نبوت کا منصب سنبھال نے کا اعلان






قمری سال کے حساب سے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر چالیس سال ایک دن ہوئی


اور یہی سن کمال ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت کی عمر ہے تو آثار نبوت چمکنا اور جگمگانا شروع ہوئے
اس حالت پر چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا
جب حراء میں خلوت نشینی کا تیسرا سال آیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا.
بیشتر سیرت نگار کے مطابق 9 ربیع الاول 41 میلادی مطابق 12 فروری 610ء پیر کی شام غار حرا میں روح الامین (حضرت جبریل علیہ السلام) ظاہر ہوئے اور فرمایا.
"اے محّمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بشارت قبول ہو.
آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں.."
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا.. تحقیق کے مطابق یہ واقعہ رمضان المبارک کی 21 تاریخ کو دوشنبہ کی رات میں پیش آیا.
اس روز اگست کی 10 تاریخ تھی اور 610ء تھا.
یہی قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.
شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ (۲/۱۸۵)
''رمضان کا مہینہ ہی وہ
(بابرکت مہینہ ہے ) جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا.
" اور ہم اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دیکھتے ہیں.
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ‌ (۹۷/۱) یعنی
''ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا..'' معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہےاور صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پڑتی ہے اور انھی طاق راتوں میں منتقل بھی ہوتی رہتی ہے.
آیئے اب ذرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی اس واقعے کی تفصیلات سنیں جو نبوت کا نقطۂ آغاز تھا اور جس سے کفر وضلالت کی تاریکیاں چھٹتی چلی گئیں.
یہاں تک کہ زندگی کی رفتار بدل گئی اور تاریخ کا رُخ پلٹ گیا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا.
"پڑھو.." آپ نے فرمایا.. "میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس پر اس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی.
پھر چھوڑ کر کہا.. "پڑھو.." میں نے کہا.. "میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.." اس نے دوبارہ پکڑ کر زور سے دبایا , پھر چھوڑ کر کہا.. "پڑھو.." میں نے پھر کہا.. "میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.."

اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا , پھر چھوڑ کر کہا..

(۱) اِقْرَأْ بِاسْم رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
(۲) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ
(۳) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ
(۴) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ
(۵) الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

"پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا.
اُس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے.
پڑھو اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے.
جس نے قلم سے تعلیم دی.
انسان کو اُس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا.
(سورہ علق , ا تا ۵)

اس غیر متوقع واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرا گئے.
اس لئے کہ آپ کے گمان میں بھی نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی بنائے جانے والے ہیں.
مارے ہیبت کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لرزتے اور کانپتے غارِ حرا سے نکلے اور پہاڑ سے اترنے لگے.
درمیان میں پہنچے تو پھر آواز آئی.
"اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبریل ہوں.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اُٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام آسمان کے کنارے ایک آدمی کی شکل میں کھڑے ہیں.
اس اعلان کے بعد جبریل علیہ السلام نظروں سے اوجھل ہو گئے.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی ڈری , سہمی حالت میں سیدھے گھر پہنچے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا.. 

"مجھے چادر اوڑھا دو _ مجھے چادر اڑھا دو.."

انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چادر اوڑھا دی.
یہاں تک کہ خوف جاتا رہا.
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو واقعے کی اطلاع دی اور فرمایا.
"یہ مجھے کیا ہوگیا ہے..؟
مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے.."

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا.
"قطعاً نہیں.. واللہ !
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ رسوا نہ کرے گا.
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلہ رحمی کرتے ہیں , درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں , تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں , مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں.."

پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی اور عیسائی عالم "ورقہ بن نوفل" کے پاس لے گئیں جو توریت اور انجیل کے عالم تھے اور انجیل کی عربی میں کتابت کرتے تھے.
وہ دور جاہلیت میں بُت پرستی سے بیزار ہوکر عیسائی بن گئے تھے.
ان کی عمر زیادہ ہو چکی تھی اور بینائی بھی جواب دے چکی تھی.
ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا.
"بھائی جان ! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں.."

ورقہ نے کہا.. "بھتیجے ! تم کیا دیکھتے ہو..؟"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا

بیان فرمادیا.
اس پر ورقہ نے آپ سے کہا.
"یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا.
کاش ! میں اس وقت توانا ہوتا.
کاش ! میں اس وقت زندہ ہوتا جب
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم آپ کو نکال دے گی.."

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اچھا ! تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے..؟"

ورقہ نے کہا.. "ہاں ! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپ لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے آپ کا زمانہ پالیا تو آپ کی زبردست مدد کروںگا.."

جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورقہ بن نوفل سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ اقدس کو بوسہ دیا.
اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی کا سلسلہ بھی کچھ عرصے کے لیے رک گیا

پہلی وحی نازل ہونے کے کئی مہینوں بعد تک کوئی اور وحی نازل نہیں ہوئی.
یہ دور "فترت وحی" یا انقطاع وحی کہلاتا ہے.
فترۃ وحی کی مدت میں محدثین کا اختلاف ہے.
کم سے کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ تین سال بتلائی جاتی ہے.

وحی کی اس بندش کے عرصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حزین وغمگین رہے اور آپ پر حیرت واستعجاب طاری رہا.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوچنے لگے کہ کہیں میرا رب مجھ سے ناراض تو نہیں ہو گیا.

حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی وحی کی بندش ) اس لیے تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو خوف طاری ہوگیا تھا وہ رخصت ہوجائے اور دوبارہ وحی کی آمد کا شوق وانتظار پیدا ہوجائے.
(فتح الباری ۱/۲۷) 

چنانچہ جب یہ بات حاصل ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کی آمد کے منتظر رہنے لگے تو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوبارہ وحی سے مشرف کیا.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہے کہ.. "میں نے حراء میں ایک مہینہ اعتکاف کیا.
جب میرا عتکاف پورا ہوگیا تو میں اترا.
جب بطن وادی میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا.
میں نے دائیں دیکھا کچھ نظر نہ آیا , بائیں دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا , آگے دیکھا کچھ نظر نہ آیا , پیچھے دیکھا کچھ نظر نہ آیا.
پھر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو ایک چیز نظر آئی.
کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حِراء میں آیا تھا , آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے.
(اس وقت وہ اپنی اصلی شکل میں نمودار ہوا تھا۔
حضرت جبریل علیہ السلام کو اس حالت میں دیکھ کر)
میں اس سے خوف زدہ ہوکر زمین کی طرف جا جھکا (اور لرزہ طاری ہو گیا)
پھر میں نے (اسی حالت میں گھر) خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس آ کر کہا."مجھے چادر اوڑھا دو مجھے چادر اوڑھادو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈال دو.." انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا.
اس کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں..

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ O قُمْ فَأَنذِرْ‌ O وَرَ‌بَّكَ فَكَبِّرْ‌ O وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ‌ O وَالرُّ‌جْزَ فَاهْجُرْ‌ O

"اے کپڑے میں لپٹنے والے ! اُٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو اور گندگی سے کنارہ کرلو اور کوئی احسان اس نیت سے نہ کرو کہ زیادہ وصول کرسکو اور اپنے پرووردگار کی خاطر صبر سے کام لو.."
(المدثر:۱تا ۵)

یہ نماز فرض ہونے سے پہلے کی بات ہے.
اس کے بعد وحی میں گرمی آگئی اور وہ متواتر نازل ہونے لگی.

(صحیح بخاری , کتاب التفسیر , تفسیر سورۂ مدثر)

یہی آیات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا نقطۂ آغاز ہیں.
سورہ علق سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت کا منصب عطا ہوا تھا اور سورہ مدثر (قُمْ فَأَنذِرْ‌) سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسالت کے مرتبہ پر فائز ہوئے.
ان آیات کا مطلع اللہ بزرگ وبرتر کی آواز میں ایک آسمانی نداء پر مشتمل ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس عظیم وجلیل کام کے لیے اٹھنے اور نیند کی چادر پوشی اور بستر کی گرمی سے نکل کر جہاد وکفاح اور سعی مشقت کے میدان میں آنے کے لیے کہا گیا ہے.

"اے چادر پوش ! اٹھ اور ڈرا " 

گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جسے اپنے لیے جینا ہے وہ تو راحت کی زندگی گزار سکتا ہے لیکن آپ جو اس زبردست بوجھ کو اٹھا رہے ہیں تو آپ کو نیند سے کیا تعلق..؟ 
آپ کو راحت سے کیا سروکار..؟ 
آپ کو گرم بستر سے کیا مطلب..؟ 
یہ سکون زندگی سے کیا نسبت..؟ 
راحت بخش سازوسامان سے کیا واسطہ..؟

آپ اٹھ جایئے ! اس کار عظیم کے لیے جو آپ کا منتظر ہے.
اس بار گراں کے لیے جو آپ کی خاطر تیار ہے.. 
اٹھ جایئے ! جہد ومشقت کے لیے , تکان اور محنت کے لیے. 
اٹھ جایئے ! کہ اب نیند اور راحت کا وقت گزر چکا
اب آج سے پیہم بیداری ہے اور طویل اور پرمشقت جہاد ہے.
اٹھ جایئے ! اور اس کام کے لیے مستعد اور تیار ہوجایئے.

یہ بڑا عظیم اور پر ہیبت کلمہ ہے.
اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پرسکون گھر , گرم آغوش اور نرم بستر سے کھینچ کر تند طوفانوں اور تیز جھکڑوں کے درمیان اتھاہ سمندر میں اتار دیا اور لوگوں کے ضمیر اور زندگی کے حقائق کی کشاکش کے منجدھار میں لاکھڑا کیا.

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم__ اٹھ گئے اور بیس سال سے زیادہ عرصہ تک اٹھے رہے
راحت وسکون تج دیا
زندگی اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے نہ رہی.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے تو اٹھے ہی رہے.
کام اللہ کی دعوت دینا تھا , آپ نے یہ کمر توڑ بارگراں اپنے شانے پر کسی دباؤ کے بغیر اٹھا لیا.
یہ بوجھ تھا اس روئے زمین پر امانت کبریٰ کا بوجھ , ساری انسانیت کا بوجھ , سارے عقیدے کا بوجھ اور مختلف میدانوں میں جہاد ودفاع کا بوجھ !!

اس پورے عرصے میں یعنی جب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ آسمانی ندائے جلیل سنی اور یہ گراں بار ذمہ داری پائی , آپ نے پیہم اور ہمہ گیر معرکہ آرائی میں زندگی بسر کی اور آپ صلی ال

لہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ایک حالت دوسری حالت سے غافل نہ کرسکی
اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری طرف سے اور ساری انسانیت کی طرف سے بہترین جزا دے.
آمین..

Post a Comment

0 Comments