حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ



محترم حضرات ہماری اور آپ کی چاہت ہیں کے دین کی حفاظت ہو تو سب سے اولین جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ہیں جنہوں نے دین کو براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھا اور عمل کیا اور امت تک امانت داری سے پہچایا لھذا صحابہ کرام کی جماعت محفوظ ہیں اسلئے دین محفوظ ہیں ہماری چاہت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات کو تفصیل سے لکھا جائے آپ حضرات سے درخواست ہے کہ بلاگ کو فالو کریں تاکہ ہر مضمون آپ تک ای میل کے ذریعے آسانی سے پہچ جاۓ




بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

✨باذن اللہ تعالی✨

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*


حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

*جس کو یہ بات پسند ہے کہ قرآن مجید اسی لہجہ میں پڑھے جس میں نازل ہوا تو وہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرآت کا انداز اپنائے۔ "فرمان نبویﷺ"*





لڑکپن کا زمانہ تھا، ابھی حد بلوغت کو نہ پہنچے تھے ۔ لوگوں سے بہت دور مکہ مکرمہ اپنے آقا اور قریش کے سردار عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرانے جایا کرتے تھے ۔


لوگ انہیں ابن ام عبد کے نام سے پکارتے جب کہ ان کا اصلی نام عبداللہ اور باپ کا نام مسعود تھا ۔

یہ ہو نہار فرزند رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  کچھ عجیب عجیب باتیں سنا کرتا ۔

لیکن ان باتوں کی طرف دو وجہ سے دھیان نہ دیتا ۔

ایک تو یہ کہ بچپن کا زمانہ تھا دوسرا یہ کہ اکثر وقت مکہ کے لوگوں سے الگ تھلگ گزرتا  ۔

روزانہ کا معمول یہ تھا کہ صبح سویرے اپنے عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرانے چلے جاتےاور رات کو واپس آتے ۔

ایک دن یہ نوجوان یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کیا دیکھتے ہیں ۔ کہ دو باوقار لوگ ان کی طرف چلے آ رہے ہیں ۔
وہ دونوں بہت تھکے ہوئے تھے اور پیاس کی شدت کی وجہ سے ان کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے ۔

ان کے پاس آتے یہ دونوں نے سلام کیا اور فرمایا: 

عزیزم! ہمیں ان بکریوں کا دودھ پلا ؤ تاکہ اس سے آتش پیاس بجھا سکیں۔

اس ہونہار لڑکے نے جواب دیا ،

میں تو ایسا نہیں کر سکتا یہ بکریاں میری نہیں بلکہ میرے پاس تو امانت ہیں ۔
لیکن ان دونوں نے میری بات کا برا نہیں منایا اور خوشی سے تمتا اٹھے۔ پھر ان بزرگوں میں
اسے یک بزرگ نے کہا
ہمیں ایسی بکری بتاؤ جو چھوٹی ہو اور دودھ نہ دیتی ہو ۔
میں نے قریب ہی کھڑی ہوئی ایک چھوٹی سی بکری کی طرف اشارہ کیا: ایک بزرگ آگے بڑھے،ایک ہاتھ سے بکری کی ایک ٹانگ پکڑی اور دوسرا ھاتھ اس کے تھنوں کو لگایا اور وہ ساتھ کچھ پڑھ بھی رہے تھے میی نے بڑی حیرانی سے ان کی طرف دیکھا اور دل میں کہا

کہ بھلا اتنی چھوٹی بکریاں بھی دودھ دے سکتی ہے ۔"

لیکن میں نے دیکھا کہ  تھوڑی ہی دیر میں بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا اور دودھ بھی کثیر مقدار میں تھا ۔

دوسرے بزرگ نے ایک پیالہ نما پتھر پکڑا اور اس کو دودھ سے بھر لیا ۔ دونوں نے خوب جی بھر کر پیا اور مجھے بھی پلایا اور میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا ۔

جب ہم تینوں خوب سیر ہو گئے تو اس مبارک شخصیت نے تھنوں کو حکم دیا کہ سکڑ جاؤ تو وہ فورا سکڑنے لگے یہاں تک اپنی اصلی حالت میں آ گئے ۔

 اس موقع پر میں نے یہ عرض کی کہ محترم مجھے بھی یہ با برکات کلام سکھا دیں ۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ابھی آپ بچے ہیں ۔

یہی واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اسلام کی طرف مائل کرنے کا سبب بنا ۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ انسان کون تھے ؟؟

یہ انسان رحمت العالمین حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ان کے ساتھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔


ان دنوں قریش نے مکہ معظمہ میں اودھم مچا رکھا تھا ۔ اور مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچا رہے تھے اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پہاڑی علاقوں کی طرف چل پڑے تھے ۔

اس لڑکے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خلوص دل۔سے محبت کی اور آپ دونوں کو بھی ان  کی دیانتداری اور ایمانداری  بہت پسند آئی۔

اس واقعہ کے ٹھوڑے ہی عرصہ بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسلام قبول کیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خدمات پیش کر دیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت خوشی سے آپ رضی اللہ عنہ کو قبول کیا اور اس دن سے یہ خوش نصیب فرزند بکریوں کی نگرانی سے سبکدش ہو کر سید الانام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہو گیا 

پھر اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح رہے جیسے سایہ انسان کے ساتھ رہتا ہے ۔

حضروسفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ۔
ہر جگہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت نصیب ہوئی ۔


جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر نکلنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے آپ کے قدموں میں لا کر پیش کرتے اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے تو آگے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سے اتارتے ۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھڑی اور مسواک کا ہر وقت انتظام رکھتے آپ کو حجرہ میں  بھی آنے کی اجازت تھی ۔


یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدان کے طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مشہور تھے ۔

چونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اس لیے آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کو  زیادہ  اپنانے کا موقع ملا ۔

انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر عادت کو اپنے اندر پرونے چڑھانے کی کوشش کی یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ بات مشہور ہو گئی کہ آپ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہیں ۔


عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے درسگاہ نبوت سے علم حاصل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت' قرآن فہمی شریعت الہیہ کے علم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا 

بطور دلیل آپ کی خدمت میں ایک واقعہ پیش کیا جاتا ہے:

وقوف عرفہ کے دوران ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ۔

امیرالمومنین ! اس وقت کوفہ سے آ رہا ہوں اور وہاں ایک شخص اپنے حافظے کی بنیاد پر قرآن لکھوا رہا ہے ۔ 

یہ بات سن کر عمر رضی اللہ عنہ بہت غصے میں آپ کو اتنے غصے میں پہلے کبھی نہیں دیکھا 


آپ نے غصے میں پوچھا کہ وہ شخص کون ہے تو اس نے بتایا کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔


میرے علم کے مطابق اس وقت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قرآن فہمی میں سب سے اعلی مقام حاصل ہے 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قرآن کی تعلیم  میں اعلی مقام حاصل تھا اس کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے 

ایک دفعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیٹھے امت مسلمہ کی گفتگو کرتے رہے تھے  میں بھی اس میں  شریک تھا ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اچانک اٹھے اور چل دیے ۔ ہم بھی آپ کے ساتھ ہو لیے ۔


کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں اونچی آواز میں نماز پڑھ رہا تھا اندھیرے کی وجہ سے ہم اس کو پہچان نہیں سکے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قرات سننا شروع کر دی ۔

پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس کو یہ بات پسند ہے کہ قرآن جس زبان میں نازل ہوا ہے وہ اس کو اسی آواز میں سیکھے تو وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قرات کا انداز اپنا لے ۔

نماز کے بعد جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اونچی آواز میں دعا شروع کر دی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مانگو تمہاری دعا قبول ہو گی ۔


مانگو جو چاہتے ہو مانگو، دیا جائے گا ۔

پھر عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دل میں یہ ارادہ کیا کہ میں صبح سویرے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ خبر ضرور دوں گا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری دعا پر آمین کہہ رہے تھے ۔

میں صبح سویرے ان کو خوشخبری دینے کے لیے گیا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے پہلے ہی وہاں پر پہنچے ہوئے ہیں۔  


اللہ کی قسم میں برملا یہ اعلان کرتا ہوں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہر نیکی میں مجھ سے سبقت لے گئے ہیں ۔


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قرآن فہمی میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا  ۔


وہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۔


اس کے فضل و کرم سے مجھے قرآن کی  ہر آیت کے بارےمیں علم ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئی ۔ اور اس کا شان نزول کیا ہے اور مجھے جب بھی پتہ چلتا کہ کسی شخص کو مجھ سے زیادہ قرآن کا علم ہے تو میں اس کی خدمت میں حاضر ہوا جاتا اور اس سے معلومات حاصل کرنا 


یہ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اپنے متعلق بیان تھا '  ہم اس پر اتفاق نہیں کرتے بلکہ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ جس سے ان کے علم کا اندازہ ہوتا ہے ۔

ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ صحرا میں سفر کر رہے تھے ۔

رات بہت تاریک تھی ایک قافلہ دوران سفر ملا ۔

اس میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شامل تھے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقائے  سفر میں سے ایک کو حکم دیا ۔ 

پتہ کرو یہ قافلہ کہاں سے آ رہا ہے ۔

جب پتہ کرنے کے لیے ان سے پوچھا گیا ۔

جواب ملا: فج عمیق سے (دور دراز جگہ سے)

دوسرا سوال ہوا۔
کہاں کا ارادہ ہے؟
جواب ملا : بیت عتیق (بیت اللہ شریف کا)

اس جواب سے عمر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ اس قافلے میں  کوئی جید عالم موجود ہے لہٰذا ان سے کچھ مزید سوالات کیے جائیں ۔

سوال کیا قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت کون سی ہے ؟
جواب ملا آیت الکرسی ۔

دوسرا سوال کیا ۔ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے محکم ہے ؟

جواب ملا:
 إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.(النخل 90)

 بےشک اللہ انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو

تیسرا سوال کیا: کہ قرآن کی کون  سی سورة سب سے جامع ہے ؟ 

جواب ملا:

فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ 
وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ

تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا ۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا


چوتھا سوال کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے زیادہ خوف دلانے والی ہے ؟

جواب ملا:

لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا

نجات) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی (طرح) کا بدلا دیا جائے گا اور وہ اللہ کے سوا نہ کسی کو حمایتی پائے گا اور نہ مددگار
)النساء 123)


پانچواں سوال  کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے زیادہ امید دلانے والی ہے ؟

جواب ملا :

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

 (اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
)الزمر 53)

یہ عمدہ اور جامع جوابات سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

قافلہ والوں سے دریافت کرو تمہارے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی ہیں  ؟

جواب ملا :
یقینا موجود ہیں ۔


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ صرف قاری عالم  عابد اور زاہد ہی نہیں تھے بلکہ تنو بند چاک و چوبند اور بوقت ضرورت آگے بڑھ کر حملہ کرنے والے مجاہد بھی تھے ۔


غالبا یہ پہلے صحابی تھے جنہوں نے اللہ۔کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلی مرتبہ مکہ مکرمہ میں مشرکین کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی ۔


ایک دن اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور ایک جگہ جمع ہوئے اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی بہت کم تھی ۔


افرادی قوت بھی کم تھی سب نے سوچا کہ قریش نے قرآن کی تلاوت ابھی تک نہیں سنی ۔ ہم میں سے کون یہ جرات کرے گا جو تلاوت قرآن کرے 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا یہ ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں ۔ میں ان کو قرآن پڑھ کر سناؤں گا- سب نے کہا :

ہمیں خطرہ ہے کہیں آپ کی آواز سن کر وہ شرارت پر نہ اتر آئیں ۔ ہمارے خیال میں یہ فریضہ وہ سر انجام دے جس کا قبیلہ بھاری ہو ۔

اگر یہ شرارت کرنا بھی چاہیں تو قبیلے آڑے آ جائے اور تلاوت کرنے والا ان کے شر سے محفوظ رہے گا ۔

یہ باتیں سن کر آپ نے نہایت ہی جرات مندانہ انداز میں ارشاد فرمایا:

آج مجھے تلاوت کرنے دیں میرا اللہ میرا حامی و ناصر ہے ۔

اس کے بعد آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے اور قریش اس وقت کعبہ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ۔
انہوں نے اونچی آواز میں سورة الرحمن کی تلاوت شروع کر دی ۔


: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ 

  الرَّحْمَٰنُ

 (خدا جو) نہایت مہربان

 عَلَّمَ الْقُرْآنَ

 اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی

 خَلَقَ الْإِنْسَانَ,

اسی نے انسان کو پیدا کیا

عَلَّمَهُ الْبَيَانَ

 اسی نے اس کو بولنا سکھایا


آپ لگاتار تلاوت کرتے رہے حتی کہ قریش جان گیا کہ یہ تو وہی کلام ہے جو محمد ہمارے سامنے پیش کرتا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب مجمع آپ پر ٹوٹ پڑا اور وہ آپ کو مارتے جاتے اور آپ قرآن پڑھتے جاتے تھے ۔


آپ جب اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو آپ کے بدن سے خون بہہ رہا تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ ہمیں اسی بات کا اندیشہ تھا ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:
اللہ کی قسم اب یہ دشمنان خدا میری نظر میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے  

آپ نے فرمایا: کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں صبح جا کر پھر ایسا کرتا ہوں سب نے کہا کہ نہیں آپ نے حق ادا کر دیا اور قریش کو وہ کلام سنا دیا جو وہ ہر گز نہیں سننا چاہتا تھا ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک زندہ رہے جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ کو کس سے شکایت ہے ؟

فرمایا: اپنے گناہوں سے ۔

پوچھا، آپ کا دل کیا چاہتا ہے؟

فرمایا: اللہ کی رحمت ۔

اس کے بعد خلیفہ المسلمین نے پوچھا کہ کیا وہ سب مال آپ کے نام لگا دوں جو آپ کتنے عرصے سے نہیں لے رہے ؟ 

فرمایا: اس مال کی ضرورت نہیں ۔

نزع کے وقت آپ کی زبان ذکر الہی سے تر تھی اور آپ کی زبان مذکر پر آیات بینات کا ورد جاری تھا

🌴بارک اللہ فیکم🌴


===========>ختم شدہ۔۔۔
 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر 
 
طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments