حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ
*جلد ہی تمہارے پاس مومن اور مہاجر بن کر آئے گا،اس کے باپ کو گالی نہ دو اس لیے کہ میت کو گالی دینے سے اس کے لواحقین کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ گالی میت کو نہیں پہنچتی (فرمان نبویﷺ)*
۔
اے مہاجر شہسوار خوش آمدید !
جس دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کو لوگوں کے سامنے اعلانیہ طور پر پیش کیا اس وقت عکرمہ رضی اللہ عنہ اپنی عمر کی تیسری بہار کے آخری ایام میں تھے ۔
یہ قریش میں حسب و نسب کے اعتبار سے سب سے اعلی اور مالی لحاظ سے بھی طاقتور تھے ۔
ان کے لیے مناسب تو یہی تھا کہ جس طرح سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور دیگر معزز شخصیات نے مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا یہ بھی اسی طرح اسلام قبول کر لیتے ۔
لیکن ان کا باپ سب سے بڑی رکاوٹ تھا کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کا باپ کون تھا ؟
یہ وادی مکہ کا بہت بڑا جابر اور ظالم تھا مشرکین کا قائد مسلمانوں کو سخت اذیتیں دینے والا جس کی سخت آزمائشوں سے اہل ایمان کو آزمایا گیا اور وہ ان پر پورے اترے ۔ اور اس ظالم کے مکروفریب کے ذریعے مسلمانوں کو جانچا گیا اور وہ حق اور صداقت کے معیار پر پورے اترے ۔
بالآخر یہ شخص ابو جہل کے نام سے مشہور تھا ۔
یہ تو ہے ان کے پاپ کا مختصر تعارف لیکن جہاں تک عکرمہ رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو یہ قریش کے بہت بڑے لیڈر اور قابل رشک شہسوار تھے
جناب عکرمہ رضی اللہ عنہ سردار قریش کی لاش میدان بدر میں ہی چھوڑ کر واپس آ گئے ۔شکست نے ان کو اس قدر عاجز کر دیا کہ اپنے باپ کی لاش کو بھی مکہ دفن کرنے کے لیے اپنے ساتھ نہیں لا سکے ۔
مسلمانوں نے دوسرے مشرکین کی لاشوں کے ساتھ ان کی لاش کو بھی تکیب کنوئیں میں پھینک دیا ۔ اور اوپر سے ریت ڈال دی ۔
اس دن سے عکرمہ رضی اللہ عنہ کا اسلام کے ساتھ ایک دوسرا طرز عمل شروع ہو گیا ۔ پہلے تو اسلام کے خلاف اپنے باپ کی حمایت کی وجہ سے عداوت تھی اور اب باپ کا انتقام لینے کے لیے دشمنی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی ۔
اس وقت سے عکرمہ اور دیگر وہ تمام لوگ جن کے باپ معرکہ بدر میں قتل ہوئے تھے ۔ مشرکین کے سینوں میں عداوت کی آگ جلانے لگے اور مقتولین کے ورثاء کے دلوں میں انتقام کی آگ کا شعلہ بھڑکانے لگے ۔ یہاں تک کہ معرکہ احد برپا ہوا ۔
عکرمہ بن ابی جہل احد کی جانب چل نکلے اپنی بیوی ام حکیم کو بھی ساتھ لے لیا تاکہ وہ صفوں کے پیچھے کھڑی ہو کر دیگر مقتولین کی ورثاء عورتوں کے ہمراہ ایک ساتھ ڈھول بجا کر نوجوانان قریش کو لڑائی کے لیے برانگیختہ کریں ۔ تاکہ ان کو اس حالت میں دیکھ کر قریش کے شہسوار جم کر لڑیں اور میدان سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکیں ۔
قریش نے شہسواروں کے دائیں جانب خالد بن ولید اور بائیں جانب عکرمہ بن ابی جہل کو کھڑا کر دیا ۔ غزوہ احد میں ان دونوں شہسوار وں نے طوفان برپا کر دیا جس سے قریش کا پلہ بھاری ہو گیا اور مشرکین کو اس دن کامیابی حاصل ہوئی گئی ۔
یہ صورت حال دیکھ کر ابو سفیان نے کہا آج ہم نے غزوہ بدر کا بدلہ لے لیا ۔
اور غزوہ خندق میں کئی روز تک مشرکین نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کیے رکھا ۔ آخر کار عکرمہ بن ابی جہل کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ۔ انہوں نے خندق میں ایک تنگ سی جگہ دیکھی تو اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی وہ سرپٹ دوڑا اور خندق کو پار کر گیا ۔
انہوں کے پیچھے چند اور شہسوار بھی خندق پار کر گئے ۔ ان میں سے عمرو بن عبدو و عامر کا تو کام تمام ہو گیا اور عکرمہ بن ابی جہل جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔
فتح مکہ کے دن قریش نے خیال کیا کہ آج مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ لشکر اسلام کا راستہ نہ روکا جائے
اس فیصلے کا یہ فائدہ ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو سپہ سالاروں کو یہ حکم دیا کہ وہ اہل مکہ میں سے اسی کے ساتھ لڑائی کریں جو ان کے ساتھ نبرد آزما ہو ۔
عکرمہ بن ابی جہل اور ان کے ہمراہ ایک جماعت قریش کی شیرازہ بندی کے لیے نکلے تاکہ مسلمانوں کے لشکر جرار کا راستہ روکیں لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک چھوٹے سے معرکے میں ان کو شکست دے دی ان میں سے چند ایک قتل کر دیے گئے اور باقی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ان بھاگنے والوں میں عکرمہ بن ابی جہل بھی شامل تھے ۔
اس دن عکرمہ بن ابی جہل کو بہت ندامت محسوس ہوئی اور اب مکہ فتح ہو جانے کے بعد ان کا یہاں رہنا محال تھا ۔
اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقابلہ میں آنے والے قریش کے لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا' لیکن ان میں چند اشخاص ایسے بھی تھے کہ جن کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صادر فرمایا:
کہ اگر یہ لوگ کعبہ کے پردوں میں بھی چھپے ہوں تو ان کو قتل کر دو ۔
انہیں افراد کی فہرست میں عکرمہ بن ابی جہل کا نام بھی تھا' اس لیے وہ چپکے سے کھسک گیا اور یمن کا رخ کیا کیوں کہ یہاں اس کو کوئی جائے پناہ نظر نہیں آتی تھی ۔
اس موقع پر عکرمہ بن ابی جہل کی بیوی اور ہند بنت عتبہ اور ان کے ہمراہ دس دیگر خواتین بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی طرف روانہ ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کریں جب یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی دو بیویاں' بیٹی فاطمہ اور بنو عبد المطلب کی چند خواتین موجود تھیں ۔
ہندو نے بات شروع کی اور اس وقت نقاب اوڑھے ہوئے تھی ۔
کہنے لگی!
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے پسندیدہ دین کو غالب کر دیا میں قرابت داری کی بنا پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کا سوال کرتی ہوں ۔ اور میں صدق دل سے اسلام قبول کرتی ہوں پھر اپنے چہرے سے نقاب اٹھا کر کہنے لگی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہند بنت عتبہ ہوں ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!
خوش آمدید ۔
پھر اس نے کہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی ایسا گھر نہیں تھا جس کی تذلیل و رسوائی مجھے محبوب ہو ۔ اور آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی ایسا گھر نہیں جس کی مجھے عزت محبوب ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:
اللہ تعالٰی تیرے پاکیزہ خیالات و احساسات میں مزید برکت فرمائے ۔
پھر عکرمہ بن ابی جہل کی بیوی کھڑی ہوئی اور اس نے اسلام قبول کیا اور عرض کی' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عکرمہ بن ابی جہل اس ڈر سے یمن بھاگ گیا ہے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو قتل نہیں کر دیں ۔ ازراہ کرم اس کو پناہ دے دیں ۔اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرم کرے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!
آج سے وہ پناہ میں ہے ۔
وہ اس کی تلاش میں اسی وقت چل نکلی ایک رومی غلام بھی اس کے ہمراہ تھا ۔ راستے میں غلام کی نیت میں فتور پیدا ہو گیا وہ اس پر دوڑے ڈالنے لگا لیکن وہ اس کو امید دلاتی رہی اور ٹالتی رہی ۔
یہاں تک کہ ایک عربی قبیلہ کے پاس پہنچ گئی اور ان سے مدد طلب کی تو انہوں نے اس کو رسیوں سے باندھ دیا اور یہ مسلسل اپنی راہ پر چلتی رہی یہاں تک کہ علاقہ تہامہ کے ساحل پر عکرمہ بن ابی جہل سے جا ملیں اور وہ ایک مسلمان ملاح سے یہ کہا رہا تھا کہ اس کو کشتی میں سوار کر کے پار لگا دے ۔
ملاح اسکو کہ رہا تھا کہ اپنی نیت خالص کر لو تو تجھے پار لگا دوں گا
عکرمہ نے اس سے کہا کہ میں اپنی نیت کیسے خالص کروں ۔
ملاح بولا تم کہو !
أشهدأن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول اللہ ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔
عکرمہ نے کہا اسی کلمہ کی وجہ سے تو میں مکہ سے بھاگا ہوں وہ دونوں یہ گفتگو کرتے رہے تھے کہ ام حکیم وہاں عکرمہ کے پاس پہنچ گئی اور کہنے لگی کہ میرے چچا کے بیٹے میں آپ کے پاس لوگوں میں سب سے افضل سب سے بڑھ کر نیک اور بہتر ہستی کے پاس سے آئی ہوں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ۔
میں نے تمہارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کمال شفقت سے تمہیں پناہ دے دی ہے ۔ اب اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔
اس نے کہا کیا تم نے خود بات کی ہے ؟
فرمایا: ہاں میں نے خود بات کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو پناہ دے دی وہ مسلسل یقیں اور اطمینان دلاتی رہی ۔یہاں تک کہ عکرمہ اس کے ساتھ لوٹ آئے اور راستے میں اس کو اپنے رومی غلام کا واقعہ بتایا تو یہ سنتے ہی پہلے وہاں پہنچے جہاں اس کو باندھ رکھا تھا ۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے اس کو قتل کر دیا
راستے میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو عکرمہ نے اپنی بیوی سے خلوت کا ارادہ کیا تو اس نے سختی سے انکار کر دیا ۔ اور کہا میں مسلمان ہوں اور تو مشرک ہے عکرمہ بن ابی جہل کو بہت حیرانگی ہوئی اور کہنے لگا کہ ہمارے درمیان تو بہت بڑی خلیج پیدا ہو گئی ہے ۔
جب عکرمہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے ارشاد فرمایا:
عنقریب عکرمہ بن ابی جہل تمہارے پاس مومن اور مہاجر بن کر آئے گا ۔ اس کے باپ کو گالی نہ دو کیونکہ میت کو گالی دینے سے اس کے لواحقین کو تکلیف ہوتی ہے ۔ اور وہ گالی میت کو نہیں پہنچتی ۔
تھوڑی ہی دیر بعد عکرمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچ گئے ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور خوشی کے عالم میں ان کی طرف لپکے پھر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو عکرمہ رضی اللہ عنہ ان کے سامنے با ادب کھڑے ہو گئے ۔ اور عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ام حکیم نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے مجھے پناہ دے دی ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سچ کہتی ہے ۔ تجھے پناہ حاصل ہے ۔
جناب عکرمہ نے دریافت کیا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم کو اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول اور بندہ ہوں اور نماز قائم کرو اور زكوة ادا کرو رمضان کے روزے رکھو یہاں تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے ارکان شمار کر دیے
جناب عکرمہ نے کہا یقینی طور پر آپ نے حق بات کی طرف دعوت دی ہے اور خیریت وہ بھلائی کا حکم دیا ہے پھر اس کے بعد یہ کہنے لگے اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعوت پیش کرنے سے پہلے بھی ہم سب سے زیادہ سچے اور صالح انسان تھے ۔
پھر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا : کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں ۔ پھر عرض کی ، اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم مجھے چند کلمات سکھا دیں جو میں پڑھتا رہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم یہ کلمات پڑھا کرو :
أشهدأن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔
جناب عکرمہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اس کے بعد کیا کہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہ کہو کہ میں اللہ اور حاضرین مجلس کو گواہ بنا کر اقرار کرتا ہوں کے میں مسلمان مجاہد اور مہاجر ہوں ۔
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے یہ اقرار کیا اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آج تم مجھ سے کچھ مانگو گے جومیں نے کسی کو دی ہو تو میں تم کو ضرور دوں گا ۔انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہر وہ عداوت معاف کر دیں جو میں نے کی-
اور اس کے مقابلے میں معافی دیں جو میں نے زمانہ جاہلیت میں کیا اور ہر وہ بات معاف کر دیں جو میں نے آپ کے سامنے یا غیر حاضری میں کی ۔
یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے الہی اس کی ہر عداوت کو معاف کر دے جو اس نے میرے ساتھ کی
اور اس کے مقابلے میں معافی دیں جو میں نے زمانہ جاہلیت میں کیا اور ہر وہ بات معاف کر دیں جو میں نے آپ کے سامنے یا غیر حاضری میں کی ۔
یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے الہی اس کی ہر عداوت کو معاف کر دے جو اس نے میرے ساتھ کی ۔
اور اس کے راستے کی ہر ایک لغزش کو معاف کر دے جس میں یہ تیرے اسلام کے نور کو بجھانے کے لیے چلا ۔
الہی! میرے سامنے یا میرے پیچھے جو میری عزت کے خلاف ہوا اس کی یہ لغزش بھی معاف کر دے ۔
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے روشن ہو گیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم:
اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے میں جو کچھ خرچ کیا کرتا تھا اب میں اس سے دو گنا زیادہ راہ خدا میں خرچ کیا کروں گا اور جو میں نے اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے لڑائیاں کیں اب میں اس کے بدلے اللہ کی راہ میں دو گنا زیادہ لڑائیاں لڑوں گا ۔
اس دن سے میدان جنگ کا یہ بہادر شہسوار ' بہت بڑا عبادت گزار اور شب زندہ دار اور مساجد میں کثرت سے اللہ کی کتاب کو تلاوت کرنے والا بن گیا ان کی حالت یہ تھی کہ قرآن مجید کو اپنے چہرے پر رکھتے اور کہتے میرے رب کی کتاب میرے رب کی کتاب میرے رب کا کلام اور پھر خشیت الہی سے رونا شروع کر دیتے ۔
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا وعدہ پورا کر دکھایا اس طرح کہ جس معرکہ میں بھی مسلمان داخل ہوئے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بھی اسلام لانے کے بعد اس میں شریک ہوئے ۔ جس محاذ کے لیے بھی نکلے آپ اس میں سرفہرست تھے
غزوہ یرموک میں تو حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ لڑائی کی طرف اس طرح متوجہ ہوئے جس طرح کوئی پیاسا گرم ترین دن میں ٹھنڈے پانی کی طرف لپکتا ہے ۔ جب اس معرکے میں مسلمانوں پر دشمن کی طرف سے شدید دباؤ پڑا تو حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اپنے گھوڑے سے نیچے اتر آئے اور اپنی تلوار کی نیام توڑ دی اور دشمنوں کی صفوں میں گھس کر بے جگری سے لڑنا شروع کر دیا ۔
یہ منظر دیکھ کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جلدی سے آگے بڑھے اور فرمایا: عکرمہ رضی اللہ عنہ اس طرح نہیں کرو تم قتل ہو جاؤ گے اور یہ مسلمانوں کو بہت گراں گزرے گا ۔
تو انہوں نے فرمایا: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آپ پیچھے ہٹ جائیں- آپ پہلے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر ان کی رفاقت حاصل کر چکے ہیں ۔ میں اور میرا باپ تمام لوگوں سے بڑھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف رہے ۔
آپ مجھے چھوڑ دیں تاکہ میں اپنے گناہوں کا کفارہ دے سکوں پھر کہا : بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے ک میں بہت سے مقامات پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف لڑائی لڑی ہوں اور آج میں رومیوں کے خلاف پیٹھ پھیر کر بھاگ جاؤں ۔ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا ۔ پھر مسلمانوں میں یہ اعلان کیا کہ آج موت پر کون بیعت کرے گا پھر آپ کے چچا حارث بن ہشام اور ضرار بن ازرو کے علاوہ چار سو مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے خیمے کی آڑ میں زور دار لڑائی لڑی اور اور آپ کی جانب سے بہترین رفاع کیا ۔ جب معرکہ پرموک میں مسلمانوں کو فتح ہوئی تو تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زخموں میں چور لیٹے ہوئے تھے ۔
یہ حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ اور عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہم تھے ۔
حارث نے پینے کے لیے پانی مانگا تو جب ان کو پانی دیا گیا تو عکرمہ نے پانی کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کے پہلے عکرمہ کو پانی پلاؤ جب پانی ان کی طرف کیا گیا تو عیاش نے پانی کی طرف دیکھا تو عکرمہ نے کہا کہ ان کو پہلے پانی پلاؤ جب پانی ان کی طرف لایا گیا تو ان کی روح پرواز کر چکی تھی ۔ اور جب پانی پہلے دونوں ساتھیوں کے پاس لایا گیا تو وہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اللہ ان سب پر راضی ہو گیا اور ان کو حوض کوثر سے پانی پلائے گا جس سے ان کو کبھی پیاس نہیں لگے گی اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے گا جس میں یہ ہمیشہ خوش حال رہیں گے ۔
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>مكمل ۔۔۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی
0 Comments