خاندان عبدالمطلب کو دین حق کی دعوت دینے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے اعلانیہ تبلیغ کا حکم مل گیا تو ایک روز آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور پکارا
"یا صبا حاہ ! یا صبا حاہ !
(ہائے صبح کا خطرہ ! ہائے صبح کا خطرہ !)"
یہ نعرہ شدید خطرہ کے وقت لگایا جاتا تھا.
عربوں کا دستور تھا کہ وہ شب خون نہیں مارا کرتے تھے بلکہ شب خون کے لئے صبح کا وقت مقرر تھا.
اسی لئے رات میں ہتھیار کھول دیتے تھے.
یہ نعرہ لگانے کا مطلب صبح کا حملہ سمجھا جاتا تھا.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ نعرہ لگایا تو سب لوگ تیزی سے جمع ہوئے.
ان میں ابولہب بھی تھا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.
"اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر آ رہا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم کو یقین آئے گا..؟"
سب نے کہا."ہاں ! کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سے سچ بولتے دیکھا ہے.
ہم نے آپ پر کبھی جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا.."
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.
"اچھا تو میں ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں.
میری اور تمہاری مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے دشمن کو دیکھا.
پھر اس نے کسی اونچی جگہ چڑھ کر اپنے خاندان والوں پر نظر ڈالی تو اسے اندیشہ ہوا کہ دشمن اس سے پہلے پہنچ جائے گا لہٰذا اس نے وہیں سے پکار لگانی شروع کردی.."یا صبا حاہ !"
قریش کے لوگو ! اپنے آپ کو اللہ سے خرید لو , جہنم سے بچالو.
میں تمہارے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا , نہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں.
بنو کعب بن لؤی ! بنو مرہ بن کعب ! بنو قصی ! بنو عبد مناف ! بنو عبد شمس ! بنو ہاشم ! بنو عبد المطلب ! اپنے آپ کو جہنم سے بچالو کیونکہ میں تمہارے نفع ونقصان مالک نہیں اورنہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں.
میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو مگر میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا.
تم سب لَا اِلٰہ اِ لاَّ اللہ کے قائل ہو جاؤ ورنہ تم پر شدید عذاب نازل ہوگا.. "
یہ سن کر سب لوگ جن میں آپ کا چچا ابو لہب بھی شامل تھا , سخت برہم ہوئے اور واپس چلے گئے.
ابولہب نے یہ گستاخی کی کہ غصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مارنے کے لئے پتھرا ٹھایا اور بدتمیزی کی.
کہنے لگا.
"تو سارے دن غارت ہو.
تونے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا.."
اس پر سورۂ تبت یدا أبی لہب نازل ہوئی.
ابولہب کی بیوی "ارویٰ یا حمنہ بنت حرب" جو اُم جمیل کی کنیت سے مشہور تھی , حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن و ہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھ سکی.
دعوتِ حق کی اس پہلی للکار نے ساری قوم کو چونکا دیا اور گلی گلی اس کا چرچا ہونے لگا.
چند روز بعد قوم کو ڈرانے کےلئے سورۂ انبیاء کی آیت ۹۸ کے ذریعہ حکم نازل ہوا.
"یقین رکھو کہ تم اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ سب جہنم کا ایندھن ہے.
تمہیں اسی جہنم میں جا اُترنا ہے.."
(سورہ انبیاء , ۹۸)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا کی چوٹی سے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اہلیان مکہ کو سنایا جس کو سن کر ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی.
اس لئے کہ کعبہ میں موجود 360 بت ہی ان کی معیشت اور اقتدار کا ذریعہ تھے جن کو پوجنے کے لئے سارا عرب آتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت بت پرستی سے منع کرتی تھی.
ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان فرمایا.
کفار کے نزدیک یہ حرم کی سب سے بڑی توہین تھی.
اس لئے دفعۃ" ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ پر ٹوٹ پڑے.
مسلمانوں کو اطلاع ہوئی تو وہ بھی دوڑے دوڑے آئے جن میں حضرت حارث بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ
(حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر کی اولاد) بھی تھے.
وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچانے کے لئے لپکے لیکن ہر طرف سے ان پر تلواریں برس پڑیں اور وہ شہید ہو گئے.
اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جس سے زمین رنگین ہوئی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو دن بہ دن قبولیت حاصل ہوتی گئی اور لوگ اللہ کے دین میں اکا دکا داخل ہوتے گئے۔
پھر جو اسلام لاتا اس میں اور اس کے گھر والوں میں بغض , دوری اور اختلاف کھڑا ہوجاتا.
قریش اس صورت حال سے تنگ ہو رہے تھے اور جو کچھ ان کی نگاہوں کے سامنے آرہا تھا انہیں ناگوار محسوس ہو رہا تھا
ان ہی دنوں قریش کے سامنے ایک اور مشکل آن کھڑی ہوئی یعنی ابھی کھُم کھلا تبلیغ پر چند ہی مہینے گزرے تھے کہ موسم حج قریب آگیا.
قریش کو معلوم تھا کہ اب عرب کے وفود کی آمد شروع ہوگی اس لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کوئی ایسی بات کہیں کہ جس کی وجہ سے اہل عرب کے دلوں پر آپ کی تبلیغ کا اثر نہ ہو. چنانچہ وہ اس بات پر گفت وشنید کے
لیے "ولید بن مغیرہ" کے پاس اکٹھے ہوئے.. ولید نے کہا.. "اس بارے میں تم سب لوگ ایک رائے اختیار کرلو
تم میں باہم کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ خود تمہارا ہی ایک آدمی دوسرے آدمی کی تکذیب کردے اور ایک کی بات دوسرے کی بات کاٹ دے.."
لوگوں نے کہا.. "آپ ہی کہئے.." اس نے کہا.. "نہیں تم لوگ کہو , میں سنوں گا.." اس پر چند لوگوں نے کہا.. "ہم کہیں گے وہ کاہن ہے.."
ولید نے کہا.. "نہیں واللہ ! وہ کاہن نہیں ہے.. ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے.
اس شخص کے اندر نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے نہ ان کے جیسی قافیہ گوئی اور تُک بندی.."
اس پر لوگوں نے کہا.. "تب ہم کہیں گے کہ وہ پاگل ہے.."
ولید نے کہا.. "نہیں, وہ پاگل بھی نہیں.. ہم نے پاگل بھی دیکھا ہے اور اس کی کیفیت بھی.
اس شخص کے اندر نہ پاگلوں جیسی دَم گھٹنے کی کیفیت اور الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان کے جیسی بہکی بہکی باتیں.."
لوگوں نے کہا.. "تب ہم کہیں گے کہ وہ شاعر ہے.."
ولید نے کہا.. "وہ شاعر بھی نہیں..
ہمیں رَجَز , ہجز , قریض , مقبوض , مبسوط _ سارے ہی اصنافِ سخن معلوم ہیں..اس کی بات بہرحال شعر نہیں ہے.."
لوگوں نے کہا.. "تب ہم کیا کہیں گے..؟"
ولید نے کہا.. "اللہ کی قسم ! اس کی بات بڑی شیریں ہے..اس کی جڑ پائیدار ہے اور اس کی شاخ پھلدار..
تم جو بات بھی کہو گے لوگ اسے باطل سمجھیں گے البتہ اس کے بارے میں سب سے مناسب بات یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ جادوگر ہے..
اس نے ایسا کلام پیش کیا ہے جو جادو ہے..اس سے باپ بیٹے , بھائی بھائی , شوہر بیوی اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ جاتی ہے.."
بالآخر لوگ اسی تجویز پر متفق ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے
یہ قرارداد طے پاچکی تو اسے جامۂ عمل پہنانے کی کارروائی شروع ہوئی.
کچھ کفارِ مکہ عازمین حج کے مختلف راستوں پر بیٹھ گئے اور وہاں سے ہر گزرنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ''خطرے'' سے آگاہ کرتے ہوئے آپ کے متعلق تفصیلات بتانے لگے.
جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے ایام میں لوگوں کے ڈیروں اور عُکاظ , مجنہ اور ذوالمجازکے بازاروں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے.
ادھر ابولہب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے لگا رہتا اور کہتا کہ اس کی بات نہ ماننا یہ جھوٹا بددین ہے.. مسند احمد ۳/۴۹۲، ۴/۳۴۱ میں اس کی یہ حرکت مروی ہے.
اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس حج سے اپنے گھروں کو واپس ہوئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوی ٔنبوت کیا ہے اور یوں ان کے ذریعے پورے دیارِ عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چرچا پھیل گیا.
جب قریش نے دیکھا کہ
محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ دین سے روکنے کی حکمت کارگر نہیں ہورہی ہے تو ایک بار پھر انہوں نے غور وخوض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا قلع قمع کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جن کا خلاصہ یہ ہے.
ہنسی , ٹھٹھا , تحقیر , استہزا اور تکذیب _ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو بددل کرکے ان کے حوصلے توڑ دیئے جائیں.
اس کے لیے مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناروا تہمتوں اور بیہودہ گالیوں کا نشانہ بنایا.
چنانچہ وہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پاگل کہتے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادوگر اور جھُوٹے ہونے کا الزام لگاتے.
یہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے پُر غضب , منتقمانہ نگاہوں اور بھڑکتے ہوئے جذبات کے ساتھ چلتے تھے.
وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ
''اور جب کفار اس قرآن کو سنتے ہیں تو آپ کو ایسی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ گویا آپ کے قدم اکھاڑدیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ یقینا ً پاگل ہے.."
(۶۸: ۵۱)
اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ تشریف فرما ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد کمزور اور مظلوم صحابہ کرام موجود ہوتے تو انہیں دیکھ کر مشرکین استہزاء کرتے ہو ئے کہتے.
أَهَـٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا
''اچھا ! یہی حضرات ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان سے احسان فرمایا ہے..؟''
(۶: ۵۳)
جواباً اللہ کا ارشاد ہے..
أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
''کیا اللہ شکر گزاروں کو سب سے زیادہ نہیں جانتا.."
(۶: ۵۳)
عام طور پر مشرکین کی کیفیت وہی تھی جس کا نقشہ ذیل کی آیات میں کھینچا گیا ہے..
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ
''جو مجرم تھے وہ ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے اورجب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مارتے تھے اور جب اپنے گھروں کو پلٹتے تو لُطف اندوز ہوتے ہوئے پلٹتے تھے اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہی گمراہ ہیں.
حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے.."
(۸۳: ۲۹تا۳۳)
انہوں نے سخریہ اور استہزاء کی بڑی کثرت کی اور طعن وتضحیک میں رفتہ رفتہ آگے بڑھتے گئے.
یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت پر اس کا اثر پڑا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ
''ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اس سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے.."
(۱۵: ۹۷)
لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ثابت قدمی عطا فرمائی اور بتلایا کہ سینے کی یہ تنگی کس طرح جاسکتی ہے چنانچہ فرمایا.
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ
''اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور سجدہ گزاروں میں سے ہو جاؤ اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے جاؤ.. یہاں تک کہ موت آجائے.."
(۱۵:۹۸،۹۹)
اور اس سے پہلے یہ بھی بتلادیا کہ ان استہزاء کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے چنانچہ فرمایا.
إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
''ہم آپ کے لیے استہزاء کرنے والوں سے (نمٹنے کو) کافی ہیں.
جو اللہ کے ساتھ دوسرے کو معبود ٹھہراتے ہیں انہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا.."
(الحجر: ۹۵، ۹۶)
اللہ نے یہ بھی بتلایا کہ ان کا یہ فعل جلد ہی و
بال بن کر ان پر پلٹے گا چنانچہ ارشاد ہوا..
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
''آپ سے پہلے پیغمبروں سے بھی استہزاء کیا گیا..تو ان کی ہنسی اڑانے والے جو استہزاء کر رہے تھے , اس نے انہیں کو گھیر لیا.."
(الانعام :۱۰ ۔ الانبیاء :۴۱ )
0 Comments