حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

 حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

✨باذن اللہ تعالی✨

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*


حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ*

*سلمان ہمارے اھل بیت میں سے ہیں* *(فرمان نبویﷺ)*




یہ ایک ایسے عظیم  شخص کی داستان ہے جو حقیقی منزل کو ہمیشہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں اور سبحانہ و تعالٰی کی تلاش میں مسلسل سرگرداں رہا ہو ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ  کی کہانی ہم آپ کو انہیں کی زبانی سناتے ہیں-  

یقینی طور پر جس طرح وہ اپنی اپ بیتی جس عمدہ اسلوب میں بیان کر سکتے ہیں ، کوئی دوسرا تو یہ انداز نہیں اپنا سکتا ۔

بلاشبہ اس سلسلے میں جس طرح ان کے اپنے احساسات نازک اور انداز بیان صداقت و حقیقت پر مبنی ہو سکتا ہے کوئی بھی دوسرا یہ حق ادا نہیں کر سکتا ۔

تو سنئے!

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اصفہان کے علاقہ کا ایک فارسی النسل نو جوان تھا جس بستی میں ہم رہائش پذیر تھے وہ جی کے نام سے مشہور تھی ۔

میرا باپ اس بستی کا سردار تھا اور وہ تمام بستی والوں میں مالدار اور رعب و دبدبہ کا مالک تھا ۔

پیدائش کے دن سے اسے میرے ساتھ ہر چیز سے زیادہ پیار تھا ۔ جوں جوں میری عمر بڑھتی گئی اس کی مہر و محبت میں اضافہ ہوتا گیا ۔

مجھے گھر کی چار دیواری میں  اس طرح بند کر دیا گیا جس طرح  دو شیزاؤں  کو گھر میں بند کر دیا جاتا ہے  میں نے محبت کے اس قید خانے میں مجوسیت کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی ۔

اس میں بہت محنت کی اور اس میدان میں اعلی مقام حاصل کر لیا اور مجھے اس آگ کا نگران بنا دیا گیا جس کی ہم پوجا کرتے تھے ۔ اس کو لگاتار جلائے رکھنے کی ذمہ داری مجھ پر تھی میں اس کو دن اور رات میں ایک لمحہ بھی نہیں بجھنے دیتا تھا ۔

میرا والد بہت بڑا جاگیردار تھا سالانہ وافر مقدار میں غلہ ہمارے گھر آتا ۔ روزانہ اس جاگیرداری کی دیکھ بھال میرے والد کا معمول تھا

ایک دن وہ کسی کام میں مشغول ہو گئے اور مجھے حکم دیا کہ بیٹا میں آج کھیتوں میں نہیں جا سکوں گا تو آپ میری جگہ جائیں ۔ 

 کھیتوں کی نگرانی کریں میں گھر سے تو اپنی جاگیر کی نگرانی کے لیے نکلا لیکن راستے میں ایک گرجا کے پاس سے گزرا جس میں عیسائی پوجا پاٹ میں  مصروف تھے ۔ مجھے ان کا طرز عبادت بہت پسند آیا ۔

مجھے ان دنوں عیسائیت یا دیگر ادیان کا کچھ علم نہیں تھا ۔ کیونکہ میرا والد مجھے گھر سے کسی وقت نکلنے نہیں دیتا تھا ۔ اس روز میں نے جب عیسائیوں کی یکساں آوازیں سنی تو میں بے اختیار اس گرجے میں داخل ہو گیا ۔

میں نے اپنے دل میں  کہا خدا کی قسم یہ دین تو بہت بہتر ہے اس سے جس کو ہم نے اختیار کیا ہوا ہے ۔ بخدا میں غروب آفتاب تک وہیں رہا اور اس دن میں کھیت کی نگرانی کے لیے نہیں گیا ۔

میں نے اہل کنیسہ سے دریافت کیا کہ  اس دین کا مرکز کہاں ہے ۔ انہوں نے مجھے بتایا ملک شام میں ۔ جب رات ہوئی تو میں اپنے گھر وا پس لوٹ آیا باپ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے آج دن بھر کون سا کام سرانجام دیا ؟

میں  نے عرض کی اباجان آج کھیتوں میں جاتے وقت میرا کنیسہ سے گزر ہوا میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ عبادت میں مصروف ہیں۔

 مجھے ان کی عبادت کا انداز اتنا پسند آیا کہ شام تک میں ان کے پاس بیٹھا رہا ۔ میرا باپ یہ باتیں سن کر گھبرا گیا ۔ 

اس نے اپنا دل پکڑ کر کہا بیٹا اس دین میں  کوئی خیر نہیں ہے تیرے آباؤ و اجداد کا دین اس سے کہیں بہتر ہے ۔
میں نے کہا : "اباجان! ہر گز نہیں" 

خدا کی قسم ان لوگوں کا دین ہمارے دین سے بہت بہتر ہے ۔ میرا باپ میری یہ بات سن کر بہت پریشان ہوا اور اس کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں میں اپنے آبائی دین سے منحرف نہیں ہو  جاؤں ۔

اس نے مجھے گھر میں قید کر دیا اور میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دی

ایک دن مجھے موقع ملا تو میں نے گرجے میں یہ پیغام دیا!

"جب کوئی ملک شام کی طرف جانے والا قافلہ آپ کے ہاں سے گزرے تو مجھے ضرور اطلاع کر دیں "۔
تھوڑے روز بعد ایک قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا جو شام کی طرف جا رہا تھا اہل کنیسہ نے مجھے اس کی اطلاع کر دی ۔ 

میں  نے پورے زور سے جھٹکا دیا اور زنجیر جا کر دور گری اور میں  چپکے سے باہر نکل آیا اور قافلے ساتھ ہو لیا چند دن بعد ہم شام پہنچ گئے۔

 اور میں  نے دریافت کیا کہ یہاں پر سب سے اعلی مذہبی شخصیت کون ہے ؟

لوگوں نے مجھے بتایا !
چرچ کا نگران اعلی "پوپ" !

میں اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے عیسائیت میں  دلچسپی ہے ۔


میری دلی تمنا ہے کہ آپ کے پاس رہوں اور عیسائیت مذہب کی تعلیمات حاصل کروں  اور آپ کی رہنمائی میں  عبادت کروں  ۔


میری معروضات سن کر اس نے مجھے اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دی ۔ میں نے جی بھر کر اس کی خدمت کی لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ آدمی ٹھیک نہیں 

یہ اپنے پیروکاروں کو صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیتا ہے اور جب اس کے پیروکار اپنا مال صدقہ و خیرات کے لیے اس کے پاس لاتے ہیں کہ اس کو صدقہ کیا جائے تو یہ سب مال  خود ہڑپ کر جاتا ہے ۔

فقراء و مساکین کو اس میں  سے کچھ نہیں دیتا ہے ۔ اسی طرح اس نے سات مٹکے سونے اور  چاندی  سے بھر لیے جب میں  نے اس کی یہ حرکات دیکھی مجھے وہ شخص بہت برا لگا ۔

لیکن چند دنوں بعد موت نے اس کو آ لیا اور عیسائی پیروکار جب اس کو دفن کرنے لگے تو میں نے ان سے کہا

تمہارا مذہبی سردار کوئی اچھا آدمی نہیں تھا یہ تمہیں تو صدقہ و خیرات کا حکم دیتا تھا اور جب اس کے ترغیب دلانے پر تمام اپنا مال اس کے پاس جمع کرواتے تھے کہ یہ اس کو اپنے ہاتھ سے غریب اور مسکین لوگوں میں تقسیم کرے تو یہ سب مال خود ہڑپ کر جاتا اور ایک پائی بھی کسی کو نہیں دیتا تھا ۔

انہوں نے مجھ سے کہا ۔
آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟
میں تمہیں اس کا خزانہ بتا دیتا ہوں ۔
انہوں نے کہا بتائیے ۔

میں نے ان کو وہ خفیہ جگہ بتائی جہاں پر اس نے مال دبا رکھا تھا ۔ جب انہوں نے سونے اور چاندی کے بھرے ہوئے سات مٹکے دیکھے تو انگشت بدنداں رہ گئے ۔ یہ مٹکے وہاں سے نکال لیے اور سب نے فیصلہ کیا کہ اس کو دفن نہیں کیا جائے ۔

بلکہ سولی پر لٹکا کر اس پر پتھر برسائے جائیں بالآخر اس کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا ۔ 

چند دن گزرنے کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے شخص کو اپنا مذہبی رہنما مقرر کیا ۔ میں  نے  اس کی خدمت شروع کر دی اور اس سے تعلیم حاصل کرنے لگا ۔

میں نے دیکھا کہ یہ شخص تو بہت بڑا زاہد ' آخرت کا متمنی اور دن رات عبادت میں مصروف رہنے والا ہے۔ اس کے یہ اوصاف دیکھ کر مجھے اس سے بہت عقیدت اور محبت ہو گئی ۔ میں  اس کی خدمت کرتا رہا یہاں تک کہ اس کا موت کا وقت قریب آیا تو میں بہت افسردہ ہوا ۔

روتے ہوئے اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور میں اب کہاں جاؤں ؟ میرے لیے کیا حکم ہے؟ میں اب کس سے تعلیم حاصل کروں؟ اس نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا ۔ 

بیٹا موصل میں  ایک شخص رہتا ہے ۔  جو ہمارے مشن پر قائم ہے تم اس کے پاس چلے جانا جب میرا یہ رہنما فوت ہو گیا تو میں تدفین سے فارغ ہو کر سیدھا موصل روانہ ہو گیا اور اس شخص سے ملاقات کی ۔ 

جس کا مجھے بتایا گیا تھا میں  نے اپنا تعارف کروانے کے بعد بتایا کہ مجھے فلاں پادری نے وصیت کی تھی کہ  میں آپ کی خدمت عالیہ میں  حاضر ہو کر آپ سے تعلیم حاصل کروں ۔


انہوں نے آپ کے متعلق یہ بھی بتایا کہ آپ ان کے مشن پر قائم ہیں وہ میری باتوں سے متاثر ہوا اور اپنے پاس رہنے کی اس نے مجھے بخوشی اجازت دے دی 

میں نے اس پادری کو بھی بہت بہتر پایا ۔ یہ بھی پہلے مذہبی رہنما کی طرح زاہد' عابد اور متقی اور خدا ترس انسان تھا لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد اس کا بھی آخری وقت آ گیا  ۔ میں نے افسردہ ہو کر کپکپاتے ہونٹوں سے عرض کی

حضرت آپ جانتے ہیں کہ میں کسی تلاش میں گھر سے نکلا ہوں ؟ کیوں میں نے ناز و نعم کی زندگی کو خیر باد کہا ہے ۔ کیوں میں نے پھولوں کے باغ چھوڑ کر خار دار وادی میں قدم رکھا ہے ۔

حضور اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ میں کدھر جائوں کہاں کا رخ کروں کسے اپنا رہنما بنائوں کس سے مذہبی تعلیم حاصل کروں  ۔ 


اس نے میری معصومانہ حالت کو دیکھ کر کپکپاتے ہونٹوں اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا ۔ 

بیٹا نصیبن نامی بستی میں چلے جاؤ اور وہاں فلاں شخص ہمارے مشن پر قائم ہے  اسے میرا سلام کہنا اور بتانا کہ میں نے تمہیں اس کے پاس بھیجا ہے ۔

جب اسے بھی لحد میں  اتار دیا گیا تو میں سیدھا  اس شخص کے پاس گیا جو بستی میں رہتا تھا ۔ میں نے اپنا تعارف کروانے کے بعد اپنے سابقہ مذہبی رہنما کا سلام پیش کیا ۔ اور پیغام بھی دیا کہ انہوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے   میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا متمنی ہوں اور ایک کامل استاد کی تلاش میں آپ کے پاس آیا ہوں ۔

اس نے میری باتیں سن کر کافی مسرت کا اظہار کیا اور حصول علم کے لیے اپنے پاس رہنے کی اجازت بھی دے دی ۔ یہ پہلے دونوں کی طرح بہت زاہد متقی عابد تھا لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کو بھی اجل نے زیادہ مہلت نہ دی ۔


جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے بہت افسردگی کے ساتھ اس کے سرہانے پر بیٹھ کر پوچھا ۔ حضرت آپ میری تمنا کو جانتے ہیں اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ 

میں اپنے درد کا حال کس کو سناؤں کسے اپنا رہنما بناؤں ۔ اب کون میری رہنمائی فرمائے گا ۔ اس نے بڑے ہی مشفقانہ انداز میں  کہا ۔ بیٹا عموریہ بستی میں فلاں شخص کے پاس چلے جاؤ وہ ہمارے مشن پر قائم ہے ۔ 

تجہیز و تدفین سے فارغ ہو کر میں اس کے پاس گیا اور اپنا تعارف کروایا اور سابقہ مذہبی رہنما کا پیغام دیا ۔ تو اس نے مجھے اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دی اور یہاں مجھے تعلیم کے ساتھ ساتھ کاروبار کے موقعے بھی میسر آئے ۔

لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کو بھی زیادہ مہلت نہ ملی اور جب ان کو موت کا وقت قریب آیا تو میں نے ان سے بھی عرض کیا کہ اب میرے لیے کیا حکم ہے؟

انہوں نے کہا کہ اب روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں رہا جو ہمارے مشن پر قائم ہو ہاں لیکن اب سر زمین عرب میں ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے ۔

جو دین ابراہیم لے کر آئے گا پھر وہ اپنے وطن سے ایک ایسے علاقے کی طرف ہجرت کرے گا ۔ جہاں سیاہ خشک پتھروں کے درمیان کھجوروں کے باغات ہوں گے-

اس کی چند ایک نشانیاں بھی ہوں گی وہ ہدیہ تو کھا ئے گا لیکن صدقہ کی چیز نہیں کھائے گا اور اس کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت کا نشانہ بھی ہو گا ۔ 

اگر آپ وہاں جانے کی استطاعت رکھتے ہیں تو وہاں ضرور جائیں اور ان سے ضرور ملیں  ۔ اس مذہبی رہنما کی وفات کے بعد میں  کافی عرصہ تک عموریہ بستی میں رہا ۔ 

ایک مرتبہ قبیلہ کلب کے کچھ تاجر یہاں سے گزرے اور میں  نے ان سے کہا کہ اگر تم مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ تو میں اس کے عوض یہ ساری بکریاں اور گائیں تمہیں دے دوں گا
انہوں نے کہا ہمیں یہ سودا منظور ہے ۔

انہوں نے یہ سارا مال لے لیا اور مجھے اپنے ساتھ سوار کر لیا ۔ 
جب ہم وادی القری میں پہنچے تو انہوں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا اور مجھے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔ مجھے مجبوری کے ساتھ اس کے پاس رہنا پڑا لیکن  کچھ عرصہ بعد بنو قریضہ کا ایک آدمی یعنی اس کا چچا زاد بھائی اس سے ملنے آیا اور اس نے مجھے خرید لیا اور مجھے اپنے ساتھ یثرب لے گیا ۔

وہاں میں نے کھجوروں کے وہ باغات دیکھے جو عموریہ کے پادری نے مجھے بتائے تھے ۔ میں نے سوچ لیا کہ یہی میری آخری منزل ہے میں یہاں غلامی کے دن گزارنے لگا ۔

دن بھر کا کام کرتا اور زندہ رہنے کے لیے دو وقت کا معمولی سا کھانا مل جاتا  یونہی میرے دن گزرنے لگے اور ان دنوں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں لوگوں کو دین کی دعوت دے رہے تھے ۔


لیکن میں غلامی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق زیادہ معلومات حاصل نہ کر سکا 



 تھوڑے ہی عرصہ بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کہ یثرب پہنچ گئے ۔
میں اس وقت کھجور کی چوٹی پر کام میں مصروف تھا اور میرا مالک کھجوروں کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا ۔

اس کا چچا زاد بھائی اس کے پاس آیا اور اس کا سانس پھولا ہوا تھا ۔ گھبراہٹ کے عالم میں کہنے لگا خدا بنو قبیلہ کو تباہ کرے ۔ وہ آج قباء میں اس شخص کے استقبال کے لیے جا رہے ہیں جو مکہ سے ہجرت کر کے آ رہا ہے ۔ 


اور اس کا دعوٰی ہے کہ میں نبی ہوں یہ بات سن کر میرے اوپر کپکپی طاری ہو گئی مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میں نیچے  نہ گر جائوں  میں  جلدی سے نیچے اترا ۔ 


اور بےخودی میں آنے والے شخص سے کہا کے بخدا آپ مجھے دوبارہ بتائیں کہ  کیا خبر ہے ۔

میری یہ حالت دیکھ کر میرے آقا کو غصہ آیا اور اس نے مجھے تابڑ توڑ مکے رسید کرنے شروع کر دیے ۔ اور بڑبڑایا کہ تجھے اس سے کیا چل تو اپنا کام کر ۔ 


جب شام کا وقت ہوا تو میں نے کھجوروں کا تھیلا بغل میں لیا اور تلاش کرتے کرتے وہاں پہنچ گیا جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہوتے تھے ۔

میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ' مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صالح اور خدا ترس انسان ہیں  



اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ مسافر ساتھی بھی ہیں ۔ یہ میرے پاس کچھ صدقہ کی کھجوریں ہیں یہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجوریں لی اور اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا:

یہ کھجوریں کھا لو اور اپنا ہاتھ روک لیا اور اس میں سے کوئی کھجور نہ لی۔ 


میں نے اپنے دل میں کہا یہ ایک نشانی پوری ہوئی ۔ پھر میں واپس آ گیا دوسرے دن اور کھجوریں لی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔



اور عرض کی کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہیں کھاتے اس لیے بطور تحفہ یہ کھجوریں آپ کو پیش کرتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ قبول کر لیں ۔


خود بھی یہ کھائیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی کھلائیں ۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ دوسری نشانی پوری ہوئی ۔ پھر میں تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا  اس دفعہ آپ جنت البقیع میں ایک صحابی کی تدفین کے سلسلے میں موجود تھے ۔


اس وقت آپ نے دوسرا چادریں زیب تن کی ہوئی تھی۔ میں نے سلام کیا ۔ میں آپ کی مہر نبوت دیکھنے کی کوشش میں تھا جو پادری نے مجھے بتائیں تھی 

میں نے سلام عرض کیا۔ میں آپ کی مہر نبوت دیکھنے کی کوشش میں تھا جو عموریہ کے پادری نے مجھے بتائی تھی۔ 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھانپ گئے کہ میں کیا چاھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک کندھوں سے نیچے سرکا دی۔ 

   میں  نے مہر نبوت دیکھی تو پہچان گیا۔ میں اسے چومنے کے لیے جھکا اور زاروقطار رونا شروع کر دیا۔

رسول اللہ ﷺ نے جب میری یہ حالت دیکھی تو شفقت سے مجھے تھپکی دی اور اپنے پاس بٹھا کر فرمایا : کیا بات ہے ؟ کیوں روتے ہو؟

میں نے اپنی پوری درد بھری داستان آپ ﷺ کو سنائی اور آپ
ﷺ نے اسے بڑی دلچسپی سے سنا اور مجھے فرمایا کہ ان ساتھیوں کو بھی یہ داستان سنائیں ۔ میں نے اپنی تمام داستان سنائی ۔ وہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ میں نے بڑی محنت کے بعد اپنی اصلی منزل کو پا لیا ہے۔ 

سلام ہو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ پر'
جس دن وہ حق کی تلاش میں گھر سے نکلے۔

سلام ہو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ پر'
جس دن انہوں نے حق کو پہچان لیا اور پختہ یقین کے ساتھ ایمان لے آئے۔

سلام ہو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ پر'
جس دن وہ فوت ہوئےاور جس دن انہیں زندہ اٹھایا جائےگا۔

🌴بارک اللہ فیکم🌴


===========>مکمل ہوئی۔۔۔
 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر 
 
طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments