حضرت ابو العاص بن الربیع رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت ابو العاص بن الربیع رضی اللہ عنہ
"ابو العاص نے میرے ساتھ بات کی تو سچ بولا، میرے ساتھ وعدہ کیا تو پورا کیا" (فرمان نبی ﷺ)
حضرت ابو العاص بن الربیع وبشمی قرشی جاذب نظر، خوب صورت، کڑیل جوان تھے ۔ناز و نعمت میں پلے اور خاندانی وجاہت نے انہیں ممتاز بنا دیا غیرت، خود داری ،جوانمردی، وفا شعاری جیسی آباء اجداد سے ورثے میں ملنے والی خوبیوں کی بنا پر عرب معاشرے میں انہیں بطور مثال پیش کیا جاتا تھا۔
حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کو تجارت سے والہانہ لگاؤ قریش سے ورثہ میں ملا تھا۔ ان کے تجارتی قافلے مکہ اور شام کے درمیان رواں دواں رہتے۔ ان کا تجارتی قافلہ ایک سو اونٹ اور دو سو نوکروں پر مشتمل تھا۔
ان کی کاروباری مہارت، صداقت اور امانت لوگ بے دڑک اپنا مال ان کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔
ان کی خالہ حضرت خدیجہ الکبرى رضی اللہ عنہا اولاد کی طرح ان سے محبت اور شفقت سے پیش آتی تھیں۔
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے محبت اور شفقت سے پیش آتے۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا ،یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جوان ہو گیئں، تو سرداران مکہ کے بیٹوں کے دل میں انہیں عقد لینے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی۔
بھلا یہ خواہش کیوں نہ پیدا ہوتی ، جب کہ یہ قریش کی بیٹیوں میں سب سے ذیادہ ممتاز اور بے شمار خوبیوں سے متصف تھیں ، لیکن انہیں اپنے مقصد میں کامیابی کیسے حاصل ہو، اس لئے کہ مکہ کے ایک ابھرتے ہوئے جوان ان کی خالہ کے بیٹےابو العاص بن الربیع آڑے آچکے ہیں
حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ فاران کی چوٹیوں پر نور الہی جلوہ گر ہوا اور اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے اعلی و ارفع مقام پر فائز کر دیا اور حکم دیا کہ سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کے سامنے رشد و ہدایت کی دعوت پیش کریں۔
عورتوں میں سب سے پہلے آپ ﷺ کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ ﷺ کی بیٹیاں زینب رضی اللہ عنہا، رقیہ رضی اللہ عنہا، ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ پر ایمان لائیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ابھی بہت چھوٹی تھیں ۔
علاوہ ازیں آپ کے داماد ابو العاص نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑنا ناپسند گردانا اور دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ انہیں اپنی بیوی کے ساتھ بے پناہ محبت تھی۔
جب رسول اللہ ﷺ اور ابو العاص کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے، تو قریش ایک دوسرے سے کہنے لگے :
تمھارا بیڑا غرق۔۔۔ تم نے اپنے بیٹوں کی محمد ﷺ کی بیٹیوں سے شادی کر کے اس کے غموں کا بوجھ اپنے اوپر لاد رکھا ہے۔ اگر تم اس کی بیٹیوں کو اس کے گھر پہنچا دو تو ان واحد میں سرنگوں ہو جائے گا۔
سب نے مل کر کہا: یہ تجویز بہت خوب ہے ۔ بعد ازاں وہ ابو العاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اسے کہنے لگے : اپنی بیوی کو طلاق دے دو، ہم تمھاری شادی قریش کی ایسی دوشیزہ سے کر دیں گے جس کی طرف تم اشارہ کرو گے۔
اس نے کہا : بخدا ایسا نہیں یو سکتا میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دوں گا۔ میں اپنی بیوی کے مقابلے میں دنیا کی تمام عورتوں کو ہیچ سمجھتا ہوں ۔
صورت حال یہ تھی کہ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی دو بیٹیوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی گئی تھی۔
ان کے واپس گھر آنے پر رسول اللہ ﷺ خوش ہوئے اور اطمینان کا سانس لیا۔ آپ ﷺ کی دلی خواہشں تھی کہ ابو العاص بھی میری بیٹی زینب کو طلاق دے دے، لیکن آپ ﷺ اپنی خواہش کو زور بازو پورا نہیں کر سکتے تھے اود ان دنوں مومن عورتوں کا مشرک مرد سے نکاح کی حرمت کا حکم بھی نازل نہیں ہوا تھا
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استحکام نصیب ہوا تو قریش آپ سے نبردآما ہونے کے لئے بدر پہنچ گئے انہوں نے ابو العاص کو بھی اپنے چلنے کے لئے مجبور کیا ۔
حالانکہ وہ مسلمانوں سے لڑائی کے لئے تیار نہ تھا اور نہ ہی مسلمانوں کے بالمقابل آنے میں اسے دلچسپی تھی لیکن اپنی قوم میں امتیازی حیثیت کی بنا پر مجبورا قریش کے ساتھ بدر جانا پڑا۔
غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کو ذلت آمیز شکشت کا سامنا کرنا پڑا اور بڑے بڑے سرکشوں کی کم ٹوٹ گئی۔کچھ لوگ قتل کو دیا گیا ،بعض کو گرفتار کر لیا گیا ان میں سے ایک گروہ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا قیدیوں میں حضرت زینب بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاوند ابو العاص بھی تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لئے حسب مراتب ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک فدیہ مقرر کر دیا ۔ قیدیوں کو آزاد کرانے کے لئے فدیہ کی رقم لے کر قاصدوں کی مدینہ آمد و رفت شروع ہو گئی۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند کو آزاد خرانے کے لئے ایک شخص کو فدیہ کی رقم دے کر مدینہ منورہ بھیجا۔ فدیہ کے مال میں زینب رضی اللہ عنہا نے اپنا وہ ہار بھی شامل کر دیا جو ان کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا نے انہیں شادی کے موقع پر دیا تھا۔
جب یہ ہار رسول اللہ ﷺ نے دیکھا، تو غم واندوہ سے آپ کے چہرے کا بدل گیا اور دل پر رقت طاری ہو گئی۔ پھر آپ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:
زینب رضی اللہ عنہا نے ابو العاص کو چھڑانے کے لئے یہ مال بطور فدیہ بھیجا ہے اگر ہو سکے تو اس کے قیدی کو آزاد کر دو اور اس کا مال واپس لوٹا دو۔
سب نے یک زبان ہوکر بولا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم ایسا ہی کریں گے جس سے آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو اطمینان حاصل ہو
نبی کریم ﷺ نے ابو العاص کو قید سے آذاد کرنے سے پہلے یہ شرط لگا دی کہ مکہ جاتے ہی بلا تاخیر زینب کو مدینہ بھیج دے ۔
ابو العاص نے وعدے کے مطابق حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ روانہ ہونے کے لئے کہا: اور انہیں یہ بتایا کہ مکہ سے کچھ فاصلے پر آپکے والد مکرم کے بھیجے ہوئے آدمی انتظار کر رہے ہوں گے ، ان کے لئے زاد راہ اور سواری کا انتظام بھی کر دیا اور بھائی عمرو بن ربیع کو کہا کہ ان کے ہمراہ جائے اور ان کو قاصدوں کے سپرد کر دے۔
عمرو بن ربیع نےاپنی کمان کندھے سے لگائی اور ترکش ہاتھ میں لئے ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ہودج میں بٹھایا اور دن کے وقت قریش کی نظروں کے سامنے علی الاعلان مکہ سے روانہ ہوئے۔ قریش یہ منظر دیکھ کر بھڑک اٹھے اور ان کا پیچھا کیا۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ان کو جا لیا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو دھمکیاں دینے لگے۔
یہ صورت حال دیکھ کر عمرو بن ربیع نے اپنی ترکش سے تیر نکال کر کمان میں رکھا اور بولا: بخدا جو شخص بھی میرے قریب آئے گا میں اس کی گردن میں تیر ماروں گا۔ یہ بڑے تیر انداز تھے۔ ان کا کوئی نشانہ خالی نہیں جاتا تھا۔
صورت حال کو بھانپتے ہوئے ابو سفیان بن حرب سامنے آے اور پیار بھرے لحجے میں کہنے لگے: بیٹا اپنا تیر روکو ہم تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات سن کر اس نے تیر روک لیا۔
ابو سفیان نے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا۔ زینب کو تم ہماری آنکھوں کے سامنے اعلانیہ لئے جا رہے ہو۔ ہم غزوہ بدر کی رسوائی اور اس کے باپ کے ہاتھوں لگے زخموں کو ابھی بھولے نہیں۔
اگر تم اس طرح علانیہ اس کی بیٹی کو یہاں سے لے جاو گے تو عرب ہمیں بزدلی، ذلت و رسوائی کا طعنہ دیں گے ۔ میری بات مانو تو اسے ابھی واپس لے جاو، اسے اپنے خاوند کے گھر کچھ دن رہنے دو۔ جب لوگوں کو یقین ہو جائے کہ ہم نے اسے واپس لوٹا لیا ہے تو موقع پا کر چپکے سے اسے لے جانا اور اس کے باپ کے پاس چھوڑ آنا۔ ہمیں اسے یہاں روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔
عمرو بن ربیع نے ابو سفیان کی یہ بات مان لی اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو واپس لوٹا کر لے گیا۔
چند دنوں بعد رات کے وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو اپنے ہمراہ لیا اور بھائی کی تلقین کے مطابق رسول اقدس ﷺ کے قاصدوں کے حوالے کر دیا
ابو العاص اپنی بیوی کی جدائی کے بعد کچھ عرصہ مکہ میں اکیلا رہا، فتح مکہ سے کچھ پہلے تجارتی سلسلہ میں شام روانہ ہوا۔ تو اس کے ہمراہ سو اونٹ اور ایک سو ستر افراد پر مشتمل تجارتی کافلہ تھا، یہ قافلہ جب مدینہ کے قریب پہنچا تو مجاہدین نے اونٹ اپنے قبضے میں لے لئے۔
اس کے آدمیوں کو گرفتار کر لیا لیکن ابو العاص آنکھ بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔
جب رات کی تاریکی چھا گئی تو ابو العاص اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دبے پاؤں مدینہ میں داخل ہوا اور اپنی بیوی حضرت ذینب سے پناہ طلب کی تو انہوں نے پناہ دے دی ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ کے لئے نکلے اور نماز پڑھانے کے لئے محراب میں کھڑے ہوئے ، تکبیر تحریمہ کہی ، لوگوں نے بھی تکبیر تحریمہ کہہ کر نیت باندھ لی تو پیچھے عورتوں کی صف سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بآواز بلند پکار کر کہا ،لوگو! میں زینب بنت محمد ﷺ ہوں۔میں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے تم بھی اسے پناہ دے دو۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور لوگوں سے مخاطب ہوئے کیا تم نے وہ بات سنی ہے جو میں نے سنی ہے؟ سب نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا: مجھے قسم ہے اس ذات کی! جسکے قبضے میں میری جان ہے مجھے پہلے سے اس واقعہ کے بارے میں کچھ علم نہیں۔میں نےابھی یہ بات سنی ہے ۔مسلمانوں میں سے ایک ادنی شخص بھی کسی شخص کو پناہ دے سکتا ہے۔
پھر اپ گھر گئے اور اپنی بیٹی سے کہا : ابو العاص کی عزت کرنا لیکن تم اس کے لئے حلال نہیں۔
پھر آپ ﷺ نے ان لوگوں کو بلایا جنہوں نے اس کے اونٹ پکڑے تھے اور آدمیوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان سے کہا: جیسا تم جانتے ہو کہ یہ شخص ہم میں سے ہے۔ تم نے اس کے مال کو قبضے میں لے لیا۔ میری خواہش ہے کہ تم اس پر احسان کرتے ہوئے اس کا مال واپس لوٹا دو اور اگر تم لوٹا ہوا مال لوٹانا نہیں چاہتے تو یہ مال غنیمت ہے۔
سب نے بیک زبان یو کر کہا: یا رسول ﷺ! ہم بخوشی اس کا مال لوٹانے کے لئے تیار ہیں
ابو العاص جب اپنا مال وصول کرنے کے لئے آیا تو مجاہدین نے کہا : ابو العاص! تم قریش کے ایک معزز فرد ہو اور رسول اللہ ﷺ کے چچا کے بیٹے اور داماد ہو، اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو ہم تمھارا سارا مال واگذار کر دیتے ہیں تم اہل مکہ کے مال سے خوب فائدہ اٹھاؤ اور ہمارے ساتھ مدینہ میں رہو۔ یہ بات سن کر اس نے کہا: کیا میں نئے دین کا آغاز دھوکے سے کروں، ایسا نہیں ہو سکتا۔
ابو العاص! مال سے لدے ہوئے اپنے اونٹ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ منزل مقصود پر پہنچ کر ہر ایک اس کا حق ادا کیا اور فرمایا:
اے خاندان قریش کیا کسی کا کوئی بھی مال میرے پاس ہے کہ ابھی اس نے مجھ اے موصول نہ کیا ہو؟
سب نے کہا نہیں، تم سلامت رہو ہم نے تمھیں وفادار' شریف النفس اور دیانت دار پایا ہے ۔
پھر ابو العاص نے فرمایا: سن لو! میں نے تمھارے حقوق پورے کر دیئے اور اب تمھارے سامنے اعلان کرتا ہوں۔
"اشْهَدُ انْ لّآ اِلهَ اِلَّا اللّهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُه وَرَسُولُه"
" میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں"
اللہ کی قسم! مدینہ جا کر حضرت محمد ﷺ کے پاس اسلام قبول کرنے سے صرف اس چیز نے روکا ، اس بات کا اندیشہ تھا کہ تم یہ خیال کرو گے کہ میں نے تمھارا مال کھانے کے لئے اسلام قبول کیا ہے۔
پھر یہ روانہ ہوئے اور رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے آپ ﷺ بڑی شفقت سے پیش آئے اور بیوی ان کے حوالے کر دی۔ آپ ﷺ ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے:
ابو العاص نے مجھ سے بات کی تو سچ بولا۔ مجھ سے وعدہ کیا تو پورا کیا۔
حضرت ابو العاص بن الربیع کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:
1۔ سیرہ اعلام النبلاء :239/1
2۔ اسد الغابة : 158/6
3۔ انساب الاشراف : 397
4۔ الاصابة : 121/4
5۔ الاستیجاب : 125/4
6۔ السیرةالنبویة لابن ھشام : 302/2
7۔ البدایہ والنھایہ : 354/6
8۔ حیات صحابہ : چوتھی جلد کی فہرست دیکھئے
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments