبو آ رہی ہو گی ۔


پھر مزید فرمایا:
کہ عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو ایک ہی قبر میں  دفن کرو ۔
کہ یہ دونوں آپس میں  محض ایک دوسرے کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے محبت کیا کرتے تھے ۔


حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اور دیگر شہداء سے اللہ تعالٰی راضی ہو گیا اور ان کی قبروں کو اپنے رحمت سے منور کیا ۔


🌴بارک اللہ فیکم🌴


========= ختم شدہ۔۔۔۔۔

طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments