حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
.
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ
ہر قوم کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے ۔ فرمان نبویﷺ"
خوشی شکل، ہنس مکھ، اکہرے جسم' دراز قد اور تیکھے خدوخال والےکہ دیکھنے والے کی آنکھوں کو سرور حاصل ہو ۔ آپ سے ملنے والے کی طبیعت مانوس ہو اور اسکو دلی سکون میسر آئے ۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ خوش مزاج اور اعلی اخلاق اور انتہائی شرمیلے تھے لیکن جب بھی کوئی افتاد آن پڑتی یا کوئی مشکل وقت آتا تو آپ شیر کی مانند چاک و چوبند ہو جاتے۔ علاوہ ازیں آپ جلال و جمال' طنیعت کی تیزی اور اثر و نفوذ میں چمک دار تیز تلوار کی مانند تھے ۔
آپ ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے آمین حضرت عامر بن عبداللہ بن جراح الفہری القرشی جن کی کنیت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ قریش میں تین شخصیات ایسی ہیں جن کے چہرے سب سے زیادہ حسین ، جن کا اخلاق سب سے عمدہ اور جن میں حیا سب سے زیادہ پائی جاتی ہے ۔
اگر وہ آپ سے گفتگو کریں تو قطعی طور پر جھوٹ نہ بولیں اگر آپ ان سے کوئی بات کریں تو آپ کو جھٹلائیں گے نہیں میری نظر میں وہ تین عظیم شخصیات یہ ہیں:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ
حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی ۔ آپ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد دوسرے دن ہی مسلمان ہو گئے ۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ، حضرت عبد الرحمان بن عوف رضي الله عنہ، حضرت عثمان بن مظعون رضي الله عنه اور حضرت ارقم بن ابی الارقم رضي الله عنہ کے ہمراہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے روبرو کلمہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ پڑھ کر مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔
حقیقت میں یہ وہ عظیم شخصیات وہ پہلی بنیادیں ہیں جن پر اسلام کا محل تعیمر کیا گیا۔
حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے مکہ معظمہ میں شروع سے لے کر آخر تک مسلمانوں کے ساتھ سخت حالات میں زندگی گزاری ۔
ایسی شدید تکالیف اور رنج میں ان کا ساتھ دیا کہ جن تکالیف کا روئے زمین پر بسنے والے کسی بھی دین کے پیروکاروں کو کبھی بھی سامنا نہ کرنا پڑا ۔ آپ اس دور ابتدا میں ثابت قدم رہے ۔
اور ہر قدم پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دل سے سچا جانا ۔
لیکن جنگ بدر میں حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو پیش آنے والی آزمائش اس قدر نازک تھی ۔کہ انسانی تخیل میں بھی نہ آ سکے ۔
ہوا یہ کہ حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے ۔ آپ کے اس جرائت مندانہ اقدام سے دشمنوں میں بھگدڑ مچ گئی ۔
آپ میدان جنگ میں اس طرح چکر لگا رہے تھے جیسے موت کا کوئی ڈر ہی نہیں ہو ۔آپ کا یہ انداز دیکھ کر قرشی کے شہسوار گھبرا گئے ۔
آپ ان کے سامنے آتے تو وہ خوفزدہ ہو کر ایک طرف ہو جاتے ۔
لیکن ان میں صرف ایک شخص ایسا تھا جو آپ کے سامنے آ کر آکر کر کھڑا ہو جاتا لیکن آپ اس سے پہلو پھیر لیتے اور اس سے مقابلہ کرنے سے اجتناب کرتے ۔
وہ بار بار آپ کے سامنے آ آ کر کھڑا ہو جاتا لیکن آپ نے بھی اس سے پہلو تہی اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ بالآخر اس نے آپ کے سارے راستے بند کر دیے ۔
حتی کہ وہ آپ کے اور دشمنان اسلام کے درمیان حائل ہو گئے اور اب کوئی بھی چارہ باقی نہ رہا ۔
لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اب کوئی چارہ نہیں ہے تو آپ نے اس کے سر پر تلوار کا ایسا زوردار وار کیا جس سے اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے ہو گئے ۔
کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ قتل ہونے والے شخص کون تھا؟
بلاشبہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو آنے والی یہ آزمائش کافی سخت تھی ۔جب آپ کو یہ معلوم ہو گا کہ یہ لاش تو ان کے والد عبداللہ بن جراح کی تھی تو آپ انگشت ندنداں رہ جائیں گے ۔
دراصل ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو قتل نہیں کیا ۔انہوں نے میدان بدر میں اپنے باپ کو ہیولے کی شکل میں نیست و نابود کر دیا ۔
آپ کا یہ اقدام اللہ کو اتنا پسند آیا کہ آپ کی شان میں یہ آیات نازل ہوئی ۔
🌷22: لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ○
22: "جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے۔ (اور) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے(المجادلہ ٢٢)
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے لیے یہ کوئی انوکھا کارنامہ نہیں تھا ۔ وہ اپنی قوت ایمانی ، جذبہ دینی اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں امانت و دیانت کے اس اعلی مقام پر تھے ۔جس کے لیے بڑی بڑی ہستیاں اللہ سبحانہ و تعالٰی کے ہاں آرزو مند ہوتی ہیں ۔
جناب حضرت محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کا ایک وفد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک وفد ہمارے ساتھ روانہ فرما دیں ۔
جس کو آپ مناسب سمجھیں وہ ہمارے باہمی مالی اختلافات کو نپٹائے۔ جو شومئی قسمت سے شدت اختیار کر چکے ہیں۔ ہم برملا تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں مسلمان بہت پسند ہیں ۔
ان کی باتیں سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
شام کو میرے پاس آنا میں آپ کے پاس ایک ایسا شخص روانہ کروں گا جو طاقتور اور دیانتدار بھی ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
اس روز میں جلدی جلدی نماز ظہر کے لیے مسجد میں آیا کہ شائد انتخابات میں میرا نام آئے۔ بخدا مجھے کوئی امارت و قیادت کا شوق نہیں تھا بلکہ وفد کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اوصاف بیان فرماتے ہیں ان کا مصداق میں ٹھہروں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو دائیں بائیں دیکھا ۔ اس دوران اپنا سر اوپر اٹھایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مجھ پر پڑے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل دیکھتے رہے یہاں تک آپ کی نظر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ پر پڑی اور ان کو اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔کہ آپ اس وفد کے ساتھ جائیں اور ان کے معاملات کو عدل و انصاف کے ساتھ حل کریں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس موقع پر بے اختیار بول اٹھا کہ ابو عبیدہ ہم سے سبقت لے گیا ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اعلی درجے کے انسان تھے اور آپ میں قیادت کی صلاحیت بھی پائی جاتی تھی ۔
ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک قافلے کو قریش کے قافلے کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا ۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو اس جماعت کا امیر مقرر کیا اور زاد راہ کے لیے کھجوروں کا ایک ٹوکرا دیا ۔
صورت حال یہ تھی کہ آپ کے پاس مجاہدین کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چیز بھی نہ تھی اس سفر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بہت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے بھی قیادت کا حق ادا کیا ۔
آپ روزانہ ہر ایک صحابی کو ایک کھجور دیتے وہ اس کے ساتھ پانی پی لیتا ۔ اور یہ خوراک دن بھر کے لیے کافی ہوتی ۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو عارضی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ایک مشرک بڑے غضب ناک انداز میں چلا آ رہا تھا ۔
مجھے بتاؤ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کا نبی کہاں ہے ؟
اس نازک صورتحال میں ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک تھے جنہوں نےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا۔
اور اپنے سینے پر تیر کھا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کا فریضہ انجام دیا ۔
جب جنگ کا زور ختم ہوا تو صورتحال یہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہو چکے تھے ۔
آپ کی پیشانی مبارک زخمی اور آپ کے رخسار پر خود کے دو خلقے پیوستہ ہو چکے تھے. آپ کی یہ حالت دیکھ کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تیزی سے آگے بڑھے کہ آپ کہ رخسار سے یہ نکال دیں ۔ اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا خدارا یہ خدمت کا موقع مجھے دیا جائے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کا شوق دیکھ کر ایک طرف ہو گئے ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو اندیشہ تھا کہ اگر ان خلقوں کو ہاتھ سے نکالا گیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف ہو گی ۔
تو آپ نے ایسے کیا کہ اپنا ایک دانت مضبوط سے ایک حلقے میں پیوستہ کر دیا اور پورے زور سے ڈانٹ دبا کر اسے رخسار مبارک سے باہر نکال دیا ۔
لیکن اسی جستجو میں آپ کا دانت ٹوٹ گیا ۔
پھر اسی طرح آپ نے دوسرا حلقے کو باہر نکال دیا اور آپ کا دانت مبارک پھر ٹوٹ گیا ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ دو دانت ٹوٹنے کے باوجود بہت خوبصورت لگ رہے تھے ۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے ۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ اللہ کو پیارے ہو گئے ۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جناب حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو کہا : کہ اپنا ہاتھ آگے کرو کہ میں آپ کی بیعت کروں ۔
کیونکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے :
کہ ہر امت کا امیں ہوتا ہے اور میری امت کا آمین عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہے ۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس عظیم ہستی کو کیسے پیچھے چھوڑ سکتا ہوں جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امام مقرر کیا ہے ۔
اس کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ آپ کے دور خلافت میں آپ کے خیر خواہ تھے ۔
جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تو ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ پورے دور میں آپ کے مددگار رہے ۔
صرف ایک حکم کے علاوہ آپ نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی کسی حکم میں نافرمانی نہیں کی ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کون سا حکم تھا ؟
واقعہ یہ تھا کہ اب عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ملک شام میں لشکر اسلام کوقیادت کر رہے تھے اور بڑی تیزی سے شہر در شہر فتح ہو رہا تھا پورا ملک شام بھی فتح ہو گیا اور اسلامی حکومت کی سرحدیں مشرق میں دریا فرات تک اور شمال میں ایشیا کو تک پہنچ گئی ۔
جب فتوحات کا سلسلہ پورے عروج پر تھا ۔
عین اس موقع پر شام میں طاعون کی ایسی خطرناک وباء پھیلی جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔ لوگ بڑی تیزی سے اس بیماری کا شکار ہو رہے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کا علم۔ہوا تو فورا ایک خط دے کر ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ کیا۔
خط میں لکھا تھا کہ مجھے آپ سے ایک بہت ضروری کام ہے ۔ خط ملتے ہی فورا میرے پاس آ جائیں اگر خط صبح ملے تو رات کا انتظار نہ کریں ۔
جب ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے یہ خط پڑھا تو کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو یعنی امیر المومنین کو میرے ساتھ کیا کام ہے ۔ دراصل وہ ایک ایسے شخص کو باقی رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں ۔
پھر امیرالمومنین کو اس کا جواب تحریر کیا امیرالمومنین بعد از تسلیمات عرض ہے:
مجھے معلوم ہے کہ آپ کو میرے ساتھ کیا کام ہے اور میں اس وقت لشکر اسلام کے ساتھ ہوں۔
آج مسلمان جن حالات میں ہی میں ان میں انکو تنہا نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی میں ان سے جدا ہونا چاہتا ہوں یہاں تک کہ اللہ ہمارے لیے کوئی فیصلہ صادر کر دے ۔
مجھے آپ ان حالات میں معذور سمجھتے ہوئے مجاہدین میں ہی رہنے کی اجازت فرما دیں .
جب یہ خط امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو اس کو پڑھ کر آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے ۔ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو زاروقطار روتے دیکھ کر آپ سے وجہ دریافت کی ۔ کہ کیا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے ہیں ؟ فرمایا: نہیں، لیکن موت اب ان کے بہت قریب ہو گئی ہے ۔
اس سلسلہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اندازہ غلط نہ تھا ۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ طاعون کی خطرناک بیماری کا شکار ہو گئے ۔
جب موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے لشکر اسلام کو یہ وصیت فرمائی: میں آج تمہیں ایک وصیت کرتا ہوں، اگر آپ لوگوں نے اسے تسلیم کیا تو ہمیشہ کامیاب اور خیریت سے رہو گے ۔
سنو !
نماز قائم کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، صدقہ خیرات کرتے رہنا ، بیت اللہ کا حج کرنا ، عمرہ ادا کرنا ، آپس میں ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی تلقین کرتے رہنا ، اپنے حکمرانوں کے ساتھ خیر خواہی کے ساتھ پیش آنا اور ان کو کھبی دھوکہ نہ دینا ، دیکھنا کہیں دنیا تمہیں غافل نہ کر دے ۔
میری یہ بات غور سے سنو !
اگر کسی شخص کو ہزار سال کی بھی عمر مل جائے ۔ تو آخر کار اس کا انجام یہی کو گا جو میرا دیکھ رہے ہو ۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا، سب کو میری طرف سے سلام اور اللہ کی تم پر رحمت ہو ۔
پھر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: معاذ لوگوں کو نماز پڑھایا کرو ۔اچھا اللہ حافظ ۔
یہ کہ کر آپ کی پاکیزہ روح پرواز کر گئی ۔ پھر اس موقع پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اٹھے اور فرمایا :
لوگوں آج تم ایک ایسے شخص کے لیے غم زدہ ہو کہ ان سے بڑھ کر کوئی نیک دل ، حسد و بغض سے پاک سینہ ، آخرت سے بہت زیادہ محنت کرنے والا اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے والا کسی کو نہ پایا ۔ سب مل کر خلوص سے اللہ کے ہاں ان کے لیے دعا کرو ۔۔
🌴بارک اللہ فیکم🌴
==============ختم شدہ۔۔۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی
0 Comments