حضرت زید الخیر رضی اللہ عنہ

 حضرت زید الخیر رضی اللہ عنہ








بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

✨باذن اللہ تعالی✨

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه 

*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*


   حضرت زید الخیر رضی اللہ عنہ

 

لوگ معدنیات کی مانند ہیں جو جاہلیت میں بہتر ہوتا ہے وہ اسلام میں بھی بہتر ہوتا ہے ۔


جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کی سیرت کے دونوں رخ دیکھیے  پہلا دور جاہلیت کا اور دوسرا رخ اسلام کا ہے ۔ دور جاہلیت میں ان کو لوگ "زید الخیل" کے نام سے جانتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام "زید الخیر" رکھ دیا ۔ 




تصویر کا پہلا  رخ  تاریخ کی کتابوں میں یوں بیان کیا گیا ہے   مؤرخ شیبانی  بنو عامر کے ایک معمر شخص کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک سال قحط پڑا جس سے کھیتی باڑی تباہ ہو گئی ۔




ہم میں سے ایک فرد اپنے اہل خانہ کو لے کر حیرہ  شہر کی طرف لے گیا اور ان کو وہاں چھوڑ کر کہنے لگا میرے واپس آنے تک میرا انتظار کرنا ۔ پھر اس نے یہ قسم کھائی کہ یا تو میں ان کے لیے مال کما کر لائوں گا یا مر جائوں گا ۔



پھر کچھ زاد راہ لیا اور دن بھر چلتا رہا اور رات آئی تو اس نے ایک خیمہ دیکھا اس کے قریب ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا اس نے دلیل میں کہا ۔:



یہ پہلا مال غنیمت ہے اس کی رسی کھولی اس پر سوار ہونے لگا تو فضا میں اس نے ایک آواز سنی جس میں  یہ حکم تھا ۔  اسے رہنے دو اور اپنی جان بچائو  تو اوہ اس کو چھوڑ کر آگے چل دیا اور سات دن بعد ایسی جگہ پہنچا جہاں اونٹوں کا ایک باڑہ تھا  اور ایک طرف چمڑے کا ایک خیمہ نصب تھا جس سے خوشحالی کی نمایاں جھلک نظر  آ رہی تھی ۔


اس شخص نے دل میں کہا کہ اس باڑے میں ضرور اونٹ ہوں گے اور اس خیمے میں کچھ لوگ بھی ہوں گے


پھر اس نے خیمے سے بہت احتیاط سے جھانکا اور اس وقت سورج غروب ہو رہا تھا ۔ کیا دیکھتا ہے کہ خیمے کے وسط میں ایک بوڑھا آدمی بیٹھا ہوا ہے ۔ تو یہ دبے پاؤں اس کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا ۔ 

بوڑھے کو اس کی آمد کا کچھ پتہ نہیں چلا اور کچھ دیر بعد سورج غروب ہو گیا ۔ تو ایک بھاری شہسوار نمودار ہوا ۔ اس جیسا قد آور شخص اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ ایک عمدہ گھوڑے پر سوار اور دائیں بائیں دو غلام لگام تھامے ہوئے تھے ۔ اور ان کے جلو میں سو کے قریب اونٹ بھی تھے۔ ان کے آگے ایک دیو ہیکل اونٹ تھا ۔ 

اونٹ جب بیٹھا تو سب اونٹ بھی اس کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ شہسوار نے ایک موٹی تازی اونٹنی کو اشارہ کر تے ہوئے خادم سے کہا ۔ اس کا دودھ دھولو ۔ اس نے فورا حکم کی تکمیل کرتے ہوئے دود  دھو لیا ۔ یہاں تک کہ برتن بھر گیا اور اس نے برتن رکھ دیا ۔

وہ شخص کہتا ہے کہ میں دبے پاؤں آگے بڑھا اور سارا دھود پی لیا ۔ غلام آیا اور برتن لیا اور واپس جا کر شہسوار سے کہنے لگا کہ شیخ نے سارا دودھ پی لیا  یہ سن کر وہ بہت خوش ہوا ۔ اور حکم دیا ۔ 

اب اس دوسری اونٹنی کا دودھ دھو کر شیخ کی خدمت میں پیش کرو ۔ غلام نے پھر حکم کی تعمیل کی اور شیخ نے ایک گھونٹ پیا اور باقی چھوڑ دیا ۔ 


یہ شخص کہتا ہے کہ میں نے دوسری دفعہ پیالہ پکڑا اور نصف دھود پی لیا اور آدھا چھوڑ دیا کہ اگر اس دفعہ بھی میں سارا پی گیا تو شہسوار کو شک ہو جائے  ۔ 
پھر شہسوار نے ایک دوسرے شخص کو حکم دیا کہ۔ایک بکری ذبح کرے ۔ شہسوار نے بذات خود گوشت بھونا اور شیخ کو اپنے ہاتھ سے کھلایا جب وہ خوب سیر ہو گیا تو پھر اس نے خود اور اس کے دونوں غلاموں نے کھایا

تھوڑی ہی دیر بعد  تمام لیٹ گئے  اور گہری نیند سو گئے ۔ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے میں اونٹ کے پاس آیا اس کی رسی کھولی اس پر سوار ہوا اور ایڑی لگائی تو اونٹ چل پڑا اور اس کے ساتھ تمام اونٹنیاں بھی چل پڑیں میں رات بھر چلتا رہا صبح ہوئی تو  میں نے ہر طرف نظر دوڑائی اور مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آیا جو میرا تعاقب کر رہا ہو ۔

میں نے رفتار اور تیز  کر دی یہاں تک کہ دن چڑھ آیا ۔ پھر میں نے ایک طرف دیکھا تو دور سے ایک بہت بڑی بلا میری طرف آ رہی تھی ۔ وہ بالکل میرے قریب ہوتی چلی جا رہی تھی ۔ جب بلکل قریب ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ وہی شہسوار ہے ۔ جو اپنے اونٹوں کی تلاش میں میرا تعاقب کر رہا تھا ۔ میں  نے اونٹ کو ایک طرف باندھ دیا اور اپنی ترکش سے تیر نکال کر کمان میں دکھا اور اونٹ کی اوٹ میں نشانہ باندھ کر کھڑا ہو گیا ۔ اور وہ شہسوار کچھ فاصلے پر کھڑا ہو گیا ۔
 
اس نے مجھے کہا اونٹ کی رسی کھول دو ۔ میں نے کہا : یہ نہیں  ہو سکتا  ۔ 

میں  حیرہ شہر میں بھوکی عورتیں اور پیاسے بچے  چھوڑ کر آیا ہوں اور میں نے قسم کھائی ہے کہ یا تو کچھ مال لے کر جاؤں گا ورنہ مر جاؤں گا  ۔ 

اس نے کہا ! ارے کم بخت ! تم اب اپنے آپ کو مردہ ہی سمجھو اور میرا حکم ہے کہ شرافت سے اونٹ کی رسی کھول دو- 

میں نے کہا کہ تجھے ہر گز اونٹ نہیں دوں گا ۔ 

اس نے کہا تم بڑے مغرور ہو اور تم جانتے نہیں کہ میں کون ہوں ۔ 

اس نے پھر کہا مجھے اس اونٹ کا لگام بتاؤ کدھر ہے اس میں تین گرہیں تھیں-   
پھر اس نے کہا بتاؤ کس گرہ پر نشانہ لگاؤں  ۔
میں نے اشارہ کیا کہ درمیانی  گرہ میں پھر اس نے تیر پھینکا تو وہ درمیانی گرہ میں آ کر اس طرح پیوستہ ہو گیا کہ اس نے خود نصب کیا ہو ۔ 

پھر اس نے دوسری اور تیسری گرہ کو نشانہ لگایا ۔ جب میں نے تیر اندازی کی یہ مہارت دیکھی تو میں خوفزدہ ہو گیا اور اپنا تیر ترکش میں رکھ لیا اور ادب کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔  شہسوار میرے پیچھے آیا اور تیروں سے بھری ترکش مجھے سے لی اور کہا میرے پیچھے سوار ہو جاؤ میں اس کے پیچھے سورا ہو گیا

اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ میں تجھ سے بھلا کیا سلوک کروں گا ؟

میں نے عرض کی: 
کسی اچھے سلوک کی تو مجھے امید نہیں ہے ۔


اس نے کہا کیوں ؟

میں نے کہا :
چونکہ میں نے تمہیں بہت پریشان کیا ہے ۔

اور اب اللہ نے تمہیں کامیاب کر دیا ہے اور اب میں تمہارے قبضے میں ہوں   
اس نے کہا:
کیا تیرا خیال ہے کہ میں تیرے ساتھ برا سلوک کروں گا جب کہ تو نے میرے باپ مہلہل کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ہے ۔ اور تم ایک رات اس کے هم مشروب بھی رہے ہو ۔ 

جب میں نے مہلہل کا نام سنا تو میں نے پوچھا کیا تم زید الخیل ہو ؟ 
اس نے کہا ہاں  

تو پھر میں نے کہا تو مجھ پر مہربانی کرو ۔ 
اس نے کہا : گھبراؤ نہیں، تمہیں کچھ نہیں کہوں گا ۔


وہ مجھے اپنے ڈیرے پر لے گیا اور اس نے مجھے سے کہا خدا کی قسم اگر یہ اونٹ میرے ہوتے تو سارے تجھے دے دیتا ۔ لیکن یہ میری ایک بہن کی ملکیت ہے ۔ تم میرے ساتھ کچھ دن رہو اور میں ایک ڈاکہ ڈالنے والا ہوں اس میں جو کچھ ملے گا تجھے دے دوں گا۔  

تین دن بعد اس نے ایک قبیلے میں ڈاکہ ڈال دیا اور سو کے قریب اونٹ اس کے ہاتھ آئے اس نے مجھے دے دیے اور میرے ساتھ چند آدمی بھی بھیج دیے جو میری حفاظت کریں اور میں حیرہ شہر میں پہنچ گیا  

یہ زید الخیل کی زمانہ جاہلیت کا ایک پہلو تھا ۔ لیکن دور اسلام میں ان سے متعلق داستان تاریخ کی کتابوں میں یوں بیان کی گئی ہے کہ  جب زید الخیل رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہوا تو ان کے دل میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوا   


سواری تیار کی اور اپنی قوم کے سرداروں کو مدینہ جانے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی دعوت دی ۔ ان کے ساتھ بنو طی کے قبیلے کا ایک بہت بڑا وفد بھی سفر کے لیے تیار ہو گیا ۔

وفد میں زر بن سدوس ' مالک بن جبیر' عامر بن جوین اور دیگر سردار شامل تھے ۔ جب یہ مدینہ پہنچے تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کیا ۔ اپنی سواریاں مسجد کے باہر بٹھا دیں ۔ 

دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے لوگوں سے خطاب فرما رہے ہیں   ان کے دلوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا رعب طاری ہے ۔ اور مسلمانوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق اور ادب و احترام دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پر نظر پڑی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا میں تمہارے لیے اس عزی سے بہتر ہوں جس کی تم پوجا کرتے ہو ۔


زید الخیل اور ان کے ساتھیوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا دو طرح کا اثر  مرتب ہوا ۔ بعض نے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا اور بعض تکبر کا شکار ہو گئے  اور واپس چلے گئے ۔ 

زر بن سدوس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خوشگوار و عمدہ موقف نہیں سمجھ سکا جسے مومن دل اور مدھ بھری آنکھیں اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں ۔ بلکہ حسد اس کے دل میں تھا اور خوف اس کے دل میں سما گیا   پھر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ آج میں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہا ہوں جو تمام اہل عرب کی گردنوں کا مالک بن جائے گا ۔ 

اللہ کی قسم! میں اس کو اپنی گردن کا مالک نہیں بننے دوں گا پھر وہ ملک شام کی طرف چل دیا وہاں جا کر اپنا سر منڈا لیا اور نصرانیت قبول کر لی ۔  لیکن حضرت زید رضی اللہ عنہ اور دوسرے ساتھیوں کو کچھ نرالی ہی شان نصیب ہوئی ۔ 


جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے سے فارغ ہوئے تو حضرت زید رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے   ان کا بہت لمبا  خوبصورت قد تھا جب گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاؤں نیچے زمین پر لگتے  
   
مجمع میں کھڑے ہو کر بلند آواز میں کہا! یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں اقرار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا : آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں زید الخیل بن مہلہل  ہوں ۔ 


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج سے تم زید الخیر ہو زید الخیل نہیں ہو ۔ اللہ کا شکر ہے جو تمہیں میدانی اور پہاڑی علاقوں سے صحیح سالم لے آیا ۔ اور تمہارے دل میں اسلام کے لیے رقت پیدا کر دی ۔  


پھر ان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لے گئے اور ان کے ساتھ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی تھی ۔ جب گھر پہنچے  تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ٹیک لگانے کے لئے تکیہ دیا اور انہیں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ٹیک لگانا مناسب نہیں سمجھا اور تکیہ واپس کر دیا لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر آن کو تکیہ دیا لیکن انہیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ٹیک لگانا مناسب نہیں سمجھا ۔


جب سب لوگ بیٹھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے زید تم سے پہلے جتنے بھی لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے ۔ تو وہ ان کے بتائے اوصاف سے کم نظر آئے ۔ 

پھر ارشاد فرمایا: زید تم میں دو ایسی خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں ۔


عرض کی اللہ کہ رسول صل اللہ علیہ وسلم وہ کیا ؟
تو آپ نے فرمایا: خودداری اور بردباری ۔

زید بن الخیر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسی خصوصیات دی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں 
 ۔
   
پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تین سو شہسوار مجاہدین  سے دیں  ان کی تمام دیکھ بھال کی ذمہ داری میری ہو گی ۔ میں ان کے ہمراہ بلاد روم پر حملہ کروں گا اور اللہ کے فضل سے پسپا کر کے دم لوں گا ۔ 

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ہمت و جرآت کی داد دیتے ہوئے فرمایا: زید اللہ بھلا کرے تم کتنے عظیم شخص ہو پھر ان کی قیادت میں ان کے تمام ساتھیوں نے اسلام قبول کر لیا ۔

جب حضرت زید الخیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے علاقے نجد واپس جانے کا ارادہ کیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص کتنا عظیم ہے ؟
اس کی کتنی شان ہو گی ! کاش یہ مدینہ کی وباء سے محفوظ رہے ۔ ان دنوں مدینہ منورہ میں میعادی بخار کی وباء پھیلی ہوئی تھی ۔


حضرت زید الخیر رضی اللہ عنہ کو بھی اس بیماری نے دبوچ لیا اور آپ نے اپنے ساتھیوں سے  کہا مجھے قیس کے شہروں سے الگ رکھنا ہمارے یہاں جاہلانہ حماقتوں کی بنیاد پر جوانمردی و بہادری کے معرکے ہوا کرتے تھے ۔ اللہ کی قسم میں مرتے دم تک کسی مسلمان سے نہیں لڑوں گا ۔

حضرت زید الخیر رضی اللہ عنہ نے اپنا سفر نجد کی طرف جاری رکھا اور حالت یہ تھی کہ بخار دن بدن بڑھتا جا رہا تھا   ان کی دلی تمنا تھی کہ اپنی قوم سے ملیں اور انکو اسلام کو دعوت دیں اور ان کی قوم ان کے کہنے پر اسلام قبول کر لے۔ یہ موت سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے   اور موت ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن موت آپ سے سبقت لے گئی ۔

راستے میں ہی روح پرواز کر گئی اور موت اور اسلام کے درمیان کوئی ایسا وقفہ نہیں ملا کہ کوئی گناہ کر سکیں ۔ 


🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>مکمل۔۔۔
 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر 
 
طالب دعا۔لقمان قاسمی




Post a Comment

0 Comments