وحی نازل ہونے کی مختلف شکلیں



Complete Survey
And Earn $5,
Click Here

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی.
صحیح بخاری کی ایک حدیث میں مروی ہے.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے..؟
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے.
پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے.
اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آجاتا ہے پھر مجھ سے بات کرتا ہے.
جو کچھ وہ کہتا ہے میں اس کو یاد کرلیتا ہوں.."
حضرت عایشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.
"میں نے سخت سردی کے دن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے.
(ایسی سردی میں بھی) جب وحی کا سلسلہ ختم ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابور ہوچکی ہوتی تھی.."

(بخاری , باب بدءالوحی , حدیث نمبر:۲)

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کا سانس رکنے لگتا , چہرۂ انور متغیرہو کر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑجاتا , سامنے کے دانت سردی سے کپکپانے لگتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے.

(الطبقات الکبری لابن سعد , ۸/۳۷۹)

وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہوجاتی کہ "اگر وحی اس حالت میں آتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اونٹی پر سوار ہوتے تو وحی کے بوجھ سے اونٹنی بیٹھ جاتی.."

(فتح الباری , ۱/۳)

ایک بار اس طرح وحی آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ران پر تھی تو ان پر اس قدر گراںبار ہوئی کہ معلوم ہوتا تھا کہ ران کچل جائے گی.

بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی.

(بیہقی , ابواب کیفیۃ نزول الوحی , حدیث نمبر:۲۹۸۳)

وحی کی دوسری صورت یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دیتا تھا.
ایسے مواقع پر عموما" حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے.

(مصنف بن ابی شیبہ , ماذکر فی عائشۃ رضی اللہ عنہا , حدیث نمبر:۳۲۹۴۵)

وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسانی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصل صورت میں دکھائی دیتے تھے لیکن ایسا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے.
ایک مرتبہ اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی.
دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اَجیاد پر.
پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں البتہ یہ آخری واقعہ سندا" کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے.

(فتح الباری , ۱/۱۸،۱۹)

وحی کی چوتھی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نزول قرآن سے قبل سچے خواب نظر آیا کرتے تھے. جو کچھ خواب میں دیکھتے بیداری میں ویسا ہی ہوجاتا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء نیند کی حالت میں سچے خوابوں سے ہوئی.
اس وقت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا نکلتا.

(بخاری , باب بدءالوحی , حدیث نمبر:۳)

وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک میں کوئی بات القاء فرما دیتے تھے.
اسے اصطلاح میں "نفث فی الروع" کہتے ہیں.
جیسے حدیث پاک میں ہے.
"جبریل علیہ السلام نے میرے دل میں بات ڈالی ہے کہ کوئی نفس مرتا نہیں یہاں تک کہ اس کا رزق مکمل ہوجائے.
لہٰذا تلاش رزق میں اعتدال اختیار کرو.."

(شعب الایمان , حدیث نمبر:۱۱۹۰)

وحی کی چھٹی صورت فرشتے کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست گفتگو جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو فرمائی تھی.
وحی کی یہ صورت موسیٰ علیہ السلام کے لیے نص قرآنی سے قطعی طور پر ثابت ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس کا ثبوت
(قرآن کی بجائے) معراج کی حدیث میں ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر معراج کی رات نماز کی فرضیت وغیرہ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت وحی فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں کے اُوپر تھے..

(زاد المعاد ۱/۱۸.. امام ابن قیم)

بعض لوگوں نے ایک ساتویں شکل کا بھی اضافہ کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ رُو در رُو بغیر حجاب کے گفتگو کرے لیکن یہ ایسی صورت ہے جس کے بارے میں سلف سے لے کر خلف تک اختلاف چلا آیا ہے.

سورۂ مدثر کی گزشتہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھے.
آپ کی قوم چونکہ جفاکار تھی.
بت پرستی اور درگاہ پرستی اس کا دین تھا.
باپ دادا کی روش اس کی دلیل تھی.
غرور وتکبر اور حمیت وانکار اس کا اخلاق تھا.
اس کے علاوہ وہ جزیرۃ العرب میں دینی پیشوائی کے صدر نشین تھے.
اس کے اصل مرکز پر قابض اور اس کے وجود کے نگہبان تھے.
اس لیے اس کیفیت کے پیش نظر حکمت کا تقاضا تھا کہ پہلے پہل دعوت وتبلیغ کا کام پس پردہ انجام دیا جائے تاکہ اہل مکہ کے سامنے اچانک ایک ہیجان خیز صورت حال نہ آجائے.

بعثت کے بعد تین سال تک خفیہ دعوت کا سلسلہ جاری رہا.
پہلی وحی کے نزول کے بعد اگرچہ کہ دعوت و تبلیغ کا علانیہ حکم نہیں آیا تھا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو چپکے چپکے بُت پرستی سے منع کرتے اور سمجھاتے رہے کہ اللہ ایک ہے , اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے.
ابتدا میں ایمان لانے والوں کو مومن یا مسلم کے بجائے مُصدّق کہتے تھے یعنی وہ جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی تصدیق کرتے تھے.
دعوت کیا تھی.

۱.. توحید یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.

۲.. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ان کی رسالت کی گواہی دینا.

۳.. جو لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر ایمان لائیں وہ دوسروں کو شرک کی تاریکی سے نکالیں.

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو سخت مشکلیں پیش نظر تھیں.
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرض اسی قدر ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح صرف تبلیغ دعوت پر اکتفا فرمائیں یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل جائیں تو مشکل نہ تھی لیکن خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام خود سلامت رہ کر عرب اور نہ صرف عرب بلکہ تمام عالم کو فروغِ اسلام سے منور کردینا تھا اس لئے نہایت تدبیر اور تدریج سے کام لینا پڑا.

سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ پُرخطر راز پہلے کس کے سامنے پیش کیا جائے. اس کے لئے صرف وہ لوگ انتخاب کئے جا سکتے تھے جو فیض یاب صحبت رہ چکے تھے.
جن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و عادات اور حرکات و سکنات کا تجربہ ہو چکا تھا.
جو پچھلے تجربوں کی بنأ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدق دعویٰ کا قطعی فیصلہ کر سکتے تھے.

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرم محترم تھیں.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش تربیت میں پلے تھے.
زید رضی اللہ عنہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے تھے.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگری دوست ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے جو برسوں سے فیض یاب خدمت تھے.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے انہیں دعوت دی.
یہ سب کے سب سنتے ہی ایمان لے آئے.

اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام کی تبلیغ میں سرگرم ہوگئے.
وہ بڑے ہردلعزیز , نرم خُو , پسندیدہ خصال کے حامل , بااخلاق اور دریادل تھے.
ان کے پاس ان کی مروت , دور اندیشی , تجارت اور حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کی آمد ورفت لگی رہتی تھی. چنانچہ انہوں نے اپنے پاس آنے والوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے جس کو قابلِ اعتماد پایا اسے اب اسلام کی دعوت دینی شروع کردی.
ان کی کوشش سے حضرت عثمان , حضرت زبیر , حضرت عبد الرحمن بن عوف , حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے.
یہ بزرگ اسلام کا ہر اوَل دستہ تھے.

ان کے بعد امینِ امت حضرت ابوعبیدہ عامر بن جراح , ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومی , ان کی بیوی ام سلمہ , حضرت عباس بن عبد المطلب کی بیوی أم الفضل لبابہ الکبریٰ بنت حارث ہلالیہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی حضرت اسماء , ارقم بن ابی الارقم مخزومی , عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی قدامہ اور عبداللہ , اور عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبدمناف , سعید بن زید عدوی اور ان کی بیوی یعنی حضرت عمر کی بہن فاطمہ بنت خطاب عدویہ اور خباب بن اَرت تمیمی , جعفر بن ابی طالب اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس , خالد بن سعید بن عاص اموی ، ان کی بیوی امینہ بنت خلف، اور ان کے بھائی عمرو بن سعید بن عاص , حاطب بن حارث جحمی , ان کی بیوی فاطمہ بنت مجلل اور ان کے بھائی حطاب بن حارث اور ان کی بیوی فکیہہ بنت یسار اور ان کے ایک اور بھائی معمر بن حارث , مطلب بن ازہر زہری اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف اور نعیم بن عبد اللہ بن نحام عدوی رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے.
یہ سب قبیلہ قریش کے مختلف خاندانوں اور شاخوں سے تعلق رکھتے تھے.

قریش کے باہر سے جو لوگ پہلے پہل اسلام لائے ان میں سر فہرست یہ ہیں.
أم ایمن برکۃ حبشیہ , ابو ذر غفاری ,عبداللہ بن مسعود ہذلی , مسعود بن ربیعہ قاری , عبد اللہ بن جحش اسدی , ان کے بھائی احمد بن جحش , بلال بن رباح حبشی , صہیب بن سنان رومی , عمار بن یاسر عنسی , ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہم.

خفیہ تین سالہ تبلیغ کے دوران جن لوگوں نے اپنے اسلام کو ظاہر کیا وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال بن رباح ,
حضرت خباب بن ارت , حضرت یاسر بن عامر , حضرت عمار بن یاسر , حضرت صہیب بن سنان اور حضرت سمیّہ بنت سلم رضی اللہ عنہم شامل ہیں.

یہ سب سابقین اولین کے لقب سے معروف ہیں.
تلاش وجستجو سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ اسلام کی طرف سبقت کرنے کے وصف سے موصوف کیے گئے ہیں ان کی تعداد مردوں اور عورتوں کو ملا کر ایک سو تیس تک پہنچ جاتی ہے لیکن یہ بات پورے تیقن کے ساتھ نہیں معلوم ہوسکی کہ یہ سب کھلی دعوت وتبلیغ سے پہلے اسلام لائے یا بعض لوگ اس سے متاخر بھی ہوئے تھے.

اس تین سالہ دور میں نماز بھی مسلمان کسی گھاٹی میں چھپ کر ادا کرتے.
ان ہی ایام میں ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک درّہ میں نماز پڑھ رہے تھے.
اتفاقا" ابو طالب وہاں آئے اور نماز ختم ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یہ کیا دین ہے اور یہ کیسی عبادت ہے..؟
اس وقت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے والدین پر اپنے اسلام قبول کرنے کا ذکر نہیں کیا تھا.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ یہی اللہ کا دین ہے اور اسی کی طرف بلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بنایا ہے.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چچا ابو طالب کو اس دین کو قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انھوں نے کہا کہ وہ اپنا آبائی دین نہیں چھوڑ سکتے.
حضرت ابوطالب نے یہ بھی کہا کہ جب تک وہ زندہ ہیں انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اپنے فرزند حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاساتھ دینے کی تلقین کی.

دعوت و تبلیغ کا سلسلہ خفیہ طور پر جاری رہا.
تقریبا ً ڈھائی سال کا عرصہ گزرا تھا کہ ایک دن کچھ مسلمان جن میں حضرت عمار بن یاسر , حضرت عبداللہ بن مسعود , حضرت سعد بن ابی وقاص , حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہم شامل تھے , مکہ سے کچھ دور ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کچھ کافر وہاں پہنچے اور ان سب کو نماز پڑھتے دیکھ کر مذاق اُڑانے لگے.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ انیس (۱۹) سالہ نوجوان تھے جنھوں نے کافروں کے مذاق سے تنگ آ کر سامنے پڑے اونٹ کے ڈھانچے کی ایک ہڈی اٹھائی اور بنی تیم کے عبداللہ بن خطل کے سر پر اپنی پوری طاقت سے دے مارا جو کہ سب سے آگے تھا.
اس کے ساتھ ہی اس کافر کا خاتمہ ہو گیا.
یہ اسلام کی حمایت میں پہلی ضرب تھی.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بعد کو فاتح ایران بنے.

جب مومنین کی ایک جماعت اخوت وتعاون کی بنیاد پر قائم ہوگئی جو اللہ کا پیغام پہنچانے اور اس کو اس کا مقام دلانے کا بوجھ اٹھاسکتی تھی تو وحی نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکلف کیا گیا کہ اپنی قوم کو کھلم کھلا دعوت دیں اور ان کے باطل کا خوبصورتی کے ساتھ رد کریں.
اس کے بعد سورہ شعراء کی آیت ۲۱۴ اور ۲۱۵ نازل ہوئیں.

"اور اے پیغمبر
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے نزدیک ترین قرابتداروں کو
(عذاب الٰہی سے) ڈرایئے اور جو مؤمن آپ کے پیچھے چلیں اُن کے لیے انکساری کے ساتھ اپنی شفقت کا بازو جھکادیں.."

(سورہ شعراء , ۲۱۴، ۲۱۵)

ان آیات کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا.
"اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے سامنے اپنی دعوت پیش کروں.
اس لئے ایک دعوت کا اہتمام کرو اور بنی عبد المطلب کو اس میں شرکت کے لئے بلا بھیجو.."

چنانچہ تقریباً چالیس پینتالیس اہل خاندان جمع ہوئے.
بعد طعام ابولہب نے بات لپک لی اور بولا.
"دیکھو ! یہ تمہارے چچا اور چچیرے بھائی ہیں.
بات کرو لیکن نادانی چھوڑدو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا اور میں سب سے زیادہ حق دار ہوں کہ تمہیں پکڑلوں.
پس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے اور اگر تم اپنی بات پر قائم رہے تو یہ بہت آسان ہوگا کہ قریش کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب بھی ان کی مدد کریں.
پھر میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص اپنے باپ کے خانوادے کے لیے تم سے بڑھ کر شر (اور تباہی) کا باعث ہوگا.."

اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار کرلی اور اس مجلس میں کوئی گفتگو نہ کی.
ابولہب کے کہنے پر سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنے بغیر ہی منتشر ہو گئے.
چنانچہ دوسرے دن پھر ضیافت کی گئی.
کھانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب فرمایا.

"اے بنی عبدالمطلب ! مجھے کسی ایسے عرب جوان کا علم نہیں جو اپنی قوم کے لئے میری لائی ہوئی دعوت سے بہتر دعوت لایا ہو.
یہ دین حق کی دعوت ہے.
ساری حمد اللہ کے لیے ہے.
میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں.
اس پر ایمان رکھتا ہوں,
اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں.
وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.." پھر آپ نے فرمایا.
"رہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا.
اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! میں تمہاری طرف خصوصا" اور لوگوں کی طرف عموما" اللہ کا رسول (فرستادہ) ہوں.
واللہ ! تم لوگ اسی طرح موت سے دوچار ہوگے جیسے سو جاتے ہو اور اسی طرح اٹھائے جاؤ گے جیسے سو کر جاگتے ہو.
پھر جو کچھ تم کرتے ہو اس کا تم سے حساب لیا جائے گا.
اس کے بعد یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہے یا ہمیشہ کے لیے جہنم.."

اس پر حضرت ابو طالب نے کہا.. "
(نہ پوچھو ) ہمیں تمہاری معاونت کس قدر پسند ہے.
تمہاری نصیحت کس قدر قابلِ قبول ہے اور ہم تمہاری بات کس قدر سچی جانتے اور مانتے ہیں اور یہ تمہارے والد کا خانوادہ جمع ہے اور میں بھی ان کا ایک فرد ہوں.
فرق اتنا ہے کہ میں تمہاری پسند کی تکمیل کے لیے ان سب سے پیش پیش ہوں.
لہٰذا تمہیں جس بات کا حکم ہوا ہے اسے انجام دو.
واللہ ! میں تمہاری مسلسل حفاظت واعانت کرتا رہوں گا البتہ میری طبیعت عبدالمطلب کا دین چھوڑنے پر راضی نہیں.."

ابو لہب نے کہا."اللہ کی قسم ! برائی ہے. اس کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم لوگ خود ہی پکڑ لو.."

اس پر حضرت ابوطالب نے کہا.
"اللہ کی قسم ! جب تک جان میں جان ہے ہم ان کی حفاظت کرتے رہیں گے.."

دفعۃ" حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر کہا."گو مجھ کو آشوب چشم ہے , گو میری ٹانگیں پتلی ہیں اور میں سب سے نوعمر ہوں تاہم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دوں گا.."
(طبری , جلد ۳)

اس کے بعد سورہ حجر کی آیت ۹۴ کے ذریعہ علانیہ تبلیغ کا حکم نازل ہوا..

"پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حکم کو جو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا جارہا ہے , کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے.."
(سورہ حجر , ۹۴)

Post a Comment

0 Comments