حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ

حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ








بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



 حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ


"عتبہ بن غزوان کا اسلام میں بہت بلند مقام ہے"

((ارشاد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ))



 

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز کے بعد بستر پر لیٹے تاکہ کچھ دیر آرام کر لیں اور رات کو گشت کے لئے تازہ دم ہو سکیں،لیکن خلیفہ المسلمین کو ایرانی سرحد پر لڑی جانے والی جنگ کے پیش نظر نیند نہیں آرہی تھی۔



 ڈاک کے ذریعے انہیں معلوم ہوا کہ لشکر اسلام جونہی اس قابل ہوتا ہے کہ ایک زور دار حملے سے ایرانیوں کو پسپا کر دے کس نہ کسی طرف سے انہیں کمک پہنچ جاتی ہے اور وہ دوبارہ اپنی قوت کو مجتمع کرکے مسلمانوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔



امیر المومنین کو بتا گیا کہ ابلہ شہر سے ایرانیوں کو کمک پہنچائی جاتی ہے۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ ابلہ شہر کو فتح کرنے کے لئے لشکر روانہ کروں گا۔تاکہ ایرانیوں کو کمک موصول ہونے کا راستہ بند کر دیا جائے لیکن آپ کے پاس افرادی قوت کی بہت کمی تھی۔

 


اس لئے نوجوان اور بوڑھے راہ خدا میں جہاد کے لئے روانہ ہو چکے تھےاور ان کے بعد مدینہ طیبہ میں چند افراد موجود تھے۔



اس موقع پر آپ نے اپنا معروف حربہ استعمال کیا ۔



وہ یہ کہ افرادی کمی کو تجربہ کار سپہ سالار کے ذریعے پورا کیا جائے۔



مدینہ میں موجود تمام افراد کی فہرست سامنے رکھ کر ہر ایک کی صلاحیتوں کا بغور جائزہ لینے لگے ،بڑی طویل سوچ بچار کے بعد یک دم یہ کہتے نعرہ زن ہوئے ۔ میں نے اسے پا لیا۔ 



ہاں ہاں میں نے اسے پا لیا۔

 


پھر بستر پر دراز ہوتے ہوئے فرمانےلگے یہ ایک ایسا مجاہد ہے جس نے بدر ،احد،خندق اور دیگر غزوات میں کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے۔



اس کی تلوار اور تیر کا نشانہ کبھی خطا نہیں گیا۔

 


پھر اسے حبشہ اور مدینہ کی جانب ہجرت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔



وہ ان خوش نصیب سات مسلمانوں میں سے ایک ہیں۔ جنہیں سب سے پہلے مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہوا 

جب صبح ہوئی امیر المومنین نے ارشاد فرمایا :

عتبہ بن غزوان کو میرے پاس بلاؤ۔



اس کی کمان میں تین سو انیس (319 ) مجاہدین کا لشکر ابلہ کی طرف روانہ کر دیا ،اور یہ وعدہ بھی کیا کہ میں تمہاری طرف مزید مجاہدین بھی بھیجوں گا۔

 


جب یہ چھوٹا سا لشکر کوچ کرنے کے کئے تیار ہوا تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ لشکر عتبہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمانے لگے

عقبہ! دیکھنا میں تجھے سر زمین ابلہ کی جانب روانہ کر رہا ہوں، یہ دشمن کے قلعوں میں سے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ میں اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے پر امید ہوں کہ وہ تیری مدد کرے گا۔




جب وہاں جا کر پڑاؤ کرو تو سب سے پہلے وہاں کے باشندوں کو اللہ کی طرف دعوت دینا ۔ ان میں سے جو تیری بات مان جائے اسے قبول کر لینا اور جو انکار کرے اس سے جزیہ وصول کرنا۔ اگر وہ جزیہ دینے سے انکاری ہوں تو بے خوف و خطر ان کی گردن پر تلوار چلانا۔



اے عتبہ! اپنے منصب کا خیال رکھنا اللہ سے ڈرتے رہنا۔ کبرو نخوت سے بچنا ۔کہیں یہ تمہاری آخرت خراب نہ کر دیں ۔ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو :


تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا اعزاز حاصل ہے اللہ تعالی نے تجھے ذلت کے بعد عزت دی کمزوری کے بعد قوت عطا کی ۔تم اس وقت لشکر کے امیر اور ہر دل عزیز قائد ہو:


تم جو بات کہو گے اسے غور سے سنا جائے گا ،تم جو حکم دو گے اسے بلا چوں چرا مانا جائے گا ،دیکھنا کہیں اس نعمت کو غلط استعمال نہ کر بیٹھنا کہ آخرت میں پچھتانا پڑے گا اللہ مجھے اور تمہیں اپنی پناہ میں رکھے۔




حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ اپنا یہ لشکر لے کر روانہ ہو گئے اس لشکر میں ان بیوی کے علاوہ پانچ مجاہدین کی بیگمات بھی شامل تھیں۔



ابلہ شہر کے قریب ایک سرسبز جگہ پر پڑاؤ کیا ، لشکر کے پاس کھانے کے لئے کوئی چیز نہ تھی ۔ جب بھوک نے زور پکڑا تو حضرت عتبہ نے کہا کہ کھانے کے کوئی چیز تلاش کرکے لائیں، وہ خوراک تلاش کرنے کے لئے چل پڑے تاکہ بھوک کا مداوا ہو سکے یہاں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ان میں سے ایک نے بتایا :



ہم کھانے کھانے کے لئے کوئی چیز تلاش کر رہے تھے ہم چلتے چلتے درختوں کے ایک جھنڈ میں داخل ہوئے وہاں دو مٹکے پڑے ہوئے تھے ایک میں کھجوریں تھیں اور دوسرے میں سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانے تھے جن پر زرد رنگ کا چھلکا تھا ہم دونوں مٹکے اٹھائے اور لشکر کے پاس لے آئے۔

 


ہم میں سے ایک ساتھی نے اس مٹکے کو دیکھا جس میں سفید رنگ کے دانے تھے وہ کہنے لگا یہ تو زہر ہے جو دشمن نے تمہارے لئے تیار رکھا ہے ۔اس کے قریب نہ جانا۔



ہم کھجوروں کی طرف لپکے اور انہیں کھانا شروع کر دیا اتنے میں ایک گھوڑا اپنی رسی تڑوا کر سیدھا اس مٹکے کی طرف آیا اور انہیں کھانا شروع کر دیا 

بخدا ہم نے ارادہ کیا کہ اس گھوڑے کو ذبح کر دیں،ورنہ زہر سے اس کی موت واقعے ہو جائے گی


ایک ساتھی نےکہا: رہنے دیجئے، میں رات' بھر پہرہ دوں گا اگر مرنے لگا تو پھر میں اسے فورا ذبح کر دوں گاجب صبح ہوئی دیکھا کہ گھوڑے کو کچھ بھی نہیں ہوا ۔

تو میری بہن نے کہا:


 

بھائی جان: میں نے اپنے والد سے سنا ہے،وہ فرمایا کرتے تھے کہ زہر کو اگر آگ پر بھون دیا جائے ،تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہوتا ۔



پھر بہن تھوڑے سے دانے لئے ہنڈیا میں ڈالے اور نیچے آگ جلا دی-


 

تھوڑی دیر بعد کہنے لگی آؤ دیکھو ان کا رنگ کس طرح سرخ ہو گیا ہے اور چھلکا اتر رہا اور اندر سے سفید رنگ کے دانے برآمد ہو رہے ہیں ہم نے کھانے کے لئے وہ دانے ایک پیالےمیں ڈالے تو امیر لشکر نے ارشاد فرمایا:


اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔



ہم نے کھائے تو بڑا مزا آیا۔



بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ اس کا نام چاول ہے۔ 


ابلہ جسے فتح کرنے کے لئے حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے اپنے چھوٹے سے لشکر کے ساتھ چڑھائی کی تھی ، دجلہ کے کنارے پر واقع یہ ایک محفوظ شہرتھا۔ایرانیوں نے یہاں اسلحہ اکٹھے کرنے کے سٹور بنا رکھے تھے۔اور قلعہ کے برجوں پر اپنے دشمن پر نگاہ رکھنے کے لئے رصدگاہیں بنا رکھی تھیں۔



ان تمام تر انتظامات اور اپنی افرادی قوت اور اسلحہ کی کمی کے باوجود حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کی جنگی کاروائی کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنی۔ 


آپ کے ہمراہ لشکر میں صرف چھ سو جنگجو تھے ۔ تلواروں اور نیزوں کے علاوہ کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ اب صرف خدا داد صلاحیتوں سے ہی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ 



حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نیزوں کی لکڑیوں پر جھنڈے آویزاں کرکے لشکر میں شامل عورتوں کے ہاتھوں میں تھما دئے اور انہیں حکم دیا کہ لشکر کے پیچھے چلیں اور یہ بھی ارشاد فرمایا: جب ہم شہر کے نزدیک پہنچ جائیں تو ہمارے پیچھے اس قدر غبار اڑائیں جس سے فضا اٹ جائے



 جب لشکر اسلام ابلہ شہر کے قریب پہنچا تو ایرانی لشکر باہر نکلا جب انہوں نے اپنی طرف پیش قدمی دیکھی اور دیکھا کہ جھنڈے ان کے پیچھے لہرا رہے ہیں نیز ان کے پیچھے غبار سے پوری فضا بھری ہوئی ہے، تو ایک دوسرے سے کہنے لگے : 


یہ تو مقدمتہ الجیش ہے۔ ان کے پیچھے بہت بڑا لشکر غبار اڑاتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم ان کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہیں۔



ان کے دل مرعوب ہو گئے، گھبراہٹ کے عالم میں جلدی جلدی اپنی ایسی قیمتی اشیاء اٹھائیں جن کا وزن بہت کم تھا اور ان کشتیوں میں بیٹھ کر بھاگ گئے جو ہنگامی حالات سے نپٹنے کے لئے دریائے دجلہ کے کنارے لنگر انداز تھیں۔ حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ کسی جانی نقصان کے بغیر فاتحانہ انداز میں ابلہ میں داخل ہوئے، پھر اس کے بعد اردگرد کے شہروں اور بستیوں کو بھی فتح کر لیا۔ یہاں سے اتنا مال غنیمت ملا جسے شمار نہیں کیا جا سکتا اور ہر اندازے کو مات کر گیا ۔یہاں تک کہ کامیابی کے بعد ایک مجاہد مدینہ منورہ واپس لوٹا، تو لوگوں نے اس سے پوچھا:



ابلہ میں مسلمانوں کا کیا حال ہے؟


تو اس نے کہا:


بھلا کس چیز کے بارے پوچھتے ہو۔


خدا کی قسم! میں انہیں اس حال میں چھوڑ کر آیا کہ سونے اور چاندی میں کھیلتے ہیں۔ لوگ پروانہ اور ابلہ میں رہائش اختیار کرنے کے لئے دوڑے چلے آ رہے ہیں۔



اس موقع پر حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ لشکر اسلام کا ان مفتوحہ شہروں میں زیادہ دیر ٹھہرنا انہیں آرام طلب بنا دے گا، اور یہ مجاہد یہاں کے باشندوں کی عادات اپنا لیں گے اور ان کے جنگی عزائم ماند پڑ جائیں گے، تو انہوں نے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور ان سے بصرہ شہر آباد کرنے کی اجازت طلب کی اور مجوزہ جگہ کی نشاندہی بھی کر دی ۔



امیر المومنین نے انہیں یہ شہر آباد کرنے اجازت دے دی۔  


حضرت عتبہ بن غزوان رضی آللہ عنہ نے اس نئے شہر کا نقشہ بنایا ۔ سب سے پہلے ایک بہت بڑی مسجد کی تعمیر کی ۔ اس مسجد کو اسلام کی سر بلندی کے لئے اپنی تمام تر مساعی کے ساتھ مرکز بنایا ۔ یہیں پر جہاد فی سبیل اللہ کے لئے قافلے ترتیب دئے جاتے۔



مسجد کے ذریعے ہی انہوں نے دشمن خدا پر غلبہ حاصل کیا ۔



اس لئے شہر میں فوجیوں نے اپنے گھر بھی تعمیر کئے لیکن حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے اپنا گھر نہیں بنایا، اور آپ نے ہمیشہ خیمے میں ہی رہائش رکھی اور اپنے تئیں اس پر خوش تھے ۔



حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ بصرہ میں رہائش پذیر مسلمانوں کے دلوں میں ایسی دنیا در آتی ہے جس سے انسان کا دل غافل ہو جاتا ہے ۔



انہوں نے دیکھا کہ تھوڑا عرصہ پہلے وہ لوگ جو چاول جیسے کھانے سے بھی نا آشنا تھے۔ وہ اب ایرانیوں کے طرح طرح کے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انہیں اس دنیا سے اپنے دین کا خطرہ لاحق ہوا اور دنیا سے اپنی آخرت خراب ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا، تو لوگوں کو کوفہ کی مسجد میں جمع کیا اور یہ خطاب فرمایا


لوگو! یہ دنیا ختم ہونے والی ہے، تم یہاں سے ایک ایسے گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو، جس پر کوئی زوال نہیں ہو گا، تو وہاں نیک اعمال لے کر جاؤ- میں رسول اللہ کے ﷺ سات صحابہ میں ہوں، جنہیں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا، ہم درختوں کے پتے کھا کر گزارا کیا کرتے تھے جس سے بعض اوقات ہمارے منہ زخمی ہو جاتے۔



ایک روز گری ہوئی چادر ہمارے ہاتھ لگی میں نے اسے پھاڑ کر دو حصوں میں تقسیم کیا، ایک کو میں نے بطور تہنبد باندھا اور دوسرا حصہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کو تہنبد باندھنے کے لئے دیا۔ اب ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی شہر کا گورنر ہے۔ میں اس بات سے اللہ کے حضور پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے تئیں عظیم بنوں اور اللہ کے ہاں ذلیل شمار کیا جاؤں ۔ پھر حاضرین میں سے ایک کو اپنا نائب مقرر کیا اور انہیں الوداع کہہ کر مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔



جب امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اپنا استعفی پیش کر دیا۔ لیکن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کا استعفی قبول نہ کیا اور انہیں واپس جا کر اپنا منصب سنبھالنے کا حکم دیا، انہوں نے بادل نخواستہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم مانا اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے۔



اور یہ دعا کی:

 

الہی! مجھے واپس نہ لانا۔


الہی! مجھے واپس نہ لانا۔



اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول کی۔ مدینہ سے ابھی تھوڑے ہی فاصلےپر پہنچے تھے کہ اونٹنی لڑ کھڑائی اور حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ سر کے بل گرتے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔


انا لله و انا الیه راجعون


حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی جاننے کے لئے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کریں



1۔الاصابه( مترجم ) 5411 


2۔ الاستیعاب 113/4


3۔تاریخ الاسلام علامہ ذھبی 7/2


4۔ اسد الغابه 363/3


5۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط 98۔۔95/1


6۔ البدایہ والنہابہ 48/10


7۔ معجم البلدان 430/10


8۔ طبقات الکبری1/7


9۔ تاریخ طبری جلد 10 کی فہرست دیکھئے


10۔ سیر اعلام النبلاء 221/1


11۔ حیاة الصحابه جلد چہارم



🌴بارک اللہ فیکم🌴



============>ختم شد


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ----- لقمان قاسمی 

Post a Comment

0 Comments