حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ

حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ 





بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*



حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ


*ابو سفیان رضی اللہ عنہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں.*


*(فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم)*


لوہے کی زنجیر کی دو کڑیوں کے درمیان کم ہی اس قدر مضبوطی اور قرب پیدا ہوگا جس قدر رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے باہمی روابط و تعلقات مضبوط و مستحکم تھے. 


ابو سفیان رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم عمر تھے، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی تھے، اس طرح کہ ان کا باپ حارث اور رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے والد ماجد عبداللہ دونوں حقیقی بھائی تھے اور عبدالمطلب کی اولاد میں ان کو نمایاں حیثیت حاصل تھی، اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے رضائی بھائی بھی تھے. 


وہ اس طرح کہ دائی حلیمہ سعدیہ نے دونوں کو ایک ساتھ دودھ پلایا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت ملنے سے پہلے یہ آپ کے بڑے گہرے دوست تھے، شکل و شباہت بھی آپ سے ملتی جلتی تھی، آپ نے ایسی قربت دیکھی اور نہ سنی ہوگی، جو ابو سفیان بن حارث اور رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان پائی جاتی تھی.


اس پس منظر میں غالب امکان یہی ہونا چاہئے تھا کہ یہ سب سے پہلے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپ کی اطاعت قبول کر لیتے، لیکن انہوں نے بالکل اس کے بر عکس طرز عمل اختیار کیا. 


جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے پہلے اپنے خاندان کے سامنے دین کی دعوت پیش کی، آخرت سے انہیں ڈرانا شروع کیا، تو ابو سفیان بن حارث کے دل میں کینہ و بغض کی آگ بھڑک اٹھی. 


جب کبھی قریش نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں آنے کا ارادہ کیا، موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ابو سفیان نے جلتی پر تیل ڈالنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑائی کی آگ کو بڑھایا جب کبھی قریش نے مسلمانوں کو کسی اذیت میں مبتلا کیا، تو ابو سفیان نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.


ایک دفعہ ابو سفیان کے زمانہ جاہلیت کے شاعرانہ ذہن نے اسے اس بات پر اکسایا کہ وہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف ہرزہ سرائی کرے، لہذا اس نے آپ کی ہجو میں نہایت ہی بے ہودہ قسم کے شعر کہے.


ابو سفیان کی رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عداوت کا دور بیس سال پر محیط ہے، اس دوران آپ کو گزند پہنچانے کے لئے اس نے ہر حربہ استعمال کیا، اور مسلمانوں کو ایذاء رسانی میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا. 


فتح مکہ سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے ابو سفیان کی طرف خط لکھا گیا اور اس میں اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی، ان کے اسلام لانے کی بھی عجیب و غریب داستان ہے جو سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں اب تک محفوظ ہے

اے دشمن خدا.! تو ہی ہے جس نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اذیت پہنچائی، تو نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عداوت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا، یہ انصار مجھے مسلسل بلند آواز سے ڈانٹ پلائے جا رہا تھا. اور مسلمان کنکھیوں سے میری درگت بنتی دیکھ رہے تھے. 


اتنے میں مجھے میرے چچا عباس نظر آئے، میں نے جھپٹ کر ان کا دامن پکڑا اور التجا کی چچا جان.! میری مدد کیجئے، میرا خیال تھا کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم میرے اسلام قبول کرنے سے خوش ہوں گے، لیکن میرا جو حال ہو رہا ہے، آپ دیکھ رہے ہیں آپ ہی ان سے سفارش کریں کہ از راہ کرم مجھے معاف کر دیں، میری التجا سن کر چچا عباس بولے. 


بخدا.! میں تو کسی مناسب وقت پر ہی رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے بات کر سکوں گا، کیونکہ میں نے بجشم خود دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تم سے بہت زیادہ دل برداشتہ ہیں، سچی بات ہے میرے دل پر ان کا بہت زیادہ رعب و دبدبہ ہے. 


میں نے عرض کی چچا جان آپ نے بھی میری مدد نہ کی تو میرا کیا بنے گا؟ میں کہاں سر چھپاؤں؟ 


وہ بولے میں کچھ نہیں کر سکتا. 


چچا جان کی یہ بے رخی دیکھ کر کچھ نہ پوچھئے کہ مجھ پر کیا بیتی؟ میں غم داندرہ کے مارے نڈھال ہو گیا، تھوڑی ہی دیر بعد مجھے میرے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دکھائی دیئے میں نے ان سے کہا کہ آپ ہی اس مشکل وقت میں میرا ساتھ دیں میری مدد کریں، یہاں کوئی بھی میری سننے والا نہیں، تو انہوں نے مجھے چچا عباس جیسا جواب دیا، میں دوبارہ چچا عباس کی طرف پلٹا اور عرض کی چچا جان اگر آپ یہ نہیں کر سکتے کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا دل مجھ پر نرم ہو جائے، کم از کم اس انصار کو روک دیں جو مجھے کافی دیر سے بے نقط سنایا جا رہا ہے.


اور لوگوں کو میرے خلاف بھڑکا رہا ہے، انہوں نے پوچھا وہ کون ہے؟ میں نے بتایا نعمان بن حارث بخاری ہے، چچا جان نے اس کی طرف پیغام بھیجا اور کہا، دیکھو نعمان!! یہ ابو سفیان رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا چچا زاد بھائی ہے اور میرے حقیقی بھائی کا لخت جگر ہے، اگر آج حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس پر ناراض ہیں تو کل راضی ہو جائیں گے، آپ اس کے خلاف اپنی زبان بند کریں. چچا جان کی بات سن کر وہ مجھے برا بھلا کہنے سے باز آ گیا.


جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم جحفہ مقام پر فرو کش ہوئے، خیمے نصب کر دئے گئے، آپ خیمے میں داخل ہوئے، میں انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ باہر خیمے کی دہلیز پر بیٹھ گیا، میرے پاس میرا بیٹا جعفر کھڑا رہا، خیمے سے نکلتے ہوئے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے دیکھا، نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنا روئے مبارک دوسری طرف کر لیا. 


لیکن میں نے ہمت نہ ہاری، مسلسل آپ کو راضی کرنے کے لئے کوشاں رہا، راستے میں جہاں بھی آپ پڑاؤ کرتے. میں آپ کے خیمے کے باہر مسکین بن کر بیٹھ جاتا اور میرا بیٹا جعفر میرے پاس کھڑا رہتا، آپ جونہی مجھے دیکھتے نفرت سے چہرہ انور دوسری طرف پھیر لیتے، یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا


جب میرے لئے عرصہ حیات تنگ ہوگیا، میں نے اپنی بیوی سے کہا. 


بخدا..! یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ پر راضی ہوجائیں گے، ورنہ میں اور میرا بیٹا اوندھے منہ زمین پر بھوکے پیاسے لیٹے رہیں گے، یہاں تک کہ ہماری موت واقع ہو جائے، جب میری یہ حالت رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوئی، آپ کے دل میں رقت پیدا ہوئی، آپ اپنے خیمے سے باہر آئے، مجھے شفقت بھرے انداز سے دیکھا، میرے جی میں آیا کاش کہ آپ مسکرا دیں. 


رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے، میں آپ کی رکاب پکڑے ہوئے تھا، جب آپ بیت اللہ کی طرف چلے میں بھی آپ کے آگے آگے دوڑتا ہوا چلا، غرض یہ کہ آپ جدھر کا رخ کرتے میں بھی کسی صورت آپ سے جدا نہ ہوتا. 


غزوہ حنین میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف عرب نے اپنی پوری قوت مجتمع کردی، اور آپ کے مقابلے کے لئے اتنی زبردست تیاری کی کہ اس سے پہلے ایسی تیاری نہ کی تھی، کفار نے پختہ عزم کیا تھا کہ اس دفعہ مسلمانوں پر ایک فیصلہ کن ضرب لگائی جائے، 



رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم دشمن سے بر سر پیکار ہونے کے لئے اپنے جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لے کر سر بکف میدان کارزار کی طرف نکلے تو میں نے دل میں کہا، خدا کی قسم! آج سارے دھونے دھو دوں گا. 


رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم آج کارگردی دیکھ کر یقیناً خوش ہوجائیں گے، مجھے امید واثق ہے کہ آج خدا تعالٰی مجھ پر راضی ہو جائے گا.


جب دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا، پہلے مرحلے میں مشرکین کا پلہ بھاری ہو گیا. وہ مسلسل مسلمانوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے تھے، مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے، قریب تھا کہ یہ شکست فاش سے دو چار ہوتے، اچانک میں کیا دیکھتا ہوں، کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم میدان کارزار میں اپنے گھوڑے پر سوار دشمن کے مقابلے میں چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں، آپ اپنی تلوار سے شیر کی مانند اپنا دفاع کر رہے ہیں اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی. 


اس نازک موقع پر میں اپنے گھوڑے سے چھلانگ لگادی، میں نے اپنی تلوار کی نیام کو توڑ دیا، اور سر بکف میدان میں نکل آیا، آج میری دلی تمنا یہ تھی کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کرتے ہوئے میں قربان ہو جاؤں. 


چچا عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی اور یہ آپ کی دائیں طرف کھڑے تھے اور میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بائیں طرف مورچہ تھام لیا، اور میرے دائیں ہاتھ میں تلوار تھی، جس سے میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا دفاع کر رہا تھا اور بائیں ہاتھ سے میں نے آپ کے گھوڑے کی لگام کو تھام رکھا تھا.


جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے جھپٹتے ہوئے دیکھا، تو چچا عباس سے پوچھا، یہ کون ہے.؟ انہوں نے بتایا حضور یہ آپ کا چچا زاد بھائی ابو سفیان ہے، آج آپ اسے معاف کر دیں، اس پر راضی ہو جائیں، یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : آج میں اس پر راضی ہوں اور ساتھ ہی یہ دعا کی. 


الہی.! اس سے ہر وہ عداوت معاف کردے جو اس نے میرے ساتھ روا رکھی. 


رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا کو دیکھ کر میرا دل خوشی سے اچھل پڑا، میں بے رکاب میں آپ کے پاؤں کو بوسہ دیا. 


آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : میرے بھائی آگے بڑھو، دشمن کو تہہ تیغ کرو. بس میں آپ کا یہ فرمان سن کر دشمن پر ٹوٹ پڑا، اور مسلمانوں کو ساتھ ملا کر ایسا زوردار حملہ کیا کہ دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے. ہم نے تین میل تک دشمن کو پیچھے ڈھکیل دیا، اور ان کی اجتماعیت کو مختلف سمتوں میں بکھیر دیا

غزوہ حنین کے بعد ابو سفیان بن حارث رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشنودی کے مستحق ہوکر آسودہ زندگی بسر کرنے لگے اور آپ کے اخلاق حسنہ سے مستفیض ہونے لگے، لیکن یہ اپنی نگاہیں شرمندگی کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سر جھکائے رکھتے، جب کفر میں بیتے ہوئے دن یاد آتے تو پریشان ہوجاتے. 


ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو جب وہ دن یاد آتے جو انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نور الہی اور کتاب مقدس قرآن مجید سے محرومی کی صورت میں گزارے تو زار و قطار رونا شروع کر دیتے، لیکن اب یہ دن رات قرآن مجید کی تلاوت میں مگن رہنے لگے، اور اس کی آیات پر غور و تدبر کرنے لگے، قرآن حکیم کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لئے کمر بستہ ہوگئے، دنیاوی زیب و زینت کو خیر باد کہہ دیا اور اللہ تعالٰی کے ساتھ لو لگائی. 


ایک دن رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں تشریف لائے، ابو سفیان پہلے سے وہاں پر موجود تھے. 


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہوئے اور کہا : کیا تم جانتی ہو یہ کون ہے.؟ 


عرض کیا : نہیں.! 


آپ نے فرمایا یہ میرا چچا زاد بھائی ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ ہے.. 


آج کل یہ مسجد میں سب سے پہلے آتا ہے اور سب سے بعد یہاں سے جاتا ہے اور راستے میں چلتے ہوئے اپنی نگاہیں زمین پر گاڑے رکھتا ہے، آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا اور نہ ہی ادھر ادھر دیکھتا ہے.


رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا جب وصال ہوا، ابو سفیان اتنا روئے جیسے کوئی ماں اپنے اکلوتے بیٹے کی وفات پر نوحہ کناں ہوتی ہے، یا جیسے کوئی دوست اپنے عزیز دوست کی وفات پر آہ و بکا کرتا ہے، اور حزن و ملال میں ڈوب کر ایسا مرثیہ کہا جس سے سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے. 


سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے جب اپنے آپ کو موت کے دہانے پر محسوس کیا تو اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودی، قبر کو کھودنے ابھی تین ہی دن گزرے تھے کہ موت کا وقت آگیا، یوں معلوم ہوا جیسے کہ انہیں پہلے بتا دیا گیا ہو.


یہ اپنے بیوی بچوں اور دیگر خاندانی افراد سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے، مجھ پر رونا نہیں ہوگا، الحمد للہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے، اللہ کے فضل و کرم سے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا، بس اس جملے کا ادا کرنا ہی تھا کہ ان کی پاکیزہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، ان کی موت کو اہل اسلام کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا گیا. 


حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن حارث رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں. 


1.. الاستیعاب 83/4


2.. الاصابہ 90/4


3.. صفۃ الصفوہ 519/4


4.. الکامل لابن کثیر 164/2


5.. السیرۃ النبویہ لابن ہشام 268/2


6.. تاریخ طبری 329/2


7.. البدایہ و النہایہ 287/4


9.. الطبقات الکبری 51/4


10.. نھایۃ الادب 298/17


11.. طبقات فحول الشعراء 2/6


12.. سیر اعلام النبلاء 137/1


13.. دول الاسلام 36/2


14.. مع الرعیل الاول 104



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد۔


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ----- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments